غبارہ خاطر صفحہ نمبر 178

ذیشان حیدر

محفلین
غبار خاطر
صفحہ نمبر178
(۱۲)
قلعہ احمد نگر
۷/جنوری ۱۹۴۳ئ
صدیق مکرم
وہی صبح چار بجے کا جانفراوقت ہے۔ سردی اپنے پورے عروج پر ہے ۔ کمرہ کا دروازہ اور کھڑکی کھلی چھوڑ دی ہے ۔ ہوا کے برفانی جھونکے و مبدم آرہے ہیں ۔ چائے دم دے کے ابھی ابھی رکھی ہے۔ منتظر بیٹھا ہوں کہ بانچ چھ منٹ گزر جائیں اور رنگ و کیف اپنے معیاری درجہ پر آجائے تو دور شروع کروں۔ دو مرتبہ نگاہ گھڑی کی طرف اُٹھ چکی ہے مگر پانچ منٹ ہیں کہ کسی طرح ہونے پر نہیں آتے۔ خواجہ شیراز کا ترانہ صبح گاہی دل و دماغ میں گونج رہا ہے۔ بے اختیار جی چاہتا ہے کہ گنگناؤں مگر ہمسایوں کی بیند میں خلل پڑنے کا اندیشہ لبوں کو کھلنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ناچار نوک قلم کے حوالہ کرتا ہوں:
صبح ست و ژالہ می چکداز ابرابہمنی
برگ صبوح ساز و بزن جام یک منی
گر صبحدم خمار ترا درد سر دہد
پیشانی خمار ہوں بہ کہ بشکنی
(۲۹۱)
ساقی، بہوش باش، کہ غم درکمین ماست
مطرب، نگاہ دار ہمیں رہ کہ مے زنی
ساقی بہ بے نیازی یزداں کے مئے بیار
تابشنوی ز صورتِ مغنی ''ہوالغنی''
 
Top