غالبؔ اکیسویں صدی میں از ڈاکٹر سلیم اختر

نبیل

تکنیکی معاون
ذیل کا مضمون غالب ٹرسٹ کی جانب سے خصوصی طور پر محفل فورم میں اشاعت کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر
ممتاز ماہر غالبیات و نقاد



غالبؔ اکیسویں صدی میں

تاریخ ادب کے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ایک صدی، صرف ایک کی تخلیقی شخصیت کے نام سے موسوم ہوتی ہے جبکہ بقیہ درجن، دو درجن شخصیات اس بڑی تخلیقی شخصیت کے نظام شمسی کے ذیلی سیارے ہوتی ہیں۔ ولیؔ ، میرؔ ، غالبؔ ، اور اقبالؔ ۔۔۔ چار صدیوں کی چار بڑی شخصیات قرار پاتی ہیں۔
ٹی ایس ایلٹ نے ''What is Classic'' میں لکھا تھا کہ کلاسیک ایسی تخلیقی شخصیت ہوتی ہے جو جس صنف میں تخلیق کے جوہر دکھائے، اس صنف میں زبان وبیان کے لحاظ سے آنے والوں کے لئے تمام تخلیقی امکانات ختم کردیتی ہے اس معیار کے مطابق اگر غزل کا مطالعہ کریں تو بلاشبہ غالب ایسا شاعر ہے جس نے اردو غزل میں تصورات، فلسفہ، فکرنو، تخیل، جدت ہر لحاظ سے تخلیقی جوہر دکھائے اور ان سب پر مستزاد اسلوب کی جمالیت جس کا منفرد استعاروں، نادر تشبیہات، پُرمعنی تمثالوں اور خوب صورت صوتی آہنگ کی حامل تراکیب سے رنگ چوکھا ہوتا ہے۔ غالب اردو غزل کا کلاسیک ہے، اسی لیے غالب کے بعد اس کا انداز سخن اسی پر ختم ہوگیا حتیٰ کہ اقبال بھی غالب جیسا مفّرس اسلوب لے کر آتے ہیں شاید اسی لیے شیخ عبدالقادر نے ’’بانگ درا‘‘ کے دیباچہ میں یہ لکھا:
’’غالبؔ اور اقبالؔ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں، اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ مرزا سد اللہ غالب کو اردو اور فارسی کی شاعری سے جو عشق تھا اس نے ان کی روح کو عدم میں جا کر بھی چین نہ لینے دیا اورمجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسد خاکی میں جلوہ افروز ہو کر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے اور اس نے پنجاب کے ایک گوشتہ میں جسے سیالکوٹ کہتے ہیں دوبارہ جنم لیا اور محمد اقبال نام پایا۔‘‘
غالب کے معاصرین نے اس کی شاعری سے انصاف نہ کیا خود غالب بھی خاصہ ناخوش نظر آتا ہے:
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
ہمارے شعر میں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کھلا کہ فائدہ عرضِ ہنر میں خاک نہیں
ایک خط میں لکھا:
’’اگرچہ یک فنہ ہوں مگر مجھے اپنے ایمان کی قسم میں نے اپنی نظم و نثر کی داد باانداز بایست پائی، آپ ہی کہا، آپ ہی سمجھا۔۔۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ عرفیؔ کے قصائد کی شہرت سے عرفی کے کیاہاتھ آیا جو میرے قصائد کے اشتہار سے مجھ کو نفع ہوگا۔ سعدی نے بوستان سے کیا پھل پایا۔۔۔ اللہ کے سوا جو کچھ ہے موہوم ہے، معدوم ہے، نہ سخن ہے نہ سخنور ہے، نہ قصیدہ ہے نہ قصد۔۔۔‘‘
یہ وہ غالب لکھ رہا ہے جس پراردو تنقید میں ۔۔۔علامہ اقبال کی استثنائی مثال سے قطع نظر۔۔۔ سب سے زیادہ لکھا گیا اور وہ بھی اس احساس کے ساتھ:
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
مولانا الطاف حسین حالیؔ کی ’’یادگار غالب‘‘ (۱۸۹۷ء) سے غالب شناسی کی جس روایت کا آغاز ہوا وقت نے اسے مزید تقویت دی اتنی کہ ’’غالبیات‘‘ اب اردو تنقید کی معروف اصطلاح ہے۔ صدی سے زائد عرصہ بیت گیا محققین، ناقدین، شارحین کو خامہ فرسائی کرتے ہوئے، غالبؔ کی شخصیت، ذات و صفات، عصر، خاندان، معاصرین، دوستوں، دشمنوں کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ کلام غالب کی تدوین، تحقیق، تشریح، حتیٰ کہ مصوری ہر لحاظ سے غالب کو خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا ہے اس حد تک کہ رشید احمد صدیقی کے بموجب مغل کلچر نے ہمیں تین چیزیں دیں۔تاج محل، اردو اور غالبؔ ۔
