غبار خاطر - صفحہ 124 تا 132

ابوشامل

محفلین
غبار خاطر - صفحہ 124 تا 132​

چپہ چپہ پر رکاوٹوں سے الجھنا پڑا، مگر طلب ہمیشہ آگے ہی کی طرف بڑھائے لے گئی اور جستجو نے کبھی گوارا نہیں کیا کہ درمیانی منزلوں میں رُک کر دم لے لے۔ بالآخر دم لیا تو اس وقت لیا جب منزل مقصود سامنے جلوہ گر تھی اور کی گرد راہ سے چشم تمنائی روشن ہو رہی تھی۔
بہ وصلش تا رسم صد بار بر خاک افگند شوقم
کہ نو پروازم و شاخِ بلندے آشیاں دارم
چوبیس برس کی عمر میں جبکہ لوگ عشرتِ شباب کی سرمستیوں کا سفر شروع کرتے ہیں میں اپنی دشت نوردیاں ختم کر کے تلووں کے کانٹے چن رہا تھا:
در بیاباں گر بہ شوقِ کعبہ خواہی زد قدم
سرزنشہا گر کند خارِ مغیلاں، غم مخور
گویا اس معاملے میں بھی اپنی چال زمانہ سے الٹی ہی رہی۔ لوگ زندگی کے جس مرحلے میں کمر باندھتے ہیں، میں کھول رہا تھا:
کام تھے عشق میں بہت، پر میرؔ
ہم تو فارغ ہوئے شتابی سے
اُس وقت سے لے کر آج تک کاروانِ باد رفتار عمر منزل خمسین سے بھی گزر چکا، فکر و عمل کے بہت سے میدان نمودار ہوئے اور اپنی راہ پیمائیوں کے نقوش جا بجا بنانے پڑے، وقت یا تو انہیں مٹا دے گا جیسا کہ ہمیشہ مٹاتا رہا ہے، یا محفوظ رکھے گا جیسا کہ ہمیشہ محفوظ رکھتا آیا ہے:
آئینہ نقش بند طلسم خیال نیست
تصویرِ خود بلوحِ و گرمی کشیم ما!
یہاں زندگی بسر کرنے کے دو ہی طریقے تھے جنہيں ابو طالب کلیم نے دو مصرعوں میں بتلا دیا ہے:
طبعے بہم رساں کہ بسازی بعالمے
یا ہمتے کہ از سر عالم تواں گزشت
پہلا طریقہ اختیار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اس کی طبیعت ہی نہیں لایا تھا۔ ناچار دوسرا اختیار کرنا پڑا:
کار مشکل بود، ما بر خویش آساں کردہ ایم
جو نامراد، یہ دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہیں، وہ نہ تو راہ کی مشکلوں اور رکاوٹوں سے ناآشنا ہوتے ہیں، نہ اپنی ناتوانیوں اور درماندگیو ں سے بے خبر ہوتے ہیں۔ تاہم وہ قدم اٹھا دیتے ہیں کیونکہ قدم اٹھائے بغیر رہ نہیں سکتے۔ زمانہ اپنی ساری ناموافقتوں اور بے امتیازیوں کے ساتھ بار بار ان کے سامنے آتا ہے اور طبیعت کی خلقی درماندگیاں قدم قدم پر دامن عزم و ہمت سے الجھنا چاہتی ہیں، تاہم ان کا سفر جاری رہتا ہے۔ وہ زمانہ کے پیچھے نہیں چل سکتے تھے لیکن زمانہ کے اوپر سے گزر جا سکتے تھے اور بالآخر بے نیازانہ گزر جاتے ہیں"
وقتِ عرفیؔ خوش، کہ نہ کشودند گردر بررخش
بردر نکشودہ ساکن شد در دیگر نہ زد!
