غالبؔ شناسی اور احمد ندیمؔ قاسمی (مطالعہ غالب، اکیسویں صدی میں)

نبیل

تکنیکی معاون
ذیل کا مضمون غالب ٹرسٹ کی جانب سے خاص طور پر محفل فورم میں اشاعت کے لیے ارسال کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر ناہید قاسمی
نگران مدیر مجلہ ’فنون‘ لاہور


غالبؔ شناسی اور احمد ندیمؔ قاسمی

(پہلی بات تو یہ کہوں گی کہ تسلیم احمد تصور صاحب جیسی بے غرض، مخلص و مہذب، محنتی اور علم و فن دوست شخصیات کی فی زمانہ ہمارے مضطرب، پریشان اور بکھرے بکھرے معاشرے کو خاص طور پر سخت ضرورت ہے تاکہ ہماری انسانیت کے اعلی معیار اور ہماری تہذیب کی عمدہ اقدار نہ صرف محفوظ رہ سکیں بلکہ رواں دواں زمانے کے ساتھ مزید نکھرتی چلی جائیں۔
یہ بھی اہم ہے کہ تصور صاحب نے اپنے آپ کو صرف اور صرف عہد غالبؔ تک محدود نہیں کر لیا بلکہ وہ غالبؔ کے ساتھ ساتھ دور جدید تک آ گئے اور اس دور کے دو بڑے اور اہم شعراء فیضؔ اور ندیم ؔ کو بھی یاد رکھا کہ اس برس فیضؔ کا صد سالہ یوم ولادت ہے اور ندیم ؔ کا پچانوے واں یوم ولادت بھی ہے۔
میں تصور صاحب کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ مجھے پھر سے غالبؔ کے بے مثال کلام اور ندیمؔ کی قابل قدر آراء سے مسرور و مستفیض ہونے کا موقع دیا۔ اور اس اہم غالب ؔ سیمینار میں شریک ہونے کی عزت بخشی۔ شکریہ تسلیم احمد تصور صاحب!)
مجھے احمد ندیمؔ قاسمی کی غالبؔ شناسی کا جائزہ لینا ہے۔ دراصل ایک عہد کا بڑا شاعر جب پچھلے زمانوں کے عظیم شعراء کی خوبیوں اور خصوصیتوں کا اعتراف نہایت خلوص نیت سے کرے تو تحریر میں چاشنی اور تاثیر میں لطف دو’نا ہو جاتا ہے۔ احمد ندیم ؔ قاسمی یوں تو ہر عمدہ شعر اور ہر اچھے شاعر کے قدردان رہے ہیں لیکن کچھ کے وہ مداح بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر مدح خواں وہ غالب ؔ کے رہے ہیں۔
غالبؔ کا مقام ندیم ؔ کے نزدیک یہ ہے کہ:
ہو کیوں نہ مجھ کو اپنے مذاقِ سخن پہ ناز
غالب کو کائناتِ سخن کا خدا کہوں
ایک انٹرویو میں ندیمؔ سے سوال کیا گیا کہ اگر تا عمر آپ کو کسی ویران جزیرے میں بھیج دیا جائے تو آپ اپنے ساتھ کیا لے جانا پسند کریں گے؟ ندیم ؔ نے جواب دیا: قرآن پاک اور دیوانِ غالبؔ !
جبکہ اپنی نثر میں ندیم ؔ نے مختلف مواقع پر اور مختلف مضامین میں صاف اظہار کیا ہے کہ غالبؔ ، ندیم ؔ کے پسندیدہ ترین فنکاروں میں نمایاں تر درجے پر ہیں۔ یہ سچی اور خالص پسندیدگی ہی ہوتی ہے جو اپنی پسند کی شخصیت کی خوبیوں کو شناخت کروا لیتی ہے۔ یا یوں کہیں کہ اپنی پسند کی خوبیاں انہیں اس مخصوص اور پیاری شخصیت میں مجتمع نظر آتی ہیں۔
ندیمؔ کو بوجوہ نو عمر ی سے ہی غالبؔ سے دلچسپی تھی۔ اپنے پہلے مجموعہ کلام ٌ جلال و جمال ٌ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
علمی و ادبی ماحول کا میری طبیعت پر اتنا گہرا اثر پڑا، کہ چھٹی جماعت ہی سے میں نے ایک بیاض میں ا’ردو کے پاکیزہ اشعار لکھنے شروع کر دئیے۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ ان دنوں بھی مجھے غالبؔ کا یہ شعر آج ہی کی طرح پسند تھا:
سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
دس گیارہ برس کی عمر میں اِس بے پناہ شعر کے معنی کا شعور چچا جان مرحوم کی ہمہ گیر اور ہمہ صفت شخصیت کا معجزہ ہے۔ ٌ (۱)
علم و عرفان کے مختلف مراحل طے کرتی ندیمؔ کی غالبؔ شناسی نے بالآخر مستحکم آراء قائم کر لیں اور آئندہ برسوں میں بھی انہوں نے اس سلسلے کی اپنی رائے میں کسی طرح کی تبدیلی کی ضرورت نہیں محسوس کی البتہ انہیں مزید نکھار ضرور لیا۔ سرِدست میں ندیمؔ کی غالبؔ شناسی کی شناخت اور جانچ کے لئے ادبی کالم ’’ تہذیب و فن ‘‘ کے عنوان کے تحت شائع ہونے والے ان کے مضامین سے گواہی لوں گی۔
