علی پور کا ایلی 396- 420

قیصرانی

لائبریرین
الجھے حالات میں شہزادبھی الجھ کررہ گئی تھی جس کی وجہ سے ایلی ان سوالیہ نشانات سے واقف ہوگیااوراس کی زندگی بے پناہ مسرت اوربے پایاں الم کے چکرمیں پس کررہ گئی۔
وہ راز
ایلی نے اس رازکواس قدرمتبرک بنادیاکہ محلے کی نانک شاہی انیٹیں جلترنگ کی طرح بجنے لگیں دروازے آہ وزاری کرنے لگتے کتے کسی آنے والی مصبت کے مبہم احساس سے مضطرب ہوکرچیخیں مارنے لگتے اورمحلے والیوں کے کان کھڑے ہوگئے:
محلے والیاں ایلی کودیکھ کرمنہ میں انگلیاں ڈال لتیں:
”ہائے ایلی توکیایہاں ہے۔لو--اورمیں سمجھ رہی تھی کہ لڑکاسکول میں پڑھنے گیاہواہے۔“
”لوہمیں کیامعلوم کبھی دیکھابھی ہوباہر چوگان میں۔پہلے تواللہ مارے ارجمندکے ساتھ پہروں لالٹین تلے کھڑارہتاتھااوراب گویاکسی تہ خانے میں چھپارہتاہے۔کیاہوگیاتری عقل کو۔“
کوئی کہتی:
”اے ہے لڑکے تواب شکل دکھانے سے بھی رہا۔ایسابھی کیا۔نہ لڑکے اپنوںسے ملنے ملاتے رہناہی اچھاہوتاہے۔“
کوئی مسکراکرکہتی:
”اپنوں سے توملتارہتاہے لال۔اپنے وہی ہوتے ہیں ناں جسے کوئی سمجھے۔ہم بوڑھیوں کواپناکیسے سمجھے۔ماشاءاللہ جوان ہے۔اب تو اس کی ماں کوچاہئے کہ شادی کردے اس کی۔“
”نہ جانے باپ کی طرح کتنی عورتیں گھرلائے گا۔“
”نہ بہن دعاکرو۔اللہ ہدایت دے۔“
محلے والیاں توپھربھی بات اشارتاً کرتی تھیں لیکن محلے کے لڑکے توکھلے بندوں اس سے سوالات کرتے تھے:
”کیوں بھئی۔کیاپھرماں کی گودمیں پڑگئے۔اب تودکھائی ہی نہیں دیتے۔کونسے چکرمیں پھنسے ہو۔اب تواونچی ہواوں میں اڑنے لگے ہونا۔“
وہ خودبھی انہیں ملنے سے کتراتاتھا۔باہرتووہ نکلتاہی نہ تھااس لئے اس کے پکڑے جانے کااحتمال ہی نہ تھااورگھرپرآوازدینے سے وہ ہچکچاتے تھے۔اگرکوئی آکرآوازدیتابھی توایلی خاموش ہورہتاکہ وہ سمجھے گھرپرنہیں اورواپس چلے جائیں۔
ان دنوں رفیق اورجمیل توعلی پورسے باہرگئے ہوتے تھے۔ارجمندکولاہورکے قریب تارپین کے تیل کے کارخانے میں ملازمت مل گئی تھی۔یوسف بھی وہاں نہ تھا۔لے دے کررضاتھا۔وہ لکڑی ٹیکتاہواآپہنچتااورمعصوم سامنہ بناکرنیچی نگاہوں سے شہزادکی کھڑکیوں تلے کھڑاہوکرآوازدیتا:
”ایلی!“--’ایلی!!“
ایلی آوازسن کرخاموش ہورہتا۔
جانوآگ بگولہ ہوجاتی:
”سدھ بدھ نہیں رہی کیا۔سنائی نہیں دیتاکوئی آوازدے رہاہے۔“
ایلی مسکراکرخاموش ہورہتااورشہزادیوں اپناکام میں منہمک دکھائی دیتی جیسے کچھ سناہی نہ ہو۔جانودوایک منٹ کے لئے کبھی ایلی اورکبھی شہزادکی طرف دیکھتی اورپھربڑبڑاتی ہوئی کھڑکی میں جاکھڑی ہوتی--
”کون ہے؟“جانوچلاتی۔
”ایلی ہے کیا؟“رضااوپردیکھے بغیرچلاتا۔
”بیٹھاہے۔“جانوغصے میں چیختی۔
”اچھا۔“رضاجان بوجھ کربہرابن جاتا۔”جب وہ آئے تودکان پربھیج دینا۔“
جانوپھرسے یوں چلاتی جیسے رضاکی بجائے اڑوس پڑوس والوں کوسنارہی ہو۔
”میں کہتی ہوں یہیں بیٹھاہے توبولتانہیں۔“
”اچھا۔“رضاچلتے ہوئے کہتا۔”جب وہ آئے تودکان پربھیج دینا۔“
جانوکامنہ غصے سے تپنے لگتا۔”عجب احمق ہے میں کچھ کہہ رہی ہوں اوروہ اپنی ہی کہے جاتاہے۔“
”کیاکہہ رہی ہوجانو۔مجھ سے کچھ کہہ رہی ہوکیا؟“ایلی اسے ستانے کے لئے معصوم اندازمیں پوچھتا۔
”لواب اسے بھی آگیاہوش۔کب سے چلارہی تھی کہ رضانیچے بلارہاہے۔سنتے ہی نہیں۔اوراب مجھ سے پوچھ رہاہے۔“
”ہائیں ۔مجھے بلارہاتھا۔“ایلی بن کرکہتا۔
”لو--“جانوچلانے لگتی اورخرافات بکناشروع کردیتی۔
پھرجب وہ تھک کرخاموش ہوجاتی توشہزادچپکے سے کہتی:
”کیابات ہے جانو۔آج توخاموش کیوں ہے۔بات ہی نہیں کرتی کوئی؟“
اس پرجانو کے تن بدن میں آگ لگ جاتی اوروہ ہاتھ ہلاہلاکرچلاتی۔شہزادآنکھ بچاکرایلی کی طرف دیکھ کربامعنی اندازسے مسکراتی۔اس پرایلی کے جسم میں خوشی کی رودوڑجاتی اوروہ محسوس کرتاجیسے وہ دونوں بچے ہوں اورمل کرجانوکے خلاف سازش کررہے ہوں۔
”مجھے کیوں ستارہے ہو۔اپناسرکھاو۔چاہے جوجی میں آئے کرو۔مجھے کیاواسطہ میں توتمہارے بھلے کی کہتی ہوں کہ یوں سارادن ایک جگہ بیٹھ رہنااچھانہیں۔لوگ ایسے برے ہیں کہ بات کئے بغیرنہیں رہتے۔چاہے کوئی کتناہی پاک پرہیزگارکیو ں نہ ہو۔لیکن تم نہیں سنتے۔میری تونہ سہی۔مجھے کیاغرض۔“جانوبکے جاتی۔
جب وہ ایک لمباچوڑالکچرپلاکرفارغ ہوتی توشہزادچپکے سے بات ٹالنے کے لئے کہتی:
”جانو!آج چائے نہیں پلاو گی کیا؟تم بالکل ہی بھوکاماروگی ہمیں--کیوں ایلی!چائے پیوگے نا؟“
ایلی ہنس کرکہتا:
”لوچائے بھی نہ ملی تومیں پیاسامرجاوں ِگا۔“اورشہزادچھپ چھپ کرمسکراتی۔اوراس کی مسکراہٹ کارازایلی کی روح میں ناچتااوروہ چھپاکررکھنے کی اوربھی شدت سے کوشش کرتا۔
ایسی باتیں کیسی باتیں
