غزلیں مختصر بحروں میں

گزشتہ ماہ مجھ سے یہ اشعار سرزد ہوئے: ;)

جسے جتنا ملا ہے
اُسے اتنا گلہ ہے

تم آئے زندگی میں
چمن دل کا کِھلا ہے

پڑے روتے ہیں عمار
محبت کا صلہ ہے​

:hatoff:
 
پھر میں نے اپنے شعراء کولیگز سے ذکر کیا۔۔۔ تو طے پایا کہ مختصر سے مختصر بحر میں کچھ لکھنے کی کوشش کی جائے۔ چار اشعار یوں ہوئے:

تمہیں دیکھا تو مجھ پر
یہ کیسی تھرتھراہٹ

مجھے تم کیا ملی ہو
ملی ہے مسکراہٹ

کیے دیتی ہے بے چیں
ہوا کی سرسراہٹ

خیال آتا ہے تیرا
کوئی ہوتی ہو آہٹ​
 

جیہ

لائبریرین
خوب ہیں ۔
قافیے کا تقاضا ہے کہ گلہ کو گِلا اور صلہ کو صلا لکھا اور پڑھا جائے
 
میں نے سب کے لیے ایک مقابلہ کا اہتمام کیا اور طرحی مصرعہ منتخب کیا: "بھلادینا"۔ :grin:
راستہ بھر میں نے اس پر لکھنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ رات کو سوگیا۔ بیچ میں آنکھ کھلی۔۔۔ کوئی تین بجے کا وقت تھا۔۔۔ ذہن میں یہی بات آئی۔ اگرچہ میں نے اس طرحی مصرع کا لحاظ نہیں کیا لیکن اسی وزن پر لکھا:

ستاؤ نا
رلاؤ نا

کوئی حسرت
جگاؤ نا

"تمہاری ہوں"
جتاؤ نا

حسیں سپنا
دکھاؤ نا


مجھے اپنا
بناؤ نا

تڑپتا ہوں
تم آؤ نا

میں روتا ہوں
ہنساؤ نا

ارے عمار
بھلاؤ نا!​
 
پھر اگلے دن پتا چلا کہ ایک صاحب "بھلادینا" کے حساب سے ایک لمبی غزل لکھ آئے ہیں۔ کوئی پچیس کے قریب اشعار تھے۔۔۔ وہ غزل اس وقت ان صاحب کے پاس نہیں ورنہ میں ضرور شئیر کرتا۔ ان کو کہا ہے کہ کل لے کر آئیں۔ اچھا خاصا مسخرہ پن ہوگیا تھا :lll:

پھر میں نے انہیں کہا کہ ٹھہریں، میں بھی کچھ لکھ کر دکھاتا ہوں۔۔۔۔ تو یہ لکھا:

کبھی جلوہ
دکھا دینا

کوئی نغمہ
سنا دینا

مِرے عیسٰی
دوا دینا

نگاہوں سے
پلادینا​
 
عمار کون ہے جو ملی ہے ۔ اردو غزل میں عموما ایسے مضمون مذکر باندھے جاتے ہیں۔ مجھے تم کیا ملے ہو ۔ سے معنی اور وزن میں کوئی فرق نہیں پڑتا
صحیح کہا۔ میں نے ٹائپ کرتے ہوئے پہلے "ملے" ہو کیا تھا لیکن میرے پاس کاغذ پر ملی ہو لکھا ہے۔۔۔ اور اس کو لکھتے ہوئے میں نے مسکراہٹ کا مؤنث ہونا سوچا تھا۔۔۔ تُو ملی، مسکراہٹ ملی۔۔۔ اس طرح۔۔۔ خیر، اس کو "ملے ہو" بھی کیا جاسکتا ہے۔
 
بہرحال! یہ جو کچھ لکھا، درحقیقت فضول ہی ہے۔ مجھے اس سے یہ اندازہ ہوا کہ جس طرح بڑی بحروں کو نبھانا مشکل ہوتا ہے، اسی طرح چھوٹی بحر میں مضمون کا سمانا دشوار ہوتا ہے۔ یہ کلام تو سارے اٹکل پچو ہی ہیں لیکن اس پر طبع آزمائی کے بعد میرے لیے یہ چیلنج کھڑا ہورہا ہے کہ اسی طرح چھوٹی سی بحر میں اچھے مضامین باندھنے کی کوشش کروں، روایتی اور بھرتی والے اشعار نہیں۔
 

جیہ

لائبریرین
غالب کا یہ شعر ملاحظہ ہو

شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گِلا ہوتا ہے

سمبھی نسخوں میں "گلا" ہے
 

الف عین

لائبریرین
جوجو کی بات درست ہے۔ میں صاد کرتا ہوں اس پر۔
ویسے عمار۔ ایسے برے شعر بھی نہیں ہیں تمہارے اگرچہ کوئی خاص بھی نہیں۔اتنے کم الفاظ میں واقعی اچھا خیال نظم کرنا مشکل ہی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
مکمل نام تو وارث ہی بتا سکتے ہیں راجا کہ میرے پاس عروض کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ رکن البتہ یہ "مفاعیلن‘ ہے۔ محض ایک رکنی بحر۔
 

