علی پور کا ایلی 516 - 538

قیصرانی

لائبریرین
”اونہوں۔“وہ ویسے ہی بے پرواہی سے بولی۔”میں کیاکروں گی پاگل جانو۔میں تواپنے میاں کوپاگل نہ کرسکی۔“
”وہ توپہلے ہی پاگل ہورہاتھا۔اس کی کیابات “جانوبولی۔
”توبہ پھر“شہزادنے ہنس کرکہا”یہ بھی پہلے ہی سے پاگل ہے۔“
”توبہ ہے۔“جانونے کانوں کوہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔”اب تجھ سے کون کرے بات۔“یہ کہہ کروہ غصے میں اٹھ کرنیچے چلی گئی۔
”تونے مجھے بدنام کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ہے نا“۔شہزادنے آنکھیں اٹھائے بغیرایلی کومخاطب کیے بغیرکہا۔
”سبھی مجھے طعنے دیتے ہیں میں سمجھتی نہیں۔سب سمجھتی ہوں میں لیکن کیاکروں میں ۔تونے مجھے یہاںرہنے کے قابل نہیں چھوڑا۔“
”میں بہت براہوں۔“ایلی نے خلوس سے کہا۔
”ہوگا۔“شہزادنے بے پروائی سے کہا”لیکن مجھے نہ جانے کیوں اچھالگتاہے۔میراجی چاہتاہے تجھے سامنے بٹھائے رکھوں۔سمجھ میںنہیں آتا۔کیوں تیری خاطر میں ان کے ساتھ بھی نہیں گئی کتنی منتیں کی تھیںانہوں نے میری اب کی بارلیکن میراجی ہی نہیں چاہا۔میں نے کہاچلی گئی توپھرنہ جانے کب ملاقات ہوتم سے اورپھرتم نے آنے میں اتنے دن لگادیئے۔انتظارکرتے کرتے آنکھیں تھک گئیں۔“شہزادنے سراٹھایا۔اس کی آنکھیں چھلک رہی تھیں۔آوازبھرائی ہوئی تھی۔”نہ جانے کیاہوگیاایلی۔“وہ بولی”ہائے میں توانجانے ہی میں ماری گئی اوریہ سب محلے والیاں مجھے تمہارے طعنے دیتی ہیں۔جلی کٹی سناتی ہیں۔ہروقت ۔“
”شہزاد۔“ایلی اچھل کراس کے قریب آگیا۔
دفعتاً وہ طلسم ٹوٹااورشہزادگویاجاگ پڑی۔
”نہ “وہ بولی”ایسانہ کرایلی میری اپنی نگاہ میں تومیری عزت رہنے دے۔مجھے اپنی نگامیں نہ گراتمہاراتوکچھ نہیں بگڑے گاایلی میں اپنے آپ سے جاؤں گی۔“
”تومیں کیاکروں۔“ایلی نے گھبراکرکہا۔
”وہیں بیٹھ کرمجھ سے باتیںکر۔میری باتیں سن۔میں اپنی بات کسے سناؤں۔تونے ہی نہ سنی توکون سنے گا۔ایلی۔“وہ دوپٹے کے پلوسے آنسوپونچھنے لگی۔”لیکن تم نے مجھے سمجھاہی نہیں۔توتوصرف ہاتھ پھیلاناجانتاہے۔تجھے دینے کے لیے میرے پاس کیاہے۔کچھ بھی تونہیں کیامانگتاہے مجھ سے جس کے پاس دینے کوکچھ بھی نہ ہواس کے سامنے ہاتھ پھیلانے کافائدہ واہ ایلی۔“اس نے اپناسردوپٹے میں لپیٹ لیااورگٹھڑی بن کرپڑگئی۔
گوشت کالوتھڑا
شام کے وقت شہزادنے کپڑے بدلے اوربڑے اہتمام سے بناؤسنگارکرکے بیٹھ گئی۔ایلی کویہ خیال پیداہوگیاکہ یہ اہتمام اس کی آمدکی وجہ سے ہے ۔شہزادکے اس اہتمام کی وجہ سے بے خوش ہورہاتھا۔
شہزادکی طبیعت میں بلاکی بے نیازی تھی۔اس نے کبھی سنگارکے لیے سرخی یاپاؤڈراستعمال نہ کیاتھااس زمانے میں عورتیں سرخی پاؤڈراستعمال کرنے کوباعث عارسمجھتی تھیں۔کیونکہ بڑی بوڑھے اس بات کوپسندنہیں کرتے تھے کہ عورتیں سرخی پاؤڈرلگاکراپنی نمائش کریں۔اگرچہ خوبصورت کپڑے اورزیورپہننے کومعیوب نہ سمجھا جاتا۔ کپڑااور زیور پہننا توعورت کاازلی حق ہے۔
شہزادہمیشہ خوبصورت کپڑے پہنے رکھتی تھی اگرچہ اس کی پوشاک میں نمائش کی جگہ سادگی کاعنصرہوتاتھااس کی آنکھیں لمبی اورخوبصورت تھیں اوراس کے ماتھے پرقدرتی طورپرایسی مقام پرتل تھاجہاں ہندوعورتیں ٹیکایابندی لگاتی ہیں۔اس کی پیشانی اورآنکھیں اس قدرجاذب نظرتھیں۔کہ ہونٹوں کاموٹاپن اسکے حسن میں کبھی حارج نہیں ہواتھا۔
ایلی اس کے سیاہ جالی داردوپٹے جس پرسفیدپھول گاڑھے ہوئے تھے کودیکھ دیکھ کرحیران ہورہاتھا۔اسے یقین نہیں پڑتاتھاکہ شام کے وقت شہزادکاکپڑے بدل کربیٹھ جانا۔اس کی آمدکی وجہ سے تھا۔یہ کیسے ہوسکتاہے کہ کوئی میرے لیے اس قدرپرواکرے۔میرے لیے بنے سنورے۔پھربھی چوری چوری دل ہی دل میں وہ سمجھ رہاتھاکہ وہ اسی کے لیے ہے‘شام کے کھانے سے فارغ ہو کروہ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ نیچے سے شوربلندہوا۔چھتی گلی سے عورتیں آوازیں دے رہی تھیں ۔بلارہی تھیں۔
”اب توجلدی بھی کرے گی یانہیں۔“جانونے شہزادسے کہا”تویہاں اپنی دھن میں لگی ہے اورسب نیچے تیراانتظارکررہی ہیں۔“
”انتظارکررہی ہیں۔کون انتظارکررہی ہیں۔“ایلی نے پوچھا۔
”اے ہے محلے کی عورتیں اورکون۔شادی والے گھرگانے کے لیے نہ جائے لگی کیا۔توسمجھتاہے یہاں تیرے سرہانے بیٹھ رہے گی کیا۔“
”شادی والے گھر۔“ایلی نے گھبراہٹ بھری شرمندگی سے کہا۔وہ شادیوں کی بات قطعی طورپربھول چکاتھا۔
”اورکہاں “جانو بولی۔”تیری شادی ہوگی توتجھے معلوم ہوگاناکہ شادی شادی والے گھرگانے کے لیے جاناضروری ہوتاہے۔ہاں۔“
”اے ہے کیوں خواہ مخواہ مغزچاٹ رہی ہو۔“شہزادجانوکوکوسنے لگی۔“جاتورہی ہوں۔جلدی آجاؤں گی میں۔“وہ ایلی سے کہنے لگی۔”توجب تک کوئی کتاب پڑھنا“اس نے ایلی پرایک نگاہ التفات ڈالی اورسیاہ پھولداردوپٹے کے سرپرلے یوں آنکھیں بناکرایلی کی طرف دیکھنے لگی کہ اس وقت اس کی قوت گویائی سلب ہوکررہ گئی۔اورپھرجب جانوسیڑھیوں میں داخل ہوگئی توشہزادنے چپکے سے ہاتھ بڑھاکراس کے منہ پرہاتھ رکھ دیا۔اوراس کے چہرے کوسہلاتے ہوئے بولی”سونہ جانا۔میں ابھی آئی۔“یہ کہہ کروہ سیڑھیوں میں داخل ہوگئی اورایلی تنہارہ گیا۔
دیرتک وہ چپ چاپ پڑارہا۔پھردفعتاً اسے خیال آیاکہ شادی والاگھرتووہی ہے جہاں غفوررہتاہے۔
اسے بچپن سے غفورسے نفرت تھی۔صرف غفورسے نہیں ان کے سارے گھرانے سے نفرت تھی۔اگرچہ وہ آصفی محلے میں رہتے تھے اورآصفیوں سے گہرے تعلقات تھے۔پھربھی غفوراوراس کے پانچوں بھائی آصفیوں کونفرت کی نظرسے دیکھاکرتے تھے اورخودکوقریشی کہلواتے تھے۔
وہ محلے سے قطعی طورپرمختلف تھے۔جسمانی لحاظ سے بھی ان کی ساخت الگ ہی تھی۔ان کے جسم بھرے ہوئے تھے قدچھوٹے اورچہر ے گول تھے انہیں دیکھ کرایلی محسوس کیاکرتاتھاجیسے وہ گوشت کے لوتھڑے ہوں ایسے غلیظ ننگے لوتھڑے جیسے علی پورکے بوچڑخانے میں اس نے بارہادیکھے تھے۔جہاں گائیاں اوربھینسیں ذبح کی جاتی تھیں۔حالانکہ غفورکے علاوہ اس کے باقی بھائی بہت شریف سمجھے جاتے تھے۔وہ چپ چاپ سرجھکائے محلے میں داخل ہوتے اورچپ چاپ سرجھکائے باہرنکل آتے۔اول تووہ محلے میں آتے ہی نہیں تھے کیونکہ ان کامکان محلے کے ایک کونے میں واقعہ تھا۔یہ کونہ بازارسے عین ملاہواتھااورانہوں نے براہ راست بازارسے آنے جانے کاراستہ بنارکھاتھاجومحلے کی ڈیوڑھی سے بھی ہٹ کرتھا۔لہٰذاانہیں گھرآنے جانے کے لیے محلے کی ڈیوڑھی میں داخل ہونے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔
انہیں دیکھ کرایلی محسوس کرتاتھاجیسے وہ سب ویسے نہ ہوں جیسے وہ دوسروں کے روبرودکھائی دیتے تھے جھکے ہوئے سرکے باوجودان کی نگاہوں میں محلے کے لیے تمسخرکی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ہونٹوں میں تحقیرکااحساس دباہوامحسوس ہوتاتھا۔جب وہ ادب واحترام سے کسی کوسلام علیکم کہتے تھے تومحسوس ہوتاجیسے محض دکھاوے کے لیے بات کررہے ہوںاوراگران کے ہاں کوئی محلے دارچلاجاتاتواس کی آمدپریوں خاموشی چھاجاتی جیسے نہ جانے کیاہوگیاہو۔حتیٰ کہ نوواردمحسوس ہونے لگتاکہ بگانوں کی محفل میں بیگانہ آگیاہے۔وہ سب کان سے منہ جوڑکربات کرنے والے تھے۔ان کی شکلیں دکھانے کی محسوس ہوتی تھیں اوران کی باتیں ہاتھ دانت۔ممکن ہے ایلی کے یہ احساسات دراصل ایلی کے من گھڑت بغض ہوں۔ممکن ہے کسی وجہ سے ایلی نے لاشعوری الجھن رکھی ہو۔اس کوجائزثابت کرنے کے لیے اس نے ایسے احساسات اختراع کررکھے ہوں۔بہرحال یہ ایک حقیقت تھی کہ ایلی کوغفوراوراس کے بھائیوں سے بغض تھا۔بھائیوں کی بات چھوڑئیے غفورکی ذات سے تواسے بے انتہاچڑتھی اورمحلہ میں ہرکوئی جانتاتھاکہ غفورکے رویے سے خوداس کے بھائی بھی نالاں تھے۔
عام طورپرایلی کی غفورسے ملاقات نہیں ہوتی تھی ۔اوراگرکبھی ہوتی تھی توکچی حویلی کے قریب چونکہ عام طورپرغفورمحلے کی مسجدمیں نہانے جایاکرتاتھانہانے کے لیے وہ اس راستے سے باہر نکلتاتھاجومحلے کے اندرکی چھوٹی گلی میں کھلتاتھا۔ایلی نے چھوٹی گلی میں ہاتھ میں صابن دانی اورتولیہ پکڑے اسے کئی باردیکھاتھا۔وہ بے تکلفی وہ ادھرادھردیکھتاہوابے حس اندازمیں آگے بڑھے چلاجاتا۔اورہرعورت اورلڑکی کی طرف ایسے بے باکانہ دیکھتاجیسے اس کے جسم کوجانچ رہاہو۔جیسے قصائی بوچڑخانے میں گایوں کی طرف دیکھاکرتے تھے۔ساتھ ہی وہ جسم کھجاتا۔اس وقت ایلی کو محسوس جیسے وہ کوئی بورابھالوہواوراوپرنیچے سے اپنے جسم کوتسکین دے رہاہو۔یاکسی کوکچھ سمجھارہاہو۔یہ محسوس کرکے ایلی کوبے حدغصہ آتاتھالیکن غفورطاقت میں ایلی کے مقابلے میں پہلوان کی حیثیت رکھتاتھا۔یہ بے بسی بھراغصہ ایلی کے احساس کمتری پرتازیانے کی حیثیت رکھتاوہ کھولتا۔اورپھربھاگ لیتا۔
اس روزشہزادکے انتظارمیں بیٹھے بیٹھے ایلی سوچ رہاتھاکہ وہ بیٹھی گارہی ہوگی۔گاتے وقت وہ کتنی پیاری لگتی ہے معلوم ہوتاہے جیسے اس سے اس کی آنکھوں میں ننھی قندیلیں روشن ہوجاتی ہیں اوران سے چھن چھن کرشعاعیں نکلتی ہیں۔عورتیں تعجب سے اس کی طرف دیکھتیں تھیں۔اس وقت رنگینی دوپٹوں کے اس ڈھیرکے قریب ایک بھورابھالوآکھڑاہوتا۔اس کی نگاہیں شہزادپرمرکوزہوجاتیں۔اورپھراس کاپنجہ اٹھتا۔اوروہ کھجانے لگتا۔اتنے زورسے کھجاتاکہ اس کے بال اکھڑجاتے اورنیچے سے ننگے غلیظ گوشت کالوتھڑانکل آتا۔
ایلی غصے سے کھولنے لگتا۔
پھروہ لاحول پڑھ کراپنی توجہ کسی اورطرف منعطف کرنے کی کوشش کرتامگرجلدہی پھراس گانے والیوں کے رنگین جھرمٹ سے وہی بھالوابھرتااوروہی بھیانک منظرحقیقت بن کراس کے روبروآکرکھڑاہوتا۔
ٹن---گھڑی نے ایک بجایا۔
ایک‘اس نے گھڑی کی طرف غورسے دیکھا۔ساڑھے بارہ ساڑھے بارہ بجے تک کون گاتاہے اس نے سوچا۔
عین اس وقت نیچے چوگان سے اسے عورتوں کی آوازیں سنائی دیں۔شکرہے اس نے سوچایقینا وہ بھی ان کے ساتھ ہی آرہی ہوگی۔بس پہنچاہی چاہتی ہوگی۔وہ منتظرہوکربیٹھ گیا۔ابھی وہ آکرآوازدے گی اورمیں جھٹ سے دروازہ کھول دوں گااورکہوں گادیکھایوں کیاکرتے ہیں انتظار۔آوازدیئے بغیردروازہ کھول دیا۔پاؤں کی چاپ سمجھتاہوں۔کیاسمجھاہے تم نے۔لیکن عورتوں کی آوازمدھم پڑگئی۔دروازوں پردستکیں دی گئیں۔دروازے کھلے اوربندہوگئے اورمحلے پرایک بارپھرسناٹاچھاگیالیکن شہزادکے پاؤں کی چاپ سنائی نہ دی۔
دفعتاً ایلی کی نگاہ سامنے وہ تنگ گلی آگئی جس میں غفورصابون دانی اورتولیہ تھامے ہوئے کھجاتاہواگزراکرتاتھا۔گلی میں ایک طرف شہزادسہمی ہوئی کھڑی تھی دوسری طرف ایک بھالوکھجاکھجاکرگوشت کے لوتھڑے بنائے جارہاتھا۔پھروہ شہزادکی طرف لپکااورگلی کے اس حصے پرتاریکی اوربھیانک خاموشی چھاگئی۔
ایلی پاگلوں کی طرح اٹھ بیٹھااوردیوانہ وارادھرادھرٹہلنے لگا۔بے بسی اورغصے میں اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔لیکن محلہ پرموت کی سی خاموشی طاری تھی۔
میں یہاں اس کے انتظارمیں پاگل ہورہاہوں ایلی نے سوچا۔جب جی چاہے آئے مجھے کیا۔چاہے ساری رات گلی کے تاریک کونے میں بسرکردے آخرمجھے اس سے کیاغرض یہ سوچ کروہ لیٹ گیا۔آنکھیں بندکرلیں۔اس کی نگاہوں تلے بھالوناچ رہاتھا۔قریب ہی ایک رنگین ڈھیرساپڑاتھااورگلی خوف کے مارے بھیانک اورسنسان ہورہی تھی۔
ہنستے روتے
