عید الضحیٰ یا دیکھاوے کی عید

بنت شبیر

محفلین
میں نے بچپن سے ہی سنا تھا کہ "نیکی کر دریا میں ڈال" یعنی نیکی کر کے بھول جاؤ اور جتلاؤ نا۔ لیکن یہاں تو بالکل الٹ ہے۔ ہمارے یہاں پہلے تو کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ کسی غریب کی مدد کی جائے اور اگر کوئی کسی کی مدد کر بھی لیے تو دریا میں ڈالنے کی بجائے منہ پھاڑ پھاڑ کر سب کو بتاتے ہیں اور جس بے چارے نے مدد مانگی ہوتی ہے وہ اتنا شرمندہ ہوتا ہے کہ آئندہ کے لیے توبہ کر لیتا ہے۔ بھوکھا مر جاتا ہے لیکن پھر کسی سے مدد کے لیے نہیں کہتا۔
جیسا کہ آج کل عید الضحیٰ کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ عید الضحیٰ کے دن جن لوگوں پر قربانی واجب ہوتی ہے وہ اپنی اوقات کے مطابق قربانی کرتے ہیں۔ پہلے پہل تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے قربانی کی جاتی تھی۔ ہر کوئی اپنے بچوں کو ساتھ لیے کر بہت شوق کے ساتھ قربانی کے لیے جانور خریدنے جاتے تھے اور قربانی کر کے تمام غریبوں اور امیروں میں برابر گوشت تقسیم کیا جاتا تھا۔ لیکن آج کل قربانی دیکھا دیکھی میں کی جاتی ہے۔ ہر کسی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہمارا جانور زیادہ مہنگا ہو۔ کچھ لوگوں کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ ان سے زیادہ مہنگا جانور کوئی نا خرید سکے اس لیے وہ عید سے ایک دن پہلے جانور لے کر آتے ہیں اور عید والے دن قربان کرتے ہیں اور کچھ لوگ مہنگا یا خوبصورت جانور خرید کر جلدی لیے آتے ہیں اور ہر روز پورے محلے میں گماتے ہیں اور اس کے ساتھ ایسے فخریہ انداز میں چلتے ہیں جیسے سب کو بتا رہے ہوں کے دیکھو کتنا مہنگا اور خوبصورت جانور قربانی کے لیے خریدا ہے۔ عید سے ایک دو دن پہلے بچوں کی طرح محلے کے لوگ ایک دوسرے سے جانور کی قیمتوں کے بارے میں باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ نے 70 ہزار کا جانور لیا ہے اور ہم نے ایک لاکھ کا لیا ہے۔ ان کی باتوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ عید والے دن اکثر قصائی کے لیے لڑائی ہو جاتی ہے کہ پہلے ہمارا جانور قربان کریں اور دوسرا کہتا ہے پہلے ہمارا ، اور اسی طرح یہ لڑائی بڑھ جاتی ہے اور ناراضگی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر کہیں مہنوں اور سالوں تک ناراضگی چلتی رہتی ہے صرف اس وجہ سے کہ اس نے پہلے قربانی کیوں کی۔ قربانی کے بعد گوشت کی تقسیم کی باری آتی ہے تو سیری پائے اور اچھا اچھا گوشت تو قربانی کرنے والے اپنے فریزر میں رکھ لیتے ہیں۔ میں نے تو یہ سنا تھا کہ قربانی کرنے کے بعد گوشت کے تین حصہ کیے جانے چاہیں۔ ایک اپنے لیے ، ایک رشتہ داروں کے لیے اور ایک غریبوں کے لیے ( اگر کمی پیشی ہو تو تصدیق کر دیجئے گا) ۔ لیکن یہاں تو سب سے پہلے اپنا فریزر فل کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ان لوگوں کے گھر گوشت دیا جاتا ہے جنوں نے قربانی کی ہو،اور عید کے بعد یہ باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں کہ ہم نے فلاح کے گھر ہم نے اتنا گوشت بجا تھا اس کے مقابلے میں انہوں نے بہت تھوڑا گوشت بجا ہے آئندہ ہم بھی کم گوشت بیجے گے۔ اور جو حصہ غریبوں کے لیے ہوتا ہے یعنی جو اس کے حقدار ہوتے ہیں ان کو ہم دروازے سے دھتکار دیتے ہیں۔ اور پھر عید کے بعد ایک دو ماہ تک خوب گوشت کھاتے ہیں۔ یہ ہے ہماری قربانی
اللہ تعالیٰ ہمیں سچی اور اچھی نیت سے قربانی کرنے اور اس کا گوشت حق داروں میں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
بنت شبیر
 

پپو

محفلین
جزاک اللہ بیٹا جی
ایک بات یاد رکھنا نیت کا حال صرف اللہ جانتا ہے اس لئے ہمیں کسی کی نیت کے بارے میں شک کا کوئی حق نہیں ہے باقی رہا معاملہ جو نظر آتا ہے کہ واقعی غلط ہے اس کے لئے ہم کو اچھے طریقہ سے معاشرے کو سدھارنے کی کوشش کرنی چاہیے اور سب اچھا طریقہ یہ ہے کہ خود اچھائی پر عمل پیرا ہو جائیں انشااللہ معاشرہ بہتر ہونا شروع ہو جائے گا
 

شمشاد

لائبریرین
خرم کی بات میں وزن ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے قربانی کم اور دیکھا دیکھی زیادہ ہونے لگ گئی ہے۔

ایسے ہی تو مسلمانوں پر عذاب نہیں آیا ہوا۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ مسلمانوں کو ہدایت دے۔
 

بنت شبیر

محفلین
جزاک اللہ بیٹا جی
ایک بات یاد رکھنا نیت کا حال صرف اللہ جانتا ہے اس لئے ہمیں کسی کی نیت کے بارے میں شک کا کوئی حق نہیں ہے باقی رہا معاملہ جو نظر آتا ہے کہ واقعی غلط ہے اس کے لئے ہم کو اچھے طریقہ سے معاشرے کو سدھارنے کی کوشش کرنی چاہیے اور سب اچھا طریقہ یہ ہے کہ خود اچھائی پر عمل پیرا ہو جائیں انشااللہ معاشرہ بہتر ہونا شروع ہو جائے گا
آپ نے بلکل درست کہا:):):)
 
Top