خیال رہے کہ یہ غالبؔ شناسی کسی مستند محقق یا نقاد کی تحریر کردہ نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک اور بڑے اور اہم شاعر کی آراء ہیں۔ اس طرح وادیء سخنِ غالبؔ کا نظارا ایک نفیس شاعر کی نظر سے کرنا خاصا دلچسپ اور قلب و ذہن کشا عمل رہا۔ مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ ندیمؔ کی آراء پر مشتمل اِن زیرِ مطالعہ مضامین میں شاعر ندیمؔ ، افسانہ نگار ندیمؔ ، کالم نویس ندیمؔ کی پہلو دار ادبی شخصیت کا ایک الگ سا عالیشان اور قابلِ قدر کام بھی ہے جو اہلِ علم و دانش کی توجہ چاہتا ہے۔
بیسویں صدی کے تقریباً وسط میں 1966ء سے ندیمؔ نے ادبی کالم ’’تہذیب و فن‘‘ تحریر کرنا شروع کیا اور آغاز ہی مرزا غالب کے ذکر سے کیا۔ غالبؔ شناسی کے نمائندہ اِن مضامین کا آغاز غالبؔ کی صد سالہ برسی پر ادبی اور صحافتی حلقوں کی بے خبری اور بے اعتنائی کے ذکر سے کیاہے۔ ندیمؔ کا لہجہ سنجیدہ، پروقار مگر طنزیہ ہے۔ چونکہ وہ ا’ردو ادب کے ایک جینئس کا جائز دفاع متاثر کن انداز میں کر رہے ہیں اس لئے شوخی کی بجائے عالمانہ انداز اپنایا ہے ہلکا سا سنبھلا ہوا خندہ زیرِ لب ضرور برقرار رکھا ہے۔ یہ سب مضامین ’’پسِ الفاظ‘‘ میں شامل کر کے ندیمؔ نے کتابی صورت میں شائع کروا دئیے تھے۔ اس سلسلے کے اپنے پہلے مضمون بعنوان ’’غالبِ خستہ کے بغیر‘‘ میں ندیمؔ اُن لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جنہیں غالبؔ پر تین اعتراض ہیں۔ ایک تو وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ غالبؔ کے ہاں آمد کم اور آورد زیادہ ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ نثر میں سوچتا ہے اور سپاٹ ہے اور تیسرا اعتراض یہ ہے کہ نڈر شاعر نہیں۔ ندیمؔ نے اِن اعتراضات کو سخت ناانصافی اور سراسر الزام قرار دیا ہے۔ ندیمؔ کہتے ہیں کہ:
’’غالبؔ کو اُس عہد میں اکثریت نے رد کیا تھا لیکن بالآخر زرِ خالص اور مسِ خام کا امتیاز قائم ہو کر رہا ۔ ‘‘
اس سلسلے کے دیگر مضامین میں ندیم آؔآہستگی اور سلیقے کے ساتھ دھیرے دھیرے غالبؔ چراغ جلاتے رہے اور یوں اصلی روشنی کا سچا سفر آگے بڑھا دیا۔ یہ مضامین 1960 کی دہائی کے آخری حصے اور 1970 کی دہائی کے شروع کے حصے میں لکھے گئے۔ یہ مسلسل یا ترتیب وار نہیں بلکہ مختلف مواقع پر تحریر کئے گئے۔ موضوعات اور مسائل کی اہمیت کی وجہ سے ناگزیر تکرار کے باوجود متنوع خیالات کے حامل ہیں۔ ندیمؔ کی آراء میں تضاد اور ٹکراؤ نہیں بلکہ استحکام ہے۔ یہ سبھی موضوعات ایسے ہیں جن پر نقادوں کے علاوہ تخلیقی فنکاروں نے بھی ہر دور میں غور کیا۔ سو ندیمؔ نے بھی ان اہم ادبی اور فنی مسائل پر غور اور اظہارِ خیال کیا لیکن کسی کی پیروی یا تقلید میں نہیں بلکہ اپنے نقطہء نظر اور اپنی منفرد سوچ کے مطابق ایسا کیا۔ اپنے اِن مضامین کے بارے میں ندیمؔ کا کہنا ہے:
’’ ایک تخلیق کار ادب و فن اور زندگی کے گوناگوں مسائل کے بارے میں سوچتا ضرور ہے۔ یہ مضامین ان ہی سوچوں کا اظہار ہیں۔ ‘‘(۲)
اسے دراصل ہم ایک تخلیق کار کی بالواسطہ خود تنقیدی کی داستان کہیں گے۔ کیونکہ یہ محض تخلیق کار ہی نہیں ہے بلکہ اہم مسائل پر بھی غوروفکر کرتا ہے۔ ندیمؔ مزید بتاتے ہیں کہ:
’’ میں نے یہ مضامین اس اعتماد کے ساتھ سپردِ قلم کئے ہیں کہ انہیں مروّجہ تنقیدی معیاروں کی روشنی میں پرکھنے کے ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ ادبی و فنی مسائل کے بارے میں لکھتے ہوئے، مہذب اور شائستہ لہجہ کتنا ضروری ہے......میں نے ’’ فقرے بازی ‘‘ سے اجتناب کیا ہے۔‘‘(۳)
جبکہ ڈاکٹر شکیل الرحمن اپنے ایک مضمون ’’ احمد ندیم ؔ قاسمی اورغالبؔ ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ ....بہت کم لوگوں کو اِس بات کی خبر ہے کہ پاکستان میں احمد ندیمؔ قاسمی نے ’’ غالبؔ کی لڑائی لڑی ہے‘‘۔ اس غالبؔ شناس اور غالبؔ پسند تخلیقی فنکار نے غالبؔ کے خلاف لکھنے والوں کی تحریروں کو پڑھ کر ہمیشہ بڑے دُکھ کا اظہار کیا ہے.....قاسمی صاحب غالبؔ کے لیے اپنی بات آخری عمر تک کہتے رہے، غالبؔ کی مخالفت کرنے والوں کو مسلسل جواب دیتے رہے.....احمد ندیمؔ قاسمی کی غالبؔ شناسی اور غالب پسندی ہمیں طرح طرح سے متاثر کرتی ہے ۔ ‘‘(۴)
