اکبر الہ آبادی غزلِ اکبر الہ آبادی - ہنگامہ ہے کیوں برپا

ایم اے راجا

محفلین
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکہ، تو نہیں ڈالا، چوری، تو نہیں کی ہے

نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ باتیں ہیں
اس رنگ کو کیا جانے، پوچھو تو کبھی پی ہے؟

اس مے سے نہیں مطلب، دل جس سے ہے بیگانہ
مقصود ہے اس مے سے دل ہی میں جو کھنچتی ہے

ہر ذرہ چمکتا ہے انوارِ الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے

سورج میں لگے دھبہ فطرت کے کرشمے ہیں
بت ہم کو کہیں کافر، اللہ کی مرضی ہے

اکبر الہ آبادی
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ راجا صاحب اکبر الہ آبادی کی خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیئے۔

مطلع میں 'ڈاکہ تو نہیں مارا' کی جگہ 'ڈاکہ تو نہیں ڈالا' ہے، اسے درست کر دیں پلیز۔

اس خوبصورت غزل کے دو مزید اشعار:

اے شوق وہی مے پی، اے ہوش ذرا سو جا
مہمانِ نظر اس دم، اک برقِ تجلّی ہے

واں دل میں کہ صدمے دو، یاں جی میں کہ سب سہہ لو
ان کا بھی عجب دل ہے، میرا بھی عجب جی ہے
 

ایم اے راجا

محفلین
میں بھی مشکوک تھا کے ڈالا ہی ہے مگر میں نےایک انتخاب سے منتخب کی تھی جس میں مارا تھا، درست کر دیا ہے، بہت شکریہ۔
 
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے

نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ ہیں باتیں
اس رنگ کو کیا جانے پوچھو تو کبھی پی ہے

اس مے سے نہیں مطلب دل جس سے ہے بیگانہ
مقصود ہے اس مے سے دل ہی میں جو کھنچتی ہے

اے شوق وہی مے پی اے ہوش ذرا سو جا
مہمان نظر اس دم ایک برق تجلی ہے

واں دل میں کہ صدمے دو یاں جی میں کہ سب سہہ لو
ان کا بھی عجب دل ہے میرا بھی عجب جی ہے

ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے

سورج میں لگے دھبا فطرت کے کرشمے ہیں
بت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے

تعلیم کا شور ایسا تہذیب کا غل اتنا
برکت جو نہیں ہوتی نیت کی خرابی ہے

سچ کہتے ہیں شیخ اکبرؔ ہے طاعت حق لازم
ہاں ترک مے و شاہد یہ ان کی بزرگی ہے

اکبر الہ آبادی
 
Top