عوامی خدمت کا کمر توڑ کاروبار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔طلعت حسین

’’ آپ کو معلوم نہیں ہے کہ ہم بے چارے کس مشکل سے گزر کر یہاں تک پہنچتے ہیں ۔آپ لوگ تو اسلام آباد کے بلیو ایریا میں بیٹھ کر تجزیے کرتے ہیں ۔کبھی اس آرام دہ ماحول میں سے نکل کر ہمارے علاقوں میں آئیں، آپ کو احساس ہوجائے گا کہ یہ کام کتنا پیچیدہ ہے‘‘۔ میں ان جملوں کا جواب موثر انداز سے دے سکتا تھا ۔ اگر اور کچھ نہیںتو کم از کم ان صاحب کو یہ ضرور یاد دلا دیتا کہ جب وہ کالج میں داخلے کے لیے سفارش ڈھونڈ رہے تھے تو میں اور مجھ جیسے درجنوں صحافی ملک میں ہونے والے پے در پے انتخابات پر رپورٹنگ کے لیے دور دراز علاقوں کی خاک چھان رہے تھے۔1985 کے بعد ہونے والے ہر چھوٹے بڑے انتخابی عمل کو قلم بند کرنے کے عمل میں ہم نے شاید اس مہربان نمائندے سے زیادہ گائوں دیکھے ہوں،کہیں زیادہ سفر کیا ہو اور اس سے بڑھ کر ایسے حالات کا مشاہدہ کیا ہو جو ایک’ حلقہ بند‘ سیاستدان نہ جان سکتا ہے اور نہ ہی اس کو ان میں کوئی علمی اور ذاتی دلچسپی ہوتی ہے۔مگر میں اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا تھا، دل ہی دل میں دانت پیس کر میں نے خاموشی اختیارکی مگر اُ س سے پہلے صرف ایک سوال ضر ورکیا ۔’’ تو جو سیاست آپ کرتے ہیں،کیاحقیقت میں جان جوکھوں کا کام ہے؟ ‘‘۔’’ جناب جان ہتھیلی پر رکھ کر عوام کی خدمت کرتے ہیں ۔ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے ‘‘۔
مجھے ایسے ہی فخریہ جواب کی توقع تھی۔ بہر حا ل اپنی تسلی کے لیے کیے گئے اس استفسار نے مجھ پر یہ واضح کر دیا ہے کہ قومی مفاد کے اس نعرے کی طرح جس کے ذریعے ماضی میں طالع آزمائوں نے اس ملک پر قبضہ جمایا’ عوامی خدمت ‘ کا جھنڈا بھی ایک غیرمعمولی ہتھیار ہے، اگر آپ اس کو استعمال کرتے رہیں تو اس کے سامنے بڑے بڑے سورما ڈھیر ہو جاتے ہیں۔اس کو بروئے کار لانے والا ہمیشہ سرخرو ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عوامی نمایندگان اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے ایک اہم درجے پہ فائز ہوتے ہیں جہاں سے وہ نہ صرف عام افراد کی زندگیوں میں سہولت اور راحت لا سکتے ہیں بلکہ ان کے دلوں میں یہ اہم احساس بھی پیدا کر تے ہیں کہ وہ بے زبان نہیں۔ ان کے ووٹوں سے منتخب شدہ شخصیات ان کے ہمہ وقت وکیل کے طور پر موجود ہیں اور کوئی بھی مقدمہ لڑ سکتے ہیں مگر ہمیں یہ بھی ماننا پڑ ے گا کہ پاکستان میں عوامی سیاست سے بڑھ کر کامیاب اور سہل کاروبار اور کوئی نہیں ہے۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عوامی نمائندگان دن رات ان کے غم میں رو کرہلکان ہوتے رہتے ہیں، وہ ایک ایسی رومانوی دنیا میں رہائش پزیر ہیں جس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔ عوامی نمائندگان جمہوریت کے لیے اور جمہوریت پاکستان کی بقا کے لیے ناگزیر ہے مگر اس کلیدی قاعدے کا جیسا استحصال اس ملک میں ہوتا ہے،اس کی مثال شاید ہی کسی اور نظام میں ملی ہو ۔