دروازہ بجاتوچونکا۔بھاگ کراس نے کنڈی کھول دی اس وقت وہ بھو ل گیاکہ شہزادکے آنے یانہ آنے سے اسے کیاغرض تھی۔اسے یہ احساس بھی نہ ہواتھاکہ عرصہ درازتک اس نے یوں آنکھیں بندکررکھی تھیں جیسے مدت سے سوچکاہو۔
شہزادگھرپہنچتے ہی اپنی چارپائی پرڈھیرہوگئی۔”توبہ ہے۔“وہ بولی ”گاگاکرہلکان ہوگئی سریوں بھن بھن کررہاہے جیسے بھڑوں کاچھتہ ہو۔“
”لو“جانو”توکیاکپڑے بھی نہ بدلوگی۔“
”اپنی جان کھائیں کپڑے۔مجھ میں اٹھنے کی ہمت بھی ہو۔“یہ کہہ کروہ سرہانے تلے بازورکھ کرایلی کوہلائے بغیریوں سوگئی جیسے ایلی وہاں موجودہی نہ ہوجیسے ایلی نہ جانے کون ہو۔
اورایلی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس رنگین ڈھیرکودیکھتااورکمرے کے دروازے سے باہراندھیرے کونے میں بھالوناچتارہا۔اورسرخ گوشت کے لوتھڑے ابھرتے رہے۔حتیٰ کہ صبح کی سپیدی جھلکنے لگی اورتھک ہارکرایلی کی آنکھ لگ گئی۔
اگلے روزجاگتے ہی شہزادنے ایلی کے کان میں تنکے چبھونے شروع کردئیے۔
”گھوڑے بیچ کرسوئے ہوکیااب جاگوگے بھی یانہیں۔دیکھوتودن چڑھ آیاہے۔“شرم نہیںآتی“ایلی چلایا۔”ساری رات انتظارکرایااوراب تنگ کررہی ہے۔“توبہ ہے ۔“”وہ ہنسی“جب کوئی موجودنہ ہوبیٹھ کرانتظارکرتاہے اورجب موجودہو۔“وہ ہنستے ہنستے رک گئی۔”توپڑاخراٹے لے کرسوئے جاتاہے۔“
اس بات پرایلی کواورغصہ آیا۔شایدوہ سمجھتاتھاکہ شہزاداپنی غلطی تسلیم کرلے گی اوراس سے وعدہ کرے گی کہ آئندہ وہ کبھی اتنی دیرباہر نہ رہے گی۔لیکن شہزاداس معاملہ میں بالکل مجبورتھی۔نمائش کاجذبہ ۔آن کی آن میں اس میںیوں ابھرتاتھاجیسے بوتل سے جن نکلتاہے۔اورپھروہ اپناآپ بھول جاتی۔اوردیوانہ واراس جذبے کی تسکین کے لیے مضطرب ہوجاتی۔
اس روزجب وہ ایلی کوسمجھارہی تھی۔”نہ پیارے اس طرح بات بات پرنہیں بگڑاکرتے۔یہ کیابگڑنے کی بات ہے چلوتم برامانتے ہوتومیں آج سے گانے نہ جاؤں گی لیکن معلوم ہے میں نہ گئی تومحلے والیں کیاسمجھیں گی کیاکہیں گی۔ایک دوسری سے گاناتوکوئی بری چیزنہیں ذرادل لگارہتاہے۔ہم بھی دومنٹ کے لیے جی لیتے ہیں۔اگرتوبرامانتاہے تونہ سہی۔“
عین اس وقت نیچے ڈیوڑھی سے نائن کی آوازآئی۔”بی حسن دین کے گھرسے بلاواہے۔آکربری کی چیزیں دیکھ لو۔“
”بلاواہے۔“شہزاداپنے آپ بولی۔”بری کی چیزیں دیکھنے کابلاواہے ۔“
بری کی بات سن کرشہزادکی آنکھوں میں چمک لہرائی اورگردوپیش دھندلاکررہ گئے۔یکدم ایلی کاوجوداس کے لیے بے معنی ہوکررہ گیااوروہ ایلی سے کیے ہوئے تمام وعدے فراموش ہوگئے۔لپک کراٹھی اورٹرنک کھول کرکپڑے نکالنے لگی اورپھرآئینے کے سامنے سنگارمیں مصروف ہوگئی۔ایلی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہاتھا۔
آخروہ اس کے قریب جاکھڑاہوا۔”تم جارہی ہو۔“اس نے پوچھا۔
شہزادنے خالی نگاہوں سے ایلی کی طرف دیکھا۔”تم کہہ رہے ہوکچھ۔“اس نے ایلی سے پوچھا۔اس بے تعلقی کے اظہارپرایلی کامنہ غصے میں لال ہوگیا۔لیکن شہزادنے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔اس وقت وہ ٹرنک سے اپنامحبوب سوٹ نکال رہی تھی۔پھروہ بات کیے بغیرغسل خانے میں داخل ہوکرکپڑے بدلنے لگی۔
جلدی جلدی وہ تیارہوکریوں سیڑھیاں اترنے لگی ۔جیسے جانے کے سواکسی اوربات کی سدھ بدھ نہ ہو۔سیڑھیوں میں پہنچ کروہ چلائی۔”جانوتوہنڈیاچڑھادینامیں ابھی لوٹ آؤں گی۔“
شہزادکے جانے کے بعدایلی دیرتک غصے سے کھولتارہااسے سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ شہزادکوبیٹھے بٹھائے کیاہوجاتاتھا۔کہاں وہ محبت بھری باتیں کرنے والی شہزادجومحلے میں اس کی تلاش میں سرگردان پھرتی تھی اورکہاں یہ شہزادجواس کے وجودہی سے منکرتھی۔اسے سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ ان دونوں میں سے اصلی شہزادکون سی ہے۔
دیرتک وہ غصے میں کھولتارہااورپھراپنی حماقت پرقہقہہ مارکرہنسنے لگا۔جانواسے ہنستے دیکھ کرچلانے لگی۔”معلوم ہوتاہے تیرادماگ بھی چل گیاہے۔تم دونوں ہی کاپتہ نہیں چلتا۔“وہ بولی”بے وجہ ہنسے ہوبے وجہ روتے ہو۔“
ایلی اٹھ بیٹھا۔”اچھامیں ذراباہر جاؤں گا۔“
”ہاں ہاں۔“جانوگرائی”اب تویہاں کیوں بیٹھنے لگاجاجاکربری دیکھ تولوگ بری دیکھیں گے۔تواسے دیکھنایہاں بیٹھاکیاکری گا۔“
جب وہ سیڑھیاں اترنے لگا۔توجانواس کے پاس آئی اوردونوں ہاتھوں سے اس کامنہ پکڑکربولی۔”ماںواری کیوں اپنی جان ہلکان کررہاہے توتجھے کس چیزکی کمی ہے۔جیسی چاہے گاویسی مل جائے گی۔یہاں سے تجھے کیاحاصل ہوگا۔پھرکیوں اپناایمان گنوارہاہے تویہاں۔“
جلو
چوگان میں پہنچ کراس نے محسوس کیاجیسے خلامیں چل پھررہاہو۔اس کے لیے ساراعلی پورایک ویرانہ تھالق دق ویرانہ جس میں صرف ایک قندیل روشن تھی۔اورجب وہ رنگین قندیل نگاہ سے دورہوجاتی توگھٹاٹوپ اندھیراچھاجاتااورکچھ دکھائی نہ دیتا۔
”ابے توہے۔“رضااسے یوں کھڑے دیکھ کرچلایا۔”یہاں کیاکررہاہے توجیسے کوئی کھوگیاہو۔“
”کوئی نہیں “ایلی نے جواب دیا۔”میں خودکھوگیاہوں رضا۔“وہ پہلادن تھاجب اس نے رضاکے روبرواس بات کااقرارکیاتھا۔اگراس وقت رضااس کی بات نہ کاٹتاغالباًوہ اپناسراس کے کندھے پررکھ کررودیتا۔اورروروکراپنی داستان کہہ دیتا۔لیکن اس روزنہ جانے رضاخودکسی رنگین اضطراب میں کھویاہواتھا۔
”ارے یار“وہ بولا”آج وہ رونق ہے وہ مشغلے ہیں کہ حدہے۔ہرلڑکاکسی نہ کسی داؤپرلگاہے۔لڑکیوں کے جھنڈکے جھنڈآجارہے ہیں۔تانک جھانک ہورہی ہے۔لوگ ڈیوڑھیوں اورتنگ گلیوں میں گھوم پھررہے ہیں اورتو۔تویہاں کھڑاہے جیسے۔“
ایلی چپ کھڑارہا۔اس خاموش دیکھ کررضابولا”آئیں سائیں کے پیڑے کھلاؤں کیایادکرے گاتوچل اب۔“اوروہ دونوں سائیں کی دکان کی طرف چل پڑے۔دیرتک وہ دونوںچپ چاپ چلتے رہے ایلی اپنے خیال میں کھویاہواتھا۔اوررضاکسی اپنی ہی بات میں مگن تھا۔
فرق یہ تھاکہ ایلی کی خاموشی مایوسی بھری تھی اوررضامیں ایک امیدبھرااضطراب کروٹیں لے رہاتھا۔
دفعتاًایلی رک گیا۔”رضاایک بات کہوں۔“
”کہو۔“رضانے اپنامونٹازمین پرٹیک کرلنگڑی ٹانگ اٹھائی”کہو۔“وہ بولا۔
اس وقت ایلی کواحساس ہواکہ اس نے رضاسے کچھ کہاہے۔شاید وہ اپنارازبتانے کے لیے مضطرب ہورہاتھا۔
”کہونا“رضابے تابانہ بولا۔
ایلی کوسمجھ میں نہیں آتاتھاکہ کیاکہے۔وہ ایک ساعت کے لیے سوچتارہا۔پھربولا
”رضامیراجی نہیں لگتا۔“
”توپھر“وہ بولا
”پھر“ایلی نے دوہرایا۔اسے سمجھ نہیں آرہاتھاکہ پھرکے جواب میں کیاکہے۔
”یہاںسے کہیں چلے جائیں؟“ایلی کے منہ سے نکل گیا۔
”لیکن جائیں کہاں۔“ایلی نے پوچھا
”ہاںیہ سوچنے کی بات ہے۔“رضابولاپھردفعتاًوہ چلایا”ارے وہ ارجمندجوہے بیچاراکب سے ہماری راہ دیکھ رہاہے۔بیمارپڑاہے۔کہتے ہیں دق ہے۔اس کابڑابھائی توجوانی میں دق سے مراتھا۔“
”ہاں ارجمندجوہے۔“ایلی نے محسوس کیاکہ علی پورسے جانے کاشوق مدھم پڑتاجارہاہے۔
”توکب چلیں؟“رضانے پوچھا۔”آج ہی سہی۔چاہے ابھی چلو۔“
ایلی سوچ میں پڑگیا۔
رضانے سونٹادونوں ہاتھوں میں تھام لیا”اب آپ ہی بات کرکے پیچھے ہٹتاہے بے۔“وہ اسے گھورنے لگا۔
ایلی بھی جوش میں آگیا”توچل ابھی سہی۔میں اپناسوٹ کیس اٹھالاؤں۔“”ہوں سوٹ کیس“رضاچلایااس کی کیاضرورت ہوگی۔بابوبناپھرتاہے۔“
”اچھاتوابھی لاسوٹ کیس اپنامیں انتظارکروں گا۔“
”تونہیں جائے گاگھراطلاع دینے۔“ایلی نے پوچھا۔
”اپناکیاہے۔“وہ بولا”کسی کے ہاتھ کہلابھیجوں گاکہ مال لینے جارہاہوں۔“توجا۔بھاگ۔“
جب ایلی گھرپہنچاتواس کادل دومتضادخواہشات میں بٹاہواتھا۔ایک لمحے میں اسے خیال آتااسے بتائے بغیرمیں کیسے جاسکتاہوں۔جب اسی معلوم ہوگاتووہ کیاکہے گا۔اورپھرآٹھ چھٹیاں ضائع کردیناپھرنہ جانے کب علی پورآنانصیب ہو۔
دوسرے لمحے وہ سوچتایہاں کیوں بیٹھااس کاانتظارکھینچتارہوں اوروہ یوں گانے میں اوربری جہیزدیکھنے میں مصروف رہے۔گاناتومحض بہانہ ہوتاہے۔مقصدتواپنی نمائش کرناہوتاہے۔اوراورپھراس وقت اس کی نگاہوںتلے وہ کھجاتاہوابھالوآکھڑاہوتا۔شہزاد ڈگڈگی بجابجاکرگاتی اس خیال پرایلی کوازسرنوغصہ آگیا۔اس نے لپک کرسوٹ کیس اٹھالیااورچپکے سے سیڑھیاں اترنے لگا۔راستے میں کئی بارجی چاہاکہ لوٹ جائے۔
علی پورسے نکلتے ہی ایلی کووہاں سے چلے آنے پرافسوس ہونے لگا۔دل میں دردہونے لگا۔گاڑی چھکاچھک چلے جارہی تھی۔دورہرے بھرے کھیتوں کے پرے شہزاداس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہی تھی۔”نہ جاؤنہ جاؤتم کیوں چلے گئے ہوایلی کیاتم مجھ پراعتمادنہیں کرسکتے۔“
”ایلی ۔“شہزادچیخ رہی تھی چلارہی تھی۔
سٹیشن پراترنے کے بعدایلی سے ان چندکچے گھروندوں پرنگاہ ڈالی جوریلوے سٹیشن کے پاس ڈھیرہورہے تھے۔
چمارکی دوکان پرچارایک آدمی کھاٹ پربیٹھے حقہ پی رہے تھے۔
ان کے قریب ہی دوآدمی زمین پربیٹھے اونگھ رہے تھے۔بائیں ہاتھ کیکرکے درخت تلے ایک گدھاکھڑاتھاجس پرلکڑیاں لدی ہوئی تھیں اس کے قریب ہی کونیں پرچارایک بھدی اورمیلی عورتیں پانی بھررہی تھیں۔کچے گھروندوں کے چاروں طرف دوردورتک بنجرزمین کاوسیع پھیلاؤ۔
گاؤں دیکھ کرایلی گھبراگیا۔”کیایہی گاؤں ہے۔“اس نے رضاسے پوچھا۔”یہ محض ویرانہ ہے۔“
”اورکیاہوپیارے۔“رضاچلایا۔”گاؤں توایسے ہی ہوتے ہیں۔“
”لیکن لیکن ارجمندتوکہتاتھا۔“
رضانے قہقہہ لگایا”اسے توبکنے کی عادت ہے بکے جاتاہے۔“”وہ توبندرابن بنائے بیٹھاہے۔“ایلی نے کہا۔
”دیکھ لوبندرابن“رضاہنسنے لگا۔
”وہ توکارخانے میں کام کرتاہے نا۔“ایلی نے پوچھا۔
جلوکاتارپین کاکارخانہ گاؤں سے میل کے فاصلے پرتھا۔سٹیشن سے ایک چھوٹی سی لائن کارخانے کی طرف جاتی تھی جس پرچھوٹی چھوٹی ٹرالیاں چلتی تھیں۔
کارخانہ ایک وسیع چوگان میں تھاجس میں عمارتیں اورمشینیںتوکافی تھیںلیکن بیشترعمارتیں ویران پڑی تھیںاوراکثرمشینیں بے کارکھڑی زنگ آلودہوچکی تھیں۔
کارخانے کے جنوبی حصے میں مزدوروں اورملازمین کے لیے کواٹروں کی چندقطاریں بنی ہوئی تھیں۔بہت دیرتلاش کے بعدانہیں ارجمندکاگھرملا۔
مرلی کارسیا
وہ ایک چھوٹاساکوارٹرتھا۔مختصرسے صحن میں ایک چھوٹاساباورچی خانہ اورغسل خانہ بناہواتھا۔دوسری طرف ایک کمرہ تھا۔
کمرے میں ایک طرف چارپائی پرارجمندلیٹاہواتھا۔چارپائی کے قریب اس کی ماں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔دوسری طرف ارجمندکی ہمشیرہ چپ چاپ بیٹھی رو رہی تھی۔
چارپائی پرارجمندکاڈھانچہ پڑاہواتھا۔چہرے کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں‘آنکھوں کے گردسیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے۔ایلی نے گھبراکرچاروں طرف دیکھا”یااللہ یہ میں کہاں آگیاہوں۔“اس کے قریب رضالاٹھی زمین سے ٹیکے چپ چاپ کھڑاتھا۔
دفعتاً ارجمندکی ماں نے ان دونوں کودیکھا۔ایک ساعت کے لیے انہیں پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتی رہی پھرچونکی۔اس نے مسکرانے کی شدیدکوشش کی۔لیکن اس کی ہچکی نکل گئی۔اورپھرٹپ ٹپ آنسوگرنے لگے۔
”دیکھ توبیٹا۔“وہ بھرائی ہوئی آوازمیں بولی۔”تیرے دوست تجھ سے ملنے آئے ہیں۔دیکھ توادھرآنکھیں توکھول۔“لیکن ارجمنداسی طرح آنکھیں بندکیے پڑارہا۔
وہ ایلی اوررضاسے مخاطب ہوکربولی”اسے تواپنی سدھ بھی نہیں رہی۔بس یوں ہی آنکھیں بندکیے پڑارہتاہے۔نہ خودبات کرتاہے۔نہ کسی کی بات سنتاہے۔آؤ بیٹھ جاؤ۔دیکھ لواپنے دوست کاحال۔“
وہ دونوں چپ چاپ چوکیوں پربیٹھ گئے ماں پھراپنے بیٹے کی طرف کی ٹکٹکی باندھ کردیکھنے میں کھوگئی اورکواٹرپرایک خوفناک خاموشی مسلط ہوگئی۔
