غالب ٹرسٹ کے زیر اہتمام دوسری سہ روزہ بین الاقوامی غالب کانفرنس

نبیل

تکنیکی معاون
غالب میموریل ٹرسٹ لاہور کے زیرِ اہتمام
دوسری سہ روزہ بین الاقوامی غالب کانفرنس لاہور2012ء ( 11،12،13دسمبر 2012ء)
موضوع: امن اور محبت کا شاعر ۔ غالب
غالب میموریل ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام ’’دوسری تین روزہ غالب انٹر نیشنل کانفرنس‘‘کا موضوع : امن اور محبت کا شاعر۔غالب تھا کانفرنس کی افتتاحی تقریب 11دسمبر 2012ء پرل کانٹیننٹل ہوٹل لاہور میں منعقد ہوئی جس میں پاکستان کے مختلف شہروں سے نامور ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کی ، بیرونِ ممالک بنگلہ دیش ، ترکی ، ازبکستان سے بھی مندوبین تشریف لائے اور غالب کی شاعری اور انشا میں امن کے مختلف نکات کو پیش کیا۔ اس تقریب کے مہمانِ خصوصی پاکستان کے نامور ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے جبکہ دیگر مہمانانِ اعزاز میں جناب انتظار حسین، جناب عارف نظامی اور جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خلیق الرحمن تھے۔ تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر مظفر عباس نے انجام دیے ۔ اور نظامت کا حق ادا کر دیا۔
غالب میموریل ٹرسٹ کے بانی چیئرمین تسلیم احمد تصور نے تقریب کے کلیدی خطبے کے بارے میں بتایا کہ معروف نقاد اور افسانہ نگار ڈاکٹر سلیم اختر نے کلیدی مقالہ تحریر کیا تھا لیکن شدید علالت کی وجہ سے تقریب میں شریک نہ ہو سکے ۔انھوں نے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔ خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے تسلیم احمد تصور نے کہا کہ ہم دیارِ سخن کے تاجدار ،دبیر الملک نواب میرزا اسداللہ خاں غالب کا 215واں جشنِ ولادت منا رہے ہیں ۔ غالب اور لاہور کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ہماری تہذیب و ثقافت کے علمبردار غالبؔ کا دوسرا آبائی وطن لاہور ہے ۔ اس لیے کہ غالب کے آبا و اجداد نے 1748ء میں وسطی ایشیا سے ہجرت کی تو ان کا پہلا پڑاؤ لاہور ہی تھا ۔ ان کی دلی تمنا تھی کہ وہ لاہور ہی کو اپنا مسکن بنائیں ۔جب یہاں قیام کے دوران وسائلِ حیات کا مناسب انتظام نہ ہو سکا تو قریباََ ساڑھے تین برس کے بعد اس نامور خاندان نے آگرہ اور دہلی کی راہ لی ۔ میرزا اسد اللہ خاں غالبؔ سے اس نسبت پر ہم لاہور والے جس قدر بھی نازاں ہوں وہ کم ہے ۔ مگر ہم پر غالب کا قرض بھی واجب ہو گیا ہے کہ لاہور جو اس کا دوسرا آبائی وطن ہے وہاں فروغِ غالبیات کے لیے اب تک کیا کچھ ہوا ہے ؟ اور نہیں ہوا تو اب تلافی کی کیا صورت ہو سکتی ہے ۔انھوں کہا کہ غالب ٹرسٹ کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
تسلیم احمد تصور نے غالب میموریل ٹرسٹ کے بارے میں بتایاکہ یہ ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جس کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے مجھ سمیت میرے دیگر رفقا کرام اپنی مدد آپ کے اصول پر سرگرمِ عمل ہیں۔ فروغِ غالبیات کے اس سفر میں شریک ہونے کے لیے غالب شناسی ضروری نہیں غالب دوست ہونا ضروری ہے ۔غالب دوستوں کا یہ حلقہ وکلا ، انجینئرز ، گھریلو خواتین ، طلبا و طالبات ،صنعت کار ،ماہرینِ تعلیم وغیرہ پر مشتمل ہے اور یہ حلقہ روز بروز وسیع ہو رہا ہے ۔ اراکینِ ٹرسٹ نے اب تک مقدور بھر کوشش کی ہے کہ فروغِ غالبیات کے لیے کسی نہ کسی انداز میں سرگرمِ عمل رہا جائے ، حقیقت یہ ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنے کو باقی ہے ، اس لیے کام کی رفتار کو تیز سے تیز تر کرنا ہو گا۔
