علی سردار جعفری غالب - علی سردار جعفری

حسان خان

لائبریرین
آسمانوں کی بلندی کو بلا کا ناز تھا
پست ہمت جس سے ذوقِ رفعتِ پرواز تھا
رہگزارِ ماہ و انجم تک کوئی جاتا نہ تھا
کوئی شاخِ کہکشاں پر بیٹھ کر گاتا نہ تھا
عرش پر جبریل کا دمساز ہو سکتا تھا کون
طائرِ سدرہ کا ہم آواز ہو سکتا تھا کون
جو لگا دے آگ کوئی نغمہ زن ایسا نہ تھا
تجھ سے پہلے کوئی داؤدِ سخن ایسا نہ تھا
تو نے چھیڑے ہیں وہ نغمے شاعری کے ساز پر
لحنِ داؤدی کو رشک آئے تری پرواز پر
تیرا بربط کہکشاں، ناہید ہے تیرا رباب
آسماں کیا ہے ترے بحرِ تخیل کا حباب
تیرا نغمہ ساحری، تیرا بیاں پیغمبری
تیرے قبضے میں ہے اقلیمِ سخن کی داوری
تیری فکرِ نکتہ رس حسنِ تخیل کا شباب
شعر تیرا معجزہ تیری کتاب ام الکتاب
وہ صداقت، وہ حقیقت، وہ جمالِ برق پاش
زندگی جس کے لیے قرنوں سے سرگرمِ تلاش
وہ صداقت عکس افگن ہے تری تقریر میں
وہ حقیقت جلوہ فرما ہے تری تحریر میں
حسن کے جلووں سے جب محروم ہو جاتے ہیں ہم
کذب کے ظلمت کدے میں جا کے کھو جاتے ہیں ہم
جب کہ ہوتا ہے 'شبِ غم' میں 'بلاؤں کا ہجوم'
جب نگاہیں پھیر لیتے ہیں مہ و مہر و نجوم
شعر تیرے جگمگا اٹھتے ہیں اس ظلمات میں
جس طرح جگنو چمکتے ہیں بھری برسات میں
تو نے دل کو گرم سینوں کو فروزاں کر دیا
روح کو روشن، دماغوں کو چراغاں کر دیا
تو مثالِ شمع ماضی کے سیہ خانے میں ہے
نور تیرا حال و مستقبل کے کاشانے میں ہے
تیرے گلشن کی بدولت گل بداماں ہم بھی ہیں
تیرے نغموں کے اثر سے نغمہ ساماں ہم بھی ہیں
(علی سردار جعفری)
۱۹۴۴ء
 

فہد اشرف

محفلین
میں ابھی ایک کتاب "سردار جعفری شخصیت اور فن" دیکھ رہا تھا اس میں اس نظم کے آخری شعر کے بارے لکھا گیا ہے کہ اقبال کو خراج تحسین ہے۔
IMG_20170516_205425_zpsqzgpwumu.jpg
 
آخری تدوین:
Top