عورتوں کو مارنا جائز ہے ؟ ؟ ؟

پرسوں ایسا ہوا کہ ہم سارا کی ایک ترکیب "لاثانی کڑھائی" پر طبع آزمائی کروا رہے تھے۔ ۔ اور یہ طبع آزمائی کرنے والا میرا بنگالی کک تھا ۔ ۔ اسی دوران میرے کک کی ازلی دشمن ماسی ہاجرہ کچن میں آگئی ۔ ۔ ۔ اتفاق کچھ ایسا تھا کہ میں کچن کے داخلی دروازے کے ساتھ کھڑا فریج کی پوزیشن پر چینج کرنے کا سوچ رہا تھا ۔ ۔ ۔ اسی وجہ سے ماسی داخل ہوتے وقت میری موجودگی سے بے خبر رہی۔ ۔ اسکی خاموشی دیکھ کر کک "حلیم" نے اسکو چھیڑا کہ ماسی آج بڑی خاموش ہو۔ ۔ جوابا ماسی نے اسکو ایک خوبصورت گالی سے نوازا جو "حلیم" کے سر سے گزر گئی کیونکہ ہماری ماسی ٹھیٹھ سرائیکی لہجہ میں بات کرتی ہے ۔ ۔ ۔ ان دونوں کی نوک جھونک سے میں اکثر لطف اندوز ہوتا ہوں۔ ۔ مگر آج ماسی کافی خاموش لگ رہی تھی۔ ۔ میں نے ماسی کو مخاطب کیا تو وہ ایک دم چونکی اور میری موجودگی کا احساس پاکر خاصی شرمندہ لگ رہی تھی کیونکہ جو گالی آج ماسی نے "بنگالی کک" کو دی تھی وہ کئی لحاظ سے خاصی عام فہم تھی جس میں ماسی ہاجرہ نے کک کی والدہ ماجدہ کے جسم کے ان حصوں کو نشانہ بنایا تھا جو دنیا کی کسی بھی زبان میں استعمال کیے جائیں صرف اپنی شستہ ادائیگی کی وجہ سے عام فہم ہو جاتے ہیں۔ ۔

کچھ تو احساس شرمندگی تھا اور کچھ شاید وہ پریشان تھی کہ میری آواز سن کر آبدیدہ ہو گئی۔ ۔ ۔ اسکی بھرائی ہوئی آواز سن کر میں مزے لینے کا خیال بھول کر پریشان ہو گیا ۔ ۔ میرے استفسار پر ماسی نے کہا کہ "صاحب جی اس زندگی سے تو موت اچھی ہے۔ ۔ ۔ زندگی بھر ہڈ حرام میاں سے مار کھائی لوگوں کی غلامی کرکے اسکا اور بچوں کا پیٹ پالا۔ ۔ ۔ اب بیٹی بھی ایسے ہی حرامی کے پلے بندھ گئی ہے"۔ ۔ ۔

ہوا یہ تھا کہ اسکے داماد نے اسکی بیٹی کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ ۔ اور وہ بیٹی زخمی حالت میں ماسی کے پاس آتی تھی۔ میں اسکی بیٹی کو دیکھنے سرونٹ کوارٹر تک گیا تو حیران ہوا کہ اسکی معصوم لڑکی کا چہرہ تقریبا زخمی تھا اور ناک کی حالت خاصی خراب تھی۔ ایک وقت تو میرا دماغ بھی بھک سے اڑ گیا۔ اور میں نے غصے سے ماسی سے پوچھا کہ وہ کمینہ کہاں ہے اسکو سیدھا کرواتا ہوں ابھی۔ ۔ ۔ مگر ماسی اور میں اچھی طرح جانتے تھے کہ اسکا کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ آخر کب تک یہ چلے گا۔ بہرحال میں کچھ دوائیں تجویز کرکے چلا آیا۔

پوری رات میں بھی ذہنی طور پر الجھا رہا اور محفل سے بھی جلدی چلا گیا ۔ اس دوران جو میرے دماغ میں چلا وہ ٹائپ کرتا چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ملک میں کئی گھرانوں میں یہ معمول کی بات ہے کہ بیوی جو اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے اپنے شوہر کے گھر آجاتی ہے، وہ شاید کسی ڈاکٹری نسخے کے مطابق اپنے شوہر سے باقاعدگی سے مار کھاتی ہے وجہ یا وجوہات کئی ہو سکتی ہیں۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ بیوی کو مارنے سے بیوی کنٹرول میں بھی رہتی ہے اور اس کی صحت بھی اچھی رہتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مردوں کی شان اور مردانگی ہے۔ ۔ ۔

بعض اس وجہ سے تشدد کرتے ہیں کہ انہیں بیوی کے کردار پر شک ہوتا ہے اور بعض وہ ہیں جو جہیز وغیرہ کی وجہ سے تشدد کرتے ہیں۔ ۔ ۔

یہ تمام باتیں اپنی جگہ ہیں ۔ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ قران اور حدیث عورت پر تشدد کے کیا احکامات ہیں، یا نہیں ہیں اور ہیں تو اس کی کیا صورت ہے۔ ۔