لیکن آصفی محلے کی سیاہ انیٹیں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کرمسکراہٹ بھینچنے کی کوشش کرتیں اورآصفی مکانات کے دروازے زیرلب چوں چوں کرکے مسکراتے،ہنتے اورپھررات کے اندھیرے میں محلے کے کتے روتے،چمگادڑیں چیختیں اوران تہہ خانہ نمامکانات میں محلے والیاں سرجوڑکرباتیں کرتیں اورپھرانگلیاں ہونٹوں پررکھ لیتیں۔
ایلی کے شب وروزمیں اس کی علاوہ صرف ایک بات تھی۔ہرروزیاہردوسرے روزآصف کاایک نہ ایک خط آجاتاجس میں تباہی اوربربادی اورایلی کے امرتسرنہ آنے کے متعلق شکوے اورشکایات ہوتیں۔تباہی اوربربادی کے ان قصوں میں کوئی خاص بات نہ ہوتی اورایلی قطعی طورپراندازہ نہ لگاسکتاکہ اس پرکیابیت رہی ہے۔وہ سمجھتاکہ آصف تفریحاً بربادی کارونارورہاہے جیسے کہ اس کی عادت تھی۔وہ جانتاتھاکہ آصف کی تمامترزندگی جھجک کے محورکے گردگھوم رہی ہے اوراس کی محبت ”لوگ کیاکہیں گے“کے سواکچھ نہیں اس لئے ایلی کویقین تھاکہ آصف آگے قدم رکھنے کی جرات نہ کرے گااس لئے اس کاکسی خطرے میں گرفتارہوناممکن ہی نہیں لہٰذا بربادیکاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔زیادہ سے زیادہ یہ بربادی ہوسکتی تھی کہ محلے میں بدنامی ہوجائے اوروہ چنچل لڑکی اسے خوش کرنے کے لئے عام مجمع میں قمیض اٹھاکرچلانے لگے:
”اب شرماکربھاگ کیو ں رہے ہو؟“
ویسے بھی تووہ اس کی بیٹھک کے روشندانوں پرلگے ہوئے ٹاٹ کے ٹکڑوں پرخشت باری کیاکرتی تھی اوراعلانیہ چلاتی:
”انہیں اتاردوان پردوں کوہٹادو۔ان رکاوٹوں کودورکردواورخودمیرے سامنے آرام کرسی پربیٹھ جاوورنہ میں ماروں گی اینٹ۔“
ایلی کاخیال تھاکہ آصف محبت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ایلی کے نزدیک تومحبت وہ تھی جس میں انسان محبوبہ کے سوااورکسی کی پروانہ کرے۔اس لئے ایلی آصف کی طرف سے مطمئن تھااوراسے یقین تھاکہ کچھ بھی نہ ہوگا۔زیادہ زیادہ سے شہرچھوڑکروہ بھاگ جائے گااوراپنے باپ کے پاس جاپناہ لے گاجوکسی دوردرازمقام پرایکسائزانسپکٹرتھے۔
پہلے چارخطوں کاتوایلی نے جواب بھی نہ دیاتھا۔اسے باربارتاکیدکی تھی کہ حالات تفصیل سے لکھے۔ایلی کوآصف کے معاملے میں بہت دلچسپی تھی۔اس کاجی چاہتاتھاکہ ایک باراپنی آنکھوں سے اس نڈرعاشق کودیکھے جولڑکی ہونے کے باوجوداس قدربے باک اوردلیرتھی کہ اپنے بھائیوں،باپ اوردیگروارثوں کے سامنے بھی اظہارمحبت سے نہ گھبراتی تھی۔ایلی کاجی چاہتاتھاکہاسے بھی کوئی ایسی ساتھی مل جائے اوروہ دونوں ہاتھ پکڑے افق کی طرف چل پڑیں اورایک دوسرے کے لئے تمام دنیاکوٹھکرادیں۔
پہلے تو اس کے دل میں شہزادکے کہنے پر”ایلی تم لوگوں کی پرواکرتے ہو؟“بڑ ی بڑی امیدیں پیداہوگئی تھیں لیکن جلدی ہی وہ سب گارے کی طرح دیواروں کی طرح دھڑام سے نیچے آگریں۔اب بھی شہزاداس پروہ نگاہ ڈالتی یاجب وہ فرحت کی طرف آکرفرحت یاہاجرہ کے کسی طعنے کے جواب میں ظاہرکرتی جیسے لوگوں سے قطعی طورپربے نیازہو۔جب وہ لوگوں کی موجودگی کے باوجودآنکھ بچاکرایلی کاگال سہلاجاتی یاچلتے چلتے چپکے سے اسے چٹکی بھرلیتی یاباتوں ہی باتوں میں آنکھ بچاکراسے گھورتی یازبان نکال کراس کامنہ چڑاتی اس وقت ایلی کاسینہ چوڑاہوجاتااورشانے ابھرآتے۔وہ محسوس کرتاکہ وہ خوش قسمت شخص ہے جسے شہزادسی ساتھی میسر ہے مگرجونہی وہ تنہائی میں شہزادسے ملتاتواس کی تمام امیدیں اورمسرتیں خاک میں مل جاتیں۔
ایلی نے آصف کے دوایک خطوں کے جواب بھیجے تھے باربارمطالبہ کیاتھاکہ تفصیلات لکھ کربھیجے۔لیکن آصف میں اتنی ہمت کہاں تھی کہ کاغذپردل کارازلکھ کربھیجتا۔اس نے تواپنی شخصیت کویوں چھپاکررکھاتھاکہ خوداسے جاننے سے محروم ہوچکاتھا۔تفصیلات کی بجائے وہ تباہی اوربربادی کے راگ الاپتارہااورباربارایلی کوامرتسربلاتارہا۔”خداکے لئے ایک بارآاکرمجھے بربادی سے بچالو۔“۔۔۔مگرایلی کواتنی فرصت کہاں تھی کہ وہ آصف سے ملنے جاتا۔وہ توشہزادمیں اپناآپ کھوچکاتھا۔وہ توچاہتاتھاکہ شہزاداس کے سامنے بیٹھی مشین چلاتی رہے اوروہ اس کی ڈولتی آنکھوں اورلٹکتے ہوئے بھرے اورگوروں بازووں کودیکھتارہے۔اس کے حنامالیدہ ہاتھوں کامنتظررہے۔شہزادچھم سے زینے سے اترے اورکہے:
”ایک۔“
”ایک لقمہ کھاو توزندگی سنورجائے۔“
اس بات کامتمنی تھاکہ شہزادزبان نکال کرایلی کامنہ چڑائے اورپھرسنجیدگی سے جانوسے کہے:
”جانو۔تم آج بات ہی نہیں کرتیں۔ناراض ہوکیا؟“
اگرایلی کواحساس ہوجاتاکہ آصف شہرچھوڑکرجانے کے علاوہ کچھ اورکرنے کی بھی اہلیت رکھتاہے توحالات یہ رخ اختیارنہ کرتے لیکن ایلی کوتو یقین تھاکہ آصف خطرے میں کودنہیں سکتاچونکہ اس میں آگے قدم رکھنے کی جرات نہیں۔ایلی کوکبھی خیال نہیں آیاتھاکہ وہ قدم پیچھے ہٹاسکتاہے جوخطرناک نتائج پیداکرسکتاہے۔اگراسے اس بات کاذرابھی احساس ہوتاتوشایدوہ آصف کوملنے کے لئے امرتسرچلاجاتامگرایسانہ ہوا۔