غالبؔ پر ایک مضمون بعنوان ’’ غالبؔ کی صد سالہ برسی ‘‘ میں ندیمؔ نے ادبی دنیا میں فراخ دِلی کو فروغ دینے کی سعی کی ہے۔ مضمون کے آغاز میں ندیمؔ اِس سوال کے پھیلائے جانے پر حیران ہیں کہ غالبؔ کس کا ہے؟ وہ لکھتے ہیں:
’’ خدا نہ کرے کہ یہ بات صحیح ہو، مگر میں نے بعض ادبی حلقوں میں یہ افواہ گرم پائی ہے کہ غالبؔ بڑا شاعر سہی، مگر وہ اِس حد تک ہمارا نہیں ہے جس حد تک اُسے ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہ طرزِ فکر شدید اور خطرناک نوعیت کے ذہنی افلاس کی پیداوار ہے اور تنگ دِلی اور تنگ نظری کا نمائندہ ہے۔ ‘‘
ندیمؔ واضح کرتے ہیں کہ میں چاہتا ہوں یہ بات ابھی سے صاف ہو جائے کہ غالبآ نے اگر ساری عمر دہلی میں بسر کی اور دفن بھی وہیں ہیں تو اِس کے باوجود وہ بالکل اسی طرح ہمارا ہے جیسے سرسید، شبلیؔ ، حالیؔ اور اکبرؔ الہ آبادی کو ہم اپنا کہتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری تہذیب کا سرمایہء افتخار ہیں۔
ندیمؔ کہتے ہیں:
’’ یہ وہی (تعلق) رشتہ ہے جس کے تحت کسی بھی قوم کی ایک عظیم فنی شخصیت کی تخلیقات کو ساری دنیا اپنے سینے سے لگا لیتی ہے۔ پھر غالبؔ تو سراسر ہمارا اپنا ہے۔ وہ تو اقبالؔ سے لے کر اب تک پوری اُردو اور علاقائی زبانوں کی شاعری اور نثر پر ہمہ گیر اثرات رکھتا ہے.....ہمارا موٗقف تو صرف یہ ہے کہ غالبؔ ہمارا شاعر ہے کیونکہ وہ اس تہذیب کا ایک بلیغ نمائندہ تھا جسکے تحفظ اور نکھار کے لئے ہم نے غالبؔ کے انتقال کے ۷۸ برس بعد برصغیر میں ایک الگ آزاد مملکت قائم کی۔......سو۔غالبؔ صرف چند ’’سر پھرے ‘‘ اہلِ قلم ہی کا ہیرو نہیں ہے بلکہ ہماری قومی تہذیب کی ایک متاع عظیم ہے۔‘‘
اپنے ایک اور مضمون ’’پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے؟‘‘ میں ندیمؔ کہتے ہیں کہ عظیم شخصیتوں کی یاد تازہ رکھنے کا فی الحال یہی طریقہ ہمارے پاس ہے کہ ہم ان کی برسی پر مِل بیٹھیں اور سوچیں کہ اُنہوں نے ہمیں کیا کچھ دیا اور اگر یہ سب کچھ ہمیں نہ ملتا تو ہم تہذیبی لحاظ سے کتنے مفلس ہوتے۔
ندیمؔ سمجھتے ہیں کہ غالبؔ کی نظم و نثر برصغیر پاکستان و ہند کے مسلمانوں کے فکر و فن کا نقطہء اوج ہے۔ غالبؔ ہم سے چھن جائے تو ہم سب کتنے غبی دکھائی دینے لگیں....غالبؔ نے ہم سے کوئی بہت بڑا مطالبہ تو نہیں کیا تھا۔ ہمیں تو صرف اُس کی یاد کو تازہ کرنا تھا تاکہ ہمیں اتنا اطمینان تو حاصل رہے کہ دل میں نظر آتی تو ہے اِک بوند لہو کی۔ کیونکہ غالبؔ نے ہماری سوچوں کو پر لگائے ہیں اور روح کو گداز بخشا ہے اور دِل کی برف پگھلائی ہے اور ذہن پر جمی کائی کو ہٹا کر اسرارِ حیات اور وسعتِ کائنات پر فکروتامل کرنا سکھایا ہے۔ اُس نے کہا تھا:
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
اور جس نے محض یہ کہہ کر ارتقاء کو کتنا عظیم اور پھر کتنا آسان بنا دیا تھا کہ:
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا، پایا
ندیمؔ نے یہ کہہ کر ایک اہم نقطہ اُٹھایا ہے کہ :
’’ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم قومی زندگی کے ہر شعبے میں گروہ بندی کے شکار ہو گئے ہیں۔ جو میرؔ کے معتقد ہیں وہ غالبؔ کا نام تک نہیں سُن سکتے۔ جو غالبؔ کے مداح ہیں وہ میرؔ کی سادگی پر ہنستے ہیں اور جو اقبالؔ سے متاثر ہیں وہ میرؔ اور غالبؔ دونوں کو ذہنی عیاشی کے دور کے شاعر سمجھتے ہیں۔ ‘‘
اِسی بنا پر ندیمؔ مشورہ دیتے ہیں کہ :
’’ نئی نسل کو عظمتِ میرؔ و غالبؔ و اقبالؔ کی نفی نہیں کرنا چاہیئے کہ ہمارے لئیے میرؔ بھی اہم ہے کہ اُس نے ہمارے غم کو تہذیب سکھائی ہے۔ غالبؔ بھی اہم ہے کہ اُس نے جمود کے خول کو توڑ کر ہمیں گہرائیوں اور بلندیوں کا شعور بخشا اور اقبالؔ بھی اہم ہے کہ اُس نے ہمیں عصرِ حاضر کا آئینہ دکھایا ہے اور ہماری قد آوری کا عرفان دیا ہے۔‘‘
ندیمؔ اِس بات کو بھی قابلِ غور سمجھتے ہیں کہ :
’’ غالبؔ نے اُردو شاعروں میں سے اگر کسی کو تسلیم کیا ہے تو وہ میرؔ ہے اور اقبالؔ نے اُردو شاعروں میں سے اگر کسی کو مانا ہے تو وہ غالبؔ ہے۔ ‘‘