ابھی تک منتخب ہونے والے نمائندے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بالترتیب 4000 اور 2000 کی معمولی ضمانت جمع کروا کر اپنے سفر کا آغاز کرتے رہے ہیں ۔ آنے والے دنوں میں شاید یہ رقم بڑھ جائے مگر پھر بھی کسی اچھے کالج میں داخلے کی فیس سے کم ہی ہو گی ۔کسی تعلیمی ڈگری کی کوئی قید نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی یہ پوچھتا ہے کہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں کارکردگی کیسی رہی ۔ جہاں پر کسی متعین معیار پر مقابلے کے ذریعے اپنے اوصاف ثابت کرنے ہوتے ہیں ۔ عموماً خاندان کے اثرو رسوخ اور برادری کے وسیع تانوں بانوں کے ذریعے خود کو میدان میں اتارنے کے ساتھ ساتھ کسی مانوس سیاسی جماعت سے انتہائی محبت کے دعوئوں سے اپنے مقا می قد کاٹھ کی آبیاری کی جا تی ہیں۔چونکہ آج کل ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات کی بھر مار ہے، ان پلیٹ فارمزکو استعمال کرتے ہوئے تشہیر کا بندوبست آسانی سے ہو جاتا ہے ۔
اس کے بعد انتخابات کا عمل شر و ع ہو تا ہے جو انتہائی دلچسپ ہے۔اس میں خرچ ہونے والی رقم یاتوخاندانی کاروبار سے بطور قرض حاصل کی جاتی ہے ( عموما یہ کاروبار بینکوں کے قرضوں سے چل رہے ہوتے ہیں ) اور یا پھر کسی مضبوط اور تگڑے دھڑے سے مستعاراس دعوے پر لی جاتی ہے کہ بعد میں اس کو سود کے ساتھ واپس کر دی جائے گی۔ اس سو د کی شکل ٹھیکوں، پر مٹوں یا ان جیسی دوسری مراعات اور سہولیات کی ہوتی ہے ۔ بعض امیدواروں کو سیاسی جماعتیںخود سے وسائل مہیا کرتیں ہیں تا کہ ان کو قومی سطح پر طاقت کی کمند کسنے میں آسانی ہو۔’’ دیرینہ ‘‘ قسم کے عوامی نماندگان ، جنھوں نے کئی انتخابات کے ذریعے خود کو اس شعبے میں اچھی طرح قائم کر لیا ہے، ان تمام ضروریات سے بھی پاک ہوتے ہیں۔ان کو واجبی وقتی قرضے اور سیاسی پارٹی کی مالی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی۔پچھلی کامیابیوں سے ہی اتنا کما لیتے ہیں کہ دوبارہ منتخب ہونے کی قیمت کا ا متحا ن کڑا محسوس نہیں ہوتا ۔ منتخب ہونے کے لیے عوامی خدمت و ترقی کے وعدے اور اپنے حلقے میں ہر گھر میں گیس اور کم ازکم ایک نوکری کا بندوبست کرنے کا عزم کافی ہے۔ ہاں اس کے ساتھ ساتھ جنازوں میں شرکت اور شادیوں میں اپنے قدم کی برکت ڈالنے کا محنت طلب کام کا اچھا ریکارڈ ہونا ضروری ہے۔مگر سب سے زیادہ ضروری چند ہر کارے اور ایک فون ہے جس میں مقامی تھانے دار ، پٹواری ، نچلی سطح کے منصف اور بعض اوقات جرائم پیشہ گروہوں کے سر براہان کے فوری نمبرموجود ہوں ۔ چونکہ عوام کے وہ کام جو کسی منظم اور مہذب انتظام حکومت میں از خود ہو جانے چاہیں ان کالوں کے مر ہون منت ہو چکے ہیں جن کو کر کے مقامی سیاستدان ہر دلعزیز بن جاتا ہے۔حکومت کا حصہ بننے کے لیے یا اسمبلیوں تک پہنچنے کے تمام عمل میں صرف تعلقات عامہ ،وسائل اور آخر میںعوام کے ووٹ درکار ہیں ۔یاد رہے ووٹ عوام کے ہیں منتخب نمائندے کے نہیں۔وہ سائل ہے مربی نہیں مگر یہ صر ف کتا بی ا صو ل ہے ۔