اب صبح عید نے اپنے چہرے سے صبح صادق کا ہلکا نقاب بھی الٹ دیا ہے اور بے حجابانہ مسکرا رہی ہے:
اک نگارِ آتشیں رخ، سر کھلا
میں اب آپ کو اور زیادہ اپنی طرف متوجہ رکھنے کی کوشش نہیں کروں گا کیونکہ صبح عید کی اس جلوہ نمائی کا آپ کو جواب دینا ہے۔ کئی سال ہوئی، ایک مکتوب گرامی میں شبہائے رمضان کی "عنبریں چائے" کا ذکر آیا تھا۔ بے محل نہ ہوگا اگر اس کے جرعہ ہائے پیہم سے قبل صلوٰۃ عید افطار کیجیے کہ عید الفطر میں تعجیل مسنون ہوئی اور عید الاضحیٰ میں تاخیر:
عید ست و نشاط و طرب و زمزمہ عام ست
مے نوش، گنہ بر من اگر بادہ حرام ست
از روزہ اگر کوفتہ بادہ اواگیر
ایں مسئلہ حل گشت ز ساقی کہ امام ست
ابو الکلام







12
قلعہ احمد نگر
17 اکتوبر 1942ء
از بہر چہ گویم "ہست" از خود خبرم چوں نیست
وز بہر چہ گویم "نیست" با او نظرے چوں ہست
صدیق مکرم
صبح کے ساڑھے تین بجے ہیں۔ اس وقت لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو معلوم ہوا سیاہی ختم ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی خیال آیا کہ سیاہی کی شیشی خالی ہو چکی تھی، نئی شیشی منگوانی تھی مگر منگوانا بھول گیا۔ میں نے سونچا، تھوڑا سا پانی کیوں نہ ڈال دوں؟ یکایک چائے دانی پر نظر پڑی۔ میں نے تھوڑی سی چائے فنجان میں اونڈیلی اور قلم کا منہ ااس میں ڈبو کر پچکاری چلا دی، پھر اسے اچھی طرح ہلا دیا کہ روشنائی کی دھوون پوری طرح نکل آئے اور اب دیکھیے روشنائی کی جگہ چائے کے تند و تیز گرم عرق سے اپنے نفسہائے سرد صفحۂ قرطاس پر نقش کر رہا ہوں
می کشد شعلہ سرے از دلِ صد پارۂ ما
جوشِ آتش بود امروز بہ فوارۂ ما
طبیعت افسردہ ہوتی ہے تو الفاظ بھی افسردہ نکلتے ہیں۔ میں طبیعت کی افسردگیوں کا چائے کے گرم جاموں سے علاج کیا کرتا ہوں ۔ آج قلم کو بھی ایک گھونٹ پلا دیا:
ایں کہ در جام و سبو دارم مہیا آتش ست
آپ اس طریق کار پر متعجب نہ ہوں۔ آج سے ساڑھے تین سو برس پہلے فیضی کو بھی یہی طریقہ کام میں لانا پڑا تھا۔ نل دمن میں اس نے ہمیں خبر دی ہے:
تا تازۂ و تر زنم رقم را
در بادہ کشیدہ ام قلم را
آج بھی جام وہی ہے جو روز گردش میں آتا ہے لیکن جام میں جو کچھ اونڈیل رہا ہوں اس کی کیفیتیں کچھ بدلی ہوئی پائیے گا
از مئے دوشیں قدرے تند تر
بار ہا مجھے خیال ہوا کہ ہم خدا کی ہستی کا اقرار کرنے پر اس لیے بھی مجبور ہیں کہ اگر نہ کریں تو کارخانۂ ہستی کے معمے کا کوئی حل باقی نہیں رہتا اور ہمارے اندر ایک حل کی طلب ہے جو ہمیں مضطرب رکھتی ہے:
آں کہ ایں نامۂ سر بستہ نوشتہ است نخست
گرہے سخت بہ سر رشتہ مضمون زدہ است