ندیمؔ اِس خطرے سے بھی آگاہ کرتے ہیں کہ:
’’ اگر ہم غالبؔ کو اِس لئے بھوُ لے جا رہے ہیں کہ وہ ہمیں ’’اپیل‘‘ نہیں کرتا تو مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ ہم ذہنی طور پر اُجڑ چلے ہیں۔ ہمارا احساس بنجر ہو گیا ہے۔ لطافت سے ہمارا رشتہ ٹوٹ گیا ہے اور ہم مشینوں میں بدلتے جا رہے ہیں۔‘‘
اسی لئے وہ تلقین کرتے ہیں کہ غالبؔ تو متاع عظیم ہے جس کی قدروقیمت سے کماحقہ، شناسا ہونا چاہئے۔
غالبؔ فہمی کے سلسلے میں ندیمؔ نے ایک پر معنی اور بے حد نفیس مضمون بعنوان ’’جیتا جاگتا غالبؔ ‘‘ تحریر کیا۔ جسے میرے خیال میں کوئی ثقہ بند ناقد اس طرح سے نہیں لکھ سکتا تھا کیونکہ اس میں دانش اور جواز کے ساتھ جذبہ و احساس بھی اچھی طرح گھُل مِل گئے ہیں اور یہ ایک بڑے شاعر کا اندازِ شناخت و قدردانی ہے۔ ندیمؔ اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود غالبؔ کی شخصیت کی تازگی اور توانائی میں کوئی کمی نہیں آئی.....غالبؔ ہر بڑے فنکار کی طرح وقت کی دستبرد سے آزاد ہے۔ وقت اُسے اپنی کسوٹی پر کس کر ہمیشہ کے لئے کھرا قرار دے چکا ہے.....کسی شخصیت کی تحسین میں جب الفاظ سِپر انداز ہونے لگیں تو یہ اُس شخصیت کی بے پناہی اور ہمہ گیری کا ثبوت ہوتا ہے ۔‘‘
ندیمؔ نے غالبؔ کے فنّی دوام کے کچھ اہم ترین اسباب طے کئے ہیں۔ پہلا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ غالبؔ خیال و اظہار (نئے الفاظ اور نئے مفاہیم) کے معاملے میں تازہ کار ہے۔یوں شکست و یاس اور جمود و تعطل کے شکار معاشرے کی تاریکی میں غالبؔ روشنی کا اثبات کرنے آیا اور قوم کو آئینِ نو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی تربیت دینے کا کٹھن کام کیا۔
غالبؔ کے فکری و فنّی دوام کا دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ غالبؔ اُردو اور فارسی کا پہلا شاعر تھا جس نے اپنے جذبہ و وجدان کو اپنا سرمایہ کہتے ہوئے بھی عقل و دانش کی نفی نہیں کی۔ جب کوئی شاعر یہ کہے کہ:
چشم کو چاہئے ہر رنگ میں وا ہو جانا
تو اُس کے فن کو شکست نہیں ہو سکتی۔ اِس سے پہلے ہماری شاعری میں وہ جنون تھا جو خواب دیکھنے کی حد تک تو یقیناً جائز بلکہ ضروری ہے مگر جس نے ہمارے ہاں خرد دشمنی کی صورت اختیار کر رکھی تھی۔ جبکہ غالبؔ نے نہ صرف خرد کی چشم کشائی کی بلکہ اپنی فنّی صلاحیتوں کے بل پر اُسے ایک حُسن سے آراستہ کیا اور اُردو کا پہلا خرد مند، صاحبِ دانش اور تعقل پسند قرار پایا۔ اور اس نے جہاں فکری جمود کو توڑا، وہاں لسانی جمود کو بھی ختم کیا....غالبؔ کو خود بھی اپنی اس معجز نگاری کا دراک حاصل تھا۔ اسی لیے وہ بڑے دعوے سے کہتا ہے:
گنجینہء معنی کا طلسم اس کو سمجھئے
جو لفظ کہ غالبؔ مِرے اشعار میں آوے
بقول ندیمؔ غالبؔ کے فنی دوام کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ غالبؔ کے دور کے مروجہ نظامِ حیات میں اُسکی آنکھوں کے سامنے ایک انقلاب آ رہا تھامگر اس انقلاب نے اُسے کلبیت کا شکار نہ ہونے دیا بلکہ اُسے اس یقین کی دولت بخشی کہ کائنات میں جمود کا وجود ہی نہیں۔ کائنات مسلسل حرکت میں ہے اور مسلسل حرکت سے تبدیلی پیدا ہوتی ہے، تغیر رونما ہوتا ہے، انقلاب آتا ہے۔ پُرانی قدریں ٹوٹتی، نئی قدریں تشکیل پاتی ہیں۔ ذہن کے اُفق وسیع ہوتے ہیں۔ سورج کی پرواز نئی دنیائیں دریافت کرتی ہے۔
غالبؔ کے فنی دوام کا ایک اہم سبب ندیمؔ نے یہ بھی بتایا ہے کہ بے شک غالبؔ عمر بھر ایک دانشورانہ کرب میں مبتلا رہا اور ظاہر ہے کہ دانشورانہ کرب میں صرف وہی لوگ مبتلا ہو سکتے ہیں جن کی دانش بیدار ہو۔ لیکن شدیدالمیاتی کیفیت میں بھی غالبؔ نے بہتر دِنوں کی اُمید کو محفوظ رکھا۔ غالبؔ نے برصغیر کی تاریخ کے سب سے بڑے المیے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود کبھی ہار نہیں مانی، وہ رویا ضرورہے۔ اُس نے اپنے کرب کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ مثلاً:
بے دِلی ہائے تماشہ کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دِیں

