غریب کی ٹیبل (وسعت اللہ خان) بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

فر حان

محفلین
20080323112948gilani_203.jpg

وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کم از کم اجرت 6000 روپے کرنے کا اعلان کیا۔​

میرے سید بادشاہ!
تمہارا تخت اور اختیار پانچ برس تک سلامت رہے۔ میں تمہارے یا تمہارے ساتھیوں کی طرح پڑھا لکھا اور سوجھ بوجھ والا تو نہیں ہوں لیکن میں نے سنا ہے کہ تم نے سولہ کروڑ میں سے ہم جیسے پندرہ کروڑ کے لئے سو دن میں بہت سے بڑے اور اچھے کام کرنے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ خدا تمہیں اپنے ارادوں میں کامیاب کرے۔

سید بادشاہ! مجھ جیسے کروڑوں لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وزیرِاعظم ہاؤس کے اخراجات میں چالیس فیصد کمی ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ سرکاری عمارتوں پر چراغاں کم ہوتا ہے یا زیادہ۔ وزیر اور جرنیل لینڈ کروزر میں سفر کرتے ہیں یا سولہ سو سی سی کی گاڑیوں میں۔ایئرپورٹوں پر ارکانِ پارلیمان کے خصوصی کاؤنٹر رہتے ہیں یا نہیں رہتے۔وزیر فرسٹ کلاس میں سفر کرتے ہیں یا اکانومی میں۔ نیب یا پیمرا خودمختار رہتے ہیں یا کسی کے تابع۔ مذہبی مدارس کا نصاب بدلتا ہے یا نہیں بدلتا۔ روزگار کا کمیشن بنتا ہے یا نہیں بنتا۔
سید بادشاہ! تمہاری بڑی مہربانی کہ تم نے کم سے کم اجرت چھ ہزار روپے ماہانہ کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن اگر تم واقعی میرے جیسے کروڑوں لوگوں کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہو تو بس اتنا کرو کہ کاغذ پنسل لے کر بیٹھ جاؤ اور چھ ہزار روپے ماہانہ میں چار افراد کے گھر کا بجٹ بنا دو تاکہ مجھے یہ بات سمجھ میں آ جائے کہ اتنے پیسوں میں گھر کا کرایہ کیسے نکلتا ہے۔ دو وقت کے لئے آٹا کیسے خریدا جاتا ہے۔دو بچوں کی فیس اور بیوی کی دوا دارو کہاں سے ملتی ہے۔ایک ایک جوڑا کپڑا کیسے دستیاب ہوتا ہے۔ مہینے بھر کا مٹی کا تیل اور بجلی کا بل اور ویگن کا آنے جانے کا روزانہ کرایہ کس طرح پورا پڑتا ہے۔

سید بادشاہ! میں نے چار برس تک پیسے جوڑ جاڑ کر ایک ماہ پہلے ایک پرانا ٹی وی خریدا ہے تاکہ میرے بچوں اور بیوی کی شام اچھی گذر جائے لیکن جلد ہی مجھے احساس ہوگیا کہ میں نے ٹی وی نہیں بلکہ عذاب مول لے لیا ہے۔ بچوں نے سوالات پوچھ پوچھ کر ناک میں دم کردیا ہے۔

ابا! تم بینک سے موٹر سائیکل خریدنے کے پیسے کیوں نہیں لے لیتے۔ ابا! یہ بینک تو گھر بنانے کے لئے بھی پیسے بانٹ رہے ہیں۔ تم کیوں انکے پاس نہیں جاتے۔ ابا! تعلیم اور صحت کی انشورنس کتنی سستی مل رہی ہے۔ ہم انشورنس کیوں نہیں خرید سکتے۔ ابا! موبائل فون رکھنا کتنا آسان ہے۔ ہمارے پاس کیوں نہیں ہے۔

سید بادشاہ! تمہیں تو معلوم ہے کہ زندگی کو جنت بنانے والے ان اشتہاروں سے سولہ میں سے پندرہ کروڑ لوگوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ہماری تو اتنی بھی اوقات نہیں کہ بینک کا چوکیدار ہمیں اندر ہی جانے دے۔ کیا تم ہمیں ہمارا ہی ننگا پن یاد دلانے والے ان اشتہاروں کو بند نہیں کرواسکتے؟

سید بادشاہ! کل شام میری بیٹی مجھے بتا رہی تھی کہ تمہاری تقریر کے بعد تمہاری ایک ساتھی شیری رحمان ایک انٹرویو میں کہہ رہی تھی کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہر غریب کی ٹیبل پر کم ازکم دو وقت کی روٹی ہو۔ میں سوچنے لگا کہ پاکستان کے کتنےگھرانوں میں ٹیبل ہوگی اور پھر خود ہی ہنس پڑا۔

سید بادشاہ!

میں نے سنا ہے کہ تم نے اپنے سو دن والے پروگرام میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے بھی کچھ کہا ہے۔

سید بادشاہ! جس دن تم ہمیں چھ ہزار روپے ماہانہ میں گزارے کا بجٹ بنانا سکھا دوگے۔ پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا درخت بھی سوکھنا شروع کردے گا۔

سید بادشاہ! تمہیں خدا نے موقع دیا ہے کہ اس وطن میں سیدوں کی شان پھر سے بحال کرو۔ ورنہ تو ہم نو سال سے ایک سید صدر کو دیکھ ہی رہے ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
فرحان، میں نے آپ کے پیغامات اس زمرہ میں منتقل کر دیے ہیں۔
ایک گزارش، آپ پورا مضمون پوسٹ کرنے کی بجائے اس کا مختصر اقتباس پیش کرکے اصل آرٹیکل کا ربط فراہم کر دیا کریں۔
 
Top