ہمارے معاشرے میں بیویوں پر تشدد کے واقعات عام ہیں، بعض مذہبی لوگ تو بیویوں کو روئی کی طرح دھنک دیتے ہیں اور اس نام نہاد ظلم کو قرآن کی ایک آیت سے صحیح ثابت کرتے ہیں، قرآن مجید میں نا فرمان بیوی کو نصیحت کرنے، پھر بستر الگ کرلینے اور پھر ضرب دینے کا حکم ہے۔ ۔ کھلے ذہن کے بعض شارحین نے بتایا ہے کہ "ضرب" کے معنی صرف مارپیٹ ہی نہیں، ضرب کی ایک معنی سزا کے بھی ہیں۔ یہ سزا بستر پر تنہا چھوڑدینے پر ختم ہوتی ہے۔ ۔ ۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس آیت میں بیویوں کو مارنے کا حکم دیا گیا ہے، تو اس کا خاص موقع اور مناسبت دیکھنا ضروری ہے اور ضرب کتنی اور کس قدر لگائی جائے اس کی بھی وضاحت نہیں ہے، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عثمان غنی یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جو سختی میں مشہور ہیں ان سے بھی مارنے پیٹنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔ ۔ درحقیقت اس آیت کو جواز بنا کر عورت پر ظلم و ستم کیا جاتا ہے۔ حقیقتا عورت پر کسی قسم کے تشدد کی اجازت نہیں ہے۔ ۔ ۔

علما حضرات (نام نہاد) مردوں کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ اگر ان کی بیویاں سر کشی کریں، تو وہ انہیں مار پیٹ کر ٹھیک کر سکتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ قرآن مجید کی سورہ "النسا" کی مندرجہ ذیل آیت سے استدلال کرتے ہیں۔ ۔

"ترجمہ: مرد حاکم ہیں عورتوں کے، یہ سبب اس کے کہ جو خرچ کرتے ہیں اپنی مالوں سے پس نیک بخت عورتیں فرمانبردار ہیں، نگہبانی کرنے والی ہیں، بیچ غائب کے ساتھ محافظت اللہ کے اور جو عورتیں کہ تم ڈرتے ہو سرکشی ان کی سے پس نصیحت کرو ان کو اور چھوڑ دو بیچ ان کو خوابگاہ کے اور مارو ان کو، پس اگر کہا مانیں تو مت ڈھونڈو اور ان کی راہ، تحقیق اللہ تعالی بلند بڑا ہے (سورہ توبہ النسا ۳۴۔۴ ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب)"۔ ۔ ۔

یہ قدیم ترجمہ ہم نے جان بوجھ کر پیش کیا ہے۔ اس اسی کے مقابلے میں اسی آیت کا ترجمہ ایک جدید خیال روشن عالم دین کے قلم سے ملاحظہ ہو۔ ۔ ۔

"ترجمہ: مرد عورتوں کے سرپرست ہیں، بوجہ اس کے کہ اللہ تعالی نے ایک دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور بوجہ اس کے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کئے پس جو نیک بیبیاں ہیں، وہ فرمانبرداری کرنے والی، رازوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں، بوجہ اس کے کہ خدا نے بھی رازوں کی حفاظت فرمائی ہے اور جن سے تمہیں سرتابی کا اندیشہ ہو، تو ان کو نصیحت کرو ان کو ان کے بستروں میں تنہا چھوڑدو اور ان کو سزا دو، پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریںتو ان کے خلاف راہ نہ ڈھونڈو بے شک اللہ تعالی بہت بلند اور بڑا ہے۔ ۔ (سورہ النسا ۳۴ ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب)

ہم نے یہ دونوں ترجمے اس لئے نقل کئے ہیں کہ اس سے ثابت ہو سکے کہ ہمارے اکثر علما نے قرآنی تعلیمات پر غور کرنے کے بجائے، محض پرانے بزرگوں کے ترجموں کی زبان کو بنیاد بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ حا لانکہ اس سلسلے میں اگر وہ تھوڑی بہت تحقیق کرتے تو انہیں اس بارے میں شریعت اسلامی کا حکم بھی معلوم ہوجاتا۔ ان حضرات نے اس بارے میں اگر یہ سوچنے کی کوشش کی ہوتی کہ اکثر اوقات زیادتی مرد کی جانب سے بھی ہوتی ہے تو پھر عورتوں کو اپنے شوہروں کو مارنے کی اجازت کیوں نہیں دی۔ پھر چونکہ عورتوں کو اس طرح مارنا انہیں اسلامی تعلیمات کے خلاف نظر آتا تھا، اس لیے انہوں نے اس آیت کی عجیب عجیب تاویلات کی ہیں۔ ۔ ۔

کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں مرد اکثر عورتوں کو مارا پیٹا کرتے تھے لیکن قرآن مجید نے عورت کا مرتبہ مرد کے برابر قرار دیا تو اس سے بجا طور پر سمجھا گیا کہ شریعت اسلامی مردوں کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنی عورتوں کو ماریں، چنانچہ ایک دفعہ جب ایک انصاری نے اپنی بیوی کے منہ پر تھپڑ مارا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر شکایت کی آپ نے حکم دیاکہ اس انصاری کو بھی ویسا یہ تھپڑ مارا جائے۔ آپ کا فیصلہ قراآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت کے مطابق تھا۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: "اگر تم میں سے دونوں (یعنی میاں بیوی) بے حیائی کے مرتکب ہوں، دونوں کو ہلکی سزا دو اور جب وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو پھر ان سے در گزر کرو" (سورہ النسا ۔۱۶)

پھر چونکہ عورتوں کو مارنا، اسلامی تعلیمات کے خلاف معلوم ہوتا تھا، اس لئے حضرت ابن عباس نے اس کی یوں تشریح فرمائی کہ عورت کو صرف مسواک سے مارنے کی اجازت ہے (تفسیر فتح القدیر از علامہ شوکانی، جلد اول صفحہ ۴۶۲)

حضرت ابن عباس جو قرآن مجید کے اول شارح تھے، کی اس وضاحت سے تو عورتوں کو مارنے کا معاملہ عجیب دکھائی دیتا ہے۔ امام شافعی نے اس کی ایک اور دوسرے طریقے سے وضاحت کی ہے اور وہ یہ کہ عورتوں کو مارنے کی اجازت تو دی گئی ہے لیکن اچھا یہ ہے کہ کہ انہیں نہ مارا جائے(ایضا)

ان کے ساتھ ہی صحیح بخاری نے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں یہ شکایت تھی کہ وہ اپنی بیویوں کو مارتے ہیں تو رسول اللہ نے انہیں ملامت کرتے ہوئے فرمایا کہ "کتنے شرم کی بات ہے کہ لوگ عورتوں کو مارتے بھی ہیں اور پھر ان سے مباشرت بھی کرنا چاہتے ہیں"۔ ۔ ۔

اس آیت میں در اصل میاں بیوی کے تعلقات کا سرے سے ذکر ہی نہیں بلکہ اس آیت میں اسلامی معاشرے میں عورت کی حیثیت اور مرتبے سے بحث کی گئی ہے جس لفظ یعنی "ضرب" کا ترجمہ "مارنا" کیا جاتا ہے، عربی زبان میں اس کے متعدد معنی ہیں اور جب کسی لفظ کے متعدد معنی ہوں تو سیاق و سباق کے مطابق اس کا وہ معنی اختیار کیا جاتا ہے جو سب سے زیادہ مناسب ہو۔ عربی زبان کے مشہور ماہر لغت سید مرتضی الحسن الزبیری نے لفظ "ضرب" کے کئی معنی بیان کئے ہیں اور فرمایا کہ جب اس لفظ کو قانونی مفہوم میں استعمال کیا جائے گا تو اس کا استعمال یوں ہوگا۔ ۔ ۔
ضرب القاضی علی یدہ ای حجرہ

ترجمہ: "قاضی نے اس کے باتھ پر مارا، یعنی اسے روکا"۔ ۔ ۔ ۔

تو دوستو ذہن نشین رہے کہ اس آیت میں "ضرب" کے معنی محض روکنے کے ہیں، اس معنی کی رو سے آیت کے معنی یہ ہونگے۔ ۔ ۔

ترجمہ :"اور جب عورتوں سے تمہیں فحاشی کا خطرہ ہے تو تم انہیں تنبیہ کرو اور انہیں ان کے بستروں میں اکیلا چھوڑ دو اور انہیں گھر سے باہر جانے سے روک دو"۔۔۔۔۔۔

خیال رہے کہ یہاں گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگانے کو سزا قرار دیا گیا ہے، کیونکہ عام حالات میں عورتوں اور مردوں کو گھروں سے نکلنے کی کامل آزادی ہے، لیکن ان کا یہ نہ نکلنا کسی کام کے لئے ہو۔ اس بارے میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے لئے ایک ہی قسم کے احکامات ہیں کہ جب وہ اپنے گھروں سے کام کاج کے لئے جائیں تو اپنی نظروں کو نیچا رکھیں۔ لیکن ہمارے ہاں عام طور پر پردے کا یہ غلط مفہوم لیا جاتا ہے کہ عورتوں کو گھروں میں بند کیا جائے، حالانکہ قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق انہیں گھروں میں بند کرکے رکھنا ایک سزا ہے اور یہ سزا انہیں اس وقت دی جائے گی جبکہ وہ کسی معاملے میں سرکشی کا رویہ اختیار کریں۔ ۔ ۔ ۔

مختصر یہ کہ شریعت اسلامی میں کسی مرد کو ہرگز یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیویوں کو مارے پیٹے۔ ۔ ہاں جیسا کہ سورہ النسا کی آیت ۱۶ کے حوالے سے بیان کیا جا چکا ہےکہ اگر مردوں یا عورتوں میں سے کوئی بھی فحاشی کا ارتکاب کرے تو اسلامی معاشرہ انہیں مناسب سزا دے سکتا ہے یعنی دونوں کو سزا ملے گی، صرف عورت کو سزا دینا قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم

بہت اچھا کیا آپ نے اسے تحریر کیا ۔

وعلیکم السلام ! اچھا تو سب ہے یہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری نظر میں صرف اچھا ہونا کافی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر کسی بھی موضوع پر ہو۔۔ وہ انقلاب کا پہلا دروازہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔ جس سے سبق حاصل کیا جاتا ہے۔۔ اور اپنے حال کو تبدیل کرکے مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا ہے۔۔ مگر افسوس ہمارے یہاں صرف مباحثوں تک بات رہ جاتی ہے جو بعد میں ذاتیات پر ختم ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کاش اس بار ایسا نہ ہو۔۔۔۔۔۔ میں اب کافی ڈر ڈر کر لکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ اور پوسٹ کرتے وقت دس مرتبہ سوچتا ہوں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ڈر ڈر کر ۔ ۔ ۔ لیکن کیوں ؟

آپ اپنی تحریر سے سوچ کا دروازہ تو کھول رہے ہیں ناں ۔ سب لوگ نہیں لیکن کچھ لوگ تو ضرور سوچیں گے ، کچھ بہتری ضرور پیدا ہوگی کسی کے خیال میں اور کسی کے عمل میں۔ اور اگر آپ کی یہ سوچ خود آپ کا اپنا عمل بھی ہے تو آپ تحریر سے بھی زیادہ روشنی پھیلا سکتے ہیں ۔
 

سارہ خان

محفلین
ہمارے معاشرے میں تعلیم کی کمی اور جاہلیت ایسے واقعات کا سبب ہے ۔۔ تعلیمی یافتہ اور با شعور حضرات کی سوچ اس معاملے میں مختلف ہے ۔۔
ہمارے گھر میں پہلے ایک عورت کام کرتی تھی ۔۔ اس کے چھ بچے تھے اس کا شوہر کماتا نہیں تھا وہ دن رات کام کر کے بچوں کو پالتی اور پھر بھی ہر دوسرے دن شوہر کی مار کھاتی ۔۔ وہ کہتی تھی کہ ہمارے ہاں بیٹیاں پیدا ہوں تو خوش ہوتے ہیں کہ یہ کما کر کھلائیں گی ۔۔ مرد کام نہیں کرتے ۔۔ :confused:
 

پپو

محفلین
شکریہ بھائی یونس رضا بڑی اچھی پوسٹ لگائی مگر کیا قرآن کا ایک یہی حکم مردوں کو نظر آتا ہے میں یہ جانتا ہوں جس معاشرے میں قرآن عملاً نافذ ہو وہاں اس طرح کے مواقع نہ ہو نے برابر ہوتے ہیں ہماری بدقسمتی یہی ہے کہ ہم قرآن کا وہ حکم تو دیکھ لیتے ہیں جہاں ہمارا مفاد ہو اور باقی کو چھوڑ رکھتے ہیں قرآن جس طرح کا نظام معا شرے کو دینا چاہتا ہے اس میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کرتے ہیں جہاں حقوق کی پاسداری ہو وہاں ایسے واقعا ت یا تو جنم ہی نہیں لیتے یا ان کا وجود قابل ذکر نیہں ہوتا میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے معاشرے میں جہاں عورت پر تشدد رواج بن چکا ہے وہاں اس قرآنی حکم کو اپلائی کیا جاتا ہے اصل میں ہم قرآن سے دور اتنا ہیں کہ ہمارے رہن سہن میں قرآن کی کسی رہنما ئی کا وجود نہیں ہے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں جہا ں بھی اور جو کوئی مرد عورت پر تشدد کرتا آپ اس سے پوچھ لیں وہ آپ کو کبھی بھی یہ نہیں کہے گا میں نے قرآن اس آ یت پر عمل کیا ہے وہ اس کی وجہ کچھ اور ہی بیان کرے گا جو لوگ قرآن کی تعلیم پر عمل پیرا ہیں ان کی زندگیوں میں ایسا دن کبھی نہیں آتا کہ ان کو اپنی خواتین پر تشدد کرنا پڑے کیا ان کے لیے وہ حکم زیادہ آسان نہیں ہے جس میں اللہ نے کہا کہ مومن اپنے غصے کو پی جاتاہےیہ تو جاہل قسم کے ملاں ہیں جو اس آیت کو اپنے لیے ہتھیار کے طور پر بلکہ ڈھال کے طور پر استعمال کرتے عملاً اس کا تعلق ہماری زندگیوں میں ہر گز نہیں ہے
 

شمشاد

لائبریرین
پپو بھائی یہی تو سارا مسئلہ ہے کہ قرآن ایک ہونے کے باوجود اس کا ترجمہ ہر کسی نے اپنے مفاد کے مطابق کیا ہوا ہے تا کہ اپنی مرضی کا مطلب نکال سکیں۔
 
جب ااس آئت کے الفاظ کے معانی ڈھونڈنے کا وقت آیا تو مجھے کافی دقت ہوئی۔ بہت سی ڈکشنریوں میں ان الفاظ کے معنی گول مول کئے ہوئے ہیں۔ آپ درستگی میں مدد کیجئے۔