نہ جانے کب تک وہ یوں ہی چپ چاپ بیٹھے رہے۔
رضانے اپناسرگھنٹوں میں دے رکھاتھا۔ایلی غورسے ارجمندکی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہاتھا۔پھراس کی نگاہ اس میزپرپڑی جوارجمندکے سرہانے پڑی تھی۔میزپرایک موتی سی مجلدکاپی تھی جس کے سرورق پرخوش خط حروف میں انکراینڈی ماباؤں لکھاہواتھا۔ایک طرف بانسری دیوارسے لگی کھڑی تھی۔اوراس کے قریب ہی سستی خوشبوکی چندخالی شیشیاںتھیںاوراشعارکی کئی ایک چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑی تھیں اپنی انکراینڈی پریم سندیس پریم پتراورپونم ٹوناسے بے نیازگوکل کے بن کاوہ کنہیاآنکھیں بندکیے ہوں بے حس لیتاہواتھاجیسے اس میں حرکت کی سکت نہ رہی ہو۔“
اس منظرکودیکھ کرایلی کاجی چاہتاتھاکہ چیخیں مارمارکررودے۔
دفعتاًارجمندکوکھانسی کادورہ شروع ہوگیااوراس کاساراجسم کھانسی کی شدت سے لرزنے لگا۔سینے میں دھنکی سی چل رہی تھی۔ہڈیاں چیختی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ماں نے بڑھ کراسے تھام لیا۔بہن چونے بھراپیالہ اٹھاکرپاس آکھڑی ہوئی تاکہ اسے تھوکنے میں دقت نہ ہو۔دیرتک ہڈیوں کاڈھانچہ یوں ہلتارہا۔جیسے روئی سے بناہواہو۔پھراس نے منہ کھول دیااوربسرپرخون کی پچکاری سی چل گئی۔ماں نے اسی لٹادیا۔اس کی آنکھیں کھلی تھیں لیکن ان میں دیکھنے کی سکت نہ تھی ماں چلانے لگی۔”بیٹادیکھ توتیرے دوست آئے ہیں۔“مگروہ جوں کاتوں پڑارہا۔
پھرایلی اٹھ کراس کے سامنے چارپائی پرجابیٹھا۔“ارجمند”ا س نے اسے آوازدی۔”ارجمندارجمند۔“ارجمندکی نگاہ میں ایک چمک لہرائی۔
”میں ہوں ارجمندمیں اوررضابھی آیاہے۔“ایلی سے رضاکی طرف اشارہ کیا۔ارجمندنے گردن موڑنے کی کوشش کی اپنی بے بسی محسوس کرکے اس کی آنکھیں پرنم ہوگئیں۔
”کوئی بات کران سے بیٹا۔“اس کی ماں آنسوپونچھتے ہوئے بولی۔
”کیاحال ہے تیرا۔“ایلی نے چلاکرکہا۔
ارجمندنے بعدمشکل اپناہاتھ اٹھایااوریوں اشارہ کیاجیسے کہہ رہاہو”ٹھیک ہوں میں۔“
”جلدجلدصحت یاب ہونا۔“وہ بولا۔
ارجمندمسکرادیا۔
دوروزانہوں نے وہاں قیام کیا۔پہلے دن توارجمندان سے کوئی بات نہ کرسکامگراگلی روزاس کی طبیعت بہترمعلوم ہوتی تھی۔
”تم اچھے ہونا۔“”ارجمندنے اشاروں کی مددسے ایلی سے پوچھا۔
”تم اپنی بات کرو۔“ایلی نے جواب دیا۔
”مزے میں ہوں۔“وہ بولا”لیکن تم دیرسے آئے ہو۔بہت دیرسے۔“ارجمندنے رک رک کرکہا۔
”کیوں اب کیاہے۔“رضانے پوچھا۔
”اب ۔اب۔“وہ سوچ میں پڑگیا۔”اب بھی ٹھیک ہے۔لیکن وہ تمہیں بندرابن کون دکھائے گا۔اوراوروہ۔“رک گیا۔
”ابے مسخرے یہ کیاڈھونگ رچایاہے تونے ۔“رضانے شرارت سے کہا۔
”ڈھونگ رچائے بنارہے ہیں کبھی۔“وہ بولا”اماں ڈھونگ بھی نہ ہوتوہوکیا۔“
”اب جلدٹھیک ہوجانا۔اورعلی پورآؤ۔بیاہ ہورہے وہاں۔“
”کپ کیپ کی سناؤ۔“ارجمندنے مسکراتے ہوئے کہا۔”مری تونہیں جارہی اپنے فراق میں۔“
”توشرارت سے کب بازآئے گا۔“رضاچلایا۔
”اونہوں“ارجمندبولا”بازآنااپن کاکام نہیں۔“
وہ دونوں ہنسنے لگے۔
”وہاں جاکریہی کام کروں گا۔“ارجمندنے کہا۔
”کہاں جاکر۔“ایلی نے پوچھا۔
”وہیں “وہ بولا”بڑامزارہے گاوہاں۔“
”بکواس نہ کر۔“رضاچلایا۔
”اونہوں “وہ ہنسا“یہ بندنہ ہوگی۔“
دیرتک وہ باتیں کرتے رہے۔پھرایلی اوررضااٹھ بیٹھے ”اچھااب ہم جاتے ہیں۔“
”اونہوں ۔“ارجمندنے سرہلایا۔
”پیچھے دوکان اکیلی ہے۔“رضابولا۔
”ہمیں اب اجازت ہی دو۔“ایلی نے کہا۔
ارجمندنے غورسے ان کی طرف دیکھا۔اورجب ایلی رضامصافحہ کرنے لگے۔ارجمندکاہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاماتواس کی آنکھ سے ایک آنسوڈھلک کررخسارپربہہ گیا۔
”دل برانہ کروارجی۔“ایلی نے کہا”پھرملیں گے۔“
ارجمندکی آنکھ میں عجیب سی مایوسی تھی۔بے بسی بھری مایوسی۔
”اچھاخداحافظ“رضانے کہا۔اوروہ دونوں چپ چاپ باہرنکل آئے۔
سٹیشن تک وہ دونوں چپ چاپ چلتے رہے۔ان کے دلوں پربوجھ پڑاہواتھا۔
چاروں طرف اداسی چھائی ہوئی تھی۔فضابوجھل محسوس ہورہی تھی۔اوروہ رینگتاہواویرانہ پھیل کرکیالامتناہی ہواجارہاتھا۔
گاؤں کے قریب پہنچ کروہ دونوں ر ک گئے۔
”کنویں سے پانی نہ پی لوں تھوڑاسا۔“رضانے کہا۔
”پی لو۔“اوروہ دونوں کنویں کے طرف چل پڑے۔
کنویں پرعورتیں پانی بھررہی تھیں۔
”بہن پانی پلانا ذرا۔”رضانے اپنے مخصوص اندازمیں کہا۔پانی پی کروہ دونوں چل پڑے۔
کنویں پرعورتیں ان کے متعلق باتیں کرنے لگیں۔
”کون تھے یہ؟“کوئی پوچھ رہی تھی۔
ایک مردکہہ رہاتھا۔”کارخانے میں کسی کے مہماں آئے تھے۔وہ پتلادبلاچھوکراسٹوروالا----“
”اچھاوہ سودائی سا“ایک ہنسنے لگی۔
”ہاں ہاں وہی۔“
”سناہے آج کل بیمارپڑاہے۔بڑاروگ کہتے ہیں۔“
”تت تت تت تت بیچارہ۔“
ایلی کے روبروارجمندکھڑامسکرارہاتھاسمجھے ہواس کے کہتے ہیں لاج گوکل کی دیویاں لاج پال ہیں۔جان جائے پرآن نہ جائے۔اندرہی اندرمحبت کی آگ سے پھلک مریں گی۔لیکن مکھ تک بات آجائے اونہوں۔دھنیاہے گوپیوںنے آج کرشن کنہیاکی بھی لاج رکھ لی۔کیاسمجھے۔یہ کہہ وہ مرلی کارسیابانسری بجانے لگا۔
کنویں پرکھڑی وہ مٹیارہنس رہی تھی۔”تیری طرف ہی دیکھ دیکھ کرآنکھیں مٹکایاکرتاتھااورپھریوں مرلی بجانے لگتاجیسے بڑابین کارہوپرخاک بھی نہ بجتی تھی اس سے۔“
کاکاکاکایں درخت سے بیٹھاہواکوابولنے لگاجیسے کسی مرلی کے رسیاکی نقل اتارہو۔دورگاؤں کی چکی ہونک رہی تھی۔اورکھیتوں میں کوئی ماہیاگارہاتھا۔
”اساں کل ترونجناں تساں راہ پئے تکنے نی۔“
ان جان تیاگ
دیرتک وہ دونون سٹیشن کے بنچ پراس رینگتے ہوئے ویرانے میں بیٹھے گاڑی کاانتظارکرتے رہے۔وہ دونوں خاموش بیٹھے تھے۔دوایک باررضانے بات کرنے کی کوشش کی تھی۔لیکن وہ بات اس مسلط اورمحیط اداسی کے پھیلاؤمیں یوں بے کارہوکررہ گئی تھی جیسے ریگستان میں پانی کی ایک بوندگرگئی ہو۔
پھرجب گاڑی کی گھنٹی بجی تووہ چونکے ۔”میں ٹکٹ لے آؤں۔“رضانے کہا۔
”صرف ایک لانا۔“ایلی نے کہا۔
”ایک “رضانے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
”ہاں “ایلی نے رضاکی طرف دیکھے بغیرکہا”ایک۔“
”کیوں؟“
”بس۔“
”تم کیایہیں بیٹھے رہوگے باقی عمر“رضانے پوچھا۔
”نہیں ۔“ایلی بولا۔
”توپھر۔“
”میں علی پورنہیں جاؤں گا۔“ایلی نے جواب دیا۔
”توکہاں جاؤگے ؟“
”لاہور۔“ایلی سوچے سمجھے بغیربولا۔اس چھائی ہوئی اداسی اورویرانی نے نہ جانے ایلی پرکیاجادوکردیاتھا۔اس کی نگاہ میں شہزاداوراس کی تمام رنگینیاں عبث ہوکررہ گئی تھیں۔وہ محسوس کررہاتھاجیسے اس نے ساری دنیاکوتیاگ دیاہو۔اورسادھوبن کرباہر نکل آیاہو۔
”لیکن۔“رضابولا۔”محلے میں تواتنی شادیاں ہیں۔“
”شادیاں۔“ایلی نے براسامنہ بنایا”ہونے دو۔“
”اوراور۔“رضانے پوچھا“اوروہ۔“
”وہ “ایلی نے تعجب سے پوچھا”اوروہ۔“
”کیااسے نہ ملوگے؟“رضانے پوچھا۔
”کیافرق پڑتاہے۔“ایلی نے سمجھے بغیرآہ بھری۔
”اورتمہاری چھٹیاں۔“
”چھٹی ہی چھٹی ہے اب اورکیا۔“ایلی بولا۔
”اوہ۔“رضاخاموش ہوگیا۔دیرتک وہ خاموش بیٹھے رہے۔
جب گاڑی آئی تورضانے ایک مرتبہ پھرایلی کی منت کی ۔”چلواکٹھے چلتے ہیں۔“
”اوں ہوں۔“ایلی نے جواب دیا۔
”تومیں اسے کیاجواب دوں گا۔“رضانے پوچھا۔
”جوجی چاہے کہہ دینا۔“ایلی نے آہ بھری۔
”وہ مجھ سے ناراض ہوگی۔“
”مجھ سے کون سی خوشی ہے وہ۔“ایلی سوچے بغیرباتیں کیے جارہاتھا۔اس وقت وہ بھول چکاتھاکہ رضااس کے متعلق بات کررہاہے ۔جس کے متعلق وہ کسی سے بات کرنے کوتیارنہ تھا۔
لاہورپہنچ کرایلی یوں چارپائی پرلیٹ گیاجیسے اس وسیع دنیامیں اس کے لیے کوئی جگہ نہ ہوجیسے دنیامحض ایک ویرانہ ہولق ودق ویرانہ۔
نیابورڈنک خالی پڑاتھا۔لڑکے اپنے اپنے گھرگئے ہوئے تھے۔صرف چندایک نوکروہاںیوں گھومتے پھرتے دکھائی دیتے تھے۔جیسے کسی پرانے قلعے میں بھوت چل پھررہے ہوں۔
چارروزوہ چپ چاپ اپنے کمرے میں پڑارہا۔اس کاذہن ایک خلامیں تبدیل ہوچکاتھا۔علی پورشہزادنیم نیم گویااس کی زندگی سے معدوم ہوچکے تھے۔
کریسنٹ ہوسٹل
پھرآہستہ آہستہ کریسنٹ ہوسٹل میں حرکت پیداہوئی اوروہ نئے ماحول میں کھوگیا۔
کریسنٹ ہوسٹل میں ریوازسے قطعی طورپرمختلف تھا۔اس میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ہرشخص کوایک الگ کمراحاصل تھا۔جب بھی وہ چاہتااپنے کمرے میں جاکرلوگوں کواپنی زندگی سے خارج کرسکتاتھااورجب چاہتاکمرے سے باہر نکل کربھیڑمیں شامل ہوسکتاتھا۔اگرچہ بھیڑمیں شامل ہونے کی خواہش اس نے کبھی محسوس نہ کی تھی اس کے برعکس ریوازہوسٹل میں کمرے کے اندراورکمرے کے باہرہرجگہ بھیڑلگی رہتی تھی۔اس بھیڑسے بچناقطعی طورپرناممکن تھا۔لیکن یہاں اس نئے ہوسٹل میں کمرے سے باہر بھی بھیڑنہ تھی۔یہاں باہربھی افرادتھے ایسے افرادتھے جواس کی طرح ازلی طورپراکیلے تھے تنہاتھے۔
کریسنٹ ہوسٹل میں پہنچ کراس نے غالباً پہلی مرتبہ محسوس کیابیشترافراداکیلے اورتنہاہونے کی وجہ سے لوگوں کے شوروشغب سے دوربھاگتے ہیں۔اس احساس کوردکرنے کے لیے ہنگامہ پیداکرتے ہیںاوربھیڑکی طرف بھاگتے ہیں یابھیڑلگالیتے ہیں۔
کریسنٹ ہوسٹل میں جاکراسے تسلی سی ہوگئی۔اب وہ دوسرے طالب علموں سے اس حدتک نہیں ڈرتاتھا۔شایداسے لیے کہ اس نے سمجھ لیاتھاکہ بھیڑلگانے والے خوداحساس تنہائی اوراحساس کمتری سے عاجزآئے ہوتے ہیں---اس کے علاوہ اب وہ فسٹ ائیرکانہیں بلکہ تھرڈائیرکاطالب علم تھا۔اگرچہ اس کے باوجودکالج کے بیشترپروفیسراورلڑکے اس سے قطعی طورپرناآشناتھے۔
بہرصورت اس نئے ہوسٹل میں اسے تنہائی میسرتھی اوراس لیے ہوسٹل کے لڑکوں کی نگاہیں اس کی آمدورفت میں دخل اندازنہیں ہوتی تیھں اسے چھیڑتی نہ تھیں اس پرتمسخرسے ہنستی نہ تھیں۔جب بھی ایلی پرشہزادطاری ہوجاتی تووہ اپنے کمرے میں جاگھستااوردروازہ بندکرکے چارپائی پرلیٹ کربیتی ہوئی باتیں ازسرنوبیتناشروع کردیتا۔یوں زندگی کی ویرانی کوبرطرف کرنے کے لئے تخیل کاسہارالیتا۔اورجب اس سے بھی تسکین نہ ہوتی توچپ چاپ اٹھ بیٹھتا‘اورکسی سینمامیں بیٹھ کرایلمواورپیڈروبہادرکے کارنامے دیکھتااورپھرواپس اپنے کمرے میں پہنچ کرچارپائی پرلیٹ کراپنی لیڈنگ لیڈی کواس قیدخانے سے چھڑانے کی تجاویزسوچتاتخیل میں ان تجاویزکوعملی صورت دیتا۔اس کی زندگی میں شہزادسے بڑھ کرکوئی عشرت نہ تھی۔
لیکن جب سے وہ ارجمندسے مل کرآیاتھا۔یہ خوش فہمی پیداکرنے کی کوشش میں شدت سے لگاہواتھاکہ شہزادکی بے پروائی کے پیش نظراسے اس سے چنداں دلچسپی نہیں رہی۔اسے اس پرغصہ آتاتھاکہ جب شہزاداس کی طرف سے اس حدتک بے پرواہ ہوسکتی ہے تووہ اس کامحتاج کیو ں ہے۔اس کے دل میں میں شہزادکے لیے اس حدتک نیازکیوں ہے۔اس خیال پراسے دکھ ہوتااوراس دکھ کی کسک سے مخلصی پانے کے لیے وہ یہ اعتبارپیداکرناچاہتاتھاکہ اسے بھی شہزادکی چنداں پروا نہیں پرواہ توتھی لیکن صرف اسی صورت میں کہ شہزادکوبھی اس کی چاہ ہو۔وہ بھی اس کاانتظارکھینچے۔وہ بھی اس کے بغیرنہ رہ سکے۔
کریسنٹ کے نئے ماحول میں اس نے اس اعتبارکوتقویت دینے کی کوشش کی۔جونہی اس کی توجہ شہزادکے بھنورسے نکلی تواس نے دیکھاکہ بھاہ اس کی طرف دیکھ دیکھ کرمسکرارہاہے۔
بھااورجاہ