غالب میموریل ٹرسٹ کے اشاعتی کام کے حوالے سے تسلیم احمد تصور صاحب نے کہا کہ شعبہ مطبوعات نے دیوانِ غالبؔ اور کلامِ اقبال اردو کا انتخاب آرٹ پیپر اور عمدہ طباعت کے ساتھ پاکٹ سائز میں شائع کیا ہے ۔ علاوہ ازیں گذشتہ برس منعقدہ غالب کانفرنس میں پڑھے گئے مقالات بھی کتابی صورت میں منظرِ عام پر آچکے ہیں جبکہ کم و بیش 23 کتب کے تیار مسودات طباعت کے لیے مالی وسائل کی دستیابی کے منتظر ہیں ۔ اس کے علاوہ 2009ء سے باقاعدگی کے ساتھ غالب کیلنڈز بھی شائع کیا جاتا ہے۔ شعرا اور ادیبوں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی باقاعدہ ایک منصوبہ پیش نظر ہے جس پر کام کا آغاز ہو چکا ہے ۔
مہمانِ خصوصی کا تعارف کراتے ہوئے تسلیم صاحب نے کہا کہ آج کی تقریب کے مہمانِ خصوصی ہیں ہر محبِ وطن پاکستانی کی آنکھ کا تارا ، ملتِ اسلامیہ کے دلوں کی دھڑکن ، میری آپ سب کی محبوب شخصیت ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنھوں نے قیامِ امن کے لیے وطنِ عزیز کی جانب سے طاقت کا مظاہرہ کرنے میں وہ کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کے لیے پوری پاکستانی قوم ان کی ہمیشہ ہمیشہ احسان مند رہے گی۔ تسلیم احمد تصور نے کہا کانفرنس کا موضوع "امن اور محبت کا شاعر۔۔۔غالب ؔ "ہے جہاں ممتاز ملکی وغیر ملکی ماہرِغالبیات اپنے مقالات میں شاعربے مثال میرزا غالب کے فن اور شخصیت کی مختلف جہتوں کے حوالے سے جوامن اور محبت سے عبارت ہیں اظہار خیال کریں گے ۔انھوں نے کہا کانفرنس کا انعقاد ایٹمی قوت پاکستان کی جانب سے دنیا بھر کے لئے امن وسلامتی اور محبت ورواداری کا موثر پیغام ہوگا۔
ایوانِ اقبال کے چیئر مین اور ممتاز صحافی جناب عارف نظامی نے کہا کہ غالب بڑااور ہمہ جہت شاعر ہے لیکن اسے سرکاری پذیرائی حاصل نہیں ہوئی ۔ ایوانِ اقبال کی طرح ’’ایوانِ غالب ‘‘ کا قیام بھی ناگزیر ہے،خود اقبال بھی غالب کی شاعری کے معترف تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ آج نفرتوں ، غاصبوں اور دہشت گردی کا ماحول ہے ، امن کا قیام دور دور تک نظر نہیں آتا کیونکہ اس قسم کی چیزیں ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں ۔غالب امن اور محبت کا شاعر ہے اور غالب میموریل ٹرسٹ غالب کے پیغام کو ترویج دے رہا ہے، غالب دوستی کی اس جہت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ مجھے امید ہے کہ تسلیم احمد تصور اپنی کاوشوں میں ضرور کامیاب ہوں گے ۔
جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خلیق الرحمن نے کہا کہ تسلیم صاحب کا غالب کے لیے جو جذبہ ہے اس نے مجھے بہت متاثر کیا ہے ۔ میں تسلیم احمد تصور اور غالب میموریل ٹرسٹ کے دیگر منتظمین کو مبارک باد دیتا ہوں اور ان کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اس ادبی محفل کا انعقاد کیا ہے ۔انھوں نے مزید کہا کہ غالب ایک ادائے خاص کے مالک ہیں اور انفرادیت کے حامل ہیں ۔انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ غالب میموریل ٹرسٹ اپنی سرگرمیوں کو اسی ذوق شوق سے جاری رکھے گا اور اس سلسلے میں جی سی یونیورسٹی ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہے ۔