عشق بے ربطیء شیرازہء اجزائے حواس
وصل زنگارِ رخِ آئینہء حُسنِ یقیں

کس نے دیکھا نفسِ اہلِ وفا، آتش خیز
کس نے پایا اثرِ نالہء دِل ہائے حزیں
مگر وہ ساتھ ہی یہ بھی تو کہتا ہے:
آتش کدہ ہے سینہ مِرا، رازِ نہاں سے
اے وائے اگر معرضِ اظہار میں آوے

کانٹوں کی زباں سوُکھ گئی پیاس سے یا رب
اِک آبلہ پا وادیء پُر خار میں آوے
اور غالبؔ کو اس ’’آبلہ پا‘‘ کی آمد کا یقین تھا۔
غالبؔ کے فنی دوام کا پانچواں اہم سبب ندیم کے نزدیک یہ ہے کہ اُس نے مسائلِ حیات و کائنات سے پنجہ آزمائی کی اور آج بھی وہ سوالات اہم ہیں جن پر اُردو ادب کی تاریخ میں سب سے پہلے شاید غالبؔ نے ہی غور کیا تھا:
جب کہ تجھ بِن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟

شکنِ زُلفِ عنبریں کیوں ہے؟
نگہِ چشمِ سُرمہ سا کیا ہے؟

سبزہ و گُل کہاں سے آئے ہیں؟
اَبر کیا چیز ہے؟ ہَوا کیا ہے؟
یوں غالبؔ اپنے آس پاس مسلط فکری جمود کو توڑ رہا تھا۔ وہ حیات و کائنات کے رشتوں پر غور کر رہا تھا اور اپنے قاری پر پہلی بار یہ راز فاش کر رہا تھا کہ:
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھُلا
راز کے اِسی افشا کا نتیجہ ہے کہ غالبؔ کے انتقال کے کوئی پینسٹھ برس بعد اقبالؔ اپنے قاری کو مطلع کرتا ہے:
ستارہ کیا مِری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیء افلاک میں ہے خوار و زبوں
ندیمؔ کے مضامین کے آخری حصّے انتہائی متاثر کُن ہوتے ہیں اور خاص طور پر قاری کے سوچنے اور غوروفکر کرنے کے لئے بہت کچھ چھوڑتے ہیں مثلاً مضمون ’’ جیتا جاگتا غالبؔ ‘‘ کے آخری پیراگراف کے کچھ جملے ملاحظہ کیجئے:
’’ یوں غالبؔ توہمات کے تسلّط کو چٹخا کر زمین اور زندگی کے مسائل کو اولیت دیتا ہے.....وجہ یہ ہے کہ غالبؔ تو عقل و دانش اور مشاہدہ و فکر کا شاعر ہے۔ اِسی سبب سے جب ہم آج بھی اسکی غزل پڑھتے یا سنتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انیسویں صدی کے نصف اول کا یہ شاعر آج کے لہجے اور محاورے میں نہایت جیتے جاگتے تیوروں کے ساتھ ’ہم سے ہم کلام ہے‘ اور مجھے یقین ہے کہ غالبؔ ابھی صدیوں تک ہماری کئی نسلوں سے اِسی تازگی اور توانائی کے ساتھ ہم کلام رہے گا۔‘‘
ندیمؔ اپنے مضمون ’’ غالبؔ ۔فکروفن کا بے مثال امتزاج‘‘ میں بتاتے ہیں کہ :
’’ایسے میں مشکل یہ ہے کہ ہلکی پھلکی چٹخارے دار شاعری نے شعر کے قاری کو بہت سہل پسند بنا دیا ہے۔ اس لئے غالبؔ اِن کے معیارِ ذوق سے ماورا رہتا ہے۔ جبکہ غالبؔ فکرو فن کا ایک متوازن اور حسین امتزاج ہے......یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ فنِ محض سے بھی ایک خاص سطح کی دِلآویز شاعری تخلیق کی جا سکتی ہے مگر ’فکرِ محض‘ شاعری کی نفی ہے ..... میں مانتا ہوں کہ محاکات بھی ہمارے کئی جمالیاتی تقاضوں کو پورا کرتے ہیں مگر انسانی زندگی بے حد متنوع اور انسانی ذہن بے حد پراسرار ہے۔ وہ جہاں ’پاسِ ناموسِ عشق‘ کی خاطر ضبطِ گریہ کرتا ہے وہاں انسان اور کائنات کے رشتوں پر بھی غور کرتا ہے ..... اور شاعری ایک کیفیت ہی کا نام ہے نہ کہ ’علم‘ کا۔‘‘
مجھے اپنے اِس زیرِ تحریر مضمون کے لئے دیکھنا تو یہ ہے کہ ندیمؔ نے اپنے خیالات کس طرح بیان کئے ہیں لیکن ترجیح اِس بات کو دینا ہے کہ ندیمؔ کی غالبؔ شناسی کے آئینے نے غالبؔ کی ادبی شخصیت کی انفرادیت اور سچائی کو کیسے نمایاں کیا۔ مثلاً ندیمؔ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ غالبؔ کے فکری عناصر اپنے زمانے کے مطابق زیادہ تر مسائل تصوف ہی کے شاعرانہ اظہار پر مشتمل ہیں۔ مگر ندیمؔ کو غالبؔ کا یہ عرفان کہ:
میں عندلیبِ گلشن نا آفریدہ ہوں
بہت ہی اہم معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اس طرح غالبؔ اپنے عصر کے مسائل سے آگے بڑھ کر سوچتا ہے اور اپنے عصر کے حقائق سے بھی نمٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ ندیمؔ کا کہنا ہے کہ یہ اپنے دور سے آگے بڑھ کر سوچنے کا اہم کام صرف اُسی فنکار کے حصے میں آتا ہے جسے اس دور کے حقائق کا مکمل ادراک حاصل ہو جس میں وہ سانس لے رہا ہے۔
ندیمؔ کے خیال میں جو شاعر دہقان کے خونِ گرم کو برقِ خرمن کے ہونے کی صورت میں دیکھ سکتا ہے اس پر صوفیانہ ترک کا الزام بے انصافی ہے۔ ندیمؔ کا یقین اس میں ہے کہ غالبؔ جیسا سچا اور دیانت دار فنکار بہتر اور خوشگوار تر زندگی کا پرستار ہوتا ہے وہ حالات سے شکست نہیں کھاتا اور تصوف کے مسائل سے دلچسپی ہونے کے باوجود غالبؔ بے انتہا جری قسم کا حقیقت پسند شاعر ہے۔ جبھی کہتا ہے:
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہء تیغِ ستم نکلے
اور ؂
تیری وفا سے کیا ہو تلافی، کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
ندیمؔ واضح کرتے ہیں کہ غالبؔ کا دور وہ تھا جب غالبؔ کا سا شاعر جسے اپنی عظمت کا پورا پورا احساس تھا۔ مگر شاہِ وقت کی ناراضی کے خوف سے نہایت دُکھ کے ساتھ یہ تک کہنے پر مجبور ہو جاتا تھا کہ
کچھ شاعری ذریعہء عزت نہیں مجھے
حالانکہ خود غالبؔ نے کہہ رکھا ہے کہ
شعر خود خواہش آں کرد کہ گِرد دفن ما
ندیمؔ کا کہنا ہے کہ دراصل غالبؔ کو ناموافق صورت حال میں بھی خاموش ہو جانے سے محفوظ رکھنے میں اُن کے زندہ افکار کا بہت بڑا حصہ ہے کیونکہ یہ خود زندگی کے افکار ہیں۔ بلاشبہ وہ ’’ جنوں کی حکایاتِ خونچکاں‘‘ لکھنے پر ہاتھوں کے قلم ہو جانے کی بات کرتا ہے مگر اس کا یہ ’’جنوں‘‘ اس کے زمانے کے مروجہ معیارِ عقل و ادراک کے خلاف ایک بغاوت ہے۔ وہ بڑا با شعور دیوانہ ہے اور اسی میں اس کی عظمت ہے۔ ندیمؔ سمجھتے ہیں کہ اقبالؔ ایک پیغام کا، ایک ’’مشن‘‘ کا شاعر ہے اور غالب صرف شاعر ہے۔ اُس کے جیسی زندہ فکر سے آراستہ ہو کر سچ مچ کا شعر کہنا اِکا دُکا شاعروں ہی کا کام ہے۔
اپنے مضمون ’’ غالبؔ کا اندازِ گُل افشانیء گفتار‘‘ میں کلامِ غالبؔ کی نمایاں خصوصیات کو دہرانے کے بعد ندیمؔ کہتے ہیں کہ غالبؔ ایک عظیم تہذیبی ورثے کا آخری امین تھا۔ کہا گیا ہے کہ مغل تہذیب کا سارا حُسن اور قرینہ غالبؔ کے اندازِ گفتار میں سمٹ آیا ہے۔ دراصل غالبؔ مٹتی ہوئی مغل تہذیب کا نوحہ خوان بھی ہے اور نئے عہد کا نقیب بھی ہے۔ وہ تہذیبی سفر کے اس مرحلے سے حیران و سراسیمہ نہیں ہے۔ ’’چشم کا وا ہونا ‘‘ اور پھر ’’ ہر رنگ میں وا ہونا‘‘ اُردو شاعری کے لئے بالکل نئی چیز تھی۔ جبکہ اس سے پہلے خرد دشمنی عام تھی غالب نے اسے ایک حُسن سے آراستہ کیا۔
ندیمؔ کے خیال میں غالبؔ آج بھی نیا ہے وہ اس لئے پرانا نہیں ہو پاتا کہ اس کا اندازِ گُل افشانیء گفتار آج بھی نیا ہے۔ آج بھی اُس کے اشعار الفاظ کے جدید تر معانی سے لبریز نظر آئیں گے۔ شاندار الفاظ میں معانی کا سمندر اسطرح ٹھاٹھیں مار رہا ہے کہ ایک مفہوم کی لہر کے اندر سے دوسرے مفہوم کی لہر بلند ہو کر ابلاغ کا سفر طے کرنے لگتی ہے۔ غالبؔ کی سلاست میں بھی انتہا کی بلاغت ہے دراصل سادگی اور پُرکاری کا اتحاد غالبؔ کا اسلوب متعین کرتا ہے وہ الفاظ کے نئے مفاہیم سے باذوق قاری کے ذہن کو زیادہ سے زیادہ آسودہ کرتا ہے اور یہ محض اپنے دور پر ہی نہیں بلکہ نسلوں پر احسان ہے۔ غالبؔ تو فن میں عقل و دانش کا، فکر و مشاہدے کا شاعر ہے۔ اُس کا موضوع بھی اس کا اپنا ہے اور انداز بھی اُسکا اپنا ہے۔ اُسکی غزل سُنتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ آج بھی ہمارے درمیان زندہ ہے اور ہم سے ہم کلام ہے:
ہے بسکہ ہر اِک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور

یا رب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مِری بات
دے اور دِل اُن کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
’’ غالبؔ کی جستجوئے جمال‘‘ عنوان کے مضمون میں ندیمؔ غالبؔ کے تصورِ جمال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ غالبؔ جمال دوستی یا جستجوئے جمال میں مختلف اور بلند ہے کہ اس کا معیارِ جمال رسمی، روایتی اور محض سُنا سُنایا نہیں ہے پھر اسکا تصورِ حسن مجرد نہیں ہے بلکہ زندگی اور زمین کے ساتھ نہایت گہرائی سے متعلق ہے اور اپنا یہ معیار اُس نے باقاعدہ دریافت کیا ہے.... اپنے معیارِ جمال تک غالبؔ محض جذبے اور واردات کے واسطے سے نہیں پہنچتا بلکہ اس میں اس کے شعورودانش کو بھی دخل حاصل ہے۔ غالبؔ کا معیارِ حُسن اِس مصرعے میں مجسّم ہو گیا ہے کہ:
تِرے خیال سے روُح اہتزاز کرتی ہے ‘‘
یعنی غالبؔ کے نزدیک حُسن وہ ہے جس کے تصور سے روُح تک جھوم اُٹھے اور وجد کرنے لگے۔ ندیمؔ یہ بھی کہتے ہیں کہ مر تقی میرؔ حُسن سے زیادہ عشق کا شاعر ہے اور اُردو غزل کا مثالی عاشق ہے۔ غالبؔ تک پہنچتے پہنچتے اُردو شاعری افسوسناک حد تک رسمی ہو چکی تھی لیکن غالبؔ کی عظمت کا ایک اور ثبوت ہے کہ اُس نے پِٹی ہوئی راہوں پر گامزن ہونے کی بجائے اس سلسلے میں اپنا الگ راستہ نکالا اور روایت کی اندھا دھند پیروی کی بجائے اپنے تجربے کے اظہار کو اہمیت دی۔ مثلاً کہا:
اسد، اُٹھنا قیامت قامتوں کا وقتِ آرائش
لباسِ نظم میں بالیدنِ مضمونِ عالی ہے
غالبؔ کے ہم عصر مومنؔ کا احساسِ جمال خاصا گہرا ہے لیکن بقول ندیمؔ غالبؔ کے معیارِ جمال تک مومنؔ کی بھی رسائی نہیں ۔
ندیمؔ مختلف حوالوں سے تجزیہ کر کے بتاتے ہیں کہ غالبؔ کی طلبِ وسعت ہی دراصل اُس کی جستجوئے جمال ہے کہ وہ کہتا ہے:
ہوں گرمئی نشاطِ تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں
بقول ندیمؔ زندہ رہنے کی جستجو میں سمجھوتے غالبؔ نے بھی کئے ہیں مگر غالبؔ نے یہ کبھی تسلیم نہیں کیا کہ انسان کا ذہن یا کائنات محدود ہے۔ وہ جمود کے وجود سے انکار کرتا ہے۔ ہر چیز میں حرکت ہے اور ارتقاء ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غالبؔ ہمہ وقت وسعتوں کا جویا ہے۔
عرضِ سر شک پر ہے فضائے زمانہ تنگ
صحرا کہاں کہ دعوتِ دریا کرے کوئی
یہی طلبِ وسعت ہے جو ہزار محرومیوں اور لاکھ دُکھوں کے باوجود غالبؔ کو ہتھیار نہیں ڈالنے دیتی۔
چشمِ اُمید ہے روزن تِری دیواروں کا
ندیمؔ یہ بھی بتاتے ہیں کہ غالبؔ کا سا فنکار اگر جمال کے عظیم اور پھر عظیم تر معیاروں کی جستجو میں رہتا ہے تو دراصل وہ اپنے ماحول کی فصیلوں، اپنے معاشرے کی حد بندیوں اور اپنے عصر کی نارسائیوں کے خلاف بغاوت کر رہا ہوتا ہے۔
بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اور چاہئیے وسعت مِرے بیاں کے لئے
غالبؔ پر اپنے ایک نہایت اچھے اور پُر کشش مضمون بعنوان ’’ غالبؔ کی حسرتِ تعمیر‘‘ میں ندیمؔ کہتے ہیں کہ آخر وہ کیا بات ہے کہ غالبؔ اپنی حسرتِ تعمیر سے کہیں دست کش نہیں ہوتا۔ آشوبِ موت اور آشوبِ روزگار کے شدید دردوکرب کے عالم میں بھی تعمیرِ نو کی حسرت اُسے زندہ رکھتی ہے۔ وہ تو اِس حسرتِ تعمیر کو اپنا واحد اثاثہ قرار دیتا ہے:
ہوُا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ
سوائے حسرتِ تعمیر، گھر میں خاک نہیں