غالب شناسی انتہائی صورت میں جو غالب پرستی میں تبدیل ہوگئی تو اس کی کیا وجہ ہے اور کیوں غالب حلقۂ شام و سحر سے ماورا ہوگیا؟
میرے خیال میں جو شاعر آج بھی لازمی ،ضروری اور بامعنی محسوس ہوتا ہو اور جو ماضی بعید سے ہم سے مکالمہ کر سکتا ہو، جو ہمیں شعور ذات اور شعار زیست کے قرینے سمجھا سکتا ہو تو وہی زندہ رہتا ہے اس لحاظ سے کہ وہ اپنا معاصر محسوس ہوتا ہے۔ دراصل معاصر محسوس ہونا ہی وہ اساسی صفت ہے جس سے ماضی کا ادیب، شاعر، مفکر، دانشور نظریہ ساز بامعنی ثابت ہوتا ہے اور یہی خصوصیت اسے زندہ رکھتی ہے۔ غالب اس انداز کی بہترین مثال قرار پاتا ہے کہ غالب کی تخلیقی شخصیت تشکیل میں ارفع تخیل کے ساتھ افکار نو اور جذبات و احساسات کا ترفع اساسی کردار ادا کرتے ہیں۔
غالب کو فلسفی بھی کہا گیا تو اس ضمن میں عرض ہے کہ فلاسفر کا بطور فلاسفر زندہ رہنا آسان ہے مگر شاعر کا بطور فلاسفر زندہ رہنا خاصہ مشکل ہے۔ علامہ اقبال نے یہ مشکل منزل سر کرلی اور غالب نے بھی!
غالب آج بھی اس لیے پرمعنی ہے کہ وہ ہم سے بامعنی مکالمہ کرتا ہے۔ غالب کے مکالمہ کی اساس اس امر پر استوار ہے کہ وہ افراد، وقوعات، عصر، زندگی، تاریخ، غم و عشق سب کے بارے میں مخصوص رویہ اور تصورات رکھتا ہے، ان سب کے اظہار کے لیے اس نے اسلوب کی جو جمالیات وضع کی اس میں فارسی زبان وادب کا تخلیقی شعور اساسی کردار ادا کرتا ہے۔ غالب کی شاعری کے فکری محاسن میں سے دو امور خصوصی توجہ چاہتے ہیں ایک اپنے زمانہ کے لحاظ سے زندگی کے جدید تقاضوں کا ادراک اور اس سے جنم لینے والی مستقبل بینی کا احساس اور دوسرے زیست اور مظاہر زیست کے بارے میں عقلی رویہ جو کبھی غم کے بارے میں بصیرت دیتاہے کبھی تشکیک پرمبنی ذہنی رویہ جنم دیتا ہے تو کبھی ذہن میں سوالات پیدا کرتاہے۔۔۔ ابر کیا چیز ہے ہواکیا ہے۔۔۔؟
غالب کے ہاں عملی دانش (Practical Wisdom) کے بہت اچھے نمونے ملتے ہیں جو اس کی شخصیت کے Pragmatic پہلو کے غماز ہیں:
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
اور یہ دلچسپ شعر جس کا شاید ہی کبھی حوالہ دیا گیا ہو کپتّی عورت کے بارے میں:
دہن شیر میں جا بیٹھے، اے دل
نہ کھڑے ہوجیے خوبانِ دل آزار کے پاس
غالب جس عہد میں زیست کررہا تھا وہ تاریخ کا عبوری دورتھا۔ انگریزی راج آ رہاتھا اور مغل سلطنت کا چراغ بردوش ہو ا تھا۔ انگریز اپنے ساتھ مغرب کی تجارتی اقدار کے ساتھ نئی ایجادات اور قوانین و ضوابط کا مربوط نظام لا رہے تھے جبکہ شاہی اور جاگیرداری کی پیدا کردہ اشرافیہ ماضی کی عظمت میں مگن تھی بلکہ بیشتر کو تو اس امر کا شعور بھی نہ تھا کہ تاریخ کیا رخ اختیار کرسکتی ہے۔ ان حالات کے تناظر میں غالب ہی ایسا شخص نظر آتا ہے جسے بیشتر لوگوں کے مقابلہ میں تاریخ کا کہیں زیادہ گہرا شعور تھا۔ کلکتہ کے قیام کے دوران اسے انگریزی تمدن اور ایجادات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور وہ ان سے متاثر بھی ہوا۔
سرسید ہمارے ہاں جدیدیت کے اولین معمار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں لیکن سرسید سے کہیں پہلے غالب کو ہوا کے رخ کا اندازہ ہو چکا تھا۔ ۱۸۴۷ء میں جب سرسید نے ابوالفضل کی ’’آئین اکبری‘‘ ایڈیٹ کی تو غالب سے تقریظ لکھنے کی فرمائش کی، غالب نے فارسی میں جو منظوم تفریظ لکھی اس میں سرسید کو ۔۔۔۔۔۔’’مردہ پرور دن مبارک کارنیست‘‘۔۔۔ کی تلقین کرتے ہوئے ان ایجادات کی اہمیت کا احساس کرایا جو انگریزوں کے زیر اثر فروغ پا رہی تھیں اور نئی زندگی کی نوید تھیں۔
