عمر خیام کی رباعی کا اردو روپ - تاثیر


1​

اب جاگ کہ شب کے ساغر میں سورج نے وہ پتھر مارا ہے
جو مے تھی وہ سب بہہ نکلی ہے جو جام تھا پارا پارا ہے
مشرق کا شکاری اٹھا ہے کرنوں کی کمندیں پھینکی ہیں
اک پیچ میں قصر سکندر اک پیچ میں قصرِ دارا ہے

2​

ہاں دیکھ کہ میخواروں کے من میں کیسی موج سمائی ہے
شیشوں کو کیا ہے چورا چورا مے کو آگ لگائی ہے
شعلے لرزاں، لرزاں رقصاں رقصاں ہے ہر ذرہ
فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک ایسی جوت جگائی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے خیال میں یہ ایم ڈی تاثیر (محمد دین تاثیر) ہیں، پاکستانی پنجاب کے موجودہ گورنر سلمان تاثیر کے والد، ایم ڈی تاثیر، "نیازمندانِ لاہور" گروپ کے ایک اہم رکن تھے جس میں پطرس بخاری، امتیاز علی تاج، صوفی تبسم وغیرہ بھی شامل تھے، تقسیم سے پہلے ان کا کام دہلی اور لکھنؤ کے لکھاریوں کے ساتھ چپقلشیں تھیں اور تقسیم کے بعد چراغ حسن حسرت اور دیگر 'سرخوں' کے ساتھ، بقول احسان دانش کے انہوں نے لاہور میں باہر کے کسی قلم کار کو پنپنے نہ دیا اور نہ ہی خود کوئی تعمیری کام کیا۔ فیض احمد فیض کے دوست تھے بلکہ فیض اور تاثیر نے باقاعدہ 'پروگرام' بنا کر یورپین خواتین سے شادی کی۔

تاثیر، بذاتِ خود شاعری کے ایک اچھے نقاد تھے لیکن جہاں تک اوپر دی گئی رباعیوں کا تعلق ہے تو ایک 'فری فارمیٹ' قسم کا ترجمہ ہے اور نہ ہی یہ رباعی کی بحر ہے۔

خیام کی رباعیوں کا بہترین منظوم ترجمہ اپنے 'شاکر القادری' صاحب نے بھی کر رکھا ہے۔
 

مغزل

محفلین
دین محمد تاثیر ایک نظم ’’ یدِ بیضا ‘‘ اگر کسی دوست کے مطالعے میں‌ہوتو ، ازراہِ کرم عطا کیجے۔ پیشگی ممنو ن ، والسلام
 

سید عاطف علی

لائبریرین
1
اب جاگ کہ شب کے ساغر میں سورج نے وہ پتھر مارا ہے
جو مے تھی وہ سب بہہ نکلی ہے جو جام تھا پارا پارا ہے
مشرق کا شکاری اٹھا ہے کرنوں کی کمندیں پھینکی ہیں
اک پیچ میں قصر سکندر اک پیچ میں قصرِ دارا ہے


2
ہاں دیکھ کہ میخواروں کے من میں کیسی موج سمائی ہے
شیشوں کو کیا ہے چورا چورا مے کو آگ لگائی ہے
شعلے لرزاں، لرزاں رقصاں رقصاں ہے ہر ذرہ
فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک ایسی جوت جگائی ہے۔
غالبا" پہلی رباعی کا ایک ترجمہ کبھی نظر سے گزرا تھا - شاید محشر نقوی صاحب کا ہے۔جبکہ دوسری عدم توازن کے سبب لڑکھڑا رہی ہے۔ شاید صحیح نہیں لکھی گئی۔
اٹھ جاگ کہ خور شید ِ خاور ۔۔۔۔ وہ چرخ بریں کا شہپارہ
تاریکی ء شب کی چادر کو ۔۔۔۔ اک آن میں کر پارہ پارہ
ہر برگ و شجر۔۔۔ ہر بام و در ۔۔۔ کو نور کا پہنا کر زیور
مشرق کی مہم کو سر کر کے ۔۔۔اجرام فلک کو دے مارا
 
Top