گھر میں تھا کیا کہ تِرا غم اُسے غارت کرتا
وہ جو ہم رکھتے تھے اِک حسرتِ تعمیر، سو ہے
اُس کے عہد میں تمدنی روایات کھنڈر ہو رہی تھیں لیکن غالبؔ نے اپنے اندر حسرتِ تعمیر کو مرنے نہ دیا۔ اسکا ہر جذبہ، ہر تجربہ، ہر خیال اپنے عصر سے وابستہ رہا۔ اسکا عشق، اسکی وسیع المشربی سب ایک آفتاب یعنی خود غالبؔ کی شعاعیں تھیں۔ غالبؔ نے صرف اپنے کسی بھی دُکھ کے ماتم کے لئے اپنے فن کو وقف نہیں کیا تھا۔ وہ اتنا باشعور تھا کہ یہ تک کہنے کا حوصلہ رکھتا تھا:
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ کشتہء تیغِ ستم نکلے
بقول ندیمؔ :
’’ اُردو غزل اس عالی حوصلگی، اس وسیع القلبی، اس حقیقت بیانی، دِل کے معاملات میں ذہن کی شمولیت کی عادی نہیں تھی۔ یہ غالبؔ ہی کا اعجاز ہے کہ اُردو غزل کو بے چارگی، فدویت اور عاجزانہ سپردگی کے مرض سے خلاصی دِلائی اور زندگی کی ہمہ گیری کو عام کیا:
تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
یہ بالکل نئی آواز تھی جس نے اُردو غزل کی کلاسیکی روایات کے پرستاروں کو چونکایا ۔‘‘
ندیمؔ غالبؔ کی حسرتِ تعمیر کے مثبت اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ غالبؔ کی یہی حسرتِ تعمیر ہے جو اُسے پہلودار اور تہ دار شاعر بناتی ہے۔ یقیناً وہ ماتم بھی کرتا ہے:
دِل ہی تو ہے نہ سنگ و خِشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
اِس کے باوجود انسانی برادری سے وابستگی پر فخر کرتا ہے:
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناسِ خلق اے خضر!
نہ تم، کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لئے
ندیمؔ کہتے ہیں کہ غالبؔ ایک ایسا شاعر تھا جس کے ہاں دِل اور دماغ یا جذبہ اور ذہین یا خواب اور حقیقت کا ایک نہایت متوازن اور اس لئے نہایت خوبصورت امتزاج موجود ہے۔ غالبؔ سے پہلے احساس و دانش کے اس متناسب امتزاج کی کوئی قبلِ ذکر مثال نہیں تھی۔ اس کا ایک سبب غالبؔ کا اندازِ شعر گوئی ہو سکتا ہے۔ اور غالبؔ کے سوا یہ اسلوب کسے نصیب ہوا ہے۔ یہی ہے اعجازِ فن:
رونقِ ہستی ہے عشق خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے، گر برق خرمن میں نہیں