الف نظامی

لائبریرین
نعت ملاحظہ ہو:
میرے آقا
خلق سراپا

نام محمد
کتنا پیارا

ورد کرو سب
صل علٰی کا

آپ کی ہستی
سب سے اعلٰی

آپ کا رتبہ
سب سے بالا

خلق خدا کا
ملجا و ماویٰ

نور وفا کا
پھول حیا کا

نیر تاباں
صدق و وفا کا

ماہ منور
لطف و عطا کا

پیکر اقدس
صبرو رضا کا

دیں کا حاصل
آپ کا اسوہ

رحمت عالم
شافع عقبٰی

ان کی شفاعت
دل کا دلاسا

روشن روشن
آپ کا چہرہ

ایسے ، جیسے
نور کا ہالہ

رنگ و نسل کا
بت توڑا تھا

خلق خدا کا
دل جوڑا تھا

میں ہوں ان کا
والا و شیدا

شعر بہانہ
ان کی ثنا کا

از خواجہ عبدالمنان راز​
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ کس بحر میں ہے؟ نیز عربی اور اردو عروض کیا مختلف ہیں؟

الحمد للمتوحد
بجلالہ المتفرد

و صلوتہ دوما علی
خیر الانام محمد

از حضرت رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
 

محمد وارث

لائبریرین
اردو عروض کا ماخذ فارسی عروض اور فارسی کا عربی ہے سو اردو عروض کا اصل ماخذ عربی عروض ہے، لیکن فارسی والوں نے اپنی زبان کے مطابق اور اردو والوں نے اپنی کے مطابق کچھ ترامیم کر لی ہیں یا اضافے کر دیئے ہیں یا کانٹ چھانٹ کر لی ہے کیونکہ بنیادی طور پر عربی ان دونوں زبانوں سے مختلف ہے، عربی الفاظ کا آخری حرف متحرک ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے لیکن فارسی اردو میں یہ ممکن نہیں، پھر بحریں بھی اپنی اپنی زبان کے چلن کے مطابق مخصوص ہو گئی ہیں سو کافی فرق آ گیا ہے، لیکن اصل 'میکنزم' ایک ہی ہے۔

مذکورہ اشعار کی تقطیع کیلیے، ایک تو میرے لیے صحیح اعراب بہت ضروری ہیں اور ہو سکے تو مزید اشعار بھی!
 

فاتح

لائبریرین
اتفاق کی بات ہے کہ میری نظر سے بھی یہ دھاگا نہیں گزرا اور ابھی وارث صاحب کے مراسلے کے توسط سے اسے دیکھا ہے۔ عربی تو نہیں جانتا مگر محض اندازے سے اعراب ڈال کر تقطیع کی کوشش کرتا ہوں۔
اَلحَمدُ لِلمُتَوَحِّدً
بِجَلَالِہِ المُتَفَرِّدً
وَ صَلٰوتِہ̩ دَوَماً عَلٰی
خَیرُ الاَنَامِ مُحَمَّدً
اس قطعہ کی بحر "کامل مربع سالم" ہے اور یہ بعینہ̩ وہی وزن ہے جو حضرت شیخ سعدی کے مشہور زمانہ نعتیہ قطعہ "بلغ العلیٰ بکمالہ̩" کا ہے۔
بحر "کامل" رکن 'متفاعلن' کی تکرار ہے جو اولاً عربی سے مختص تھی لیکن بے شمار اردو شعرا نے بھی اسے برتا ہے مگر اردو میں عموماً مثمن ہی مستعمل ہے اور گو "مربع" شکل میں عربی شعر تک ہی محدود ہے لیکن کچھ اردو و فارسی شعرا نے 'فن کا مظاہرہ' کرنے کی غرض سے مربع بھی استعمال کی ہے۔
اس قطعہ کی تقطیع کچھ یوں ہو گی:
اَلحَمدُلِل ۔ مُتَوَح حِدَن
مُستَفعِلُن ۔ مُتَفَاعِلُن

بِجَلَالِہِل ۔ مُتَفَر رِدَن
مُتَفَاعِلُن ۔ مُتَفَاعِلُن

وَ صَلا تِہی ۔ دَوَمَن عَلا
مُتَفَاعِلُن ۔ مُتَفَاعِلُن

خَیرُل اَنَا ۔ مِ مُحَم مَدَن
مُستَفعِلُن ۔ مُتَفَاعِلُن
عموماً یہ بحر سالم ہی استعمال ہوتی ہے یعنی "متفاعلن" کے رکن پر کسی زحاف کے استعمال یا اس میں کسی تبدیلی کے بغیر لیکن متفاعلن کے رکن پر ایک زحاف "اضمار" کے استعمال سے دوسرا حرف یعنی ت ساکن بھی کیا جا سکتا ہے اور یوں "مضمر" شکل وجود پاتی ہے۔
اس بحر میں سالم اور مضمر ارکان کا اجتماع بھی جائز ہے جیسا کہ مذکورہ قطعہ کے پہلے اور چوتھے مصرعوں میں ایک ایک بار متفاعلن کو مضمر شکل میں یعنی مستفعلن برتا گیا ہے۔
 
Top