سرسید کو یہ تقریظ پسند نہ آئی چنانچہ اسے کتاب میں شامل نہ کیا، یہ تقریظ غالب کی فارسی کلیات میں دیکھی جاسکتی ہے۔
غالبؔ کی یہ سوچ اسے معاصرین میں ممتاز بنا دیتی ہے جبکہ غالب کی دانش آموزی اسے ہمارا معاصربنا دیتی ہے۔ غالب کی غزل، فکر وفن، تخیل اور اسلوب پر لکھنے کے جس عمل کا ۱۸۹۷ء سے آغازہوا ہنوز بھی جاری ہے تو یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ عہد زوال کا شاعر ہونے کے باوجود بھی غالبؔ کے ہاں جدید علوم کے بارے میں بلیغ اشارے مل جاتے ہیں اس لیے علوم کے وسیع ہوتے آفاق، تصورات نو اور متغیر ادبی معیاروں کے باوجود بھی غالب کی غزل شجر سایہ دار ثابت ہوتی ہے۔ جمالیات سے لے کر نفسیات تک کئی فلسفوں اور علمی تصورات کی روشنی میں غالب کے ہاں افکار کا تنوع دریافت کیا جارہا ہے۔غالبؔ نہ تو اقبالؔ کی مانند باضابطہ فلسفیانہ نظام رکھتا تھا، نہ دردؔ کی مانند عملی صوفی تھا، تحلیل نفسی سے آگاہ، نہ ترقی پسند اور سوشلسٹ مگر ان سب کے بارے میں اس کے ہاں کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔ دیکھیں غالب، فیض احمد فیض کو کیسے Anticipate کر رہا ہے۔ فیض نے کہا تھا:
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
جبکہ غالب نے یوں کہا:
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں
ہر چند ہاتھ اس میں ہمارے قلم ہوئے
دردؔ نہ ہوتے ہوئے بھی ایسا شعر کہہ گیا:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتامیں تو کیا ہوتا
Apathyکی نفسیاتی اصطلاح سے کہیں پہلے غالب اعصابی بے حسی کی کیا خوبصورت تصویرکشی کر رہا ہے:
ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیاسر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا
جبکہ Hallucinationکی اصطلاح سے کہیں پہلے یہ لکھا:
باغ پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
سایۂ شاخ گل افعی نظر آتا ہے مجھے
جمالیات کے سلسلہ میں یوں گویا ہوتا ہے:
سب کہاں، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
اور کروچے سے پہلے غالب یہ کہہ رہا تھا:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
الغرض ما بعد الطبیعات، اخلاقیات، عصری شعور، انکشاف ذات، طنز و مزاح زندگی کا شاید ہی کوئی پہلو بچا ہو جس کے بارے میں دیوان غالب سے بصیرت نہ مل سکے۔
اکیسویں صدی تضادات کی صدی ثابت ہوگی۔ ایک طرف خلائی تسخیر کی مساعی اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے عزائم اور دوسری جانب بھوک، غربت، بے روزگاری، جنگ اور امراض جیسے مسائل، ان پر مستزاد ہمارے معاشرہ میں عدم برداشت اور عدم رواداری، مذہبی انتہا پسندی اور اس کے پرتشدد مظاہرے۔ خون مسلم کی ارزانی، پاکستان میں بھی اور دنیا میں بھی۔ اس صورت حال پر غالبؔ سے مدد چاہی تو یہ شعر سامنے آیا:
ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے
اس تناظر میں دیکھنے پر اکیسویں صدی میں بھی غالبؔ کی اہمیت، ضرورت اور بامقصدیت برقرار رہے گی اس جیسے وسیع المشرب ترک رسوم والے حیوانِ ظریف، موت سے بھی اکتساب نشاط کرنے والے شاعر، الم کی چبھن کی شدت کو کم کرنے والے صاحب فہم، صاحب نظر اور صاحب دل غالب جیسے کی ضرورت ہمیشہ رہے گی کہ عصرحاضر میں یہی چیزیں نایاب ہیں۔
 
Top