اگر آپ میں سے کوئی صاحب کسی عرب ملک میں ہو ں تو کیا یہ مدد فرما سکتے ہیں کہ کچھ الفاظ کے عربی سے انگریزی یا اردو میں‌ ممکنہ ترجمہ کروا سکیں؟

عربی کےالفاظ یہ ہیں‌، ممکنہ اور غیر ممکنہ دونوں معنی یہاں لکھے ہیں، بہت ممکن ہے کہ کچھ معنی غلط ہوں۔ جو قریب قریب ہوں وہ رکھ لیں اور باقی جو بالکل بھی درست نہیں ہیں وہ نکال دیجئے۔
1۔ نشوز - ممکنہ معنی اٹھان، بڑھوتری، سر اٹھانا ، بغاوت کرنا، ممکنہ لیڈر شپ دکھانا۔ آگے آنا، زور سے بولنا ، ایسے میوزیکل نوٹس یا سر جو آپس میں ہم آہنگ نہ ہوں۔ ہم آہنگی نہ ہونا۔
2۔ مضاجع - چارپائی، پلنگ، پلیٹ‌ فارم ، جگہ ، سونے کی جگہ ، کسی خاص‌جگہ رکھے جانے کا مقام،
3۔ وعظ - وعظ کرنا ، سمجھانا، مینٹر کرنا ، ٹریننگ دینا، تفصیل سے سمجھانا۔ اپنی عقل و فراست استاد شاگرد کو سکھانے کا لیکچر دے، نصیحت
4۔ اھجر - ٹرانسفر کرنا، ہجرت کروانا، ایک مقام سے دوسرے مقام پر رکھ دینا یا پہنچا دینا، فرار کروانا، ڈسکنکٹ کرنا، رشتہ ختم کرنا، تعلق ختم کرنا، چھوڑنا
5۔ اضرب - مارنا، ضرب لگانا ، ضرب ( ملٹی پلائی )‌کرنا، تعداد بڑھانا، آگے لانا، آگے بڑھانا، سامنے کرنا، ہاتھ آگے کرنا، ڈرم بجانا، کوئی ایکشن لینا اورکسی کو آگے بڑھانا یعنی ترقی دینا، بہت زور سے مارنا کہ ٹوٹ جائے یا بری طرح زخمی ہو جائے، بہت شدت سے مارنا، حملہ کرنا ماردینے کی غرض سے یا نیت سے، بہیمانہ طریقہ سے چھونا، دھن بجانا، کسی چیز کو بجانا
کیا اس کے ممکنہ انگریزی معنی درست ہیں،
take an action and move forward
banging noun gerund of verb to bang .
bash strike heavily so as to break or injure; (cause to) collide violently with
battery an assault or attack upon; threatening touch
bop beat; strike on something

6۔ طعن - بے عزتی کرنا، بدنامی کرنا ، تنقید کرنا یا نا منظور کرنا، چیلنج کرنا
7۔ قوامون - قوم کا لیڈر، ایک ایسا بیم جو دیوار سے نکلا ہو شیلف وغیرہ کو سپورٹ کرنے کے لیے ، سپورٹ فراہم کرنے والا، بیساکھی، سہارا
8۔ فضل - بلیسنگز، فضل، عنایت، اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ۔ مال کی فراوانی اللہ کی طرف سے عموماً‌ مراد لی جاتی ہے، چنا ہوا، میرٹ یا ایڈوانٹیج
9۔ انفقو - مہیا کرنا، فراہم کرنا، خرچ کرنا، جیسے نان نفقہ فراہم کرنا۔ سرنگ، سرنگ لگانا، سرنگ تیار کرنا، مال کو ٹنل کرنا، رسد فراہم کرنا۔
10- اللاتی - اسکا ترجمہ درکار ہے،
11۔ صالحات - نیک عورتیں
12 - قانتات - نرم خو، نرمی سے بات کرنے والی ، اطاعت کرنے والی، بات ماننے والی، خدا سے ڈرنے والی، خیال کرنے والی، احساس کرنے والی
13۔ حافظات - حفاظت کرنے والیاں
14 - تبغو - ترجمہ درکار ہے
اگر کوئی صاحب عنایت کریں اور ان الفاظ کے درست معنی فراہم کرسکیں تو بہت عنایت ہوگی۔ اوپن برہان پر ان الفاظ کے معانی نہیں مل سکے تھے - آج جب یہ بحث نظر سے گذری تو سوچا پوچھ لوں ۔۔۔ پیشگی شکریہ۔

والسلام
 
یونس رضا بہت عمدہ آرٹیکل ہے یہ آپ کا اور آپ کھل کر لکھا کریں ڈر کر نہیں حق بات کہتے ہوئے ڈرنا کیا۔ کسی کو بری لگتی ہے تو لگ جائے اگر آپ دیانتداری سے اسے صحیح مانتے ہیں اور اس پر تنقید بھی برداشت کرنے کو تیار ہیں تو بددیانتی ہوگی کہ آپ حق اور سچ کی تعلیم کو عام نہ کریں۔ اچھے انداز میں کریں تحقیق کے ساتھ اور نرمی گفتار میری طرح سخت اور جارحانہ انداز سے بچ کر ;)