بربادی اورتباہی کے اعلان کم ہوتے گئے۔شاعری کاعنصرنہ رہاجس سے اس کے پہلے خط لبریزہوتے تھے۔آہستہ آہستہ اس کے خطوط میں صبراورضبط کی جھلک واضح ہوگئی اورنفس مضمون میں اختصارپیداہوتاگیااورآخرش ایلی کوآصف وہ خط موصول ہواجس میں صرف ایک جملہ لکھاتھا:
”میں تادم تحریرزندہ ہوں۔“
ایلی نے وہ خط دیکھا۔اسے باربارپڑھالیکن اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔آخرتادم تحریرزندہ ہوں سے اس کامقصدکیاتھا۔یہ بات توایک حقیقت تھی۔ایک ایسی حقیقت جسے کوئی جھٹلانہیں سکتاتھا۔انسان اپنے مستقبل کے متعلق کیسے جان سکتاہے۔وہ صرف حال کے متعلق ہی جانتاہے اورحال کیاہے ۔ایک ساعت ،ایک مختصرترین ساعت ۔ایلی نے لاشعوری طورپران باتوں کاجائزہ لیا۔
اس وقت شام کاوقت تھا۔ایک اداس شام شہزادکی موجودگی کے باوجوداداس،اس کی سیاہ آنکھوں میں چمکتی ہوئی شرارت کے باوجوداداس ۔وہ چپ چاپ شہزادکے پاس جابیٹھا۔
”شہزاد“وہ بولا۔”یہ دیکھوتو؟“
”یہ خط میرے دوست کاہے۔“ایلی نے اسے خط دیتے ہوئے کہا۔
”عجیب خط ہے۔“وہ بولی۔”اس سے توبہترتھااپنی تصویرہی بھیج دیتا“وہ ہنسنے لگی۔
”تم نہیں جانتیں۔“ایلی نے کہا۔”اسے ایک لڑکی سے محبت ہے۔“
”اچھا۔“وہ مسکرائی۔”محبت ہے--پھر؟“
”کہیں کوئی گڑبڑنہ ہوجائے۔“ایلی نے کہا۔”کہیں وہ مرنہ جائے۔“
”محبت میں مرجائے۔“اس نے پوچھا۔”کیالڑکی کواس کی پروانہیں۔“
”وہ توجان دیتی ہے اس پر۔“ایلی نے جواب دیا۔
”پھراسے کیاپڑی ہے کہ جان دے۔“شہزاد مسکراتے ہوئے بولی۔
”شاید--“ایلی سوچ رہاتھا۔
”واہ۔“وہ ہنسی ۔”محبت کرنے والے کبھی نہیں مرتے۔وہ توامرہوجاتے ہیں۔“
”اچھاامرہوجاتے ہیں کیا۔تومجھے بھی امرکردوشہزاد۔“
”امرہوتے ہیں ۔“وہ بولی۔“کئے نہیں جاتے۔“
”توکیامیں امرہوگیاہوں؟“ایلی نے پوچھا۔
وہ سوچ میں پڑگئی۔پھردفعتاً سراٹھاکربولی۔
”ایلی؟“
”جی ۔“ایلی نے امیدافزانگا ہ سے اس کی طرف دیکھا۔
”ایلی کیاتم واقعی--“پھردفعتاً وہ رک گئی۔
”بولونا۔“ایلی نے شہزادکابازوجھنجھوڑا۔”کیاکہہ رہی تھیں تم؟“
کچھ نہیں۔“شہزادکی آنکھوں میں آنسوتیرنے لگے۔
”نہیں نہیں۔“وہ ضدکرنے لگا۔”ضروربتاومجھے۔“
”کچھ ہوتوبتاوں میں--“وہ مسکرائی۔اس کی مسکراہٹ نمناک تھی۔
”اچھاتوکچھ بھی نہیں۔“ایلی نے بات کارخ بدلااورسرجھکاکربیٹھ گیا۔پھردفعتاً اس نے سراٹھایا۔
”شہزاد۔“وہ بولا۔”تمہاراکچھ بھی نہیں میرے لئے دنیابھرکے کے سبھی کچھ سے زیادہ ہے--“
شہزادنے تڑپ کرایلی کی طرف دیکھااورایلی کے منہ پرہاتھ رکھ دیا۔
”ایسی باتیں نہ کیاکروایلی۔“ وہ بولی۔
”کیسی باتیں؟“”ایلی نے پوچھا۔شہزادخاموش رہی۔
”کیوں نہ کیاکروں؟“ایلی نے پوچھا۔
”بس نہ کیاکروایلی--میری خاطر۔“شہزادنے منت سے کہا۔
”تمہاری خاطرمیں سبھی کچھ کرسکتاہوں شہزادمگریہ مطالبہ نہ کروکہ تمہاری خاطرمیں کچھ نہ کہوں۔“
”اچھا۔“وہ ہنسنے لگی--“میری خاطرتم کیاکیاکررہے ہو؟“
”جومیں اپنی خاطرنہیں کرسکتاتمہاری خاطرکرسکتاہوں صرف تمہاری خاطر۔“
”چپ ۔“وہ چلائی۔اوراس کی حنائی انگلی ایلی کے ہونٹوں پرٹک گئی۔
وہ پہلادن تھاجب تخلیئے میں شہزادنے ایلی سے اظہارالتفات کیاتھا۔اس اظہارالتفات کے بعدآصف کاوہ خط بے معنی ہوکررہ گیا۔ایلی کے لئے تمام کائنات شہزادسے بھرگئی۔ان جانے میں ایلی کاسرجھکااوربازوکی بجائے شہزادکے بلوری پاوں پرٹک گیااورشہزادنہ جانے کس افق پرکھوکررہ گئی۔
بلاوا
اگلے روزایلی جب چوبارے میں بیٹھاہوا حسب معمول شہزادکے پاوں کاجائزہ لے رہاتھاتودفعتاً چوگان سے شورسنائی دیا:۔
”کون ہے تو؟“
”ویرکسے ملے گاتو؟“کوئی محلہ والی بولی۔
”کون آیاہے بہن؟“دوسری چلائی۔
”میں کہتی ہوں کوئی آیاہے کیا؟“
”ہاں ہاں۔کوئی امرتسرسے آیاہے۔“
”کس کے ہاں آیاہے؟“
”اپنے علی احمدکے ہاں۔“
”اچھابسم اللہ۔سوبارآئے ۔کوئی مہمان ہوگالیکن علی احمد توآج کل نوکری پرہیں۔“
”کہتاہے ایلی سے ملناہے۔“
”ایلی سے ملناہے؟“
ایلی گھبراگیا۔وہ چپکے سے اٹھااورکھڑکی کی درزسے دیکھنے لگا۔چوگان کے عین درمیان میں ایک اونچالمبانوجوان کھڑادیکھ کروہ حیران رہ گیا۔نہ جانے کون ہے؟اس کے چہرے کوغورسے دیکھنے کے باوجودوہ اسے پہنچان نہ سکا۔
”بیٹے !کیانام ہے تیرا؟“مائی حاجاں چلاتے ہوئی چلاکربولی۔
”کیاکہاشفیع --اللہ تیرا بھلاکرے۔ابھی آجاتاہے ایلی یہیں ہوگا۔“
”اے ہاجرہ ۔اے لڑکی فرحت میں کہتی ہوں لڑکی کیانام ہے تیرا؟--“ہے مجھے تواللہ مارانام ہی بھول جاتاہے۔ہاں اپنی جانوں--اے جانوں--ذراہاجرہ کوآوازتودینا--کہناکوئی ایلی سے ملنے آیاہے۔“
ایلی کاجی چاہتاتھاکہ کسی سے کہلوادے کہ ایلی گھرپرنہیں اوراس اجنبی سے ملاقات کی کوفت سے جان بچالے لیکن اس وقت تک محلے میں چاروں طرف شورمچ چکاتھا۔محلے والیاں اجنبی کے متعلق سن کرگدھوں کی طرح کھڑکیوں اورمنڈیروں پرآکھڑی تھیں۔ہاتھوں کی پنکھیاں چل رہی تھیں ہاتھ چل رہے تھے۔زبانیں قینچی کی طرح چل رہی تھیں۔اب ان کی زدسے بچناممکن نہ تھا۔اس لئے وہ بادل نخواستہ نیچے اترگیااورڈرتے ڈرتے چوگان میں پہنچا۔