اردو ادب کی ممتاز شخصیت انتظار حسین نے غالب کی شاعری اور انشا کی خصوصیات کو بیان کیا اور کہا کہ غالب کی وفات کے فوراََ بعد ہی غالب کی مقبولیت کا آغاز ہو گیا تھا جس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ غالب میموریل ٹرسٹ نے غالبیات کے فروغ کے لیے جو کام کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے ۔تسلیم احمد تصور غالب کے عاشق ہیں اور انھوں نے محبانِ غالب کو اس محفل میں جمع کر کے غالب دوستی کا حق ادا کر دیا ہے ۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے خطبہ میں اپنا طالب علمانہ پس منظر بیان کیا کہ ان کے دو رمیں طالب علموں کو کتابوں اور مطالعہ سے شغف تھا جو آج کے طلبا میں دکھائی نہیں دیتا ۔ انھوں نے کہا کہ وہ آج بھی غالب ، اقبال، میر اور حبیب جالب کی شاعری کو شوق سے پڑھتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ ضروری ہے کہ ہمارے طلبا اپنے ادب اور ثقافت سے آگہی حاصل کریں تاکہ وہ اچھے شہری بن سکیں ۔انھوں نے کہا کہ تسلیم احمد تصور نے غالب شناسی اور غالب دوستی کے ضمن میں ایک اعلیٰ روایت اور مثال قائم کی ہے ، فردِ واحد نے اداروں سے بڑھ کے برابر کام کیا ہے جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ وہ ایک فعال اور باہمت انسان ہیں ۔ انھوں نے ٹرسٹ کے ذریعے غالب اور اُس کے کلام کو نوجوان نسل میں مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیاہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے غالب ٹرسٹ کے اعزاض ومقاصد سے مکمل اتفاق کرے ہوئے انھیں عملی صورت دینے کیلئے ارباب اختیار سے بھرپور تعاون کی اپیل کی۔
جناب شفیق ۔ اے صدیقی نے خطبۂ صدارت میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے اس تقریب کو رونق بخشی۔
تقریب کے اختتام پر غالب کے 215ویں سالِ ولادت کی مناسبت سے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کیک کاٹنے کی رسم ادا کی، غالب کیلنڈر کی رونمائی کی گئی اور گذشتہ سال کانفرنس میں پڑھے جانے والے مقالات کی کتابی صورت کی رونمائی بھی کی گئی ۔
غالب میموریل ٹرسٹ کے چیئر مین تسلیم احمد تصور نے اعلان کیا کہ وہ شخصیات جن کی زندگی علم وادب کے فروغ میں بسر ہوئی ہو ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ہر سال لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے ساتھ پانچ لاکھ روپے کی انعامی رقم بھی دی جایا کرے گی ۔ جیوری کے متفقہ فیصلے کے مطابق رواں سال کی شخصیت جنھوں نے یہ اعزاز حاصل کیا وہ جی سی یونیورسٹی لاہور کے ممتاز ترین پروفیسر اوراردو و فارسی زبان و ادب کے بارے میں بہت سی بلند پایہ کتب کے مصنف ڈاکٹر ظہیہر احمد صدیقی تھے ۔ جن کے بارے میں تعارفی کلمات ڈاکٹر فلیحہ کاظمی (صدر شعبہ فارسی ، لاہو رکالج برائے خواتین یونیورسٹی ) نے ادا کیے جبکہ مہمانِ خصوصی ڈاکٹر عبدالقدیرخاں نے ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی کو ایوارڈ سے نوازا۔
راجشاہی یونیورسٹی بنگلہ دیش کے ڈاکٹر محمد شمیم کو ’’تمغہ فروغِ اردو 2012ء دیا گیا ۔انھوں نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا ،کہ میرے لئے یہ اعزاز پاکستان اور بنگلہ دیش کے دوستانہ تعلقات کو مظبوط تر کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔مہمانِ خصوصی ڈاکٹر عبدالقدیر خاں اور دیگر مہمانانِ اعزاز کو یادگاری شیلڈز دی گئیں ۔ آخر میں مہمانوں کے لیے ظہرانے کا بندوبست بھی کیا گیا ۔