بھاکی مسکراہٹ میں تمسخرنام کونہ تھا۔الٹااس میں توبلاکاخلوص ہمدردی اوراک ان جانی بے نام سی گرمی تھی۔محبت تھی۔ایسی محبت نہیںجیسی اسے شہزادسے تھی جوجلاکربھسم کردیتی تھی۔بلکہ ایک ایسی گرمی جس کے تحت سکون ملتاہے۔ٹھنڈی مٹھاس بھری مدھم گرمی۔بھادوسروں کوکڑی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔الٹاوہ تونگاہیں جھکالیتاتھااورپھربن دیکھے دوسرے کے قرب کومحسوس کرتااورمسکراتاجیسے کہہ رہاہومیں جانتاہوں۔میں تمہاری مشکلات کاحل ہوں۔میں تمہاری آماجگاہ بن سکتاہوں۔اگرتم چاہو۔ورنہ کوئی بات نہیں کوئی بات نہیں۔“
بھاہ کی عادت تھی کہ وہ ہروقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتاتھا۔دن میں کئی مرتبہ وضوکرتا۔اکثرنمازپڑھتانظرآتااورہاتھ دھوناتواس کامسلسل شغل تھا۔اسے ہاتھ دھوتے دیکھ کرایسامعلوم ہوتاتھاجیسے وہ سمجھتاہوکہ اس کے ہاتھ کبھی صاف نہیں ہوسکتے۔اگرچہ وہ دیکھنے میں شیشے کی طرح صاف اورچمکدارتھے پھرنہ جانے کیوں بارباربھاکی توجہ ہاتھوں کی طرف مبذول ہوجاتی اوروہ کہتا”اچھاتومیں ذراہاتھ دھولوں۔“ہاتھ دھونے کے بعددیرتک وہ اپنے صاف ستھرے ہاتھوں کوتولیے سے رگڑرگڑکرصاف کرتارہتا۔
بھاکی طبیعت میں مٹھاس کے علاوہ ایک نظم بھی تھا۔اس کی ہربات قاعدہ کے مطابق ہوتی۔ہرکام پروگرام کے تحت تکمیل پاتاتھا۔نظم کے اس شدیدجذبے کی وجہ سے لوگ اسے ایسی کام سونپ دیاکرتے جوباقاعدگی اورسلیقے کے بغیرسرانجام نہیں دیئے جاسکتے اورجومسلسل توجہ چاہتے ہیں۔اگرکسی کاپن خراب ہوجاتاتووہ اسے بھاہ کودے دیتا۔”بھایہ ذرادیکھناتواس قلم میںکیاگڑبڑہے۔“اگرکسی کی گھڑی صیحح وقت نہ دیتی ہوتووہ بھی بھاہ کوسونپ دی جاتی۔
ایسی چیزبھاکودیتے ہوئے تاکیدتوجہ یااحتیاط سے متعلق ہدایات دینابالکل عبث تھا۔چیزبھاکودکھاناہی کافی تھا۔”بھایہ ذرادیکھنا۔“اورپھربھاکی تمام ترتوجہ اس پرمرکوزہوجاتی اس حدتک کہ وہ ہروقت اسے اٹھائے پھرتااورراہ چلتے یافرصت کے وقت بیٹھے ہوئے اسے ٹھیک کرنے میں شدت سے مصروف رہتااورجب وہ ٹھیک ہوجاتی تودفعتاً اس چیزسے بھاکی دلچسپی ختم ہوجاتی۔
بھاکوٹوٹی ہوئی اوربگڑی ہوئی چیزوں کوبنانے سنوارنے سے دلچسپی تھی۔لیکن ایسے محسوس ہوتاتھاجیسے وہ خودایک ٹوٹی ہوئی چیزہو۔لیکن اپنے آپ کوبنانے سنوارنے کی اس نے کبھی کوشش نہ کی تھی۔اسے بننے سنورنے سے قطعی طورپردلچسپی نہ تھی۔اسے دیکھ کرمحسوس ہوتاتھاجیسے مٹی کادیاہوجومدھم لوجل رہاہو۔بھانے کی کبھی بھڑک کرجلنے کی کوشش نہ کی تھی۔اس کی شخصیت اس فروعی چمک سے عاری تھی جوکالج کے لڑکے اپنی طرف توجہ منعطف کرنے کے لیے پیداکرنے کے عادی ہوتے ہیں۔
ویسے بھڑک کرجلنے کی خواہش جاہ میں بھی نہ تھی بنیادی طورپروہ بھی جھونپڑے ہی کاچراغ تھا۔لیکن اس کے اندازمیںایک عجیب سی جھجک تھی۔وہ ہرنواردکی آمدپرٹھٹھک کررہ جاتا۔پیشانی پرتیوری چڑھ جاتی ہونٹوں پرتحقیرکی ہلکی لرزش پیداہوتی۔اورپھروہ گویاریشم کے کپڑے کی طرح اپنے کوئے میں گھس جاتا۔لیکن اس عمل کی وجہ سے اسے کوئے میں لیٹے رہنے کی عادت ہوگئی تھی۔اوربسااوقات وہ تنہائی میں بھی بے حسی اوربے پرواہی کے خول میں دبکابیٹھارہتالیکن کبھی کبھااس کی حقیقی شخصیت کی مختصرسی جھلک ایک رنگین اوررنگین محبت بھری مسکراہٹ کی صورت میں ہویداہوتی جیسی برکھارت میں بادلوں میں سے سورج کی شعاعیں پھوٹ نکلتی ہیں اورایک ساعت کے لیے منظرپررنگین دھاریاں دکھائی دیتی ہیں۔
جاہ کے اس جھجک اورڈرکامظاہرکوئی جوازدکھائی نہ دیتاتھا۔لیکن اس کی شدت سے ظاہرتھاکہ یہ نقوش کسی شدیدذہنی طوفان کے چھوڑے ہوئے ہیں۔جس کی وجہ سے اس کی شخصیت کادھاراخارجی سمت کی طرف بہنے کی بجائے داخلیت کی طرف مڑگیاتھا۔اوراس طرح وہ اپنی ہی اناکابھنوربناکراس میں ڈبکیاں کھارہاتھا۔
کتابیں
خارجیت سے ہٹ کرجاہ کی توجہ کتابی دنیاکی طرف مبذول ہوگئی تھی۔اوراس کتابی دنیانے حقیقی دنیاکی حیثیت اختیارکرلی تھی جس میں وہ جیتاتھاکتابی کرداروں سے جھجھکے بغیرملتاتھا۔ان سے تعلقات پیداکرتاتھا۔اپنے اردگردان کی بھیڑلگاکربیٹھ رہتاتھاکریسنٹ ہوسٹل میں ایلی کے لیے بھااورجاہ دوپناہ گاہیں تھیں۔اس لیے روزبروزوہ ان دونوں بھائیوں کے قریب ترہوگیا۔ایک دن توان دونوں کے کیوبیکل ایلی کے کمرے کے پاس ہی واقع تھے۔دوسرے وہ دونوں طنزاورتمسخرسے عاری تھے اوران میں دوسروں کامذاق اڑانے کی عادت نہ تھی۔ان سے مل کرایلی کااحساس کمتری ابھرنے کی بجائے دب جاتاتھالیکن اس کے باوجودوہ جاہ سے ایک بعدسامحسوس کرتا۔جاہ کی بظاہرسردمہری ایلی میں جھجھک پیداکرتی تھی۔
جب بھی وہ جاہ کے کمرے میں جاتاتووہ یوں سراٹھاکراس کی طرف دیکھتاجیسے پوچھ رہاہو۔تمہارایہا ں آنے کامطلب؟جاہ کے ماتھے پرتیوری چڑھ جاتی۔ایک ساعت کے لیے وہ ایلی کی طرف دیکھ کرگھورتااورپھربات کیے بغیرمطالعہ میں کھوجاتااورایلی جاہ کے قریب بیٹھےہونے کے باوجودتنہارہ جاتا۔ابتدامیں توایلی جاہ کے اس رویے پرگھبراجاتاتھااورکچھ دیرجاہ کے کمرے میں بیٹھنے کے بعدچپکے سے وہاں سے کھسک آتا۔لیکن آہستہ آہستہ وہ جاہ کی اس عادت سے مانوس ہوتاگیا۔ماناکہ جاہ کی بے رخی اوربے پروائی وہ تھی لیکن دوسرے لڑکوں کی طرح اس کی نگاہیں ٹٹولتی تونہ تھیں۔اورجب بھی وہ جاہ کی بے حس سے گھبراجاتوآزادنہ طورپروہاں سے اٹھ کرآسکتاتھا۔جاہ نے کبھی اس سے نہ پوچھاتھاکہ تم جارہے ہوتم کیوں یاکہاں جارہے ہو۔
باہربرآمدے میں اس کی طرف آنکھ اٹھاکردیکھے بغیربھاگتا۔”ایلی ۔آؤیارمیں تواس گھڑی کے چکرمیں پڑاہوںنہ جانے کیاخرابی ہے۔یہ ٹھیک وقت نہیں دیتی۔وہ سعیدہے ناموٹا۔چوہدری کرم دین کابیٹااس کی ہے یہ گھڑی۔کیاوقت ہوگابھئی اوہ یہ توچاربج گئے۔اچھاتومیں وضوکرلوں“جاہ ٹھٹک کراس کی طرف دیکھتااس کی نگاہ میں شکوک اوراعتراض نمایاں ہوتے اورپھربات کیے بغیرمطالعہ میں کھوجاتاحتیٰ کہ اسے احساس ہی نہ رہتاکہ کوئی شخص کمرے میں بیٹھاہے۔
جاہ کاکمرہ کتابوں اوررسائل اورتصاویرسے بھرارہتاتھا۔ہرماہ کتابوں اوررسائل کاایک نیاگٹھاآجاتا۔اورجاہ اس کے مطالعہ میں کھوجاتا۔صبح سے شام تک جاہ کوان کتب اوررسائل کے علاوہ اورکسی چیزسے دلچسپی نہ تھی پڑھتے پڑھتے وہ آپ ہی آپ ہنسنے لگتا۔”خوب خوب“وہ گویااپنے آپ سے کہتا۔”یہ شخص بھی عجیب مسخراہے ہی ہی ہی ہی۔“
ایلی ہنسنے لگتا۔کون مسخرہ ہے ایلی کی موجودگی کومحسوس کرکے دفعتاً جاہ کااندازبدل جاتاکون مسخرہ ہے جاہ دہراتا”ہوں ہوں“اورپھرجواب کاانتظارکیے بغیروہ پھرسے کتاب میں کھوجاتااورپھرکچھ دیرکے بعدآپ ہنسنے لگتا۔”جروم کے جروم بھی عجیب‘عجیب ہے عجیب ہے“انگلیاں چٹخاتے ہوئے جاہ مدھم آوازمیں بولے جاتااورپھرسے بھول جاتاکہ اس کے کمرے میں کتابوں کے شلف کے قریب کوئی بیٹھاہے ایلی وہاں بیٹھ کرکوئی کتاب یارسالہ کھول کرتصویریں دیکھناشروع کردیتاتھا۔اورچپ چاپ ورق گردانی میں مصروف رہتا۔
اس سے پہلے ایلی کویہ احساس نہ تھاکہ کتاب کالج یاامتحان کے نقطہ نظرسے ہٹ کربھی پڑھاجاسکتاہے جاہ سے مل کراسے پہلی مرتبہ کتاب کااحساس ہوا۔پہلی مرتبہ اسے کتاب کی ورق گردانی کاموقعہ ملالیکن اس کے باوجودکتاب کے نفس مضمون کی اہمیت کااسے احساس نہ تھا۔
پھرکچھ دیرکے بعدآہستہ آہستہ جاہ اپنے کمرے میںایلی کی موجودگی کے احساس سے مانوس ہوتاگیالیکن اس کے باوجودطنزبھری نگاہ یوں کی توں قائم رہی اس کی بے اعتنائی کچھ بڑھ گئی لیکن اس کے ساتھ آشنائی اورمسرت کے ان لمحات کی تعدادبھی بڑھ گئی جب وہ اپنے کوئے سے باہرنکلتاتھا۔
رنگین بھنور
علی پورسے آنے کے بعدایک ہی بارایلی کے دل میں ایک عجیب سی خواہش ابھرآئی تھی۔وہ چاہتاتھاکہ شہزادکے خیال کے بھنورسے نکل جائے۔وہ خوب جانتاتھاکہ شہزادکاسحراس حدتک مسلط اورمحیط ہوچکاہے کہ اس سے بچاؤممکن نہیں لیکن شہزادکی بے پروائی کی وجہ سے اس کے دل میں ایک کرب پیداہوتاتھاایک ایساکرب جواس کی روح کویوں بلوتاجیسے دہی کاایک برتن ہوبسااوقات سوتے وقت جب اسے شہزادکاخیال آتاتواس کے ذہن میںشہزادکابھرے ہوئے تاروں سے بھرانقاب آجاتااوران ابھرے ہوئے تاروں کوگنتا۔اس وقت ایک گوشت کالوتھڑاغفورکی شکل اختیارکرلیتا۔”ہی ہی ہی ہی“وہ قہقہہ مارکرہنستاہنستے ہنستے اس منہ نبات کارنگ اختیارکرلیتا۔بازواورٹانگیں کٹ جاتی اوروہ چلاتا۔”ایلی تم ایلی۔“ایلی کی نگاہ تلے اس وقت وہ اندھیری بندبیٹھک ابھرآتی بیٹھک کے وسط میں آب زم زم کی ایک جھیل ابھرتی اورجھیل میں سے شہزادسرنکال کرکہتی ایلی تم۔اس وقت شہزادکے اندازمیں طنزیہ تمسخرکاایک طوفان کھولتااورایلی کواپنی لپیٹ میں لے لیتا۔پھرگوشت کاٹنڈمنڈلوتھڑاقہقہہ لگاتا”تم۔تم۔“
اس وقت مختلف شکلیں ایلی کے روبروآکرناچتیں گاتیں بھیڑئیے کی کھال اترجاتی اوراندرسے علی احمدہنستے شہزادیہ تم کیابچوں کواکٹھاکرکے بیٹھ رہتی ہوکبھی ہمارے ہاں بھی آؤناکیاکہتی ہے ۔ہی ہی ہی ہی۔“
تھیڑکاپردہ اٹھتااورصفدرایک ڈرامائی اندازسے داخل ہوکرکہتا۔”ایلی ایلی میری طرف دیکھومیں یہیں رہتاہوں اس رنگین چوبارے کے نیچے میں یہاں دہلیزپرپڑاہوں کبھی مجھے بھی مل لیاکرو۔کبھی مجھے بھی مل لیاکرو کبھی مجھے بھی مل لیا---“پھروہ گانے لگتا۔”اے دلبرہوں میں فدا۔“گاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں گلابی پھوارپڑنے لگتی پیشانی پردیاروشن ہوجاتا۔اورگاتے ہوئے شہزادکی طرف مسکرامسکراکردیکھتے ہوئے ہوسٹیج سے باہر نکل جاتا۔
پھرشہزاد اٹھ بیٹھتی اورٹرنک کھول کرسفیدپھول داردوپٹہ لے کرکہتی۔”ہاں ہاں مجھے جاناہے ۔مجھے جاناہی ہوگا۔میں جارہی ہوں۔“اورگوشت کالوتھڑاقہقہے لگاتا۔ایکٹرمسکراتااورعلی احمدہنستے ”ہی ہی ہی ہی۔“اورایلی محسوس ہوتاجیسے وہ سب اس پرہنس رہے ہوںاورشہزاددرپردہ ان کے ساتھ ملی ہو۔ساری رات کروٹیں بدلتاآہیں بھرتا۔وہ شدت سی کوشش کرتاکہ ان خیالات کواپنے دامن سے جھٹک دے لیکن ان خیالات سے مخلصی پانااس کے بس کاروگ نہ تھا۔اس روحانی کرب کی وجہ سے وہ چاہتاتھاکہ شہزادکی گرفت سے نکل جائے لیکن اس کے ساتھ ہی شہزادکے قصورکی رنگینی شہزادکی جاذیت اورشہزادکی تسخیرکی عظمت بے پناہ کیف کے حامل تھے۔
صبح کے وقت شہزادکے سحرسے بچنے کے لیے وہ جاہ کے کمرے میں جاپناہ لیتاتھا۔شایداسی وجہ سے اس نے جاہ کی سردمہری اوربے رخی کوگواراکرلیاتھا۔جاہ کی شکوک بھری نگاہوں سے بچنے کے لیے اس نے ان رسائل اخبارات اورکتابوں کی ورق گردانی شروع کردی تھی جن کاجاہ کے کمرے میں ڈھیرلگارہتاتھا۔ایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیاتھاکہ مطالعہ امتحان کے خیال سے ہٹ کربھی ممکن ہے پہلے پہل اس کی توجہ تصاویرکی طرف مبذول ہوئی تھی اورتصاویرکاتفصیلی مفہموم سمجھنے کے لیے اس نے ان کے نیچے لکھے اشارات پڑھنے شروع کردیئے تھے پھرآہستہ آہستہ اس کی توجہ رسائل کے مضامین کی طرف مبذول ہوگئی تھی۔
ایلی کوکتابوں اوررسالوں کی طرف متوجہ دیکھ کرجاہ کی سردمہری تمسخرمیں بدل گئی۔”تم یہ رسالہ پڑھ رہے ہوکیا۔اونہوںکتاب کویوں نہ موڑو۔پہلے کتاب پڑھنے کاسلیقہ سیکھویہاں اورجریدہ یہ دنیاکے عظیم نقوش کامجموعہ ہے اسے دیکھ کرتم کیاسمجھوگے۔“
لیکن ایلی کے لیے جاہ کی باتیں ہاتھی کے دانت کی حیثیت رکھتی تھیں۔اگرچہ وہ باتیں تلخ تھیںلیکن تلخ ترحقائق کی یادایلی کے دل سے محوکرنے کاذریعہ تھیں۔
پھرآہستہ آہستہ ایلی کی ہٹ دھرم
 