”کون ہے؟“اس نے پوچھا۔
چاروں طرف سے محلے والیوں نے ایلی کودیکھ کرشورمچادیا۔
”ہائیں تم شفیع۔“--شفیع کودیکھ کرایلی--حیران رہ گیا۔شفیع اس کا ہم جماعت تھا۔وہ اس کی شکل وصورت سے پوری طرح واقف تھا۔حیرانی اس بات پرتھی کہ اس نے شفیع کوپہچاناکیوں نہ تھااورفرض کیجئے دوری کی وجہ سے پہچان نہ سکاتھاتوبھی اس کے نام لئے جانے پروہ اسے کیوں نہ پہچان سکا؟
”آوآو۔“وہ گرمجوشی سے بولا۔”اوپرچلو۔“
”نہیں ۔“شفیع بولا۔”مجھے جلدی ہے۔“
”جلدی ہے توکیابیٹھوگے نہیں۔“ایلی نے پوچھا۔”کیسے آئے ہو؟“
”تمہیں لینے آیاہوں۔“شفیع نے جواب دیا۔
”مجھے لینے آئے ہو؟“
”ہاں۔“وہ رک کربولا۔”میرے ساتھ امرتسرچلناہے تمہیں۔“
”کیوں؟“ایلی کے منہ سے یوں نکل گیاجیسے اسے شفیع کی بات بری لگی ہو۔
ایک ساعت کے لئے شفیع گھبرارہاپھرمسکراکربولا:”آصف نے بلایاہے تمہیں۔“اس کی مسکراہٹ حسرت آلودہ تھی۔
”آصف نے بلایاہے۔“ایلی نے دہرایا۔
”ہاں ۔وہ کہتاتھااسے لے کرآنا۔“
”تم کسی اپنے کام سے آئے ہوگے یہاں؟“ایلی نے پوچھا۔
”نہیں تو۔صرف تمہارے لئے۔“
”صرف مجھے لے جانے کے لئے خیریت توہے؟“ایلی گھبراگیا۔
”آصف کی حالت اچھی نہیں۔“شفیع نے آنکھیں جھکاکرکہا۔
”حالت اچھی نہیں--کیامطلب؟“
”اس نے کہاتھامیری طرف سے کہہ دیناحالات اچھے نہیں اورساتھ لے کرآنا۔“شفیع نے بصدمشکل جملہ ختم کیا۔
”ہوں۔توحالات اچھے نہیں۔یہ کہونا۔اس کے حالات توکبھی اچھے نہ ہوں گے۔”ایلی چمک کربولا۔
”چلواب راستے میں باتیں کریں گے۔“شفیع بولا۔
”اگرمیں دوسری گاڑی میں آجاوں تو؟“ایلی نے پوچھا۔
”نہیں ۔“شفیع بولا۔”ابھی چلناہوگا۔ضروری ہے۔“
”اچھاتومیں تیارہوآوں۔“ایلی نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔
”دیرنہ لگانا۔“شفیع نے اسے تاکیدکی۔
بے معنی کہرام
ایلی تیارہوکرآیاتووہ سٹیشن کی طرف چل پڑے۔محلے سے باہرنکلتے ہی ایلی نے سوالات کی بھرمارکردی:
”آصف تمہیں کیسے مل گیا؟کیاتم چھٹیوں میں باہر نہیں گئے تھے کہیں؟خودکیوں نہ آیاآصف؟تمہیں گھرکاپتہ کیسے مل گیا؟مجھے اس نے کیوں بلایاہے؟آخربات کیاہے؟“
شفیع ایلی کے سوالات سے گھبراگیا۔لیکن اس نے ان میں سے کسی کاجواب نہ دیابلکہ جواب دینے کی بجائے اس نے اپناقصہ چھیڑدیاکہنے لگا۔
”بات یہ ہے کہ آصف کوایک لڑکی سے محبت تھی۔“ایلی نے مصنوعی تعجب سے کہا۔
”ہاں اسے محبت ہوگئی تھی۔“شفیع نے کہا۔
”لیکن اس نے مجھ سے توکبھی بات نہیں کی تھی۔اس کے متعلق۔“ایلی نے منہ پکاکرلیا۔
”کسی سے بات کرنااس کی عادت میںداخل نہ تھا۔“شفیع نے آہ بھری۔
”پھراس نے تم سے بات کیسے کی۔تمہیں یہ رازکیسے بتادیاآصف نے؟“
”بے چارہ مجبورہوگیاہوگا۔پھربھی اس نے مجھ سے پوری بات نہیں کی۔“شفیع نے کہا۔
”کیابات کی تھی تم سے آصف نے؟“ایلی اپنی لاعلمی کااظہارکرنے کی کوشش کرنے لگا۔
”مجھ سے --“شفیع خاموش ہوگیا۔اس کی آنکھ سے ایک آنسوڈھلک آیا۔
”شفیع ۔“ایلی نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔”تم رورہے ہو؟“
”نہیں۔“شفیع سے مسکرانے کی کوشش کی۔”دراصل میری آنکھیں دکھتی ہیں۔پانی گرتاہے۔آصف سے مجھے گھربلابھیجاتھاکہنے لگا۔شفیع کیا تم ایلی کوبلاسکتے ہو۔اگرایلی نہ آیاتو--تو--“وہ خاموش ہوگیا۔جس طرح وہ بات کرتاہے تم جانتے ہی ہو۔“شفیع نے پھربات شروع کی۔
”ہاں مجھے معلوم ہے۔“ایلی نے کہا۔”اچھی طرح معلوم ہے۔“
’‘پھراس نے میری منتیں کیں۔“شفیع کہنے لگا۔”لیکن میں نہ مانا۔میں نے کہاجب تک بلانے کی وجہ نہ بتاوگے میں نہ جاوں گا۔پھراس نے بتایامجھے کہنے لگامیں عجیب مصیبت میں گرفتارہوں۔اگرایلی نہ آیاتوسمجھ لومیری زندگی ختم ہوجائے گی۔“
”بے وقوف ۔“ایلی چلایا۔”محبت لڑکی سے ہے لیکن ایلی نہ آیاتوسمجھ لوزندگی ختم ہوجائے گی۔۔۔عجیب بے تکی سے بات ہے۔“
”نہیں ایلی۔“شفیع نے اس کاہاتھ پکڑلیا۔”وہ واقعی تکلیف میں ہے۔اس کی حالت اچھی نہیں۔“
”حالت اچھی نہیں۔“ایلی چلایا۔”اچھاخاصاہے۔کھاتاپیتاہے۔حالت اچھی کیوں نہیں۔“
”نہیں۔“شفیع رک رک کرکہنے لگا۔”اب توبے چارہ ختم ہوگیا۔منہ زردہوگیاہے۔آنکھیں نکل آئی ہیں۔پہچاناتک نہیں جاتا۔“شفیع نے کہا۔
”کیاواقعی ؟“ایلی سوچ میں پڑگیا۔
”ہاں--اب شایدوہ بچ نہ سکے۔“شفیع نے بھرائی ہوئی آوازمیں کہا۔
”بچ نہ سکے۔تم بھی حدکرتے ہو--“ایلی بولا۔
”سچ ایلی ۔“شفیع نے سرجھکالیا۔
شفیع کے اندازکی سنجیدگی کی وجہ سے ایلی خاموش ہوگیا۔وہ چاہتاتھاکہ شفیع کی بات کی پھبتی اڑادے مگرہمت نہ پڑی۔اس نے محسوس کیاجیسے اس کی طاقت گویائی ختم ہوتی جارہی ہو۔جیسے اس کی رگوں میں خون جم گیاہو۔وہ خاموش ہوگیا۔اوروہ دونوں نہ جانے کب تک خاموش بیٹھے رہے۔ایلی گاڑی کی کھڑکی کے باہردوڑتے ہوئے دیہات کے منظرکی طرف کھوئے کھوئے دیکھتارہااورشفیع کی دکھتی آنکھ سے قطرے گرتے رہے۔