ہنوز محرمیِ حُسن کو ترستا ہوں
کرے ہے ہر بنِ مُو کام چشمِ بینا کا

مجھے اب دیکھ کر ابرِ شفق آلودہ، یاد آیا
کہ فرقت میں تِری، آتش برستی تھی گلستاں پر

کِیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتوِ خورشید، عالم شبنمستاں کا

عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دِل کا کیا رنگ کروں، خونِ جگر ہونے تک

سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفت ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
ندیمؔ کہتے ہیں کہ کچھ حضرات کی رائے کے مطابق عشق میں مجنوں ہو جانا لازمی ہے کہ بصورتِ دیگر انسان کے اس شدید جذبے کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکتا۔ جبکہ غالبؔ نہ صرف یہ کہ اپنی شخصیت کو کھنڈر بنانے پر تیار نہیں ہے بلکہ وہ تو اپنے ملبے میں تعمیرِ نو کے خواب دیکھتا ہے۔ ندیمؔ واضح کرتے ہیں کہ عشق کا قدرتی اور بنیادی اور مقدس جذبہ انسان کی شخصیت کی تکمیل میں یقیناً کارگر ثابت ہوتا ہے۔ لیکن صرف اسی ایک جذبے کا ہو رہنا خطرناک فرار ہے۔ کیونکہ اسطرح شاعر قاری کے ذہن میں خستگی اور گداختگی تو پیدا کر لے گا مگر بالیدگی اور ارتفاع پیدا نہ کر سکے گا۔ حالانکہ ان ہی سے شخصیت کی تہذیب ہوتی ہے۔
ندیمؔ کے خیال میں عشق سے غالبؔ کو تلخی اور کلبیت کی بجائے حسرتِ تعمیر ملی ہے یا اسرارِ کائنات کے سلسلے میں تحّیر۔ مگر یہ منفعل قسم کا تحّیر نہیں ہے۔ یہی تحّیر تو اس کے ہاں تفتیش و انکشاف کی بنیاد ثابت ہوتا ہے۔ آپ کہیں گے یہ تو منطق ہے اور بات تو شاعری کی ہو رہی ہے۔ مگر شاعری کی بھی ایک منطق ہوتی ہے۔ یہی منطق خرمن و برق اور انجمن و شمع میں رشتے تلاش کرتی ہے۔ یہی حُسن سے شناسائی کی خاطر ہر بنِ موُسے چشمِ بینا کا کام لینے پر مجبور کرتی ہے۔ یہی شاعرانہ منطق، یہی دِل و دماغ کی یک جائی وہ عظیم شاعری پیدا کرتی ہے جس کی ایک بڑی مثال غالبؔ کی شاعری ہے۔
اپنے اِس مضمون کے آخر میں ندیمؔ لکھتے ہیں کہ اپنی نہایت پیاری قدروں اور روایتوں کی کُچلی میتوں پر غالبؔ بھی سینہ زن رہا کہ یہ انسانی فطرت کا تقاضا تھا مگر انسانی فطرت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ گرتا ہے تو اُٹھ بھی کھڑا ہوتا ہے۔ شکست پر ماتم ضرور کرتا ہے پر شکست کو تسلیم کبھی نہیں کیا۔ غالبؔ نے آشوب کی انتہا میں بھی حسرتِ تعمیر سے دست کشی اختیار نہ کی اور نغمہ زن رہا کہ:
مژدہء صبحِ دریں، تِیرہ شبا نم دادند
شمع کُشتدو ز خورشید نشانم دادند
ندیمؔ نہایت اعتماد سے اِس یقین کا اظہار کرتے ہیں : ’’ یہ غالبؔ کا رنگِ سُخن ہے جس نے اُردو شاعری کو اُس معراج تک پہنچایا جس پر وہ آج نظر آ رہی ہے اور جسے ابھی اس سے بھی آگے جانا ہے۔ یہ بات میں نے خود اعتمادی کے ساتھ اس لئے کہی کہ جس شاعری کے ایوان کی بنیاد غالبؔ کے شعر و فن نے فراہم کی ہو، اُسکی بلندی کا کوئی ٹھکانا ہی نہیں اور حسرتِ تعمیر کے معاملے میں استقامت آخر کار تعمیر ہی کی صورت میں جلوہ گر ہو کر رہتی ہے۔‘‘
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے

توفیق باندازہء ہمت ہے ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا

گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
یہ تھا احمد ندیمؔ قاسمی کے اُن مضامین کا ایک مختصر جائزہ جو اُنہوں نے غالبؔ کے فکر و فن پر تحریر کئے اور جن سے خود ندیمؔ فہمی کے بھی کئی حسین رُخ روشن ہوتے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
(۱) احمد ندیمؔ قاسمی دیباچہ: میرا نظریہء فن ۔ ’’ جلال و جمال ‘‘
(۲) احمد ندیمؔ قاسمی یہ مضامین ۔ ’’ پسِ الفاظ‘‘ ۔ اساطیر، لاہور بارِ اوّل ۔ ص ۱۰
(۳) ایضاً
(۴) ڈاکٹر شکیل الرحمن ’’ احمد ندیمؔ قاسمی اور غالبؔ ‘‘ ۔ سہ ماہی ‘‘صحیفہ‘‘ لاہور ۔ ندیمؔ نمبر ۔ مارچ ۲۰۱۰ء ۔ ص ۱۷
(۵) مضامین سے اِقتباسات، احمد ندیمؔ قاسمی کے مجموعہ مضامین ’’پسِ الفاظ‘‘ ۔ اساطیر لاہور ۔ بارِ اوّل سے لئے گئے ہیں۔
 
Top