اگر ایک الجھا ہوا معاملہ ہمارے سامنے آتا ہے اور ہمیں اس کے حل کی جستجو ہوتی ہے تو ہم کیا کرتے ہیں؟ ہمارے اندر بالطبع یہ بات موجود ہے اور منطق اور ریاضی نے اسے راہ پر لگایا ہے کہ ہم الجھاؤ پر غور کریں گے۔ ہر الجھاؤ اپنے حل کے لیے ایک خاص طرح کے تقاضے کا جواب چاہتا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ ایک کے بعد ایک، طرح طرح کے حل سامنے لائیں اور دیکھیں اس تقاضا کا جواب ملتا ہے یا نہیں؟ پھر جونہی ایک حل ایسا نکل آئے گا جو الجھاؤ کے سارے تقاضوں کا جواب دے دے گا اور معاملہ کی ساری کلیں ٹھیک ٹھیک بیٹھ جائیں گی، ہمیں پورا پورا یقین ہو جائے گا کہ الجھاؤ کا صحیح حل نکل آیا اور صورت حال کی یہ اندرونی شہادت ہمیں اس درجہ مطمئن کر دے گی کہ پھر کسی بیرونی شہادت کی احتیاج باقی نہیں رہے گی۔ اب کوئی ہزار شبہے نکالے، ہمارا یقین متزلزل ہونے والا نہیں۔
فرض کیجیے، کپڑے کے ایک تھان کا ٹکڑا کسی نے پھاڑ لیا اور ٹکڑا پھٹا ہو اس طرح ٹیڑھا ترچھا اور دندانہ داار ہو کہ جب تک ویسے ہی الجھاؤ کا ایک ٹکڑا وہاں آ کر بیٹھتا نہیں، تھان کی خالی جگہ بھرتی نہیں۔ اب اسی کپڑے کے بہت سے ٹکڑے ہمیں مل جاتے ہیں اور ہر ٹکڑا وہاں بٹھا کر ہم دیکھتے ہیں کہ اس خلاء کی نوعیت کا تقاضا پورا ہوتا یا نہیں۔ مگر کوئی ٹکڑا ٹھیک بیٹھتا نہیں۔ اگر ایک گوشہ میل کھاتا ہے تو دوسرے گوشے جڑنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اچانک ایک ٹکڑا ایسا نکل آتا ہے کہ ٹیڑھے ترچھے کٹاؤ کے سارے تقاضے پورے کر دیتا ہے اور صاف نظر آ جاتا ہے کہ صرف اسی ٹکڑے سے یہ خلاء بھرا جا سکتا ہے۔ اب اگرچہ اس کی تائید میں کوئی خارجی شہادت موجود نہ ہو، لیکن ہمیں پورا یقین ہو جائے گا کہ یہی ٹکڑا یہاں سے پھاڑا گیا تھا اور اس درجہ کا یقین ہو جائے گا کہ "لو کشف الغطاء لم ازددت یقیناً!"
اس مثال سے ایک قدم اور آگے بڑھائیے اور گورکھ دھندے کی مثال سامنے لائیے۔ بے شمار طریقوں سے ہم اسے مرتب کرنا چاہتے ہیں مگر ہوتا نہیں۔ بالآخر ایک خاص ترتیب ایسی نکل آتی ہے کہ اس کے ہر جز کا تقاضا پورا ہو جاتا ہے اور اس کی چول ٹھیک ٹھیک بیٹھ جاتی ہے۔ اب گو کوئی خارجی دلیل اس ترتیب کی صحت کی موجود نہ ہو لیکن یہ بات کہ صرف اسی ایک ترتیب سے اس کا الجھاؤ دور ہو سکتا ہے، بجائے خود ایک ایسی فیصلہ کن دلیل بن جائے گی کہ پھر ہمیں کسی اور دلیل کی احتیاج باقی ہی نہیں رہے گی۔ الجھاؤ کا دور ہو جانا اور ایک نقش کا نقش بن جانا بجائے خود ہزاروں دلیلوں کی ایک دلیل ہے!
اب علم و تیقن کی راہ میں ایک قدم اور آگے بڑھائیے اور ایک تیسری مثال سامنے لائیے۔ آپ نے حرفوں کی ترتیب سے کھلنے والے قفل دیکھے ہوں گے۔ انہیں پہلے قفل ابجد کے نام سے پکارتے تھے۔ ایک خاص لفظ کے بننے سے وہ کھلتا ہے اور وہ ہمیں معلوم نہیں۔ اب ہم طرح طرح کے الفاظ بناتے جائیں کے اور دیکھیں گے کہ کھلتا ہے یا نہیں؟ فرض کیجیے ایک خاص لفظ کے بنتے ہی کھل گیا۔ اب کیا ہمیں اس بات کا یقین نہیں ہو جائے گا کہ اسی لفظ میں اس قفل کی کنجی پوشیدہ تھی؟ جستجو جس حل میں تھی، وہ قفل کا کھلنا تھا۔ جب ایک لفظ نے قفل کھول دیا تو پھر اس کے بعد باقی کیا رہا جس کی مزید جستجو ہو!