دفعتاً گاڑی کودھچکالگااوروہ رک گئی۔امرتسرکے پلیٹ فارم کودیکھ کرایلی حیران رہ گیا۔اسے یادہی نہ رہاتھاکہ وہ امرتسرجارہاہے۔اسے یہ بھی خیال نہ رہاتھاکہ شہزاداس وقت بیٹھی مشین چلارہی ہوگی۔اسی طرح سرجھکائے بازولٹکائے۔اس وقت ایلی کے ذہین میں ایک وسیع خلاپھیلاہواتھا۔
سٹیشن سے وہ دونوں تانگے میں سوارہوگئے۔وہ دونوں خاموش ہوگئے تھے جیسے انہیں ایک دوسرے سے کچھ نہ کہناہو۔
جب وہ آصف کے گھرکے قریب پہنچے توشفیع نے مہرسکوت توڑا۔
”ایلی۔“وہ بولا۔
”جی۔“ایلی چونکا۔
شفیع رک گیاجیسے اسے یادنہ رہاہوکہ کیاکہناچاہتاہے۔”آصف کی حالت بہت خراب تھی۔بہت خراب ۔اس حدتک کہ شاید۔۔۔“
”سب ٹھیک کرلوں گامیں۔“ایلی چمک کربولا۔
”شایدوہ۔۔“شفیع نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”شایدکاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔“ایلی نے اس کی بات کاٹ کرکہا۔
گلی کاموڑمڑتے ہی ایلی حیران رہ گیا۔وہ تنگ گلی لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔کھڑکیوں میں ‘منڈیروں پرعورتوں کاہجوم تھا۔اس نے محسوس کیاجیسے وہاں غدرہوگیاہو۔لوگ چلارہے تھے۔چیخ رہے تھے۔
”یہ کیاہے؟“اس نے ہٹ کرشفیع سے پوچھا۔
شفیع نے ایلی کی بات کاکوئی جواب نہ دیابلکہ اس کاہاتھ پکڑکرمجمع چیرتاہواآگے نکل گیا۔آصف کے مکان کے نیچے وہ رکاجہاں لوگوں کی بھیڑلگی ہوئی تھی۔
”ایلی آگیاہے۔“وہ چیخ کربولا۔
”ایلی آگیاہے۔“اوپرسے زنانہ آوازیں آئیں اورپھردفعتاً لوگوں کی دلدوزچیخیں سنائی دیں۔ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔چاروں طرف سے چیخوں کی آوازیں آنے لگیں:
”وہ آگیاہے۔وہ آگیاہے۔“
”ایلی آگیاہے مگرتوچلاگیاہے۔لے بیٹے آگیاتیرادوست۔اب اس سے توبات کر۔آصف تیرادوست تجھ سے ملنے آیاہے۔ہم سے توتونے کبھی بات نہ کی کیااس سے بھی بات نہ کرے گا۔ایلی بیٹے!تیراآصف چپ ہوگیاہے۔اب وہ نہیں بولتا۔اب وہ کبھی نہ بولے گا۔“
پھروہی چیخیں سنائی دینے لگیں جنہیں سن کرایلی سن ہوکررہ گیا۔جیسے وہ ایک بے جان چیزہو۔اس کے گردچاروں طرف چیخوں سے بھراہواایک ویرانہ پھیلاہواتھا۔اسے مٹیالے دھبے سے دکھائی دے رہے تھے۔دورکوئی بین کررہاتھااورسینکڑوں مدھم مدھم آوازیں کراہ رہی تھیں۔
ننگی رقاصہ
پھردفعتاً کوئی چلایا:”ہٹ جاوجنازہ آرہاہے۔“
اوروہ دھبے ہوامیں تیرنے لگے۔چاروں طرف عجیب عجیب آوازیں بلندہوئیں بے معنی آوازیں پھروہ سب ایک کھلے میدان میں کھڑے تھے جہاں ایک خوف ناک سناٹاچھایاہواتھا۔آسیب زدہ مکان میں بھوت پریت چل پھررہے تھے۔میدان میں قبروں کے درمیان کھلے بالوں والی ایک خوبصورت ڈائن کھڑی تھی۔اس نے اپنی چھاتیوں پرقمیض اٹھارکھی تھی۔اس کے گھنگھریالے بال چہرے کے گردپھیلے ہوئے تھے۔اس کی آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے تھے اوروہ رقص کررہی تھی۔مسرت بھرارقص۔۔وحشت بھرارقص۔لوگ اس کے وجودسے بے خبرسفیدکپڑے میں لپٹی ہوئی لاش کندھے پراٹھائے ہوئے تھے۔
پھردفعتاً ایک شوربرپاہوا۔وہ لدوزچیخیں وہ ہچکیاں کراہیں بندہوگئیں۔وہ نہ جانے کدھرکوچل پڑے۔ایلی نے محسوس کیاجیسے ان کے آگے آگے وہی ننگی رقاصہ ناچتی جارہی تھی۔
پھروہ نمازپڑھ رہے تھے اوروہ امامت کررہی تھی۔وہ لاش کودفنارہے تھے اوروہ قہقہے لگارہی تھی۔
”ایلی ۔“شفیع نے اسے آوازدی۔”چلوگھرچلیں۔“
ایلی نے نفی میں سرہلادیا۔
”توکیاتم علی پورجاوگے؟“شفیع نے پوچھا۔”اس وقت؟“
”ہاں۔“ایلی نے جواب دیا۔”میں جارہاہوں۔“
”اچھاتوچلومیں تمہیں سٹیشن پرچھوڑآوں گا۔“وہ بولا۔
دفعتاًایلی نے شفیع کی طرف دیکھا:
”شفیع ۔“وہ بولا۔کیاواقعی آصف مرگیا؟“
”لیکن لیکن--تم توکہتے تھے--“ایلی رک گیا۔
’‘میں میں۔“شفیع نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔”میں تمہیں بتاناچاہتاتھالیکن۔۔۔“
”تمہیں معلوم تھاکہ؟“ایلی نے پوچھا۔
”ہاں۔“اس کی دکھتی آنکھ سے پانی جاری ہوگیا۔”آصف نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ تمہارے آنے سے پہلے اس کاجنازہ نہ اٹھایاجائے۔“
ایلی تڑپ کرمڑا۔وہ پھیلاہودھندلکادفعتاً ختم ہوگیا۔اس کی گرداونچے لمبے لوگ بھاگ رہے تھے۔ڈراونے مکانات سراٹھائے کھڑے تھے۔
”وصیت۔“ایلی گنگنایا۔
”ہاں۔“شفیع بولا۔”آصف سے کل رات زہرکھالیاتھا۔
”زہر؟“ایلی کے ہونٹ ہلے۔
”رات کے دوبجے وہ مرگیااورمرنے سے پہلے اس نے گھروالوں سے کہہ دیاکہ جب تک تم نہ آوجنازہ نہ اٹھایاجائے۔صبح اس کے گھروالوں نے مجھے بلاکرعلی پوربھیج دیاتاکہ تمہیں لے آوں۔“
”زہرکھالیا؟“ایلی اپنے آپ ہی بڑبڑایارہاتھا۔
