عمرخیام کے ساتھ مراکش میں

تہذیب

محفلین
لاہور اور مراکش کے شہر می بہت سے چیزیں مماثلت رکھتی ہیں۔
لاہور کے بارہ دروازے مشہور ہیں۔ مراکش کے پرانے شہر کے گرداگرد ایک فصیل ہے، یہ فصیل ابھی بھی قائم ہے۔ ہر سال اس کی لیپا پوتی ہوتی رہتی ہے۔ اس فصیل میں بائیس دروازے ہیں۔ لاہور کی طرح مراکش کا بھی ایک نیا شہر ہے اور ایک پرانا شہر۔
پرانے شہر میں تنگ گلیاں۔۔۔ اور گلیوں میں بازار۔۔۔ جس کو یہ لوگ سُوق کہتے ہیں۔
لاہور میں بادشائی مسجد ہے تو یہاں پر مسجد کتوبیہ یا قطوبیہ
لاہور میں مینار پاکستان ہے۔ یہاں پر اس طرح کا کوئی مینار نہی لیکن مسجد کا مینار سارے شہر سے نظر آتا ہے۔ کئ بار ہم راستہ بھول گئے لیکن جونہی گلی یا سڑک سیدھی ہوئی دور سے مینارا نظر آگیا۔ اور ہم نے منہ طرف مینار کرلیا۔
لاہور میں کئ باغات اور پارک ہیں۔ یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ ایک سائبر پارک ہے۔ جس میں بڑے بڑے درخت۔ باڑیں۔ روشیں ، فوارے سب کچھ۔ اور ہر موڑ پر یا کراسنگ پر یا کونوں پر کمپیوٹر فِٹ کیے گئے ہیں۔ لوگ آتے ہیں اور ان کو استعمال کرتے ہیں۔ سہ پہر کے بعد ادھر کو بہت بھیڑ ہوتی ہے۔
سائبر پارک سے آگے مشہور مسجد قطوبیہ ہے۔یہ نہیں معلوم کہ لفظ قطوبیہ ہے یا کتوبیہ۔ کیونکہ ہم نے فرانسیسی زبان میں لکھا پڑھا۔ کتوبیہ ہوگا۔ کیونکہ بتایا گیا کہ یہاں پر ہزار سال قبل ایک مدرسہ قائم ہوا تھا۔ جو بڑھتے بڑھتے جامع یعنی یونیورسٹی بن گیا۔ مدرسے کی مسجد کے پہلو می ایک میدان ہے۔ اس میدان میں کتابوں کا بازار تھا۔ اب مسجد سے باہر نکل کر سڑک پار کرو تو بڑے اونچے اونچے درختوں کا چھوٹا سا باغ آتا ہے۔ ہر درخت کے نیچے جوتے پالش والا، بھنی مونگ پھلیاں بیچنے والا، بندروں والا یا اسی طرح کا کوئی نہ کوئی روزی کا وسیلہ ڈھونڈنے والا موجود ہے۔ جگہ جگہ بنچ لگے ہیں۔ جس پر ہم نے ہمشیہ مقامی بوڑھوں کواونگھتے یا گپیں لگاتے ہی دیکھا۔ بالکل ایسا ہی سین ہم نے ایک بار برمنگھم میں سوہو روڈ کے مرکزی گوردوارے کے باہر فٹ پاتھ کے بنچوں پر دیکھا تھا۔ ان بنچوں پر ہمیشہ بڈھے سکھ بیٹھے عمر رفتہ کو آوازیں دیتے رہتے ہیں۔ اور آتی جاتی رنگین اوڑھنیوں والی سکھنیوں کو تاڑتے رہتے ہیں۔ حال چال بھی پوچھتے رہتے ہیں۔
اس باغ سے آگے اصل نظارہ ہے۔ ایک بڑا پکا میدان ہے۔ اس میدان کا نام ہے جامع الفنا۔ اس میدان میں سال کے تین سو پینسٹھ دن، بارہ مہینے میلہ لگا رہتا ہے۔ سیاحوں کا ہجوم۔ مداریوں کا شور۔ سنگتروں کا جوس اور خشک میوہ جات بیچنے والوں کی ریڑھیاں۔ لوک ناچ ناچنے والوں کی ٹولیاں۔ ان کے ڈھول کے دھمکوں کا شور۔ ھاتھوں، بازؤوں پر مہندی لگانے والی صحرائی جپسی عورتیں۔ سانپوں والے مداری۔ ہر قسم کا لوگ جو آپ میلوں میں پائے جانے کا توقع رکھ سکتے ہیں وہاں موجود ہیں۔