آپ کے اس آرٹیکل نے بہت سی راہیں کھولی ہیں تحقیق کی اور یقین جانئے کہ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے اسے بہت عمدہ انداز میں احادیث اور صحابہ کی زندگی سے بیان کیا ، جزاک اللہ۔

میری نظر میں عورتوں پر تشدد ی کی دو بڑی وجوہات ہیں ایک تو ہزار سال کا ہندوؤں گا ساتھ اور دوسرا سخت قبائلی اور جاگیرداری رسوم و رواج جنہیں بچانے کے لیے اسلام کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر اپنے ظالمانہ رسوم و روایات کو ثابت کیا جاتا ہے جو کہ اسلام کے ساتھ انتہائی ظلم ہے اور مفت کی بدنامی کا باعث بھی۔

اب کس کس کو سمجھائیں کہ اسلام یہ نہیں ہے جو برصغیر میں نظر آتا ہے اسلام کا نظام تو بہت اعلی و ارفع ہے اور وہ تو اصول اور انصاف کا علمبردار ہے ۔ افسوس کہ معاشرے کے تنزل اور اخلاقی گراوٹ نے اسلام کو بھی بہت بدنام کیا کہ بدقسمتی سے اکثریت کا پیدائشیی مذہب اسلام ہے اور اسلام سے ان کی نسبت صرف اتنی ہی ہے کہ وہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہو گئے اور اسے ہی وجہ صد افتخار اور سعادت سمجھ کر بیٹھ گئے۔ نہ کبھی قرآن کو پڑھا نہ اس کے مزاج کو سمجھا نہ احادیث اور سیرت کا مطالعہ کیا نہ تاریخ کا بغور جائزہ لیا۔

جو سن لیا بغیر سوچے سمجھے مان لیا جو دیکھا اس پر ایمان لے آئے جو اچھا لگا اسے پکڑ لیا جو تکلیف دہ ہوا اسے چھوڑ دیا۔ اسلام کی من پسند باتیں لے لی جو مشکل اور ناپسندیدہ ہوئیں انہیں تج دیا اور قرآن کی واضح آیت کو جھٹلا دیا جس کا مفہوم ہے

کہ تم قرآن کے ایک حصہ پر ایمان لاتے ہو اور ایک کا انکار کرتے ہو اور اسلا م میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔

حتی کہ مدرسوں کے طالب علموں کو درس کی کتابیں بھی نہیں آتی اور اپنی تعلیم بھی صحیح حاصل نہیں کرتے مگر ہمیں اور آپ کو وہ مدرسے کے فارغ تحصیل نظر آتے ہیں ہم سے کسی نے کبھی یہ زحمت کی کہ کسی امام مسجد یا دینی عالم سے اس کی سند کے بارے میں پوچھا ہو اس سے ان کتابوں کے بارے میں ہی دریافت کیا ہو جو اس نے پڑھی ہیں۔ یقین جانیں دس امام مسجدوں کو پکڑ لیں اور ان سے صرف اتنا پوچھ لیں کہ صحاح ستہ یا احادیث کی کتنی کتابیں پڑھیں اور کتنی دیر لگا کر پڑھی ہیں تو آپ کو ان کے جواب سے اندازہ ہو جائے گہ ہم نے کس قدر غفلت سے کام لیا ہے اور جن کو دین کا عالم سمجھتے ہیں وہ خود دین کی مبادیات سے کس قدر ناآشنا ہیں۔
 
یونس، بہترین کام کیا ہے آپ نے - بہت اچھی تحقیق ہے۔ جزاک اللہ خیرکم
محب، بہت درست فرمایا آپ نے۔ جزاک اللہ خیرکم،

قرآن کی ایک خوبی میری نظر میں یہ ہے کہ آپ ذرا سا اسے چھو لیں (معنوں سے پڑھ لیں) اور صاحب یہ آپ کو اپنے رنگ میں‌ رنگ لیتا ہے۔ اس کو منطق، اس کی قانونی زبان، اس قدر مکمل ہے کہ انسان حیران رہ جائے۔

والسلام
 
محب کی بات کو آگے بڑھا رہا ہوں - اور ان خیالات کے اظہار کی جسارت کررہا ہوں۔ یہ ہمیشہ سے درست رہا ہے کہ زیادہ تر عربی اور اردو جاننے والے حضرات کی دونوں میں سے ایک زبان کمزور تھی۔ تراجم کرنے میں بھی ایک بھیڑ چال رہی ہے۔ ہمیں تراجم میں بہت سی خامیاں نظر آتی ہیں۔ جو مولوی حضرات ہماری مسجدیں چلارہے ہیں۔ ان کے بارے میں ، کچھ نہ کہیئے لیکن ان کے مدرسوں کا معیار دیکھئے۔ ان کے سکھانے والوں کی عربی اور اردو اور کتب کو کبھی جاکر دیکھئے۔ اندازہ ہو جائیگا۔ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنی میراث کو ضائع نہ ہونے دیں اور بڑھ کر یہ علم حاصل کریں اور اس کا معیار بہتر بنانے کی کوشش کریں
 