”کہتے ہیں۔“شفیع نے کہا۔”اس لڑکی نے آصف کوخط لکھاتھا۔آوہم اکٹھے زہرکھالیں۔فلاں دن فلاں وقت اوردونوں مرجائیں۔“
”اوروہ بھی مرگئی کیا؟“ایلی نے پوچھا۔
انتقام---انتقام
”نہیں۔“شفیع بولا۔”وہ نہیں مری۔کوئی کہتاہے اسے کھانے کوزہرنہیں ملا۔کوئی کہتاہے وہ دراصل آصف سے انتقام لیناچاہتی تھی اس لئے اس نے اسے دھوکادیا۔اس لڑکی کی بے حدبدنامی ہوئی تھی نا۔اوراس کے بھائیوں نے اسے باندھ کرپیٹاتھا۔پھروہ اس محلے سے اسے لے گئے تھے۔دورکسی اورمحلے میں سفیدکٹڑے کے قریب لیکن سچی بات کے متعلق کسی کونہیں معلوم۔“شفیع نے کہا۔”میراخیال تھاشایدتمہیں معلوم ہوگا۔“
”مجھے--“ایلی سوچ میں پڑگیا۔”سب بیکارہے بالکل بے کار۔کوئی فائدہ نہیں۔“ایلی نے محسوس کیاجیسے وہ خودآصف کی موت کاذمہ دارہوجیسے اسی نے آصف کوماراہو۔ان اونچی عمارتوں کے اوپرایک حسین لڑکی مسکرارہی تھی۔مسکراتے ہوئے اس نے اپنی قمیض کے دامن کونیچے کونوں سے پکڑلیااورپھربازواوپراٹھائے۔اوپراوراوپر۔حتیٰ کہ وہ ننگی ہوگئی اورآصف اسے دیکھ کرچلانے لگا---”نہیں نہیں نہیں نہیں۔“---پھراس کارنگ ہلدی کی طرح زردپڑگیااوروہ بھوت بن گیااورلوگوں نے اسے سفیدلٹھے میں لپیٹ دیا۔اورکسی نے باآوازبلندچلاکرکہا۔”ہٹ جاو۔جنازہ آرہاہے۔“
”میں سمجھتاہوں۔“شفیع بولا۔”اس لڑکی نے واقعی آصف سے انتقام لیاہے کیونکہ آصف نے اس کی طرف التفات نہ کیاتھا۔کچھ لوگ کہتے ہیں وہ دونوں چارایک بارچوری چوری ملے بھی تھے۔کچھ کہتے ہیں نہیں لڑکی کی شوق ملاقات سے تڑپتی رہی لیکن آصف نے اپنی بے توجہی سے اسے بھسم کردیااس لئے وہ انتقام پرتل گئی۔کہتے ہیں اگرلڑکی کے پیارکوٹھکرادوتووہ انتقام لیتی ہے۔میرامطلب ہے اگراس کی آرزوئیں پوری نہ کروتووہ انتقام لیتی ہے۔“شفیع نے وضاحت کی۔
”انتقام لیتی ہے۔انتقام لیتی ہے۔“
گاڑی کاانجن چلاتاہواجارہاتھا۔
کھیتوں میں ایک برہنہ عورت ناچ رہی تھی۔اس کے بال کھلے تھے۔چھاتیاں ابھری ہوئی تھیں ۔ناخن بڑھے ہوئے تھے۔
”انتقام لیتی ہے۔انتقام لیتی ہے۔“انجن گویاایلی کودھمکیاں دے رہاتھا۔”انتقام لیتی ہے --انتقام لیتی ہے۔“
دفعتاً برہنہ عورت کے چہرے میں تبدیلی واقع ہوئی۔ایلی نے اسے پہچان کرچیخ سی ماری:
”شہزاد۔“اس کاجسم پسینے سے شرابورہوگیا۔
”کیاہے تمہیں بابو۔“ اس کے قریب بیٹھے ہوئے مسافرنے اس کی طرف دیکھ کرپوچھا۔
”بیمارہوبھائی؟“دوسرے نے پوچھا۔
ایلی گھبراگیا۔
”ہاں۔“وہ بولا“میری طبیعت ٹھیک نہیں ۔“
لیٹ جاو۔لیٹ جاو۔“انہوں نے زبردستی اسے لٹادیا۔
وہ برہنہ عورت تیرتی ہوئی کھیتوں سے گاڑی میں آگھسی اوراس کی چھاتی پربٹیھ گئی۔---
”انتقام۔انتقام۔“گاڑی چلائے جارہی تھی۔تڑپ کروہ اٹھ بیٹھا،”انتقام،انتقام“شفیع دورسے مسکراکربولا۔”اگراس کی خواہشات پوری نہ کی جائیں تووہ انتقام لیتی ہے۔“
برہنہ شہزادکے کھلے بال ایلی کے چہرے سے مس کررہے تھے۔”انتقام۔انتقام۔“انجن اسے خبردارکررہاتھا۔ڈبے کے سبھی مسافرحیرانی سے اسے دیکھ رہے تھے۔
”نہیں نہیں۔“وہ چلایا”نہیںنہیں۔“
”کیاہے تمہیں؟“کسی نے قریب آکرپوچھااوراس کے جسم کوہاتھ لگاکربولا۔”اسے توبخارہورہاہے۔“ ”نہیں نہیں۔“ایلی چلایا۔”بخارنہیں بخارنہیں۔“
پھراسے ہوش آیاتووہ چارپائی پرلیٹاہواتھا۔اس کے گردکئی ایک دھندلائے ہوئے چہرے تھے۔دفعتاً ایک چہرہ اس کے قریب ترہوگیاکھلے بالوں میں گھراہوا۔گھبرایاہوا۔
”شہزاد۔“اس کے ہونٹ کھلے ۔اسے دیکھ کروہ جوش میں آگیا۔”تم مجھ سے انتقام لوگی۔“اس نے اٹھ کربیٹھنے کی کوشش کی۔
شہزادہنسنے لگی:”کیاکہہ رہے ہوتم؟“
”نہ جانے بیہوشی میں کیابول رہاہے۔“ہاجرہ بولی۔”دیکھوتوبخارسے بدن تپ رہاہے۔“
”کیاہے تمہیں ایلی؟“شہزادنے پوچھا۔
”کچھ بھی نہیں۔کچھ بھی نہیں۔“ایلی خاموش ہوگیا۔
پھرجب سب لوگ چلے گئے تواس نے شہزادکوآوازدی۔وہ گھبراکراٹھ بیٹھی۔
”کیاہے ایلی؟“وہ قریب آکربولی۔
”تم مجھ سے انتقام تونہ لوگی۔“ایلی نے پوچھا۔
”انتقام۔کیاکہہ رہے ہوتم؟شہزادگھبراگئی۔
ایلی نے شہزادکابلوری پاوں پکڑلیا۔بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے۔
”ہائیں۔“شہزادچلائی ۔”تم رورہے ہو؟“
”وعدہ کروشہزاد۔وعدہ کرو۔“وہ منت کرنے لگا۔”تم مجھ سے انتقام نہ لوگی۔وعدہ کرو۔“
”پاگل نہ بنو۔“وہ بولی۔
”نہیں نہیں۔وعدہ کرو۔“ایلی نے منت کی۔
”نہیں ۔میں تم سے انتقام نہ لوں گی۔“شہزادبولی۔”اب نہ روو۔“وہ اسے تھپکنے لگی اوروہ اس کے بلوری پاوں پرسررکھے روتاروتاسوگیا۔
نئی الجھن
شہزادکے اس وعدے کے باوجودایلی کے دل میں انتقام کاخوف جوں کاتوں قائم رہا۔اگرچہ شفیع نے اس روزوہ بات سرسری طورپرکی تھی مگرایلی کے دل میں وہ بات گھرکرگئی۔اورپھرنہ جانے آصف کی موت کی وجہ سے یاامرتسرکے لوگوں کی سرگوشیوں کی وجہ سے وہ بات ایلی کے دل کی گہرائیوں میں اترگئی۔
جب بھی ایلی شہزادکے پاس جاتاتوشفیع نہ جانے کدھرسے آنکلتااورمسکراکرکہتا:
”اگرعورت کی آرزوئیں پوری نہ کی جائیں--“دفعتاً اس کی مسکراہٹ خوف ناک سنجیدگی میں بدل جاتی اورساری دنیاپرسکوت طاری ہوجاتا۔خوف ناک سکوت۔اورپھرفاصلے پھیلتے اورشہزادکوسوں دورہوجاتی اوربڑبڑاتی اورجانومنظرسے خارج ہوجاتی۔
اکثراکیلے میں بیٹھے ہوئے وہ سوچتا۔آخرشہزادکوکیاپڑی ہے کہ مجھے اچھاسمجھے۔چاہتاتوبات ہی اورہے۔وہ شادی شدہ ہے۔اس کاخاوندہی جوچھت پرآنکھیں گاڑنے کے باوجودشہزادکی ہربات پرمسکرادیتاہے اورجب بھی اس کی طرف دیکھتاہے تواس کے ہونٹوں سے لعاب کاتارنکل آتاہے جیسے شہزادمٹھائی کی ٹوکری ہو۔ایسے خاوندکوچھوڑکرایلی سے محبت کرنے میں اسے کیافائدہ ہے۔ایلی کاناک نقشہ حسین نہ تھا۔اس کاجسم ہڈیوں کاایک ڈھانچہ تھا۔رنگ سیاہ تھاجس میں چوڑے چوڑے زرددانت نہایت بدنمالگتے تھے۔
ایلی کویقین نہ آتاتھاکہ کوئی عورت اس سے محبت کرسکتی ہے۔اس دورمیں ایلی کے خیالات روایتی رنگ لئے ہوئے تھے۔بہت سے روایتی اعتباراس کے دل میں جاگزیں تھے جن کی صحت کے متعلق اسے کبھی شک نہیں پڑاتھا۔شک بھی کیسے پڑتا؟وہ دوراس عمرکادورتھا
جب کہ اس کے والدین ،اس کے بزرگ اورمحلے کے بوڑھے اسے ایک بچے سے زیادہ حیثیت دینے کے لئے تیارنہ تھے۔
یہ وہ زمانہ تھاجب تجربہ سب سے بڑی خصوصیت سمجھاجاتاتھا۔جب علم اورفکرکی کوئی حیثیت نہ تھی اورانفرادیت دیوانگی کے مترادف سمجھی جاتی تھی۔اس زمانے میں شادی ہوجانے کے بعددفعتاً لوگ معززبن جاتے اورانہیں یہ حق حاصل ہوجاتاکہ وہ جملہ حقائق پرتبصرہ کریں اورکنواروں کوصراط مستقیم کے متعلق سمجھائیں۔
اس کے والدعلی احمدجب بھی ایلی کے متعلق اظہاررائے فرمایاکرتے توان کے انداز سے تحقیرکاعنصرواضح ہوتا۔ان حالات میں وہ بھلازندگی کے مسائل کے متعلق خودسوچنے کی جرات کیسے کرسکتاتھا۔اسے کیسے یقین آسکتاتھاکہ کوئی عورت اس سے محبت کرسکتی ہے ۔ایسی صورت میں اس کے نزدیک شہزادکے قرب کی آرزوکرنابھی جائزنہ تھا۔اس خیال پرہی وہ چونک جاتااورندامت محسوس کرتا۔چونکہ اسے یقین تھاکہ اس نے شہزادکوچھواتووہ میلی ہوجائے گی۔ناپاک ہوجائے گی۔اسی وجہ سے ایلی کی خواہش تھی کہ وہ شہزادکے دورسے پیارکرے ایلی کے سجدے شہزادکے لٹکنے والے بازووں، اس کے رنگین گدے سے ہاتھوں اوراس کے بلوری پاوں تک محدودرہے مگراب اس کی محبت کی راہ میں ایک نئی مشکل حائل ہوگئی تھی۔ایک ایسی مشکل جس نے اسے الجھن میں ڈال دیاتھا۔
جلتابجھتاسائن بورڈ
جب وہ شہزادکے پاوں پرسرجھکاتاتوچپکے سے شہزادکامسکراتاہواچہرہ اس کے قریب آجاتا۔اگرعورت کی آرزوئیں پوری نہ کی جائیں تووہ انتقام لیتی ہے۔اس کے ساتھ سفیدکفن میں لپٹاہواآصف منہ سے پلواٹھاکریوں بے بسی سے مسکراتاجیسے شفیع کی ہاں میں ہاں ملارہاہو۔ایلی چونک کراٹھ بیٹھتااورشہزادکی طرف دیکھ کراس کی بے نیازی اوربے پرواہی کومحسوس کرکے یہ سمجھنے لگتاکہ شہزادکی آرزوئیں پوری نہیں ہورہیں۔پھروہ گہری سوچ میں پڑجاتا۔ہاں جبھی وہ تخلیہ میں اس سے دورہوجاتی ہے اوردوری میں اسے اکساتی ہے جبھی وہ تنہائی میں یوں بے پرواہوجاتی ہے جیسے ایلی کے وجودکااسے احساس ہی نہ ہو۔اورفرحت ،ہاجرہ اورجانوکے سامنے بہانے بہانے اس کادامن کھینچتی ہے۔چوری چوری اس کاگال سہلاجاتی ہے یاچلتے چلتے چٹکی بھرلیتی ہے۔ظاہرہے وہ سوچتاکہ تخلیہ میں ایلی کوچرن تپسیہ کرتے دیکھ کروہ مایوس ہوجاتی ہے اورلوگوں کی پھرسے امیدکادیپ جلالیتی ہے۔
ان دنوں ایلی یہ نہ جانتاتھاکہ عورت کے لئے محبت محض ایک ماحول ہے۔چرن تپسیہ بھری نگاہوں اوررومان بھرے خوابوں سے بناہواماحول۔اسے یہ معلوم نہ تھاکہ عورت کومردانہ جسم کی خواہش ضمنی ہوتی ہے۔اس کے نزدیک محبت ایک ذہنی تاثرہے۔جسم کووہ صرف اس لئے برداشت کرتی ہے کہ وہ طلسم نہ ٹوٹے۔وہ تپسیہ بھری نگاہیں گم نہ ہوجائیں لیکن ایلی شہزادکی بے نیازی کومایوسی سمجھتاتھا۔حالانکہ وہ بے نیازی احساس تسخیرومسرت کابے پایاں اظہارتھی۔
ایلی ان باتوں کوسمجھتابھی کیسے؟اسے تویہ بتایاگیاتھاکہ زبان خلق نقارہ خداہوتی ہے۔اورخداکانقارہ کبھی دروغ بیانی کرسکتاہے بھلا---؟اس نے اپنے دوستوں کے علاوہ کئی بارچھپ چھپ کربزرگوں کی باتیں بھی سنی تھیں۔ان سب کاخیال تھاکہ عورت کی آرزوئیں پوری نہ کی جائیں تووہ انتقام لیتی ہے۔اوران آرزووں کے متعلق کئی بارعلی احمدہنس کرکہاکرتے تھے:
”ان عورتوں کی کیاپوچھتے ہومیاں۔یہ توتب تک تمہاری ہیں جب تک تمہاری گرفت میں ہیں۔ہاتھ سے نکل گئیں توپھرتم کون ہم کون؟“
اس نقارہ خداکے باوجودایلی کاجی نہیں چاہتاتھاکہ وہ اسے حقیقت تسلیم کرلے۔کیاعورت کی آرزویہی ہوتی ہے؟کیاشہزادیہی چاہتی ہے؟---نہیں نہیں۔وہ جھلااٹھتا۔شہزادایسی نہیں۔وہ عام عورت نہیں وہ کبھی ایسی بات کی آرزونہیں کرسکتی۔