سیاح بھی دنیا کے ہر کونے سے امڈے آتے ہیں۔ دس سال پہلے مراکو کے نوجوان بادشاہ نے تہیہ کیا کہ دس سال میں اس کے ملک میں ہرسال دس ملین سیاح آئیں گے۔ مراکو میں ہر سال بارہ ملین سیاح آتے ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک یہ تعداد لاکھوں میں نہیں پہنچی۔ بادشاہ کی عمر صرف 36 سال ہے اور اس نے ایک عام لڑکی سے شادی کی ہے۔ ٹی وی کے ایک مذاکرے میں اس نے اس لڑکی کو دیکھا۔ پسند کیا۔ پیغام بھیجا۔ جو خوش قسمتی قبول ہوا۔ شادی ہوگئ۔ اب ان کے دو بچے ہیں۔
ہم نے جس سے بات کی اور بادشاہ کا بارے میں پوچھا۔ سب نے ہی بادشاہ کی تعریف کی۔ اس بادشاہ کا نام محمد ششم ہے۔ اس کا باپ محمد پنجم تھا۔
بادشاہ کے نام پر بنی ہوئی مراکش کی مرکزی شاہراہ محمد ششم ایونیو ایک قابل دید سڑک ہے۔ اس سے زیادہ خوبصورت سڑک ہم نے ابھی تک نہی دیکھی۔
یہ ایک دورویہ سڑک ہے۔ اور دونوں لائنوں کے بیچوں بیچ باغیچہ بنا ہے۔ جس پر گلاب کے پھولوں کی کیاریاں لگی ہیں۔ کہیں کہین مالٹوں ، سنگتروں کے پودے ہیں یا کھجوروں کے۔۔ اس علاقے میں یہی یہی درخت اگتے ہیں اور انہوں نے اس کو ہرجگہ لگایا ہو اہے۔ یا دیہات می ہم نے زیتون کے درخت بھی دیکھے۔ سڑک کو دونوں کناروں پر ماڈرن ہوٹل کی عمارتیں ہیں۔ ہر طرف ہوٹل ہی ہوٹل۔
دو سو کے لگ بھگ پانچ ستاروں والے ہوٹل ہیں۔ پورے لاہور می ہم کو آواری اور پرل کانٹینینٹل کی سوا کسی تیسرے فائیو سٹار ہوٹل کا نام نہ سوجھا۔
خود ہم جس ہوٹل می رہے وہ ریٹنگ کی حساب سے فور سٹار تھا۔ لیکن اس می سب سہولتیں پانچ والا تھیں۔ ہم ہوٹل پہنچے تو ہم کے ساتھ ایک حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ مراکش کے ائیرپورٹ پر اترے تو ہم کو منی بس والا لوگ ہمارے نام کی تختی لیے پہلے ہی کھڑا تھا۔ ہم کل آٹھ لوگ تھے۔ اس واستی منی بس آیا۔ ورنہ ہمارا ذاتی طور پر اتنا بھاری نہی کہ پورا منی بس ہم کو لینے واستی آتا۔
جمعہ کا دن تھا اور سہہ پہر کا وقت۔ لگتا تھا کہ سارا شہر باہر نکل کے کھلی جگہوں کی طرف جارہا۔ چہل پہل تھی ہر طرف۔
ہم ہوٹل پہنچے تو ان لوگ نے کہا کہ ادر تو تم لوگ کا کوئی بکنگ نہی۔ ہم بولا کہ ایسا کیسے ہوسکتا۔ ریسپشن پر بوت دیر تک کبھی عربی اور کبھی فرنچ زبان میں وہ تین لوگ گٹ مٹ کرتے رہے۔ کبھی یہ فون کریں اور کبھی ایک دروازہ کھول کر ادھر نکل جائیں۔ پھر واپس آکر گٹ مٹ۔۔۔ ہم تماشا دیکھا کئے ۔
کوئی ایک گھنٹے بعد ہمیں دو کمروں والا ایک سوئیٹ مل گیا۔ بولے کہ آج کی رات ادھر گذارا کرو۔ کل دیکھا جائے گا۔ کوئی غلطی ہوگیا۔ کسی نے مشٹیک سے تم لوگ کا بکنگ کینسل کردیا۔۔ ہم بولا کہ کمرہ تو چلو مل گیا۔ لیکن کھانے کا کیا ہوگا، رات کا نوبجنے والا۔ ہم تو صبح کا نکلا ہوا۔ اور سفر میں ہم کھاتا بھی نہیں۔ اور جہاز یورپی لوگ کا تھا، اس میں حلال کھانا میں سبزی والا کھانا ہی تھا۔ جو مرچ مصالحے کے ساتھ بڑی مشکل سے کھاتا۔ یورپی تو پھیکا پھیکا ہی ابال کر کھاتے۔
وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی لیکن سالم ثبوت اسلامی برادرانہ جذبے والے زبان میں بولا تم میرا بچہ برابر۔ فیملی مافک۔ کھانا بھی ساتھ شامل۔۔۔ ڈائینگ ھال ساڑھے سات بجے سے کھلا ہے۔ سامان رکھو اور کھانا کھالو۔ آج تو سپیشل شو ہے۔ ورائٹی شو کا پروگرام ہے۔
کھانا تو مزیدار تھا۔ جس کھانے میں گوشت ہو، وہ اکثر مزیدار ہوتا۔ لیکن ساتھ میں کچھ عربی موسیقی، کچھ بربر ناچ اور موسیقی کا پروگرام چل رہا تھا۔ ابھی ہم سویٹ ڈش کا سوچ ہی رہا تھا کہ ھال کا بتی مدھم ہوگیا۔ اور دف کا ردھم بدل گیا۔ عربوں کا مشہور بیلی ڈانسنگ والی رقاصہ اپنا فن کا مظاہرہ کرنے کو آ رہی تھی۔
میں تو اس سے پہلے استنبول، اور قاہرہ می اس سے بہتر رقص دیکھ چکا تھا۔ لیکن میرے ساتھ کے کچھ لوگ نے نہیں دیکھا تھا، وہ شرما شرما کر اور آنکھ بچا کر دیکھ رہا تھا۔
مراکش میں ایک بات نے ہم کو بہت حیران کیا۔ جدھر بھی جاؤ لڑکیاں ایک چھوٹی سی پچاس سی سی کی موٹر سائیکل پر گھومتی پھرتی نظر آتیں۔ کالج جانے والیں، یونیورسٹی جانے والی۔ کام پر جانے والیں۔ یا ویسے شاپنگ کیلیئے جانے والیں۔ سب ننھی منی سی موٹر سائیکلوں پر شوں کرتی جارہی ہیں۔ اور شوں کرتی آرہی ہیں۔ ماڈرن جینز کے اوپر کرتا نما شرٹ اور سر ڈھکا ہوا۔۔۔۔۔۔ روایتی ایک لمبا سے کرتا جو ٹخنوں تک ہوتا پہنے لڑکیاں۔ ادھیڑ عمر عورتیں ایک بچے کے ساتھ۔ یا دو لڑکیاں ایک ساتھ۔۔ سب موٹر سائیکلوں پر۔ نہ کوئی آوازہ کس رہا ہے۔ نا کوئی ہلڑ بازی ہورہی۔ اور نہ ہم نے کہیں کوئی بدتمیزی کا مظاہرہ دیکھا۔۔ نہ کوئی اکیلی لڑکی سہمی سہمی دکھائی دی۔ رات کے دس بجے بھی ہم باہر گھومنے پھرنے کو پیدل نکلے تب بھی یہی نظارہ تھا۔ ہمیں یہ بوت اچھا لگا۔
ہم اپریل کی موسم می گئے تھے۔ ہمارے حساب سے موسم کافی گرم نہ سہی لیکن اتنا سرد نا تھا کہ بندہ سویٹر یا جرسی پہنے۔ لیکن جس مقامی کو ہم نے دیکھا اس نے لمبا سا کوٹ یا جیکٹ پہنے ضرور دیکھا۔ ہم بہت حیران ہوتے اور ان کو دیکھ دیکھ کر ہنستے۔ کیونکہ اگر ہمارے علاقے می تھوڑی سردی کے موسم میں اگر کوئی زیادہ گرم کپڑے پہنے تو اس کی مردانگی اور خاندان پر شک کرتے ہیں۔
ایک دن ہم محمد ششم ایونیو پر چلتے چلتے ریلوے سٹیشن جا نکلے۔ ہم نے سوچا کہ چلو ان کا سٹیشن دیکھتے چلتے ہیں۔ وہ سٹیشن باہر سے ہی اتنا خوبصورت کہ اسلام آباد کا ایرپورٹ اس کے آگے پانی بھرتا دکھائی دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی پھر کبھی سہی !!!
 
Top