اقبال عورت اقبال کی نظر میں‌

عندلیب

محفلین
عورت اقبال کی نظر میں‌
!السلام علیکم !

اقبال کے نزدیک عورت کا اصل جوہر ماں بننے میں مضمر ہے۔

[اقبال کا خیال ہے کہ عورت کی حفاظت نہ تو پردہ ہی کر سکتا ہے اور نہ ہی تعلیم ۔اس کی حفاظت اگر کسی طرح ممکن ہے تو صرف اس وقت جب مرد اس پر آمادہ ہو۔اگر کوئی قوم اس حقیقت کا دراک نہیں کرتی تو وہ بہت جلد تباہی کے گڑھے میں گر جائیگی ، مغربی تہذیب نے عورت کے لئے اعلیٰ تعلیم کے دروازے تو کھول دئے ہیں۔ مگر اس کو دینی تعلیم سے بیگانہ رکھا۔ جس کی وجہ سے معاشرہ فساد کی آمجگاہ بن گیا ہے ۔
مغربی معاشرت میں سب سے ممتاز بات یہ بتائی جاتی ہے کہ وہاں مساوات مرد وزن ہے اور عورت مکمل طور پر آزاد ہے ۔اقبال کہتے ہیں کے مغربی معاشرت مین جو فساد نظر آتا ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے جس کی وجہ سے وہاں خاندانی نظام درہم برہم ہو گیا ہے ۔وہاں ملازمتوں پر عورت نے قبضہ کر رکھا ہے اور وہ بچے پیدا کرنے سے بیزار ہو چکی ہے جس کے نتیجہ میں مرد بے کاری کے دن گزار رہا ہے
حالانکہ۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِدروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا درِمکنوں
مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِافلاطوں
د​
 

عندلیب

محفلین
مردِ فرنگ


ہزار بارحکیموں نے اس کو سلجھایا
مگر یہ مسئلئہ زن رہاوہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ وپرویں
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں
 

عندلیب

محفلین
ایک سوال
کوئی پوچھے حکیم یورپ سے
ہند ویوناں ہیں جس کےحلقہ بگوش!
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال ؟
مرد بیکار و زن تہی آغوش!
 

عندلیب

محفلین
پردہ
بہت رنگ سپرِبریں نے
خدایا یہ دنیا جہاں تھی وہیں ہے
تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں میں نے
وہ خلوت نشیں ہے !یہ خلوت نشیں ہے !
ابھی تک ہے پردے میں اولادِ آدم
کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے !​
 

عندلیب

محفلین
خَلوت
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ آئنئہ دل ہے مکّرر
بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ وابتر!
آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں‌ ہے
وہ قطرہُ نسیاں کبھی بنتا نہیں گوہر
خَلوت میں خودی ہوتی ہے خودگیر و لیکن
خَلوت نہیں اب دیر وحرم میں بھی میّسر!​
 

عندلیب

محفلین
آزادئ نسواں
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے ،وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہزیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں ،معزور ہیں ،مردانِ خرد مند
کیا چیز ہے آرائش وقیمت میں زیادہ
آزادئ نسواں کہ زمرّد کاگلوبند؟​
 

عندلیب

محفلین
عورت کی حفاظت

اک زندہ حقیقت میرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہوسرد
نہ پردہ ، نہ تعلیم ،نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت ِزن کا نگہبان ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد​
 

عندلیب

محفلین
عورت اور تعلیم
تہزیب فِرنگی ہے اگرمرگِ امومت
ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت!
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زن
کہتے ہیں اسی علم کواربابِ نظر موت!
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسئہ زن
ہے عشق ومحبت کے لیے علم وہنر موت!
 

عندلیب

محفلین
عورت
جوہر ِمرد عیاں ہوتا ہے بے منّتِ غیر
غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود!
راز ہے اس کے تپِ غم کا یہی نکتئہ شوق
آتشیں لزّت تخلیق سے ہے اس کا وجود!
کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرارِ حیات
گرم اسی آگ سے ہے معرکئہ بود ونبود!
میں بھی مظلومئ نسواں سے ہوں غمناک بہت
نہیں ممکن مگر اس عقدہُ مشکل کی کشود!​
 
Top