قیصرانی

لائبریرین
”اونہوں۔“وہ ویسے ہی بے پرواہی سے بولی۔”میں کیاکروں گی پاگل جانو۔میں تواپنے میاں کوپاگل نہ کرسکی۔“
”وہ توپہلے ہی پاگل ہورہاتھا۔اس کی کیابات “جانوبولی۔
”توبہ پھر“شہزادنے ہنس کرکہا”یہ بھی پہلے ہی سے پاگل ہے۔“
”توبہ ہے۔“جانونے کانوں کوہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔”اب تجھ سے کون کرے بات۔“یہ کہہ کروہ غصے میں اٹھ کرنیچے چلی گئی۔
”تونے مجھے بدنام کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ہے نا“۔شہزادنے آنکھیں اٹھائے بغیرایلی کومخاطب کیے بغیرکہا۔
”سبھی مجھے طعنے دیتے ہیں میں سمجھتی نہیں۔سب سمجھتی ہوں میں لیکن کیاکروں میں ۔تونے مجھے یہاںرہنے کے قابل نہیں چھوڑا۔“
”میں بہت براہوں۔“ایلی نے خلوس سے کہا۔
”ہوگا۔“شہزادنے بے پروائی سے کہا”لیکن مجھے نہ جانے کیوں اچھالگتاہے۔میراجی چاہتاہے تجھے سامنے بٹھائے رکھوں۔سمجھ میںنہیں آتا۔کیوں تیری خاطر میں ان کے ساتھ بھی نہیں گئی کتنی منتیں کی تھیںانہوں نے میری اب کی بارلیکن میراجی ہی نہیں چاہا۔میں نے کہاچلی گئی توپھرنہ جانے کب ملاقات ہوتم سے اورپھرتم نے آنے میں اتنے دن لگادیئے۔انتظارکرتے کرتے آنکھیں تھک گئیں۔“شہزادنے سراٹھایا۔اس کی آنکھیں چھلک رہی تھیں۔آوازبھرائی ہوئی تھی۔”نہ جانے کیاہوگیاایلی۔“وہ بولی”ہائے میں توانجانے ہی میں ماری گئی اوریہ سب محلے والیاں مجھے تمہارے طعنے دیتی ہیں۔جلی کٹی سناتی ہیں۔ہروقت ۔“
”شہزاد۔“ایلی اچھل کراس کے قریب آگیا۔
دفعتاً وہ طلسم ٹوٹااورشہزادگویاجاگ پڑی۔
”نہ “وہ بولی”ایسانہ کرایلی میری اپنی نگاہ میں تومیری عزت رہنے دے۔مجھے اپنی نگامیں نہ گراتمہاراتوکچھ نہیں بگڑے گاایلی میں اپنے آپ سے جاؤں گی۔“
”تومیں کیاکروں۔“ایلی نے گھبراکرکہا۔
”وہیں بیٹھ کرمجھ سے باتیںکر۔میری باتیں سن۔میں اپنی بات کسے سناؤں۔تونے ہی نہ سنی توکون سنے گا۔ایلی۔“وہ دوپٹے کے پلوسے آنسوپونچھنے لگی۔”لیکن تم نے مجھے سمجھاہی نہیں۔توتوصرف ہاتھ پھیلاناجانتاہے۔تجھے دینے کے لیے میرے پاس کیاہے۔کچھ بھی تونہیں کیامانگتاہے مجھ سے جس کے پاس دینے کوکچھ بھی نہ ہواس کے سامنے ہاتھ پھیلانے کافائدہ واہ ایلی۔“اس نے اپناسردوپٹے میں لپیٹ لیااورگٹھڑی بن کرپڑگئی۔
گوشت کالوتھڑا
شام کے وقت شہزادنے کپڑے بدلے اوربڑے اہتمام سے بناؤسنگارکرکے بیٹھ گئی۔ایلی کویہ خیال پیداہوگیاکہ یہ اہتمام اس کی آمدکی وجہ سے ہے ۔شہزادکے اس اہتمام کی وجہ سے بے خوش ہورہاتھا۔
شہزادکی طبیعت میں بلاکی بے نیازی تھی۔اس نے کبھی سنگارکے لیے سرخی یاپاؤڈراستعمال نہ کیاتھااس زمانے میں عورتیں سرخی پاؤڈراستعمال کرنے کوباعث عارسمجھتی تھیں۔کیونکہ بڑی بوڑھے اس بات کوپسندنہیں کرتے تھے کہ عورتیں سرخی پاؤڈرلگاکراپنی نمائش کریں۔اگرچہ خوبصورت کپڑے اورزیورپہننے کومعیوب نہ سمجھا جاتا۔ کپڑااور زیور پہننا توعورت کاازلی حق ہے۔
شہزادہمیشہ خوبصورت کپڑے پہنے رکھتی تھی اگرچہ اس کی پوشاک میں نمائش کی جگہ سادگی کاعنصرہوتاتھااس کی آنکھیں لمبی اورخوبصورت تھیں اوراس کے ماتھے پرقدرتی طورپرایسی مقام پرتل تھاجہاں ہندوعورتیں ٹیکایابندی لگاتی ہیں۔اس کی پیشانی اورآنکھیں اس قدرجاذب نظرتھیں۔کہ ہونٹوں کاموٹاپن اسکے حسن میں کبھی حارج نہیں ہواتھا۔
ایلی اس کے سیاہ جالی داردوپٹے جس پرسفیدپھول گاڑھے ہوئے تھے کودیکھ دیکھ کرحیران ہورہاتھا۔اسے یقین نہیں پڑتاتھاکہ شام کے وقت شہزادکاکپڑے بدل کربیٹھ جانا۔اس کی آمدکی وجہ سے تھا۔یہ کیسے ہوسکتاہے کہ کوئی میرے لیے اس قدرپرواکرے۔میرے لیے بنے سنورے۔پھربھی چوری چوری دل ہی دل میں وہ سمجھ رہاتھاکہ وہ اسی کے لیے ہے‘شام کے کھانے سے فارغ ہو کروہ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ نیچے سے شوربلندہوا۔چھتی گلی سے عورتیں آوازیں دے رہی تھیں ۔بلارہی تھیں۔
”اب توجلدی بھی کرے گی یانہیں۔“جانونے شہزادسے کہا”تویہاں اپنی دھن میں لگی ہے اورسب نیچے تیراانتظارکررہی ہیں۔“
”انتظارکررہی ہیں۔کون انتظارکررہی ہیں۔“ایلی نے پوچھا۔
”اے ہے محلے کی عورتیں اورکون۔شادی والے گھرگانے کے لیے نہ جائے لگی کیا۔توسمجھتاہے یہاں تیرے سرہانے بیٹھ رہے گی کیا۔“
”شادی والے گھر۔“ایلی نے گھبراہٹ بھری شرمندگی سے کہا۔وہ شادیوں کی بات قطعی طورپربھول چکاتھا۔
”اورکہاں “جانو بولی۔”تیری شادی ہوگی توتجھے معلوم ہوگاناکہ شادی شادی والے گھرگانے کے لیے جاناضروری ہوتاہے۔ہاں۔“
”اے ہے کیوں خواہ مخواہ مغزچاٹ رہی ہو۔“شہزادجانوکوکوسنے لگی۔“جاتورہی ہوں۔جلدی آجاؤں گی میں۔“وہ ایلی سے کہنے لگی۔”توجب تک کوئی کتاب پڑھنا“اس نے ایلی پرایک نگاہ التفات ڈالی اورسیاہ پھولداردوپٹے کے سرپرلے یوں آنکھیں بناکرایلی کی طرف دیکھنے لگی کہ اس وقت اس کی قوت گویائی سلب ہوکررہ گئی۔اورپھرجب جانوسیڑھیوں میں داخل ہوگئی توشہزادنے چپکے سے ہاتھ بڑھاکراس کے منہ پرہاتھ رکھ دیا۔اوراس کے چہرے کوسہلاتے ہوئے بولی”سونہ جانا۔میں ابھی آئی۔“یہ کہہ کروہ سیڑھیوں میں داخل ہوگئی اورایلی تنہارہ گیا۔
دیرتک وہ چپ چاپ پڑارہا۔پھردفعتاً اسے خیال آیاکہ شادی والاگھرتووہی ہے جہاں غفوررہتاہے۔
اسے بچپن سے غفورسے نفرت تھی۔صرف غفورسے نہیں ان کے سارے گھرانے سے نفرت تھی۔اگرچہ وہ آصفی محلے میں رہتے تھے اورآصفیوں سے گہرے تعلقات تھے۔پھربھی غفوراوراس کے پانچوں بھائی آصفیوں کونفرت کی نظرسے دیکھاکرتے تھے اورخودکوقریشی کہلواتے تھے۔
وہ محلے سے قطعی طورپرمختلف تھے۔جسمانی لحاظ سے بھی ان کی ساخت الگ ہی تھی۔ان کے جسم بھرے ہوئے تھے قدچھوٹے اورچہر ے گول تھے انہیں دیکھ کرایلی محسوس کیاکرتاتھاجیسے وہ گوشت کے لوتھڑے ہوں ایسے غلیظ ننگے لوتھڑے جیسے علی پورکے بوچڑخانے میں اس نے بارہادیکھے تھے۔جہاں گائیاں اوربھینسیں ذبح کی جاتی تھیں۔حالانکہ غفورکے علاوہ اس کے باقی بھائی بہت شریف سمجھے جاتے تھے۔وہ چپ چاپ سرجھکائے محلے میں داخل ہوتے اورچپ چاپ سرجھکائے باہرنکل آتے۔اول تووہ محلے میں آتے ہی نہیں تھے کیونکہ ان کامکان محلے کے ایک کونے میں واقعہ تھا۔یہ کونہ بازارسے عین ملاہواتھااورانہوں نے براہ راست بازارسے آنے جانے کاراستہ بنارکھاتھاجومحلے کی ڈیوڑھی سے بھی ہٹ کرتھا۔لہٰذاانہیں گھرآنے جانے کے لیے محلے کی ڈیوڑھی میں داخل ہونے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔
انہیں دیکھ کرایلی محسوس کرتاتھاجیسے وہ سب ویسے نہ ہوں جیسے وہ دوسروں کے روبرودکھائی دیتے تھے جھکے ہوئے سرکے باوجودان کی نگاہوں میں محلے کے لیے تمسخرکی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ہونٹوں میں تحقیرکااحساس دباہوامحسوس ہوتاتھا۔جب وہ ادب واحترام سے کسی کوسلام علیکم کہتے تھے تومحسوس ہوتاجیسے محض دکھاوے کے لیے بات کررہے ہوںاوراگران کے ہاں کوئی محلے دارچلاجاتاتواس کی آمدپریوں خاموشی چھاجاتی جیسے نہ جانے کیاہوگیاہو۔حتیٰ کہ نوواردمحسوس ہونے لگتاکہ بگانوں کی محفل میں بیگانہ آگیاہے۔وہ سب کان سے منہ جوڑکربات کرنے والے تھے۔ان کی شکلیں دکھانے کی محسوس ہوتی تھیں اوران کی باتیں ہاتھ دانت۔ممکن ہے ایلی کے یہ احساسات دراصل ایلی کے من گھڑت بغض ہوں۔ممکن ہے کسی وجہ سے ایلی نے لاشعوری الجھن رکھی ہو۔اس کوجائزثابت کرنے کے لیے اس نے ایسے احساسات اختراع کررکھے ہوں۔بہرحال یہ ایک حقیقت تھی کہ ایلی کوغفوراوراس کے بھائیوں سے بغض تھا۔بھائیوں کی بات چھوڑئیے غفورکی ذات سے تواسے بے انتہاچڑتھی اورمحلہ میں ہرکوئی جانتاتھاکہ غفورکے رویے سے خوداس کے بھائی بھی نالاں تھے۔
عام طورپرایلی کی غفورسے ملاقات نہیں ہوتی تھی ۔اوراگرکبھی ہوتی تھی توکچی حویلی کے قریب چونکہ عام طورپرغفورمحلے کی مسجدمیں نہانے جایاکرتاتھانہانے کے لیے وہ اس راستے سے باہر نکلتاتھاجومحلے کے اندرکی چھوٹی گلی میں کھلتاتھا۔ایلی نے چھوٹی گلی میں ہاتھ میں صابن دانی اورتولیہ پکڑے اسے کئی باردیکھاتھا۔وہ بے تکلفی وہ ادھرادھردیکھتاہوابے حس اندازمیں آگے بڑھے چلاجاتا۔اورہرعورت اورلڑکی کی طرف ایسے بے باکانہ دیکھتاجیسے اس کے جسم کوجانچ رہاہو۔جیسے قصائی بوچڑخانے میں گایوں کی طرف دیکھاکرتے تھے۔ساتھ ہی وہ جسم کھجاتا۔اس وقت ایلی کو محسوس جیسے وہ کوئی بورابھالوہواوراوپرنیچے سے اپنے جسم کوتسکین دے رہاہو۔یاکسی کوکچھ سمجھارہاہو۔یہ محسوس کرکے ایلی کوبے حدغصہ آتاتھالیکن غفورطاقت میں ایلی کے مقابلے میں پہلوان کی حیثیت رکھتاتھا۔یہ بے بسی بھراغصہ ایلی کے احساس کمتری پرتازیانے کی حیثیت رکھتاوہ کھولتا۔اورپھربھاگ لیتا۔
اس روزشہزادکے انتظارمیں بیٹھے بیٹھے ایلی سوچ رہاتھاکہ وہ بیٹھی گارہی ہوگی۔گاتے وقت وہ کتنی پیاری لگتی ہے معلوم ہوتاہے جیسے اس سے اس کی آنکھوں میں ننھی قندیلیں روشن ہوجاتی ہیں اوران سے چھن چھن کرشعاعیں نکلتی ہیں۔عورتیں تعجب سے اس کی طرف دیکھتیں تھیں۔اس وقت رنگینی دوپٹوں کے اس ڈھیرکے قریب ایک بھورابھالوآکھڑاہوتا۔اس کی نگاہیں شہزادپرمرکوزہوجاتیں۔اورپھراس کاپنجہ اٹھتا۔اوروہ کھجانے لگتا۔اتنے زورسے کھجاتاکہ اس کے بال اکھڑجاتے اورنیچے سے ننگے غلیظ گوشت کالوتھڑانکل آتا۔
ایلی غصے سے کھولنے لگتا۔
پھروہ لاحول پڑھ کراپنی توجہ کسی اورطرف منعطف کرنے کی کوشش کرتامگرجلدہی پھراس گانے والیوں کے رنگین جھرمٹ سے وہی بھالوابھرتااوروہی بھیانک منظرحقیقت بن کراس کے روبروآکرکھڑاہوتا۔
ٹن---گھڑی نے ایک بجایا۔
ایک‘اس نے گھڑی کی طرف غورسے دیکھا۔ساڑھے بارہ ساڑھے بارہ بجے تک کون گاتاہے اس نے سوچا۔
عین اس وقت نیچے چوگان سے اسے عورتوں کی آوازیں سنائی دیں۔شکرہے اس نے سوچایقینا وہ بھی ان کے ساتھ ہی آرہی ہوگی۔بس پہنچاہی چاہتی ہوگی۔وہ منتظرہوکربیٹھ گیا۔ابھی وہ آکرآوازدے گی اورمیں جھٹ سے دروازہ کھول دوں گااورکہوں گادیکھایوں کیاکرتے ہیں انتظار۔آوازدیئے بغیردروازہ کھول دیا۔پاؤں کی چاپ سمجھتاہوں۔کیاسمجھاہے تم نے۔لیکن عورتوں کی آوازمدھم پڑگئی۔دروازوں پردستکیں دی گئیں۔دروازے کھلے اوربندہوگئے اورمحلے پرایک بارپھرسناٹاچھاگیالیکن شہزادکے پاؤں کی چاپ سنائی نہ دی۔
دفعتاً ایلی کی نگاہ سامنے وہ تنگ گلی آگئی جس میں غفورصابون دانی اورتولیہ تھامے ہوئے کھجاتاہواگزراکرتاتھا۔گلی میں ایک طرف شہزادسہمی ہوئی کھڑی تھی دوسری طرف ایک بھالوکھجاکھجاکرگوشت کے لوتھڑے بنائے جارہاتھا۔پھروہ شہزادکی طرف لپکااورگلی کے اس حصے پرتاریکی اوربھیانک خاموشی چھاگئی۔
ایلی پاگلوں کی طرح اٹھ بیٹھااوردیوانہ وارادھرادھرٹہلنے لگا۔بے بسی اورغصے میں اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔لیکن محلہ پرموت کی سی خاموشی طاری تھی۔
میں یہاں اس کے انتظارمیں پاگل ہورہاہوں ایلی نے سوچا۔جب جی چاہے آئے مجھے کیا۔چاہے ساری رات گلی کے تاریک کونے میں بسرکردے آخرمجھے اس سے کیاغرض یہ سوچ کروہ لیٹ گیا۔آنکھیں بندکرلیں۔اس کی نگاہوں تلے بھالوناچ رہاتھا۔قریب ہی ایک رنگین ڈھیرساپڑاتھااورگلی خوف کے مارے بھیانک اورسنسان ہورہی تھی۔
ہنستے روتے