میری نظر میں اب رسم اذاں باقی ہے جس میں روح بلال نہیں

دوستو آپ کا شکریہ کہ اس چھوٹی سے کاوش کو سراہا حالانکہ اس کی قطعی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ وہ باتیں ہیں جو ہم سب پر با لکل اسی طرح فرض جیسے نماز ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی اسی گھٹن ذدہ معاشرے کی پیداوار ہوں دوستو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے جو کچھ پچپن سے دیکھا میں اسکا باغی ہوں۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے کہ میں ڈاکٹر ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر آج سمجھ آیا ہے کہ جو کچھ اللہ رب العزت ہم سے چاھتا ہے یقیننا ہم اسکا حق ادا نہیں کر سکے ۔۔۔۔۔

اہل محفل کا شکریہ کہ میری ذات کی ایک کمی کو پورا کرنے میں بھرپور حق ادا کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ پر "منحوس" کا ایک لیبل لگا تھا :) مطلب اکلوتی اولاد تھا اپنے والدین کی تو کسی نے ایک روز صرف ایکبار یہ کہا تھا کہ شاہ صاحب کا بیٹا ہے اکلوتا ہے جب سے پیدا ہوا ہے دوسری اولاد پیدا نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسا جملہ تھا جس نے زندگی کو ایسا گھائل کیا کہ آج تک اس کی کسک باقی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں آکر لگا کہ اب شاید اس کسک میں کمی آرہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کافی بہنیں اور بھائی مل گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن سے اپنے دل کی کوئی بھی بات کہ سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :)

آپ سب کا تہ دل سے شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
حتی کہ مدرسوں کے طالب علموں کو درس کی کتابیں بھی نہیں آتی اور اپنی تعلیم بھی صحیح حاصل نہیں کرتے مگر ہمیں اور آپ کو وہ مدرسے کے فارغ تحصیل نظر آتے ہیں ہم سے کسی نے کبھی یہ زحمت کی کہ کسی امام مسجد یا دینی عالم سے اس کی سند کے بارے میں پوچھا ہو اس سے ان کتابوں کے بارے میں ہی دریافت کیا ہو جو اس نے پڑھی ہیں۔ یقین جانیں دس امام مسجدوں کو پکڑ لیں اور ان سے صرف اتنا پوچھ لیں کہ صحاح ستہ یا احادیث کی کتنی کتابیں پڑھیں اور کتنی دیر لگا کر پڑھی ہیں تو آپ کو ان کے جواب سے اندازہ ہو جائے گہ ہم نے کس قدر غفلت سے کام لیا ہے اور جن کو دین کا عالم سمجھتے ہیں وہ خود دین کی مبادیات سے کس قدر ناآشنا ہیں۔
اس بار پاکستان میں اپنے ایک کزن سے ملا جو کہ دینی مدرسے میں لاہور میں داخل ہے۔ بچہ سا ہے۔ اس کا انداز گفتگو بہت بدلا بدلا لگا۔ خود کش دھماکوں کے بارے وغیرہ اس نے رائے دینے سے گریز کیا۔ مشرف کے خلاف بولا۔ جب میں نے ایک بار بائی دی وے پوچھا کہ مدرسے میں کیا پڑھتے ہو۔ جواب ملا کہ تلاوت کے طریقے سکھا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ دو سال ہو رہے ہیں تمہیں گئے ہوئے، کیا صرف تلاوت سکھائی؟ کہتا ہے کہ نہیں بھائی، بہت کچھ اور بھی پڑھا ہے۔ میں نے جتنی بار بھی اس بہت کچھ کے بارے کچھ بھی پوچھا، بڑے آرام سے وہ بات اڑا گیا
 

زرقا مفتی

محفلین
[
Men are in charge of women, because Allah hath made the one of them to � excel the other, and because they spend of their property (for the support of women). � So good women are the obedient, guarding in secret that which Allah hath guarded. � As for those from whom ye fear rebellion, admonish them and banish them to beds � apart, and scourge them. Then if they obey you, seek not a way against them. Lo! � Allah is ever High, Exalted, Great (M. Pickthall

34. Men are the protectors and maintainers of women, because Allah has given the one more (strength) than the other, and because they support them from their means. Therefore the righteous women are devoutly obedient, and guard in (the husband's) absence what Allah would have them guard. As to those women on whose part ye fear disloyalty and ill-conduct, admonish them (first), (Next), refuse to share their beds, (And last) beat them (lightly); but if they return to obedience, seek not against them Means (of annoyance): For Allah is Most High, great (above you all).