تین روزہ بین الاقوامی غالب کانفرنس میں بنگلہ دیش ، ازبکستان اور ترکی سے مندوبین نے تقریب میں شرکت کی ۔ کانفرنس کے دوسرے روز دو اکیڈمک سیشن قائد اعظم لائبریری میں منعقد ہوئے ۔ پہلے اکیڈمک اجلاس کی صدارت ڈاکٹر ناہید قاسمی (نگران فنون) نے کی جبکہ عنایت اللہ (نگران مخزن، چیئر مین ایگزیکٹو کمیٹی قائد اعظم لائبریری ) مہمانِ خصوصی تھے ۔ممتاز نقاد ڈاکٹر سلیم اختر علالت کی وجہ سے تقریب میں شرکت نہ کر سکے تھے جس کی وجہ سے ان کا کلیدی مقالہ ڈاکٹر عبدالکریم خالد نے پڑھ کر سنایا ۔ مقالات پڑھنے والوں میں ڈاکٹر مظفر عباس (لاہور ) ، ، ڈاکٹر ناصر عباس نیر (لاہور ) ، ڈاکٹر فلیحہ کاظمی (لاہور )ڈاکٹر فقیرا خان فقری (پشاور )،ڈاکٹر جاوید بادشاہ(پشاور) ڈاکٹر محمد سفیان صفی (ہزارہ) اور محترمہ شازیہ مختار (لاہور) شامل تھے ۔
کانفرنس کا دوسرا اکیڈمک اجلاس ڈاکٹر انیس الرحمن کی صدارت میں منعقد ہوا جبکہ ڈاکٹر تاش مرزا (ازبکستان) ، مہمانِ خصوصی تھے ۔ اس اجلاس میں جن ماہرینِ غالبیات نے اپنے مقالات پیش کیے ان میں ڈاکٹر طاہر حمید تنولی (لاہور ) ، ڈاکٹر محمد کامران (لاہور ) ، ڈاکٹر علمدار حسین بخاری (ملتان) ، خالد اقبال یاسر (لاہور ) ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی (لاہور ) ، سلمان صدیقی (کراچی)اور ڈاکٹر تاش مرزا شامل تھے ۔
کانفرنس کے دوسرے روز کی شام محفلِ مشاعرہ کے لیے مخصوص تھی جو ایوانِ اقبال میں منعقد ہوئی ۔ محفلِ مشاعرہ کی صدارت ڈاکٹر خورشید رضوی نے کی، مہمانِ خصوصی امجد اسلام امجد جبکہ مہمانِ اعزازکراچی کے احمد رئیس تھے۔ نظامت کے فرائض خالد شریف نے ادا کیے ۔جن شعرا نے اپنا کلام پڑھا ان میں ڈاکٹر فقیرا خان فقری ، سلمان صدیقی ، ڈاکٹر محمد سفیاں صفی، ڈاکٹر ضیا ء الحسن ،ڈاکٹر ناہید قاسمی، محترمہ حمیدہ شاہین ، ڈاکٹر محمد کامران ، محترمہ صائمہ کامران، محترمہ صوفیہ بیدار ، سعود عثمانی ،محترمہ رخشندہ نوید ،عرفان صادق ، لطیف ساحل، حسن سلطان کاظمی، خالد اقبال یاسر اور خالد شریف شامل تھے ۔ اس موقع پر باذوق سامعین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔
کانفرنس کے تیسرے روز تیسرے اکیڈمک اجلاس کی صدارت خالد اقبال یاسر نے کی جبکہ ترکی سے آئے ہوئے مندوب ڈاکٹر درمش بلگور مہمانِ خصوصی تھے ۔ مقالات پڑھنے والوں میں ڈاکٹر انیس الرحمن (لاہور ) ، ڈاکٹر محمدشمیم خان (بنگلہ دیش ) ، ڈاکٹر عبدالکریم خالد (لاہور ) ، ڈاکٹر عظمت رباب (لاہور ) ، محترمہ عاصمہ اصغر (لاہور ) ،محترمہ الزبتھ شاد (لاہور ) اور ڈاکٹر درمش بلگور شامل تھے ۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے صدرشعبہ اُردو ڈاکٹر غلام ربانی ناگزیروجوہ کی بنا پر تشریف نہیں لاسکے ۔اُن کا مقالہ محترمہ عاصمہ اصغر نے پڑھ کر سنایا۔ تینوں اکیڈمک اجلاسوں میں ماڈریٹر کے فرائض لاہور کالج براے خواتین یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سینئر استاد ڈاکٹر عظمت رباب نے انجام دیے۔