دروازہ بجاتوچونکا۔بھاگ کراس نے کنڈی کھول دی اس وقت وہ بھو ل گیاکہ شہزادکے آنے یانہ آنے سے اسے کیاغرض تھی۔اسے یہ احساس بھی نہ ہواتھاکہ عرصہ درازتک اس نے یوں آنکھیں بندکررکھی تھیں جیسے مدت سے سوچکاہو۔
شہزادگھرپہنچتے ہی اپنی چارپائی پرڈھیرہوگئی۔”توبہ ہے۔“وہ بولی ”گاگاکرہلکان ہوگئی سریوں بھن بھن کررہاہے جیسے بھڑوں کاچھتہ ہو۔“
”لو“جانو”توکیاکپڑے بھی نہ بدلوگی۔“
”اپنی جان کھائیں کپڑے۔مجھ میں اٹھنے کی ہمت بھی ہو۔“یہ کہہ کروہ سرہانے تلے بازورکھ کرایلی کوہلائے بغیریوں سوگئی جیسے ایلی وہاں موجودہی نہ ہوجیسے ایلی نہ جانے کون ہو۔
اورایلی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس رنگین ڈھیرکودیکھتااورکمرے کے دروازے سے باہراندھیرے کونے میں بھالوناچتارہا۔اورسرخ گوشت کے لوتھڑے ابھرتے رہے۔حتیٰ کہ صبح کی سپیدی جھلکنے لگی اورتھک ہارکرایلی کی آنکھ لگ گئی۔
اگلے روزجاگتے ہی شہزادنے ایلی کے کان میں تنکے چبھونے شروع کردئیے۔
”گھوڑے بیچ کرسوئے ہوکیااب جاگوگے بھی یانہیں۔دیکھوتودن چڑھ آیاہے۔“شرم نہیںآتی“ایلی چلایا۔”ساری رات انتظارکرایااوراب تنگ کررہی ہے۔“توبہ ہے ۔“”وہ ہنسی“جب کوئی موجودنہ ہوبیٹھ کرانتظارکرتاہے اورجب موجودہو۔“وہ ہنستے ہنستے رک گئی۔”توپڑاخراٹے لے کرسوئے جاتاہے۔“
اس بات پرایلی کواورغصہ آیا۔شایدوہ سمجھتاتھاکہ شہزاداپنی غلطی تسلیم کرلے گی اوراس سے وعدہ کرے گی کہ آئندہ وہ کبھی اتنی دیرباہر نہ رہے گی۔لیکن شہزاداس معاملہ میں بالکل مجبورتھی۔نمائش کاجذبہ ۔آن کی آن میں اس میںیوں ابھرتاتھاجیسے بوتل سے جن نکلتاہے۔اورپھروہ اپناآپ بھول جاتی۔اوردیوانہ واراس جذبے کی تسکین کے لیے مضطرب ہوجاتی۔
اس روزجب وہ ایلی کوسمجھارہی تھی۔”نہ پیارے اس طرح بات بات پرنہیں بگڑاکرتے۔یہ کیابگڑنے کی بات ہے چلوتم برامانتے ہوتومیں آج سے گانے نہ جاؤں گی لیکن معلوم ہے میں نہ گئی تومحلے والیں کیاسمجھیں گی کیاکہیں گی۔ایک دوسری سے گاناتوکوئی بری چیزنہیں ذرادل لگارہتاہے۔ہم بھی دومنٹ کے لیے جی لیتے ہیں۔اگرتوبرامانتاہے تونہ سہی۔“
عین اس وقت نیچے ڈیوڑھی سے نائن کی آوازآئی۔”بی حسن دین کے گھرسے بلاواہے۔آکربری کی چیزیں دیکھ لو۔“
”بلاواہے۔“شہزاداپنے آپ بولی۔”بری کی چیزیں دیکھنے کابلاواہے ۔“
بری کی بات سن کرشہزادکی آنکھوں میں چمک لہرائی اورگردوپیش دھندلاکررہ گئے۔یکدم ایلی کاوجوداس کے لیے بے معنی ہوکررہ گیااوروہ ایلی سے کیے ہوئے تمام وعدے فراموش ہوگئے۔لپک کراٹھی اورٹرنک کھول کرکپڑے نکالنے لگی اورپھرآئینے کے سامنے سنگارمیں مصروف ہوگئی۔ایلی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہاتھا۔
آخروہ اس کے قریب جاکھڑاہوا۔”تم جارہی ہو۔“اس نے پوچھا۔
شہزادنے خالی نگاہوں سے ایلی کی طرف دیکھا۔”تم کہہ رہے ہوکچھ۔“اس نے ایلی سے پوچھا۔اس بے تعلقی کے اظہارپرایلی کامنہ غصے میں لال ہوگیا۔لیکن شہزادنے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔اس وقت وہ ٹرنک سے اپنامحبوب سوٹ نکال رہی تھی۔پھروہ بات کیے بغیرغسل خانے میں داخل ہوکرکپڑے بدلنے لگی۔
جلدی جلدی وہ تیارہوکریوں سیڑھیاں اترنے لگی ۔جیسے جانے کے سواکسی اوربات کی سدھ بدھ نہ ہو۔سیڑھیوں میں پہنچ کروہ چلائی۔”جانوتوہنڈیاچڑھادینامیں ابھی لوٹ آؤں گی۔“
شہزادکے جانے کے بعدایلی دیرتک غصے سے کھولتارہااسے سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ شہزادکوبیٹھے بٹھائے کیاہوجاتاتھا۔کہاں وہ محبت بھری باتیں کرنے والی شہزادجومحلے میں اس کی تلاش میں سرگردان پھرتی تھی اورکہاں یہ شہزادجواس کے وجودہی سے منکرتھی۔اسے سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ ان دونوں میں سے اصلی شہزادکون سی ہے۔
دیرتک وہ غصے میں کھولتارہااورپھراپنی حماقت پرقہقہہ مارکرہنسنے لگا۔جانواسے ہنستے دیکھ کرچلانے لگی۔”معلوم ہوتاہے تیرادماگ بھی چل گیاہے۔تم دونوں ہی کاپتہ نہیں چلتا۔“وہ بولی”بے وجہ ہنسے ہوبے وجہ روتے ہو۔“
ایلی اٹھ بیٹھا۔”اچھامیں ذراباہر جاؤں گا۔“
”ہاں ہاں۔“جانوگرائی”اب تویہاں کیوں بیٹھنے لگاجاجاکربری دیکھ تولوگ بری دیکھیں گے۔تواسے دیکھنایہاں بیٹھاکیاکری گا۔“
جب وہ سیڑھیاں اترنے لگا۔توجانواس کے پاس آئی اوردونوں ہاتھوں سے اس کامنہ پکڑکربولی۔”ماںواری کیوں اپنی جان ہلکان کررہاہے توتجھے کس چیزکی کمی ہے۔جیسی چاہے گاویسی مل جائے گی۔یہاں سے تجھے کیاحاصل ہوگا۔پھرکیوں اپناایمان گنوارہاہے تویہاں۔“
جلو
چوگان میں پہنچ کراس نے محسوس کیاجیسے خلامیں چل پھررہاہو۔اس کے لیے ساراعلی پورایک ویرانہ تھالق دق ویرانہ جس میں صرف ایک قندیل روشن تھی۔اورجب وہ رنگین قندیل نگاہ سے دورہوجاتی توگھٹاٹوپ اندھیراچھاجاتااورکچھ دکھائی نہ دیتا۔
”ابے توہے۔“رضااسے یوں کھڑے دیکھ کرچلایا۔”یہاں کیاکررہاہے توجیسے کوئی کھوگیاہو۔“
”کوئی نہیں “ایلی نے جواب دیا۔”میں خودکھوگیاہوں رضا۔“وہ پہلادن تھاجب اس نے رضاکے روبرواس بات کااقرارکیاتھا۔اگراس وقت رضااس کی بات نہ کاٹتاغالباًوہ اپناسراس کے کندھے پررکھ کررودیتا۔اورروروکراپنی داستان کہہ دیتا۔لیکن اس روزنہ جانے رضاخودکسی رنگین اضطراب میں کھویاہواتھا۔
”ارے یار“وہ بولا”آج وہ رونق ہے وہ مشغلے ہیں کہ حدہے۔ہرلڑکاکسی نہ کسی داؤپرلگاہے۔لڑکیوں کے جھنڈکے جھنڈآجارہے ہیں۔تانک جھانک ہورہی ہے۔لوگ ڈیوڑھیوں اورتنگ گلیوں میں گھوم پھررہے ہیں اورتو۔تویہاں کھڑاہے جیسے۔“
ایلی چپ کھڑارہا۔اس خاموش دیکھ کررضابولا”آئیں سائیں کے پیڑے کھلاؤں کیایادکرے گاتوچل اب۔“اوروہ دونوں سائیں کی دکان کی طرف چل پڑے۔دیرتک وہ دونوںچپ چاپ چلتے رہے ایلی اپنے خیال میں کھویاہواتھا۔اوررضاکسی اپنی ہی بات میں مگن تھا۔
فرق یہ تھاکہ ایلی کی خاموشی مایوسی بھری تھی اوررضامیں ایک امیدبھرااضطراب کروٹیں لے رہاتھا۔
دفعتاًایلی رک گیا۔”رضاایک بات کہوں۔“
”کہو۔“رضانے اپنامونٹازمین پرٹیک کرلنگڑی ٹانگ اٹھائی”کہو۔“وہ بولا۔
اس وقت ایلی کواحساس ہواکہ اس نے رضاسے کچھ کہاہے۔شاید وہ اپنارازبتانے کے لیے مضطرب ہورہاتھا۔
”کہونا“رضابے تابانہ بولا۔
ایلی کوسمجھ میں نہیں آتاتھاکہ کیاکہے۔وہ ایک ساعت کے لیے سوچتارہا۔پھربولا
”رضامیراجی نہیں لگتا۔“
”توپھر“وہ بولا
”پھر“ایلی نے دوہرایا۔اسے سمجھ نہیں آرہاتھاکہ پھرکے جواب میں کیاکہے۔
”یہاںسے کہیں چلے جائیں؟“ایلی کے منہ سے نکل گیا۔
”لیکن جائیں کہاں۔“ایلی نے پوچھا
”ہاںیہ سوچنے کی بات ہے۔“رضابولاپھردفعتاًوہ چلایا”ارے وہ ارجمندجوہے بیچاراکب سے ہماری راہ دیکھ رہاہے۔بیمارپڑاہے۔کہتے ہیں دق ہے۔اس کابڑابھائی توجوانی میں دق سے مراتھا۔“
”ہاں ارجمندجوہے۔“ایلی نے محسوس کیاکہ علی پورسے جانے کاشوق مدھم پڑتاجارہاہے۔
”توکب چلیں؟“رضانے پوچھا۔”آج ہی سہی۔چاہے ابھی چلو۔“
ایلی سوچ میں پڑگیا۔
رضانے سونٹادونوں ہاتھوں میں تھام لیا”اب آپ ہی بات کرکے پیچھے ہٹتاہے بے۔“وہ اسے گھورنے لگا۔
ایلی بھی جوش میں آگیا”توچل ابھی سہی۔میں اپناسوٹ کیس اٹھالاؤں۔“”ہوں سوٹ کیس“رضاچلایااس کی کیاضرورت ہوگی۔بابوبناپھرتاہے۔“
”اچھاتوابھی لاسوٹ کیس اپنامیں انتظارکروں گا۔“
”تونہیں جائے گاگھراطلاع دینے۔“ایلی نے پوچھا۔
”اپناکیاہے۔“وہ بولا”کسی کے ہاتھ کہلابھیجوں گاکہ مال لینے جارہاہوں۔“توجا۔بھاگ۔“
جب ایلی گھرپہنچاتواس کادل دومتضادخواہشات میں بٹاہواتھا۔ایک لمحے میں اسے خیال آتااسے بتائے بغیرمیں کیسے جاسکتاہوں۔جب اسی معلوم ہوگاتووہ کیاکہے گا۔اورپھرآٹھ چھٹیاں ضائع کردیناپھرنہ جانے کب علی پورآنانصیب ہو۔
دوسرے لمحے وہ سوچتایہاں کیوں بیٹھااس کاانتظارکھینچتارہوں اوروہ یوں گانے میں اوربری جہیزدیکھنے میں مصروف رہے۔گاناتومحض بہانہ ہوتاہے۔مقصدتواپنی نمائش کرناہوتاہے۔اوراورپھراس وقت اس کی نگاہوںتلے وہ کھجاتاہوابھالوآکھڑاہوتا۔شہزاد ڈگڈگی بجابجاکرگاتی اس خیال پرایلی کوازسرنوغصہ آگیا۔اس نے لپک کرسوٹ کیس اٹھالیااورچپکے سے سیڑھیاں اترنے لگا۔راستے میں کئی بارجی چاہاکہ لوٹ جائے۔
علی پورسے نکلتے ہی ایلی کووہاں سے چلے آنے پرافسوس ہونے لگا۔دل میں دردہونے لگا۔گاڑی چھکاچھک چلے جارہی تھی۔دورہرے بھرے کھیتوں کے پرے شہزاداس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہی تھی۔”نہ جاؤنہ جاؤتم کیوں چلے گئے ہوایلی کیاتم مجھ پراعتمادنہیں کرسکتے۔“
”ایلی ۔“شہزادچیخ رہی تھی چلارہی تھی۔
سٹیشن پراترنے کے بعدایلی سے ان چندکچے گھروندوں پرنگاہ ڈالی جوریلوے سٹیشن کے پاس ڈھیرہورہے تھے۔
چمارکی دوکان پرچارایک آدمی کھاٹ پربیٹھے حقہ پی رہے تھے۔
ان کے قریب ہی دوآدمی زمین پربیٹھے اونگھ رہے تھے۔بائیں ہاتھ کیکرکے درخت تلے ایک گدھاکھڑاتھاجس پرلکڑیاں لدی ہوئی تھیں اس کے قریب ہی کونیں پرچارایک بھدی اورمیلی عورتیں پانی بھررہی تھیں۔کچے گھروندوں کے چاروں طرف دوردورتک بنجرزمین کاوسیع پھیلاؤ۔
گاؤں دیکھ کرایلی گھبراگیا۔”کیایہی گاؤں ہے۔“اس نے رضاسے پوچھا۔”یہ محض ویرانہ ہے۔“
”اورکیاہوپیارے۔“رضاچلایا۔”گاؤں توایسے ہی ہوتے ہیں۔“
”لیکن لیکن ارجمندتوکہتاتھا۔“
رضانے قہقہہ لگایا”اسے توبکنے کی عادت ہے بکے جاتاہے۔“”وہ توبندرابن بنائے بیٹھاہے۔“ایلی نے کہا۔
”دیکھ لوبندرابن“رضاہنسنے لگا۔
”وہ توکارخانے میں کام کرتاہے نا۔“ایلی نے پوچھا۔
جلوکاتارپین کاکارخانہ گاؤں سے میل کے فاصلے پرتھا۔سٹیشن سے ایک چھوٹی سی لائن کارخانے کی طرف جاتی تھی جس پرچھوٹی چھوٹی ٹرالیاں چلتی تھیں۔
کارخانہ ایک وسیع چوگان میں تھاجس میں عمارتیں اورمشینیںتوکافی تھیںلیکن بیشترعمارتیں ویران پڑی تھیںاوراکثرمشینیں بے کارکھڑی زنگ آلودہوچکی تھیں۔
کارخانے کے جنوبی حصے میں مزدوروں اورملازمین کے لیے کواٹروں کی چندقطاریں بنی ہوئی تھیں۔بہت دیرتلاش کے بعدانہیں ارجمندکاگھرملا۔
مرلی کارسیا
وہ ایک چھوٹاساکوارٹرتھا۔مختصرسے صحن میں ایک چھوٹاساباورچی خانہ اورغسل خانہ بناہواتھا۔دوسری طرف ایک کمرہ تھا۔
کمرے میں ایک طرف چارپائی پرارجمندلیٹاہواتھا۔چارپائی کے قریب اس کی ماں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔دوسری طرف ارجمندکی ہمشیرہ چپ چاپ بیٹھی رو رہی تھی۔
چارپائی پرارجمندکاڈھانچہ پڑاہواتھا۔چہرے کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں‘آنکھوں کے گردسیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے۔ایلی نے گھبراکرچاروں طرف دیکھا”یااللہ یہ میں کہاں آگیاہوں۔“اس کے قریب رضالاٹھی زمین سے ٹیکے چپ چاپ کھڑاتھا۔
دفعتاً ارجمندکی ماں نے ان دونوں کودیکھا۔ایک ساعت کے لیے انہیں پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتی رہی پھرچونکی۔اس نے مسکرانے کی شدیدکوشش کی۔لیکن اس کی ہچکی نکل گئی۔اورپھرٹپ ٹپ آنسوگرنے لگے۔
”دیکھ توبیٹا۔“وہ بھرائی ہوئی آوازمیں بولی۔”تیرے دوست تجھ سے ملنے آئے ہیں۔دیکھ توادھرآنکھیں توکھول۔“لیکن ارجمنداسی طرح آنکھیں بندکیے پڑارہا۔
وہ ایلی اوررضاسے مخاطب ہوکربولی”اسے تواپنی سدھ بھی نہیں رہی۔بس یوں ہی آنکھیں بندکیے پڑارہتاہے۔نہ خودبات کرتاہے۔نہ کسی کی بات سنتاہے۔آؤ بیٹھ جاؤ۔دیکھ لواپنے دوست کاحال۔“
وہ دونوں چپ چاپ چوکیوں پربیٹھ گئے ماں پھراپنے بیٹے کی طرف کی ٹکٹکی باندھ کردیکھنے میں کھوگئی اورکواٹرپرایک خوفناک خاموشی مسلط ہوگئی۔
