مہوش علی
لائبریرین
10 طالبان مل کر بھی پاکستان کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے جتنا کہ عمران خان جیسے حکمران اپنی بے وقوفیوں کی وجہ سے پہنچا رہے ہیں۔
اگر آپ کو مذاکرات بھی کرنا ہیں، تو اسکا بھی ایک ڈھنگ ہے۔ کامیاب سٹریٹیجی میں مذاکرات کے ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر طاقت کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ چیزیں نہیں، بلکہ ایک دوسرے سے منسلک چیزیں ہیں۔ "مضبوط پوزیشن (Position of Strength) کسی بھی کامیاب مذاکرات کی کنجی ہے، خصوصاً ایسے حالات میں جب آپکا پالا طالبان جیسے وحشی جنگلیوں سے پڑا ہو جو دلائل کی زبان نہیں بلکہ طاقت کی زبان زیادہ اچھی سمجھتے ہیں۔
آپ مذاکرات کی افادیت اسکے شروع ہونے سے قبل بذات خود اپنے ہاتھ سے ختم کر دیتے ہیں اگر اپنی فوج کو کمزور کہہ رہے ہیں۔ کمزور سے مذاکرات نہیں کیے جاتے، بلکہ شرائط کا پٹا کتے کی طرح اسکے گلے میں ڈالا جاتا ہے، اور یہ وہی برتاؤ ہے جو عمران خان جیسے حکمرانوں کی بے وقوفی کی وجہ سے طالبان پاکستانی ریاست کے ساتھ کر رہے ہیں۔
عمران خان! کیا آپ بتلائیں گے کہ آرمی چیف کی ایک "کانفیڈنشل گفتگو" کو کیوں میڈیا پر بیان کر رہے ہیں، خاص طور پر وہ بھی اس زاویے سے جس سے پاکستانی ریاست کی شکست کا پیغام پھیلے اور پاکستانی عوام بددل و مایوس ہو جائے اور اسکے دل میں طالبان کا خوف بیٹھ جائے؟
پھر آپ نے آرمی چیف کی گفتگو کو بھی بالکل غلط سمجھا جو آپکا سونے پر سہاگہ جرم ہے۔ اگر آپ اپنے مفادات کے وفادار ہونے کی بجائے قوم کے مفادات کے وفادار ہیں تو کم از کم اس جھوٹ کو قوم میں پھیلانے پر کھلے عام معافی مانگتے۔
خان صاحب! طالبان سے مزید مذاکرات اس لیے نہیں ہونے چاہیے ہیں کیونکہ مومن ایک سوراخ سے 2 بار نہیں ڈسا جاتا۔ طالبان کے لیے"معافی" کا راستہ تو کھلا ہے، مگر مزید مذاکرات کا نہیں۔
طالبان پر سوات امن ڈیل کے وقت حجت مکمل طور پر تمام چکی تھی اور انکے تمام تر شرائط مانی جا چکی تھیں اور پاک فوج کو سوات سے باہر نکال لیا گیا تھا۔ مگر کیا طالبان نے سوات امن ڈیل کا احترام کیا؟ نہیں، بلکہ پاک فوج کے نکلتے ہی انہوں نے بندوق کے زور پر پورے سوات پر قبضہ کر لیا، پورے سوات میں اپنی خونی دجالی شریعت نافذ کر کے سینکڑوں مسلمان پاکستانیوں کو ذبح کر ڈالا۔ اور پھر اپنی جنگ کو بونیر اور اسلام آباد کی طرف پھیلانا شروع کر دیا کیونکہ انہیں وہاں بھی بندوق کی نال پر اپنی خونی شریعت نافذ کرنی تھی۔
اس وقت سواتی طالبان کا سربراہ یہی فضل اللہ تھا۔ کیا آپ کی بے وقوفی میں کوئی شک باقی ہے کہ آج پھر آپ اسی فضل اللہ کے ساتھ مذاکرات کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اور طالبان نے مذاکرات کی حامی بھرنے کے بعد سے لیکر آج تک 18 دہشتگرد حملے مزید کر کے آپکے درجنوں معصوموں کو مزید شہید کر دیا ہے۔
قوم یاد رکھے کہ عمران خان جھوٹ بولتا ہے کہ ہم طالبان کو شکست نہیں دے سکتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سوات میں پاک فوج نے طالبان کو ایسی شکستِ فاش دی کہ وہ آج تک دوبارہ سوات میں داخل نہیں ہو پایا۔ دشمن پر فتح پانے کی سب سے بڑی شرط ہے "یقین کی طاقت" کا ہونا۔ عمران خان اور دیگر طالبانی حمایتی پاکستانی قوم سے اس "یقین" کو چھین لینا چاہتے ہیں۔