Abdullah Yusuf Ali

004.034 Men are the protectors and maintainers of women, because God has given the one more (strength) than the other, and because they support them from their means. Therefore the righteous women are devoutly obedient, and guard in (the husband's) absence what God would have them guard. As to those women on whose part ye fear disloyalty and ill-conduct, admonish them (first), (Next), refuse to share their beds, (And last) beat them (lightly); but if they return to obedience, seek not against them means (of annoyance): For God is Most High, Great (above you all).
Jannah.Org

page035.gif

page036.gif




)

یونس رضا صاحب
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے
والسلام
زرقا
 
بھائی اور بہنو اور صاحبو :) - بغور دیکھنے سے لگتا ہے کہ اس آیت کا ترجمہ تھوڑی سا غور اور درستگی چاہتا ہے۔ کیا ہم کوشش کرسکتے ہیں کہ ان سرسری معانی کو بغور دیکھا جائے جو مترجمین نے اب تک کئے ہیں۔ میں‌مترجم قرآن نہیں لہذا آپ کی مدد چاہتا ہوں کہ اپنے دوستوں میں سے جو لوگ عربی سے واقفیت رکھتے ہیں‌ یا جن کے عربی جاننے والوں سے دوستی ہے۔ وہ اس غور و خوض‌کرنے کے نتائج کی توثیق کریں یا توژیق کرنے میں عربی دان دوستوں کی مدد حاصل کریں۔

عربی کے الفاظ کے ایک سے زیادہ معانی ہوتے ہیں۔ لہذا الفاظ کے انتخاب اور چناؤ سے ہی درست معانی سامنے آتے ہیں ۔

دوستوں سے گذارش ہے کہ اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور جدید علماء جو عربی سے واقف ہو، ان سے مدد لیں ۔ یہ آیت ہم نے یہاں لکھ لی ہے ، آئیے اس کے ہر حصے پر غور کرتے ہیں۔

[AYAH]4:34[/AYAH] [ARABIC]الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّهُ وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا[/ARABIC]

Shabbir Ahmed مرد سرپرست و نگہبان ہیں عورتوں کے اس بنا پر کہ فضیلت دی ہے اللہ نے انسانوں میں بعض کو بعض پر اور اس بنا پر کہ خرچ کرتے ہیں مرد اپنے مال۔ پس نیک عورتیں (ہوتی ہیں) اطاعت شعار، حفاظت کرنے والیاں (مردوں کی) غیر حاضری میں، ان سب چیزوں کی جن کو محفوظ بنایا ہے اللہ نے۔ اور وہ عورتیں کہ اندیشہ ہو تم کو نافرمانی کا جن سے، سو نصیحت کرو ان کو اور (اگر نہ مانیں تو) تنہا چھوڑ دو اُن کو بستروں میں اور (پھر بھی نہ مانیں تو) مارو ان کو پھر اگر اطاعت کرنے لگیں وہ تمہاری تو نہ تلاش کرو ان پر زیادتی کرنے کی راہ۔ بے شک اللہ ہے سب سے بالا تر اور بہت بڑا۔


1۔ یہ آیت الرجال اور النساء کے بارے میں ہے۔ یعنی مردوں و عورتوں کے بارے میں ۔ اکیلے مرد یا اکیلی عورت کے بارے میں نہیں۔ بغور دیکھئے ، اس آیت میں صیغہ واحد نہیں بلکہ جمع ہے۔ یعنی ایک اکیلے سے خطاب نہیٰں بلکہ مجموعی ہے۔ پس اس کو اسی نکتہ نظر سے دیکھا جانا چاہئیے، مردوں اور عورتوں کے بہت سارے رشتے ہوتے ہیں۔ مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ کرنے میں صرف اور صرف شوہر اور بیوی کا رشتے پر سارا زور رکھا ہے۔ جبکہ عورت اور مرد کا رشتہ ماں کا، بہن کا، بیٹی کا اور خالہ، بھوپھی، چچی، مامی اور یہ کہ بیوی کا ممکن ہے۔ اگر ان تمام رشتوں کو مد نظر رکھا جائے توکیا اس آیت کا مفہوم وہی رہے گا جیسا کیا گیا ہے؟ میں ، ڈکشنری سے عربی الفاظ کے معانی اسی دھاگہ میں‌فراہم کرچکا ہوں۔ آپ دیکھ لیجئے۔ آگے چلتے ہیں - قوام ، اس لکڑی، کیل یا بریکٹ‌کو کہتے ہیں جو کسی شیلف کو سہارا دینے کے لئے دیوار میں لگائی جاتی ہے۔ اس لئے یہاں لفظ "قوامون" کے معانی " فراہم کرنے والے " یا "سہارا دینے والے ہوا" ہوا۔ قوامون مذکر اور جمع ہے۔

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء
مرد (حضرات) عورتوں کے لئے فراہم کرنے والے ہیں۔ یا
مرد (حضرات) عورتوں کے لئے سہارا ہیں۔

کیا یہ ہمارے عربی جاننے والے دوستوں کویہ معانی قابل قبول لگتے ہیں ؟ کوئی صاحب توثیق کرسکتے ہیں ؟

جب ہم یہ طے کرلیں‌ تو آگے چلیں گے۔ پلیز گرافکس امیج نا فراہم کریں۔ تکلیف کیجئے اور ٹائپ کیجئے۔ اور یہ ذہن میں رکھئے کہ جو کچھ آج تک لکھا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ایک ہی بات دوبارہ نہ دہرائیے بلکہ اس آیت پر مزید غور کرنے کی کوشش پر نظر رکھئے۔

جاری ہے۔ ۔۔۔

والسلام
 
Top