نہ جانے کب تک وہ یوں ہی چپ چاپ بیٹھے رہے۔
رضانے اپناسرگھنٹوں میں دے رکھاتھا۔ایلی غورسے ارجمندکی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہاتھا۔پھراس کی نگاہ اس میزپرپڑی جوارجمندکے سرہانے پڑی تھی۔میزپرایک موتی سی مجلدکاپی تھی جس کے سرورق پرخوش خط حروف میں انکراینڈی ماباؤں لکھاہواتھا۔ایک طرف بانسری دیوارسے لگی کھڑی تھی۔اوراس کے قریب ہی سستی خوشبوکی چندخالی شیشیاںتھیںاوراشعارکی کئی ایک چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑی تھیں اپنی انکراینڈی پریم سندیس پریم پتراورپونم ٹوناسے بے نیازگوکل کے بن کاوہ کنہیاآنکھیں بندکیے ہوں بے حس لیتاہواتھاجیسے اس میں حرکت کی سکت نہ رہی ہو۔“
اس منظرکودیکھ کرایلی کاجی چاہتاتھاکہ چیخیں مارمارکررودے۔
دفعتاًارجمندکوکھانسی کادورہ شروع ہوگیااوراس کاساراجسم کھانسی کی شدت سے لرزنے لگا۔سینے میں دھنکی سی چل رہی تھی۔ہڈیاں چیختی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ماں نے بڑھ کراسے تھام لیا۔بہن چونے بھراپیالہ اٹھاکرپاس آکھڑی ہوئی تاکہ اسے تھوکنے میں دقت نہ ہو۔دیرتک ہڈیوں کاڈھانچہ یوں ہلتارہا۔جیسے روئی سے بناہواہو۔پھراس نے منہ کھول دیااوربسرپرخون کی پچکاری سی چل گئی۔ماں نے اسی لٹادیا۔اس کی آنکھیں کھلی تھیں لیکن ان میں دیکھنے کی سکت نہ تھی ماں چلانے لگی۔”بیٹادیکھ توتیرے دوست آئے ہیں۔“مگروہ جوں کاتوں پڑارہا۔
پھرایلی اٹھ کراس کے سامنے چارپائی پرجابیٹھا۔“ارجمند”ا س نے اسے آوازدی۔”ارجمندارجمند۔“ارجمندکی نگاہ میں ایک چمک لہرائی۔
”میں ہوں ارجمندمیں اوررضابھی آیاہے۔“ایلی سے رضاکی طرف اشارہ کیا۔ارجمندنے گردن موڑنے کی کوشش کی اپنی بے بسی محسوس کرکے اس کی آنکھیں پرنم ہوگئیں۔
”کوئی بات کران سے بیٹا۔“اس کی ماں آنسوپونچھتے ہوئے بولی۔
”کیاحال ہے تیرا۔“ایلی نے چلاکرکہا۔
ارجمندنے بعدمشکل اپناہاتھ اٹھایااوریوں اشارہ کیاجیسے کہہ رہاہو”ٹھیک ہوں میں۔“
”جلدجلدصحت یاب ہونا۔“وہ بولا۔
ارجمندمسکرادیا۔
دوروزانہوں نے وہاں قیام کیا۔پہلے دن توارجمندان سے کوئی بات نہ کرسکامگراگلی روزاس کی طبیعت بہترمعلوم ہوتی تھی۔
”تم اچھے ہونا۔“”ارجمندنے اشاروں کی مددسے ایلی سے پوچھا۔
”تم اپنی بات کرو۔“ایلی نے جواب دیا۔
”مزے میں ہوں۔“وہ بولا”لیکن تم دیرسے آئے ہو۔بہت دیرسے۔“ارجمندنے رک رک کرکہا۔
”کیوں اب کیاہے۔“رضانے پوچھا۔
”اب ۔اب۔“وہ سوچ میں پڑگیا۔”اب بھی ٹھیک ہے۔لیکن وہ تمہیں بندرابن کون دکھائے گا۔اوراوروہ۔“رک گیا۔
”ابے مسخرے یہ کیاڈھونگ رچایاہے تونے ۔“رضانے شرارت سے کہا۔
”ڈھونگ رچائے بنارہے ہیں کبھی۔“وہ بولا”اماں ڈھونگ بھی نہ ہوتوہوکیا۔“
”اب جلدٹھیک ہوجانا۔اورعلی پورآؤ۔بیاہ ہورہے وہاں۔“
”کپ کیپ کی سناؤ۔“ارجمندنے مسکراتے ہوئے کہا۔”مری تونہیں جارہی اپنے فراق میں۔“
”توشرارت سے کب بازآئے گا۔“رضاچلایا۔
”اونہوں“ارجمندبولا”بازآنااپن کاکام نہیں۔“
وہ دونوں ہنسنے لگے۔
”وہاں جاکریہی کام کروں گا۔“ارجمندنے کہا۔
”کہاں جاکر۔“ایلی نے پوچھا۔
”وہیں “وہ بولا”بڑامزارہے گاوہاں۔“
”بکواس نہ کر۔“رضاچلایا۔
”اونہوں “وہ ہنسا“یہ بندنہ ہوگی۔“
دیرتک وہ باتیں کرتے رہے۔پھرایلی اوررضااٹھ بیٹھے ”اچھااب ہم جاتے ہیں۔“
”اونہوں ۔“ارجمندنے سرہلایا۔
”پیچھے دوکان اکیلی ہے۔“رضابولا۔
”ہمیں اب اجازت ہی دو۔“ایلی نے کہا۔
ارجمندنے غورسے ان کی طرف دیکھا۔اورجب ایلی رضامصافحہ کرنے لگے۔ارجمندکاہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاماتواس کی آنکھ سے ایک آنسوڈھلک کررخسارپربہہ گیا۔
”دل برانہ کروارجی۔“ایلی نے کہا”پھرملیں گے۔“
ارجمندکی آنکھ میں عجیب سی مایوسی تھی۔بے بسی بھری مایوسی۔
”اچھاخداحافظ“رضانے کہا۔اوروہ دونوں چپ چاپ باہرنکل آئے۔
سٹیشن تک وہ دونوں چپ چاپ چلتے رہے۔ان کے دلوں پربوجھ پڑاہواتھا۔
چاروں طرف اداسی چھائی ہوئی تھی۔فضابوجھل محسوس ہورہی تھی۔اوروہ رینگتاہواویرانہ پھیل کرکیالامتناہی ہواجارہاتھا۔
گاؤں کے قریب پہنچ کروہ دونوں ر ک گئے۔
”کنویں سے پانی نہ پی لوں تھوڑاسا۔“رضانے کہا۔
”پی لو۔“اوروہ دونوں کنویں کے طرف چل پڑے۔
کنویں پرعورتیں پانی بھررہی تھیں۔
”بہن پانی پلانا ذرا۔”رضانے اپنے مخصوص اندازمیں کہا۔پانی پی کروہ دونوں چل پڑے۔
کنویں پرعورتیں ان کے متعلق باتیں کرنے لگیں۔
”کون تھے یہ؟“کوئی پوچھ رہی تھی۔
ایک مردکہہ رہاتھا۔”کارخانے میں کسی کے مہماں آئے تھے۔وہ پتلادبلاچھوکراسٹوروالا----“
”اچھاوہ سودائی سا“ایک ہنسنے لگی۔
”ہاں ہاں وہی۔“
”سناہے آج کل بیمارپڑاہے۔بڑاروگ کہتے ہیں۔“
”تت تت تت تت بیچارہ۔“
ایلی کے روبروارجمندکھڑامسکرارہاتھاسمجھے ہواس کے کہتے ہیں لاج گوکل کی دیویاں لاج پال ہیں۔جان جائے پرآن نہ جائے۔اندرہی اندرمحبت کی آگ سے پھلک مریں گی۔لیکن مکھ تک بات آجائے اونہوں۔دھنیاہے گوپیوںنے آج کرشن کنہیاکی بھی لاج رکھ لی۔کیاسمجھے۔یہ کہہ وہ مرلی کارسیابانسری بجانے لگا۔
کنویں پرکھڑی وہ مٹیارہنس رہی تھی۔”تیری طرف ہی دیکھ دیکھ کرآنکھیں مٹکایاکرتاتھااورپھریوں مرلی بجانے لگتاجیسے بڑابین کارہوپرخاک بھی نہ بجتی تھی اس سے۔“
کاکاکاکایں درخت سے بیٹھاہواکوابولنے لگاجیسے کسی مرلی کے رسیاکی نقل اتارہو۔دورگاؤں کی چکی ہونک رہی تھی۔اورکھیتوں میں کوئی ماہیاگارہاتھا۔
”اساں کل ترونجناں تساں راہ پئے تکنے نی۔“
ان جان تیاگ
دیرتک وہ دونون سٹیشن کے بنچ پراس رینگتے ہوئے ویرانے میں بیٹھے گاڑی کاانتظارکرتے رہے۔وہ دونوں خاموش بیٹھے تھے۔دوایک باررضانے بات کرنے کی کوشش کی تھی۔لیکن وہ بات اس مسلط اورمحیط اداسی کے پھیلاؤمیں یوں بے کارہوکررہ گئی تھی جیسے ریگستان میں پانی کی ایک بوندگرگئی ہو۔
پھرجب گاڑی کی گھنٹی بجی تووہ چونکے ۔”میں ٹکٹ لے آؤں۔“رضانے کہا۔
”صرف ایک لانا۔“ایلی نے کہا۔
”ایک “رضانے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
”ہاں “ایلی نے رضاکی طرف دیکھے بغیرکہا”ایک۔“
”کیوں؟“
”بس۔“
”تم کیایہیں بیٹھے رہوگے باقی عمر“رضانے پوچھا۔
”نہیں ۔“ایلی بولا۔
”توپھر۔“
”میں علی پورنہیں جاؤں گا۔“ایلی نے جواب دیا۔
”توکہاں جاؤگے ؟“
”لاہور۔“ایلی سوچے سمجھے بغیربولا۔اس چھائی ہوئی اداسی اورویرانی نے نہ جانے ایلی پرکیاجادوکردیاتھا۔اس کی نگاہ میں شہزاداوراس کی تمام رنگینیاں عبث ہوکررہ گئی تھیں۔وہ محسوس کررہاتھاجیسے اس نے ساری دنیاکوتیاگ دیاہو۔اورسادھوبن کرباہر نکل آیاہو۔
”لیکن۔“رضابولا۔”محلے میں تواتنی شادیاں ہیں۔“
”شادیاں۔“ایلی نے براسامنہ بنایا”ہونے دو۔“
”اوراور۔“رضانے پوچھا“اوروہ۔“
”وہ “ایلی نے تعجب سے پوچھا”اوروہ۔“
”کیااسے نہ ملوگے؟“رضانے پوچھا۔
”کیافرق پڑتاہے۔“ایلی نے سمجھے بغیرآہ بھری۔
”اورتمہاری چھٹیاں۔“
”چھٹی ہی چھٹی ہے اب اورکیا۔“ایلی بولا۔
”اوہ۔“رضاخاموش ہوگیا۔دیرتک وہ خاموش بیٹھے رہے۔
جب گاڑی آئی تورضانے ایک مرتبہ پھرایلی کی منت کی ۔”چلواکٹھے چلتے ہیں۔“
”اوں ہوں۔“ایلی نے جواب دیا۔
”تومیں اسے کیاجواب دوں گا۔“رضانے پوچھا۔
”جوجی چاہے کہہ دینا۔“ایلی نے آہ بھری۔
”وہ مجھ سے ناراض ہوگی۔“
”مجھ سے کون سی خوشی ہے وہ۔“ایلی سوچے بغیرباتیں کیے جارہاتھا۔اس وقت وہ بھول چکاتھاکہ رضااس کے متعلق بات کررہاہے ۔جس کے متعلق وہ کسی سے بات کرنے کوتیارنہ تھا۔
لاہورپہنچ کرایلی یوں چارپائی پرلیٹ گیاجیسے اس وسیع دنیامیں اس کے لیے کوئی جگہ نہ ہوجیسے دنیامحض ایک ویرانہ ہولق ودق ویرانہ۔
نیابورڈنک خالی پڑاتھا۔لڑکے اپنے اپنے گھرگئے ہوئے تھے۔صرف چندایک نوکروہاںیوں گھومتے پھرتے دکھائی دیتے تھے۔جیسے کسی پرانے قلعے میں بھوت چل پھررہے ہوں۔
چارروزوہ چپ چاپ اپنے کمرے میں پڑارہا۔اس کاذہن ایک خلامیں تبدیل ہوچکاتھا۔علی پورشہزادنیم نیم گویااس کی زندگی سے معدوم ہوچکے تھے۔
کریسنٹ ہوسٹل
پھرآہستہ آہستہ کریسنٹ ہوسٹل میں حرکت پیداہوئی اوروہ نئے ماحول میں کھوگیا۔
کریسنٹ ہوسٹل میں ریوازسے قطعی طورپرمختلف تھا۔اس میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ہرشخص کوایک الگ کمراحاصل تھا۔جب بھی وہ چاہتااپنے کمرے میں جاکرلوگوں کواپنی زندگی سے خارج کرسکتاتھااورجب چاہتاکمرے سے باہر نکل کربھیڑمیں شامل ہوسکتاتھا۔اگرچہ بھیڑمیں شامل ہونے کی خواہش اس نے کبھی محسوس نہ کی تھی اس کے برعکس ریوازہوسٹل میں کمرے کے اندراورکمرے کے باہرہرجگہ بھیڑلگی رہتی تھی۔اس بھیڑسے بچناقطعی طورپرناممکن تھا۔لیکن یہاں اس نئے ہوسٹل میں کمرے سے باہر بھی بھیڑنہ تھی۔یہاں باہربھی افرادتھے ایسے افرادتھے جواس کی طرح ازلی طورپراکیلے تھے تنہاتھے۔
کریسنٹ ہوسٹل میں پہنچ کراس نے غالباً پہلی مرتبہ محسوس کیابیشترافراداکیلے اورتنہاہونے کی وجہ سے لوگوں کے شوروشغب سے دوربھاگتے ہیں۔اس احساس کوردکرنے کے لیے ہنگامہ پیداکرتے ہیںاوربھیڑکی طرف بھاگتے ہیں یابھیڑلگالیتے ہیں۔
کریسنٹ ہوسٹل میں جاکراسے تسلی سی ہوگئی۔اب وہ دوسرے طالب علموں سے اس حدتک نہیں ڈرتاتھا۔شایداسے لیے کہ اس نے سمجھ لیاتھاکہ بھیڑلگانے والے خوداحساس تنہائی اوراحساس کمتری سے عاجزآئے ہوتے ہیں---اس کے علاوہ اب وہ فسٹ ائیرکانہیں بلکہ تھرڈائیرکاطالب علم تھا۔اگرچہ اس کے باوجودکالج کے بیشترپروفیسراورلڑکے اس سے قطعی طورپرناآشناتھے۔
بہرصورت اس نئے ہوسٹل میں اسے تنہائی میسرتھی اوراس لیے ہوسٹل کے لڑکوں کی نگاہیں اس کی آمدورفت میں دخل اندازنہیں ہوتی تیھں اسے چھیڑتی نہ تھیں اس پرتمسخرسے ہنستی نہ تھیں۔جب بھی ایلی پرشہزادطاری ہوجاتی تووہ اپنے کمرے میں جاگھستااوردروازہ بندکرکے چارپائی پرلیٹ کربیتی ہوئی باتیں ازسرنوبیتناشروع کردیتا۔یوں زندگی کی ویرانی کوبرطرف کرنے کے لئے تخیل کاسہارالیتا۔اورجب اس سے بھی تسکین نہ ہوتی توچپ چاپ اٹھ بیٹھتا‘اورکسی سینمامیں بیٹھ کرایلمواورپیڈروبہادرکے کارنامے دیکھتااورپھرواپس اپنے کمرے میں پہنچ کرچارپائی پرلیٹ کراپنی لیڈنگ لیڈی کواس قیدخانے سے چھڑانے کی تجاویزسوچتاتخیل میں ان تجاویزکوعملی صورت دیتا۔اس کی زندگی میں شہزادسے بڑھ کرکوئی عشرت نہ تھی۔
لیکن جب سے وہ ارجمندسے مل کرآیاتھا۔یہ خوش فہمی پیداکرنے کی کوشش میں شدت سے لگاہواتھاکہ شہزادکی بے پروائی کے پیش نظراسے اس سے چنداں دلچسپی نہیں رہی۔اسے اس پرغصہ آتاتھاکہ جب شہزاداس کی طرف سے اس حدتک بے پرواہ ہوسکتی ہے تووہ اس کامحتاج کیو ں ہے۔اس کے دل میں میں شہزادکے لیے اس حدتک نیازکیوں ہے۔اس خیال پراسے دکھ ہوتااوراس دکھ کی کسک سے مخلصی پانے کے لیے وہ یہ اعتبارپیداکرناچاہتاتھاکہ اسے بھی شہزادکی چنداں پروا نہیں پرواہ توتھی لیکن صرف اسی صورت میں کہ شہزادکوبھی اس کی چاہ ہو۔وہ بھی اس کاانتظارکھینچے۔وہ بھی اس کے بغیرنہ رہ سکے۔
کریسنٹ کے نئے ماحول میں اس نے اس اعتبارکوتقویت دینے کی کوشش کی۔جونہی اس کی توجہ شہزادکے بھنورسے نکلی تواس نے دیکھاکہ بھاہ اس کی طرف دیکھ دیکھ کرمسکرارہاہے۔
بھااورجاہ
