غالب اور آم

جیہ

لائبریرین
تفسیر صاحب نے اپنے پیش گفتار میں غالب کا آموں والا مشہور لطیفہ لکھا ہے۔ آیئے دیکھتیں ہیں غالب آموں کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔

غالب اور آم​

(غالب کے ایک خط سے اقتباس)​

آم مجھ کو بہت مرغوب ہیں۔ انگور سے کم عزیز نہیں۔ مالدے کا آم یہاں پیوندی اور ولایتی کرکے مشہور ہے، اچھا ہوتا ہے۔ یہاں دیسی آم انواع و اقسام کے بہت پاکیزہ، لذیذ،خوشبو افراط سے ہیں۔ پیوندی آم بھی بہت ہیں۔ رام پور سے نواب صاحب(*) اپنے باغ کے آموں سے اکثر بسبیلِ ارمغان بھیجتے رہتے ہیں۔

شیخ محسن الدین مرحوم سے بطریقِ تمنا کہا گیا تھا کہ جی یوں چاہتا ہے کہ برسات میں مارہرہ جاؤں اور دل کھول کر اور اور پیٹ بھر کر آم کھاؤں۔ اب وہ دل کہاں سے لاؤں، طاقت کہاں سے پاؤں، آموں کی طرف نہ رغبت، نہ معدے میں اتنی گنجائش، نہار منہ میں آم نہ کھاتا تھا۔ کھانے کے بعد بھی آم نہ کھاتا تھا۔ رات کو کچھ کھاتا ہی نہیں جو کہوں: بین العشائین۔۔۔۔۔ ہاں آخرِ روز بعد ہضمِ معدی آم کھانے بیٹھ جاتا ہوں۔ بے تکلف عرض کرتا ہوں۔ اتنے آم کھاتا تھا کہ پیٹ بھر جاتا تھا اور دَم پیٹ میں نہ سماتا تھا، اب بھی اسی وقت کھاتا ہوں مگر دس بارہ۔ اگر پیوندی آم بڑے ہوئے تو پانچ سات۔

دریغا کہ عہدِ جوانی گزشت
جوانی مگو، زندگانی گزشت (**)


حوالہ: غالب کی آپ بیتی۔ مرتبۂ پروفیسر نثار احمد فاروقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواشی از جویریہ مسعود

* نواب یوسف علی خان والئ رامپور (غالب کے دوست اور شاگرد)

** ہائے کہ جوانی کا دور گزر گیا
جوانی کیا؟ یوں کہو کہ زندگانی گزر گئ
 

AMERICAN

محفلین
مجھے آم کے حوالے سے دو چیزیں پسند ہیں ایک اس کا پلپ اور دوسرا آم کا ملک شیک
 
Top