انتخاب کے بعد کا مرحلہ سب سے زیادہ دلچسپ ہے۔ گائوں اور کھلیانوں سے نکل کر اسمبلیوں میں پہنچنے کے بعد وارے نیارے ہیں ۔مراعات اور تکلفا ت سے زندگی پر ہے۔ترقیاتی فنڈز کے نام پر وسائل کی ریل پیل ہے۔ وزیرومشیرہوںتو غیر رسمی طاقت کے ذریعے آپ کچھ بھی کراسکتے ہیں۔کسی کمیٹی کے ممبر ہوںیا سربراہ ہوں تو بھی دبدبہ اور اہمیت وہی ہے۔اور اگر آپ کچھ بھی نہیں ہیں اور محض اسمبلی میںایک نشت رکھتے ہیںتوبھی ا ستحقا ق کے فیوض کی بدولت مو ج د ر یا ہیں لیکن طو فا ن بن سکتے ہیں۔تر قیا تی اسکیموں اور ’’ عو ا می فلا حی منصو بو ں‘‘ کی شر و عا ت سے لے کر اختتا م تک تشہیر اور نشر و ا شا عت کا بہترین ا نتظا م از خو دکا م کر تا ہے۔ہر جگہ ا پنے نا م کی تختی لگا نا اور سڑ ک کے ہر مو ڑ پر ا پنی جو انی کی قد آ د م تصو یر کھڑ ی کر نے کا نیک کا م اِ س کے علا وہ ہے۔
اِ س خد مت خلق میں بہر حا ل پیسہ عو ام کے ٹیکسو ں سے ہی لیا جا تا ہے۔ بے نظیر ا نکم سپو ر ٹ پر و گر ام ہو یا بر ق ر فتا ر بس سر و س اربو ں ر و پے کے یہ تما م منصو بے یا تو عو ام کی حلا ل کی کما ئی ہے اور یا پھر وہ قر ضے ہیں جو عو ام کے نا م پر بینکو ں اور بیر ونی ذ ر ا یع سے لیے جا تے ہیں۔ (اب ہر پید ا ہونے و الا پا کستا نی بچہ 83 ہز ار کا مقر و ض بن چکا ہے )اِ ن اسکیمو ں کی منصو بہ بند ی ا فسر شا ہی کر تی ہے جن کی تنخو اہ سر کا ر ی ( یعنی عو امی ) خز انے سے جا تی ہے اور اِ س پر عمل د ر آ مد کرانے و الا عملہ بھی ر یا ست کے لیے کا م کر تا ہے ۔
اِ س خد مت کے تما م عمل کے د و ر ان نمائند گا ن کے ذ ا تی کا ر و با ر اور اُ ن کے ر شتے د ارو ں کی قسمت میں حیر ت ا نگیز اور جاد و ئی تبدیلیا ں ر و نما ہو تی ہیں۔کینو بیچنے و الے با غا ت کے مالک بن جا تے ہیں اور ہل چلا نے و الے ز میند ار بن جا تے ہیں۔ذ ر ا یع ا بلا غ کے ا نقلا ب کے ذ ر یعے ملک بھر میں نا م اور چہر ہ پہچا نا جا نے لگتا ہے۔جس سے اپنی ا ہمیت کا ا حسا س اجا گر اور تعلیمی کمی کا ا حسا س د ھیما پڑ جا تا ہے۔ اس تما م تگ و دو کا کما ل یہ ہے اپنی جیب سے ایک د ھیلہ بھی خر چ نہیں ہو تا۔ تمام خد مت عوام کے ووٹوں اور غر یب عو ام کے نوٹوں سے کی جاتی ہے مگر یہ کام اس ذ ہا نت سے انجام دیا جاتا ہے کہ ہر کوئی عوامی نمائندے کوحاتم طائی ، نوشیروان عادل یا اس سورما جیسا سمجھتا ہے جو مسائل کے سیلاب میں تیر کر ڈوبتے ہوئوں کا ہاتھ پکڑ کر کنارے تک لے جانے میں ہر وقت مصروف ہو ۔ عوامی خدمت کے دوسرے فوائد میں ٹیکس نہ دینے اور اپنے اثاثے نہ ظاہر کرنے کی سہولت بھی موجود ہے ۔ اور اگر آپ کے پاس بندوق ہے تو اس کے بے دریغ استعمال اور اپنے مخالفین کا خون بہانے پر بھی کوئی قدغن نہیں ۔ جب تک عوام آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، آپ ان کی بھر پورسیوا کے لیے ان سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔
ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ عوامی خدمت سے زیادہ منافع بخش اور آرام دہ دھندہ کوئی نہیں۔ یہ سرمایہ کاری کیے بغیر سرمایہ دار بننے کا سب سے آسان راستہ ہے۔اس راستے کو اختیار کرنے والے کسی شخص کو آپ نہ تو غریب پائیں گے اور نہ غمزدہ ۔ سب ہی خوش و خرم اور تازہ دم ہیں ۔ چہروں کی بشاشت خود ہی بتلا رہی ہے کہ عوامی خدمت کا بوجھ کتنا بھاری ہے۔!

بہ شکری روزنامہ ایکسپریس
کالم کا لنک
 
Top