بھاکی مسکراہٹ میں تمسخرنام کونہ تھا۔الٹااس میں توبلاکاخلوص ہمدردی اوراک ان جانی بے نام سی گرمی تھی۔محبت تھی۔ایسی محبت نہیںجیسی اسے شہزادسے تھی جوجلاکربھسم کردیتی تھی۔بلکہ ایک ایسی گرمی جس کے تحت سکون ملتاہے۔ٹھنڈی مٹھاس بھری مدھم گرمی۔بھادوسروں کوکڑی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔الٹاوہ تونگاہیں جھکالیتاتھااورپھربن دیکھے دوسرے کے قرب کومحسوس کرتااورمسکراتاجیسے کہہ رہاہومیں جانتاہوں۔میں تمہاری مشکلات کاحل ہوں۔میں تمہاری آماجگاہ بن سکتاہوں۔اگرتم چاہو۔ورنہ کوئی بات نہیں کوئی بات نہیں۔“
بھاہ کی عادت تھی کہ وہ ہروقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتاتھا۔دن میں کئی مرتبہ وضوکرتا۔اکثرنمازپڑھتانظرآتااورہاتھ دھوناتواس کامسلسل شغل تھا۔اسے ہاتھ دھوتے دیکھ کرایسامعلوم ہوتاتھاجیسے وہ سمجھتاہوکہ اس کے ہاتھ کبھی صاف نہیں ہوسکتے۔اگرچہ وہ دیکھنے میں شیشے کی طرح صاف اورچمکدارتھے پھرنہ جانے کیوں بارباربھاکی توجہ ہاتھوں کی طرف مبذول ہوجاتی اوروہ کہتا”اچھاتومیں ذراہاتھ دھولوں۔“ہاتھ دھونے کے بعددیرتک وہ اپنے صاف ستھرے ہاتھوں کوتولیے سے رگڑرگڑکرصاف کرتارہتا۔
بھاکی طبیعت میں مٹھاس کے علاوہ ایک نظم بھی تھا۔اس کی ہربات قاعدہ کے مطابق ہوتی۔ہرکام پروگرام کے تحت تکمیل پاتاتھا۔نظم کے اس شدیدجذبے کی وجہ سے لوگ اسے ایسی کام سونپ دیاکرتے جوباقاعدگی اورسلیقے کے بغیرسرانجام نہیں دیئے جاسکتے اورجومسلسل توجہ چاہتے ہیں۔اگرکسی کاپن خراب ہوجاتاتووہ اسے بھاہ کودے دیتا۔”بھایہ ذرادیکھناتواس قلم میںکیاگڑبڑہے۔“اگرکسی کی گھڑی صیحح وقت نہ دیتی ہوتووہ بھی بھاہ کوسونپ دی جاتی۔
ایسی چیزبھاکودیتے ہوئے تاکیدتوجہ یااحتیاط سے متعلق ہدایات دینابالکل عبث تھا۔چیزبھاکودکھاناہی کافی تھا۔”بھایہ ذرادیکھنا۔“اورپھربھاکی تمام ترتوجہ اس پرمرکوزہوجاتی اس حدتک کہ وہ ہروقت اسے اٹھائے پھرتااورراہ چلتے یافرصت کے وقت بیٹھے ہوئے اسے ٹھیک کرنے میں شدت سے مصروف رہتااورجب وہ ٹھیک ہوجاتی تودفعتاً اس چیزسے بھاکی دلچسپی ختم ہوجاتی۔
بھاکوٹوٹی ہوئی اوربگڑی ہوئی چیزوں کوبنانے سنوارنے سے دلچسپی تھی۔لیکن ایسے محسوس ہوتاتھاجیسے وہ خودایک ٹوٹی ہوئی چیزہو۔لیکن اپنے آپ کوبنانے سنوارنے کی اس نے کبھی کوشش نہ کی تھی۔اسے بننے سنورنے سے قطعی طورپردلچسپی نہ تھی۔اسے دیکھ کرمحسوس ہوتاتھاجیسے مٹی کادیاہوجومدھم لوجل رہاہو۔بھانے کی کبھی بھڑک کرجلنے کی کوشش نہ کی تھی۔اس کی شخصیت اس فروعی چمک سے عاری تھی جوکالج کے لڑکے اپنی طرف توجہ منعطف کرنے کے لیے پیداکرنے کے عادی ہوتے ہیں۔
ویسے بھڑک کرجلنے کی خواہش جاہ میں بھی نہ تھی بنیادی طورپروہ بھی جھونپڑے ہی کاچراغ تھا۔لیکن اس کے اندازمیںایک عجیب سی جھجک تھی۔وہ ہرنواردکی آمدپرٹھٹھک کررہ جاتا۔پیشانی پرتیوری چڑھ جاتی ہونٹوں پرتحقیرکی ہلکی لرزش پیداہوتی۔اورپھروہ گویاریشم کے کپڑے کی طرح اپنے کوئے میں گھس جاتا۔لیکن اس عمل کی وجہ سے اسے کوئے میں لیٹے رہنے کی عادت ہوگئی تھی۔اوربسااوقات وہ تنہائی میں بھی بے حسی اوربے پرواہی کے خول میں دبکابیٹھارہتالیکن کبھی کبھااس کی حقیقی شخصیت کی مختصرسی جھلک ایک رنگین اوررنگین محبت بھری مسکراہٹ کی صورت میں ہویداہوتی جیسی برکھارت میں بادلوں میں سے سورج کی شعاعیں پھوٹ نکلتی ہیں اورایک ساعت کے لیے منظرپررنگین دھاریاں دکھائی دیتی ہیں۔
جاہ کے اس جھجک اورڈرکامظاہرکوئی جوازدکھائی نہ دیتاتھا۔لیکن اس کی شدت سے ظاہرتھاکہ یہ نقوش کسی شدیدذہنی طوفان کے چھوڑے ہوئے ہیں۔جس کی وجہ سے اس کی شخصیت کادھاراخارجی سمت کی طرف بہنے کی بجائے داخلیت کی طرف مڑگیاتھا۔اوراس طرح وہ اپنی ہی اناکابھنوربناکراس میں ڈبکیاں کھارہاتھا۔
کتابیں
خارجیت سے ہٹ کرجاہ کی توجہ کتابی دنیاکی طرف مبذول ہوگئی تھی۔اوراس کتابی دنیانے حقیقی دنیاکی حیثیت اختیارکرلی تھی جس میں وہ جیتاتھاکتابی کرداروں سے جھجھکے بغیرملتاتھا۔ان سے تعلقات پیداکرتاتھا۔اپنے اردگردان کی بھیڑلگاکربیٹھ رہتاتھاکریسنٹ ہوسٹل میں ایلی کے لیے بھااورجاہ دوپناہ گاہیں تھیں۔اس لیے روزبروزوہ ان دونوں بھائیوں کے قریب ترہوگیا۔ایک دن توان دونوں کے کیوبیکل ایلی کے کمرے کے پاس ہی واقع تھے۔دوسرے وہ دونوں طنزاورتمسخرسے عاری تھے اوران میں دوسروں کامذاق اڑانے کی عادت نہ تھی۔ان سے مل کرایلی کااحساس کمتری ابھرنے کی بجائے دب جاتاتھالیکن اس کے باوجودوہ جاہ سے ایک بعدسامحسوس کرتا۔جاہ کی بظاہرسردمہری ایلی میں جھجھک پیداکرتی تھی۔
جب بھی وہ جاہ کے کمرے میں جاتاتووہ یوں سراٹھاکراس کی طرف دیکھتاجیسے پوچھ رہاہو۔تمہارایہا ں آنے کامطلب؟جاہ کے ماتھے پرتیوری چڑھ جاتی۔ایک ساعت کے لیے وہ ایلی کی طرف دیکھ کرگھورتااورپھربات کیے بغیرمطالعہ میں کھوجاتااورایلی جاہ کے قریب بیٹھےہونے کے باوجودتنہارہ جاتا۔ابتدامیں توایلی جاہ کے اس رویے پرگھبراجاتاتھااورکچھ دیرجاہ کے کمرے میں بیٹھنے کے بعدچپکے سے وہاں سے کھسک آتا۔لیکن آہستہ آہستہ وہ جاہ کی اس عادت سے مانوس ہوتاگیا۔ماناکہ جاہ کی بے رخی اوربے پروائی وہ تھی لیکن دوسرے لڑکوں کی طرح اس کی نگاہیں ٹٹولتی تونہ تھیں۔اورجب بھی وہ جاہ کی بے حس سے گھبراجاتوآزادنہ طورپروہاں سے اٹھ کرآسکتاتھا۔جاہ نے کبھی اس سے نہ پوچھاتھاکہ تم جارہے ہوتم کیوں یاکہاں جارہے ہو۔
باہربرآمدے میں اس کی طرف آنکھ اٹھاکردیکھے بغیربھاگتا۔”ایلی ۔آؤیارمیں تواس گھڑی کے چکرمیں پڑاہوںنہ جانے کیاخرابی ہے۔یہ ٹھیک وقت نہیں دیتی۔وہ سعیدہے ناموٹا۔چوہدری کرم دین کابیٹااس کی ہے یہ گھڑی۔کیاوقت ہوگابھئی اوہ یہ توچاربج گئے۔اچھاتومیں وضوکرلوں“جاہ ٹھٹک کراس کی طرف دیکھتااس کی نگاہ میں شکوک اوراعتراض نمایاں ہوتے اورپھربات کیے بغیرمطالعہ میں کھوجاتاحتیٰ کہ اسے احساس ہی نہ رہتاکہ کوئی شخص کمرے میں بیٹھاہے۔
جاہ کاکمرہ کتابوں اوررسائل اورتصاویرسے بھرارہتاتھا۔ہرماہ کتابوں اوررسائل کاایک نیاگٹھاآجاتا۔اورجاہ اس کے مطالعہ میں کھوجاتا۔صبح سے شام تک جاہ کوان کتب اوررسائل کے علاوہ اورکسی چیزسے دلچسپی نہ تھی پڑھتے پڑھتے وہ آپ ہی آپ ہنسنے لگتا۔”خوب خوب“وہ گویااپنے آپ سے کہتا۔”یہ شخص بھی عجیب مسخراہے ہی ہی ہی ہی۔“
ایلی ہنسنے لگتا۔کون مسخرہ ہے ایلی کی موجودگی کومحسوس کرکے دفعتاً جاہ کااندازبدل جاتاکون مسخرہ ہے جاہ دہراتا”ہوں ہوں“اورپھرجواب کاانتظارکیے بغیروہ پھرسے کتاب میں کھوجاتااورپھرکچھ دیرکے بعدآپ ہنسنے لگتا۔”جروم کے جروم بھی عجیب‘عجیب ہے عجیب ہے“انگلیاں چٹخاتے ہوئے جاہ مدھم آوازمیں بولے جاتااورپھرسے بھول جاتاکہ اس کے کمرے میں کتابوں کے شلف کے قریب کوئی بیٹھاہے ایلی وہاں بیٹھ کرکوئی کتاب یارسالہ کھول کرتصویریں دیکھناشروع کردیتاتھا۔اورچپ چاپ ورق گردانی میں مصروف رہتا۔
اس سے پہلے ایلی کویہ احساس نہ تھاکہ کتاب کالج یاامتحان کے نقطہ نظرسے ہٹ کربھی پڑھاجاسکتاہے جاہ سے مل کراسے پہلی مرتبہ کتاب کااحساس ہوا۔پہلی مرتبہ اسے کتاب کی ورق گردانی کاموقعہ ملالیکن اس کے باوجودکتاب کے نفس مضمون کی اہمیت کااسے احساس نہ تھا۔
پھرکچھ دیرکے بعدآہستہ آہستہ جاہ اپنے کمرے میںایلی کی موجودگی کے احساس سے مانوس ہوتاگیالیکن اس کے باوجودطنزبھری نگاہ یوں کی توں قائم رہی اس کی بے اعتنائی کچھ بڑھ گئی لیکن اس کے ساتھ آشنائی اورمسرت کے ان لمحات کی تعدادبھی بڑھ گئی جب وہ اپنے کوئے سے باہرنکلتاتھا۔
رنگین بھنور
علی پورسے آنے کے بعدایک ہی بارایلی کے دل میں ایک عجیب سی خواہش ابھرآئی تھی۔وہ چاہتاتھاکہ شہزادکے خیال کے بھنورسے نکل جائے۔وہ خوب جانتاتھاکہ شہزادکاسحراس حدتک مسلط اورمحیط ہوچکاہے کہ اس سے بچاؤممکن نہیں لیکن شہزادکی بے پروائی کی وجہ سے اس کے دل میں ایک کرب پیداہوتاتھاایک ایساکرب جواس کی روح کویوں بلوتاجیسے دہی کاایک برتن ہوبسااوقات سوتے وقت جب اسے شہزادکاخیال آتاتواس کے ذہن میںشہزادکابھرے ہوئے تاروں سے بھرانقاب آجاتااوران ابھرے ہوئے تاروں کوگنتا۔اس وقت ایک گوشت کالوتھڑاغفورکی شکل اختیارکرلیتا۔”ہی ہی ہی ہی“وہ قہقہہ مارکرہنستاہنستے ہنستے اس منہ نبات کارنگ اختیارکرلیتا۔بازواورٹانگیں کٹ جاتی اوروہ چلاتا۔”ایلی تم ایلی۔“ایلی کی نگاہ تلے اس وقت وہ اندھیری بندبیٹھک ابھرآتی بیٹھک کے وسط میں آب زم زم کی ایک جھیل ابھرتی اورجھیل میں سے شہزادسرنکال کرکہتی ایلی تم۔اس وقت شہزادکے اندازمیں طنزیہ تمسخرکاایک طوفان کھولتااورایلی کواپنی لپیٹ میں لے لیتا۔پھرگوشت کاٹنڈمنڈلوتھڑاقہقہہ لگاتا”تم۔تم۔“
اس وقت مختلف شکلیں ایلی کے روبروآکرناچتیں گاتیں بھیڑئیے کی کھال اترجاتی اوراندرسے علی احمدہنستے شہزادیہ تم کیابچوں کواکٹھاکرکے بیٹھ رہتی ہوکبھی ہمارے ہاں بھی آؤناکیاکہتی ہے ۔ہی ہی ہی ہی۔“
تھیڑکاپردہ اٹھتااورصفدرایک ڈرامائی اندازسے داخل ہوکرکہتا۔”ایلی ایلی میری طرف دیکھومیں یہیں رہتاہوں اس رنگین چوبارے کے نیچے میں یہاں دہلیزپرپڑاہوں کبھی مجھے بھی مل لیاکرو۔کبھی مجھے بھی مل لیاکرو کبھی مجھے بھی مل لیا---“پھروہ گانے لگتا۔”اے دلبرہوں میں فدا۔“گاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں گلابی پھوارپڑنے لگتی پیشانی پردیاروشن ہوجاتا۔اورگاتے ہوئے شہزادکی طرف مسکرامسکراکردیکھتے ہوئے ہوسٹیج سے باہر نکل جاتا۔
پھرشہزاد اٹھ بیٹھتی اورٹرنک کھول کرسفیدپھول داردوپٹہ لے کرکہتی۔”ہاں ہاں مجھے جاناہے ۔مجھے جاناہی ہوگا۔میں جارہی ہوں۔“اورگوشت کالوتھڑاقہقہے لگاتا۔ایکٹرمسکراتااورعلی احمدہنستے ”ہی ہی ہی ہی۔“اورایلی محسوس ہوتاجیسے وہ سب اس پرہنس رہے ہوںاورشہزاددرپردہ ان کے ساتھ ملی ہو۔ساری رات کروٹیں بدلتاآہیں بھرتا۔وہ شدت سی کوشش کرتاکہ ان خیالات کواپنے دامن سے جھٹک دے لیکن ان خیالات سے مخلصی پانااس کے بس کاروگ نہ تھا۔اس روحانی کرب کی وجہ سے وہ چاہتاتھاکہ شہزادکی گرفت سے نکل جائے لیکن اس کے ساتھ ہی شہزادکے قصورکی رنگینی شہزادکی جاذیت اورشہزادکی تسخیرکی عظمت بے پناہ کیف کے حامل تھے۔
صبح کے وقت شہزادکے سحرسے بچنے کے لیے وہ جاہ کے کمرے میں جاپناہ لیتاتھا۔شایداسی وجہ سے اس نے جاہ کی سردمہری اوربے رخی کوگواراکرلیاتھا۔جاہ کی شکوک بھری نگاہوں سے بچنے کے لیے اس نے ان رسائل اخبارات اورکتابوں کی ورق گردانی شروع کردی تھی جن کاجاہ کے کمرے میں ڈھیرلگارہتاتھا۔ایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیاتھاکہ مطالعہ امتحان کے خیال سے ہٹ کربھی ممکن ہے پہلے پہل اس کی توجہ تصاویرکی طرف مبذول ہوئی تھی اورتصاویرکاتفصیلی مفہموم سمجھنے کے لیے اس نے ان کے نیچے لکھے اشارات پڑھنے شروع کردیئے تھے پھرآہستہ آہستہ اس کی توجہ رسائل کے مضامین کی طرف مبذول ہوگئی تھی۔
ایلی کوکتابوں اوررسالوں کی طرف متوجہ دیکھ کرجاہ کی سردمہری تمسخرمیں بدل گئی۔”تم یہ رسالہ پڑھ رہے ہوکیا۔اونہوںکتاب کویوں نہ موڑو۔پہلے کتاب پڑھنے کاسلیقہ سیکھویہاں اورجریدہ یہ دنیاکے عظیم نقوش کامجموعہ ہے اسے دیکھ کرتم کیاسمجھوگے۔“
لیکن ایلی کے لیے جاہ کی باتیں ہاتھی کے دانت کی حیثیت رکھتی تھیں۔اگرچہ وہ باتیں تلخ تھیںلیکن تلخ ترحقائق کی یادایلی کے دل سے محوکرنے کاذریعہ تھیں۔
پھرآہستہ آہستہ ایلی کی ہٹ دھرم
 
Top