ان مثالوں کو سامنے رکھ کر اس طلسمِ ہستی کے معمے پر غور کیجیے جو خود ہمارے اندر اور ہمارے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔ انسان نے جب سے ہوش و آگہی کی انکھیں کھولی ہیں، اس معمہ کا حل ڈھونڈ رہا ہے۔ لیکن اس پرانی کتاب کا پہلا اور آخری ورق کچھ اس طرح کھویا گیا ہے کہ نہ تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ شروع کیسے ہوئی تھی، نہ اسی کا کچھ سراغ ملتا ہے کہ ختم کہاں جا کر ہوگی اور کیونکر ہوگی؟
اول و آخر ایں کہنہ کتاب افتادست
زندگی اور حرکت کا یہ کارخانہ کیا ہے اور کیوں ہے؟اس کی کوئی ابتداء بھی ہے یا نہیں؟ یہ کہیں جا کر ختم بھی ہوگایا نہیں؟ خود انسان کیا ہے؟ یہ جو ہم سونچ رہے ہیں کہ "انسان کیا ہے؟" تو خود یہ سونچ اور سمجھ کیا چیز ہے؟ اور پھر حیرت اور درماندگی کے ان تمام پردوں کے پیچھے کچھ ہے بھی یا نہیں؟
مردم در انتظار دریں پردہ راہ نیست
یا ہست و پردہ دار نشانم نمی دہد
اس وقت سے لے کر جب کہ ابتدائی عہد کا انسان پہاڑوں کے غاروں سے سر نکال نکال کر سورج کو طلوع و غروب ہوتے دیکھتا تھا، آج تک، جبکہ وہ علم کی تجربہ گاہوں سے سر نکال کر فطرت کے بے شمار چہرے بے نقاب دیکھ رہا ہے، انسان کے فکر و عمل کی ہزاروں باتیں بدل گئیں مگر یہ معمہ، معمہ ہی رہا۔
اسرارِ ازل را نہ تو دانی و نہ من
ویں حرفِ معمہ نہ تو خوانی و نہ من
ہست از پسِ پردہ گفتگوئے من و تو
چوں پردہ برافتد، نہ تو مانی ونہ من
ہم اس الجھاؤ کو نئے نئے حل نکال کر سلجھانے کی جتنی کوششیں کرتے ہیں وہ اور زیادہ الجھتا جاتا ہے۔ ایک پردہ سامنے دکھائی دیتا ہے اسے ہٹانے میں نسلوں کی نسلیں گزار دیتے ہیں لیکن جب وہ ہٹتا ہے تو معلوم ہوتا ہے سو پردے اور اس کے پیچھے پڑے تھے اور جو پردہ ہٹا تھا وہ فی الحقیقت پردے کا ہٹنا نہ تھا بلکہ نئے نئے پردوں کا نکل آنا تھا۔ ایک سوال کا جواب ابھی مل نہیں چکتا کہ دس نئے سوال سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک راز ابھی حل نہیں ہو چکتا کہ سو نئے راز چشمک کرنے لگتے ہیں:
دریں میدان پُر نیرنگ حیران ست دانائی
کہ یک ہنگامہ آرائی و صد کشور تماشائی
"آئن سٹائن" (Einstein) نے اپنی ایک کتاب میں سائنس کی جستجوئے حقیقت کی سرگرمیوں کو شرلاک ہومز کی سراغ رسانیوں سے تشبیہ دی ہے، اور اس میں شک نہیں کہ نہایت معنی خیز تشبیہ دی ہے۔ علم یہ سراغ رسانی فطرت کی غیر معلوم گہرائیوں کا کھوج لگانا چاہتی تھی، مگر قدم قدم پر نئے مرحلوں اور نئی نئی دشواریوں سے دو چار ہوتی رہی۔ ڈی مقراطیس (Democritus) کے زمانہ سے لے کر جس نے چار سو برس قبل مسیح مادہ کے سالمات (Atoms) کی نقش آرائی کی تھی، آج تک، جبکہ نظریہ مقادیر عنصری (Quantum Theory) کی رہنمائی میں ہم سالمیات کا از سر نو تعاقب کر رہے ہیں، علم کی ساری کد و کاوش کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ نکلا کہ پچھلی گھتیاں سلجھتی گئیں، نئی نئی گھتیاں پیدا ہوتی گئیں۔ اس ڈھائی ہزار برس کی مسافرت میں ہم نے بہت سی نئی منزلوں کا سراغ پا لیا جو اثنائے سفر میں نمودار ہوتی رہیں، لیکن حقیقت کی وہ آخری منزل مقصود جس کے سراغ میں علم کا مسافر نکلا تھا، آج بھی اسی طرح غیر معلوم ہے، جس طرح ڈھائی ہزار برس پہلے تھے۔ ہم جس قدر اس سے قریب ہونا چاہتے ہیں، اتنا ہی وہ دور ہوتی جاتی ہے:
بامن آویزشِ او الفتِ موج ست و کنار
دمبدم بامن و ہر لحظہ گریزاں از من
دوسری طرح ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے اندر ایک نہ بجھنے والی پیاس کھول رہی ہے جو اس معمۂ ہستی کا کوئی حل چاہتی ہے۔ ہم کتنا ہی اسے دبانا چاہیں، مگر اس کی تپش لبوں پر آ ہی جائے گی۔ ہم بغیر ایک حل کے سکونِ قلب نہیں پا سکتے۔ بسا اوقات ہم اس دھوکے میں پڑ جاتے ہیں کہ کسی تشفی بخش حل کی ہمیں ضرورت نہیں لیکن یہ محض ایک بناوٹی تخیل ہوتا ہے اور جونہی زندگی کے قدرتی تقاضوں سے ٹکراتا ہے، پاش پاش ہو کر رہ جاتا ہے۔
یورپ اور امریکہ کے مفکروں کے تازہ ترین مآثر کا مطالعہ کیجیے اور دیکھیے، موجودہ جنگ نے ان تمام دماغوں میں جو کل تک اپنے آپ کو مطمئن تصور کرنے کی کوشش کرتے تھے کیسا تہلکہ مچا رکھا ہے؟ ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ پروفیسر جوڈ (Joad) کا ایک مقالہ میری نظر سے گزرا۔ وہ لکھتا ہے کہ ان تمام فیصلوں پر جو ہم نے خدا اور ہستی کے بارے میں کیے تھے، اب از سرِ نو غور کرنا چاہیے۔ یہ پروفیسر جوڈ کا بعد از جنگ کا اعلان ہے لیکن پروفیسر جوڈ کے قبل از جنگ کے اعلانات کس درجہ اس سے مختلف تھے؟ برٹرینڈ رسل (Bertrand Russell) نے بھی گزشتہ سال ایک مطول مقالہ میں جو بعض امریکی رسائل یںمیں شایع ہوا، ایسی ہی رائے ظاہر کی تھی۔
مگر جس وقت یہ معمہ انسانی دماغ کے سامنے نیا نیا ابھرا تھا، اسی وقت اس کا حل بھی ابھر آیا تھا۔ ہم اس حل کی جگہ دوسرا حل ڈھونڈنا چاہتے ہیں اور یہیں سے ہماری تمام بے حاصلیاں سر اٹھانا شروع کر دیتی ہیں۔
اچھا، اب غور کیجیے، اس معمہ کے حل کی کاوش بالآخر ہمیں کہاں سے کہاں لے جا کر کھڑا کر دیتی ہے۔ یہ پورا کارخانۂ ہستی اپنے ہر گوشہ اور اپنی ہر نمود میں سر تا سر ایک سوال ہے۔ سورج سے لے کر اس کی روشنی کے ذروں تک، کوئی نہیں جو یک قلم پرشس و تقاضا ہو۔ "یہ سب کچھ کیا ہے؟"،"یہ سب کچھ کیوں ہے؟"، "یہ سب کچھ کس لیے ہے؟" ہم عقل کا سہارا لیتے ہیں اور اس روشنی میں جسے ہم نے علم کے نام سے پکارا ہے، جہاں تک راہ ملتی ہے چلتے چلے جاتے ہیں لیکن ہمیں کوئی حل ملتا نہیں جو الجھاؤ اس کے تقاضوں کی پیاس بجھا سکے۔ روشنی گل ہو جاتی ہے، آنکھیں پتھرا جاتی ہیں اور عقل و ادراک کے سارے سہارے جواب دے دیتے ہیں لیکن پھر جونہی ہم پرانے حل کی طرف لوٹتے ہیں اور اپنی معلومات میں صرف اتنی بات بڑھا دیتے ہیں کہ "ایک صاحب ادراک و ارادہ قوت پس پردہ موجود ہے" تو اچانک صورتِ حال یک قلم منقلب ہو جاتی ہے اور ایسا معلوم ہونے لگتا ہے جیسے اندھیرے سے نکل کر یکایک اجالے میں آ کھڑے ہوئے ہیں۔ اب جس طرف بھی دیکھتے ہیں، روشنی ہی روشنی ہے۔ ہر سوال نے اپنا جواب پا لیا، ہر تقاضے کی طلب پوری ہو گئی، ہر پیاس کو سیرابی مل گئی۔ گویا یہ سارا الجھاؤ ایک قفل تھا جو اس کنجی کے چھوتے ہی کھل گیا۔
چنداں کہ دس و پا زدم، آشفتہ تر شدم
ساکن شدم، میانۂ دریا کنار شد
اگر ایک ذی عقل ارادہ پسِ پردہ موجود ہے تو یہاں جو کچھ ہے، کسی ارادہ کا نتیجہ ہے اور کسی معین اور طے شدہ مقصد کے لیے ہے۔ جونہی یہ حل سامنے رکھ کر ہم اس گورکھ دھندے کو ترتیب دیتے ہیں معاً اس کی ہر کج پیچ نکل جاتی ہے اور ساری چولیں اپنی اپنی جگہ ٹھیک آ کر بیٹھ جاتی ہیں۔ کیونکہ ہر "کیا ہے؟" اور "کیوں ہے؟" کو ایک معنی خیز جواب مل جاتا ہے۔ گویا اس معمہ کے حل کی ساری روح ان چند لفظوں کے اندر سمٹی ہوئی تھی۔ جونہی یہ سامنے آئے معمہ معمہ نہ رہا، ایک معنی خیز داستان بن گیا۔ پھر جونہی یہ الفاظ سامنے سے ہٹنے لگتے ہیں تمام معانی و اشارات غائب ہو جاتے ہیں اور ایک خنک اور بے جان چیستان باقی رہ جاتی ہے۔
اگر جسم میں روح بولتی ہے اور لفظ میں معنی ابھرتا ہے تو حقائق ہستی کے اجسام بھی اپنے اندر کوئی روح معنی رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت کہ معمۂ ہستی کے بے جان اور بے معنی جسم میں صرف اسی ایک حل سے روح معنی پیدا ہو سکتی ہے، ہمیں مجبور کر دیتی ہے کہ اس حل کو حل تسلیم کر لیں۔
اگر کوئی ارادہ اور مقصد پردے کے پیچھے نہیں ہےتو یہاں تاریکی کے سوا اور کچھ نہیں ہے لیکن اگر ارادہ اور مقصد کام کر رہا ہے تو جو کچھ بھی ہے، روشنی ہی روشنی ہے۔ ہماری فطرت میں روشنی کی طلب ہے۔ ہم اندھیرے میں کھوئے جانے کی جگہ روشنی میں چلنے کی طلب رکھتے ہیں اور ہمیں یہاں روشنی کی راہ صرف اسی ایک حل سے مل سکتی ہے۔
فطرت کائنات میں ایک مکمل مثال (Pattern) کی نموداری ہے۔ ایسی مثال جو عظیم بھی ہے اور جمالی (Aesthetic) بھی۔ اس کی عظمت ہمیں مرعوب کرتی ہے۔ اس کا جمال ہم میں محویت پیدا کرتا ہے۔ پھر کیا ہم فرض کر لیں کہ فطرت یہ نمود بغیر کسی مدرک (Intelligent) قوت کے کام کر رہی ہے؟ ہم چاہتے ہیں کہ فرض کر لیں مگر نہیں کر سکتے۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ایسا فرض کر لینا ہماری دماغی خود کشی ہوگی۔
 
Top