کانفرنس کا چوتھا اور الوداعی سیشن غالب میموریل ٹرسٹ کے بانی چیئر مین تسلیم احمد تصور کی صدارت میں منعقد ہوا ، مَہرمقصود احمدلک ( ڈائریکٹر جنرل پنجاب پبلک لائبریریز )مہمانِ خصوصی تھے ۔ اس موقع پر کانفرنس کے ملکی اور غیر ملکی مندوبین نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کانفرنس کے معیار اور انتظامات کو بہت سراہا۔ انھوں نے خاص طور پر غالب میموریل ٹرسٹ کے اربابِ اختیار کی تعریف کی اور ادب کے حوالے سے ان کی خدمات پر کلماتِ تحسین ادا کیے ۔مہمان خصوصی جناب مہرمقصود احمدلک نے اپنے خطاب میں کہا کہ میرے لئے یہ امرباعث مسرت ہے۔کہ مجھے غالب کانفرنس میں شرکت کرنے اور بلندپایہ ماہرین غالبیات کے خیالات سے مستفیدہونے کا موقع ملا۔انھوں نے کہا ،لاہور کے علاوہ پنجاب کے دیگر شہروں میں علمی تقریبات کے انعقاد میں میرا بھرپور تعاون غالب ٹرسٹ کو حاصل رہے گا۔ آخر میں تقریب کے صدر اور ٹرسٹ کے بانی چیئر مین تسلیم احمد تصور نے کانفرنس کے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا ۔ انھوں نے خصوصاََ قائد اعظم لائبریری کی انتظامیہ کے بھر پور تعاون پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے غالب میموریل ٹرسٹ کے تحت ہونے والی سرگرمیوں کا مختصر جائزہ بھی پیش کیا۔ انھوں نے اس موقع پر اعلان کیا کہ ٹرسٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر سال غالبیات کے موضوع پر شائع ہونے والی کتابوں میں سے منتخب کتاب کو شیلڈ دی جائے گی، انھوں نے اعلان کیا کہ اس سال کی منتخب کتاب ’’اردو کلیاتِ غالب ‘‘ اور ’’فرہنگِ غالب‘‘ ہے جو ڈاکٹر محمد خاں اشرف اور ڈاکٹر عظمت رباب کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔انھوں نے اس عزم کا اظہاربھی کیا کہ ٹرسٹ ان دونوں کتابوں کی رونمائی کے لیے ایک علیحدہ تقریب کا انتظام بھی کرے گا۔ تقریب کے اختتام پرمَہرمقصود احمدلک نے دونوں مرتبین اور دیگر ملکی اور غیر ملکی مقالہ نگاروں میں یادگاری شیلڈز ، غالب کی تصویر سے مزین کافی مگ اور غالب کیلنڈز تقسیم کیے ۔
13دسمبر 2012ء کی شام پرل کانٹیننٹل ہوٹل لاہورکے خوبصورت ہال میں محفلِ موسیقی کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ جس میں معروف گلوکارہ ندا فیض نے کلامِ غالب کو اپنی سحر انگیز آواز میں سنا کر سامعین کے دل موہ لیے ۔ تقریب میں اہلِ علم اور اہلِ ذوق افراد نے شرکت کی ۔ موسیقی کا یہ پروگرام دو حصوں پر مشتمل تھا ، پہلاحصہ غالب کے کلام پر جبکہ دوسرا حصہ فرمائشی گیتوں پرمشتمل تھا۔ ندا فیض نے غالب کا موسیقی و آہنگ سے بھرپور کلام سنایا ۔ محفلِ موسیقی کے اختتام پر مہمانوں کے لیے پرتکلف عشائیہ کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ موسیقی کی اس خوبصورت محفل کی کمپیئرنگ ڈاکٹر عظمت رباب نے کی جنھوں نے غالب کی موسیقیت ، آہنگ ، لَے اور نغمگیت کو مختصر اندازمیں بیان کیا۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ کانفرنس کے تینوں روز ہونے والی تقریبات میں لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف ایجوکیشن ، کنیرڈ کالج اور ایف۔ سی ۔ کالج کے اساتذہ اور طلبا و طالبات نے شرکت کی ,ان اداروں کے طلبا و طالبات نے رضاکارانہ طور پر انتظامی امور میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ ٹرسٹ کے بانی چیئر مین نے اس تعاون پر اداروں کے سربراہان کا خصوصی طو رپر شکریہ ادا کیا۔
درج بالا رنگا رنگ اور متنوع علمی ، ادبی اور تفریحی سرگرمیوں کے بعد سہ روزہ غالب کانفرنس کا اختتام ہوا ۔

رپورٹ : ڈاکٹر عظمت رباب
 

یوسف-2

محفلین
بہت بہت شکریہ نبیل برادر کہ اس جامع تصویری رپورٹ کے ذریعہ آپ نے ہمیں بھی اس کانفرنس میں ”شریک“ کر لیا۔
 
Top