قوم دھوکا نہ کھائے۔ مذاکرات کی آڑ میں عمران کا اصل پیغام ہے: "ہمیں طالبان کے چرنوں میں بیٹھ کر گیڈر کی 100 سالہ زندگی منظور ہے"۔
اگر آپ کو مذاکرات بھی کرنا ہیں، تو اسکا بھی ایک ڈھنگ ہے۔ کامیاب سٹریٹیجی میں مذاکرات کے ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر طاقت کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ چیزیں نہیں، بلکہ ایک دوسرے سے منسلک چیزیں ہیں۔ "مضبوط پوزیشن (Position of Strength) کسی بھی کامیاب مذاکرات کی کنجی ہے، خصوصاً ایسے حالات میں جب آپکا پالا طالبان جیسے وحشی جنگلیوں سے پڑا ہو جو دلائل کی زبان نہیں بلکہ طاقت کی زبان زیادہ اچھی سمجھتے ہیں۔
آپ مذاکرات کی افادیت اسکے شروع ہونے سے قبل بذات خود اپنے ہاتھ سے ختم کر دیتے ہیں اگر اپنی فوج کو کمزور کہہ رہے ہیں۔ کمزور سے مذاکرات نہیں کیے جاتے، بلکہ شرائط کا پٹا کتے کی طرح اسکے گلے میں ڈالا جاتا ہے، اور یہ وہی برتاؤ ہے جو عمران خان جیسے حکمرانوں کی بے وقوفی کی وجہ سے طالبان پاکستانی ریاست کے ساتھ کر رہے ہیں۔
عمران خان! کیا آپ بتلائیں گے کہ آرمی چیف کی ایک "کانفیڈنشل گفتگو" کو کیوں میڈیا پر بیان کر رہے ہیں، خاص طور پر وہ بھی اس زاویے سے جس سے پاکستانی ریاست کی شکست کا پیغام پھیلے اور پاکستانی عوام بددل و مایوس ہو جائے اور اسکے دل میں طالبان کا خوف بیٹھ جائے؟
پھر آپ نے آرمی چیف کی گفتگو کو بھی بالکل غلط سمجھا جو آپکا سونے پر سہاگہ جرم ہے۔ اگر آپ اپنے مفادات کے وفادار ہونے کی بجائے قوم کے مفادات کے وفادار ہیں تو کم از کم اس جھوٹ کو قوم میں پھیلانے پر کھلے عام معافی مانگتے۔
خان صاحب! طالبان سے مزید مذاکرات اس لیے نہیں ہونے چاہیے ہیں کیونکہ مومن ایک سوراخ سے 2 بار نہیں ڈسا جاتا۔ طالبان کے لیے"معافی" کا راستہ تو کھلا ہے، مگر مزید مذاکرات کا نہیں۔
طالبان پر سوات امن ڈیل کے وقت حجت مکمل طور پر تمام چکی تھی اور انکے تمام تر شرائط مانی جا چکی تھیں اور پاک فوج کو سوات سے باہر نکال لیا گیا تھا۔ مگر کیا طالبان نے سوات امن ڈیل کا احترام کیا؟ نہیں، بلکہ پاک فوج کے نکلتے ہی انہوں نے بندوق کے زور پر پورے سوات پر قبضہ کر لیا، پورے سوات میں اپنی خونی دجالی شریعت نافذ کر کے سینکڑوں مسلمان پاکستانیوں کو ذبح کر ڈالا۔ اور پھر اپنی جنگ کو بونیر اور اسلام آباد کی طرف پھیلانا شروع کر دیا کیونکہ انہیں وہاں بھی بندوق کی نال پر اپنی خونی شریعت نافذ کرنی تھی۔
اس وقت سواتی طالبان کا سربراہ یہی فضل اللہ تھا۔ کیا آپ کی بے وقوفی میں کوئی شک باقی ہے کہ آج پھر آپ اسی فضل اللہ کے ساتھ مذاکرات کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اور طالبان نے مذاکرات کی حامی بھرنے کے بعد سے لیکر آج تک 18 دہشتگرد حملے مزید کر کے آپکے درجنوں معصوموں کو مزید شہید کر دیا ہے۔
قوم یاد رکھے کہ عمران خان جھوٹ بولتا ہے کہ ہم طالبان کو شکست نہیں دے سکتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سوات میں پاک فوج نے طالبان کو ایسی شکستِ فاش دی کہ وہ آج تک دوبارہ سوات میں داخل نہیں ہو پایا۔ دشمن پر فتح پانے کی سب سے بڑی شرط ہے "یقین کی طاقت" کا ہونا۔ عمران خان اور دیگر طالبانی حمایتی پاکستانی قوم سے اس "یقین" کو چھین لینا چاہتے ہیں۔
قوم دھوکا نہ کھائے۔ مذاکرات کی آڑ میں عمران کا اصل پیغام ہے: "ہمیں طالبان کے چرنوں میں بیٹھ کر گیڈر کی 100 سالہ زندگی منظور ہے"۔