اس کے باوجوددل ہی دل میں ایلی لوگوں کی باتوں کوتسلیم کرنے پرمجبورتھا۔وہ اس کش مکش میں ڈبکیاں کھاتارہا۔اندھیرے میں اپناراستہ ٹٹولتارہالیکن دوسری ساعت میں سورج کی منورکرنیں اس کی آنکھوں کوچکاچوندکردیتیں اورپھروہ اندھاہوجاتی۔اس کی کیفیت اس بجلی کے سائن بورڈکی سی تھی جو ایک ساعت میں روشن ہوجاتاہے اوردوسری ساعت میں بجھ جاتاہے۔
عزم
نقارہ خداکے شورکے باوجودشایدایلی کبھی اس راہ پرگامزن نہ ہوتامگراسے ڈرتھاکہ کہیں شہزاداکتاکہ اسے اپنے ہاتھ سے پھینک نہ دے۔وہ سبھی کچھ برداشت کرسکتاتھامگرشہزادسے قطع تعلقی اسے گوارانہ تھی۔اگرشہزادکی آرزووں کوقرب سے تعلق نہیں توقرب کی کوشش سے وہ زیادہ سے زیادہ ناراض ہوگی نامایوس نہ ہوگی---اس کے دل میں ایک خاموش عزم پیداہوگیا۔گویاایک نہتے زخمی سپاہی نے حملہ کرنے کی ٹھان لی۔
کئی ایک روز وہ سوچتارہا۔اس کایوں سوچتے رہناشہزادکے لئے خاصاپریشان کن تھا۔وہ باربارپوچھتی ”ایلی کیاہے تجھے؟“
”کچھ نہیں۔“ایلی جواب دیتا۔
”نہ ۔“شہزاداشارہ کرتی ۔”یوں سوچ بچارمیں نہیں پڑاکرتے۔جب سے امرتسرسے آئے ہونہ جانے کیاہوگیاہے تمہیں۔“
شہزادکوآصف کی موت کاپتہ تھااوراسی لئے وہ ایلی کے متعلق فکرمندتھی۔وہ دن کئی ایک بارفرحت کے ہاں آتی تاکہ ایلی کاپتہ لگائے۔ہرباروہاں آنے کے لئے وہ نئے سے نیابہانہ بہانہ تلاش کرتی۔اورہربارفرحت طنزاً بات کرتی جسے سن کرشہزادی ہنس دیتی۔پھروہ ایلی کے قریب آجاتی:
”کہوجی۔کیاابھی تک جنون نہیں گیا؟“وہ ہنس کرپوچھتی۔
ایلی مسکرادیتا۔”جنون بھی کبھی جاتاہے؟“
”اچھے امرتسرگئے تم۔اب چارپائی چھوڑنے کانام ہی نہیں لیتے۔“وہ ہنستی۔
”لے۔“ہاجرہ کہتی۔”وہ تو اس حالت میں بھی تمہاری طرف جانے کے لئے بے تاب رہتاہے۔“
”پتہ نہیں ۔“فرحت مسکرانے لگتی ۔”شہزادنے کیاجادوکررکھاہے ہم سب پر۔“
”جادوتوہوگا۔“شہزادآنکھیں چمکاکرکہتی۔
”مجھے بھی سکھادو۔“فرحت بات بدلنے کی کوشش کرتی۔
”اونہوں ۔یہ منہ اورمسورکی دال۔تم سے اتناتوہونہیں سکتاکہ خاوندکوکابل سے بلواسکو۔“
”سچ کہتی ہو۔“فرحت جل کرکہتی۔”یہ منہ اورمسورکی دال۔“
”اونہہ۔“شہزادآنکھیں چمکاتی۔”خالی منہ سے کیاہوتاہے۔بڑی بڑی شکل وصورت والیاں اپناسامنہ لے کررہ جاتی ہیں۔“پھروہ بات بدلتی۔”یہ ایلی پڑ ے پڑے کیاسوچتارہتاہے؟“”تمہارے متعلق ہی سوچتاہوگا۔“فرحت پھروارکرتی۔
”کیوں ایلی میرے متعلق سوچتے ہو؟۔“شہزادایلی پروہی نگاہ ڈالتی۔”جواب دو۔“
”ہاں تمہارے متعلق ۔“ایلی ہنستا۔
”اب کی بارآلیں۔ان سے شکایت کروں گی۔پھرمکرنہ جانا۔”شہزادسنجیدگی سے کہتی۔
”ان کوتوتم نے جان بوجھ کرباہر بھیج رکھاہے۔“فرحت چیختی۔
”ہے نا۔“شہزادہنستی ۔”اب تومجھے مانوگی نا۔“
”اب توبہت دیرہوگئی۔کب آئے کاشریف؟“ہاجرہ بات بدلنے کی خاطرپوچھتی۔
”کیامعلوم کب آئیں گے۔“شہزادمسکراتی۔
شریف کانام سن کرایلی کااحساس گناہ جاگ اٹھتا۔اس کے سینے پرایک ٹھیس لگتی اوروہ مزیدسوچ میں پڑجاتا۔
سوچ بچار
امرتسرسے واپسی کے بعدچارایک دن نے چارپائی پرگزاردیئے۔ویسے تووہ چل پھرسکتاتھااورشہزادکی طرف جاسکتاتھامگراس نے جان بوجھ کرادھرجانے سے احترازکیا۔ادھرجانے میں رکھاہی کیاہے۔وہاں شہزادکے قریب پہنچ کرتووہ بالکل معدوم ہوجایاکرتا۔پھرادھرجانے کیافائدہ---اس سے تویہی بہترتھاکہ وہ ادھر نہ جاتاتوشہزادباربارفرحت کی طرف آیاکرتی---اس کی نگاہ کی اس اذیت وبے التفاتی سے نجات ملی ہوتی تھی۔
مسلسل سوچ بچارکے بعدایلی کے ذہن میں ایک خیال آیا۔خوشی سے وہ اچھل پڑا۔اورپھراطمینان سے تفصیلات پرغورکرنے لگا۔
”واہ واہ کیاتجویزہے۔“
وہ حیران تھاکہ یہ خیال اسے پہلے کیو ں نہ آیا۔
پھرازسرنواس کے دل میں خدشات پیداہونے لگے۔
”اگرشہزادنے برانہ ماناتو---اگروہ ناراض ہوگئی تو---اگرکسی نے دیکھ لیاتو---اگربات شریف تک پہنچ گئی تو!۔“
شہزادتیسری منزل پرچوبارے میں رہتی تھی لیکن سب سے نچلی منزل میں ڈیوڑھی سے ملحقہ ایک بیٹھک بنی ہوئی تھی جوشریف کے قبضے میں تھی اورجہاں انہوں نے گھرکاسامان بندکررکھاتھا۔بیٹھک کرعرصہ درازسے بندپڑی تھی۔۔۔۔۔کبھی کبھارشہزادوہاں کوئی چیزرکھنے یالانے کے لئے جایاکرتی تھی۔ایلی نے بیٹھک میں کپڑے کی آرام کرسیاں رکھی ہوئی دیکھی تھیں۔
دوپہرکوجب شہزادآئی توایلی نے چپکے سے اس کی چابیاں اڑالیں۔جب وہ چلی گئی تووہ چپکے سے اٹھا۔شہزادکی بیٹھک کاقفل کھلااورکمرے میں داخل ہوکراس نے ایک کھڑکی کی اندرسے چٹخنی کھول دی۔لیکن پٹ جوں کے توں رہنے دئیے۔پھربیٹھک کے دروازے پرتالہ لگاکرواپس آگیا۔
اگلی روزجب شہزادآئی اورحسب معمول قریب آکرزیرلب بولی:
”ادھرنہ آوگے کیا؟۔“
”آوں گا۔“ایلی نے جواب دیا۔”بشرطیکہ ۔“
”اوہ ۔اب شرطیں لگانے لگے۔“شہزادنے آنکھیں چمکاکرکہا۔
”ہاں۔“وہ مسکرایا۔”شرطیں ہی لگائیں گے۔“
”اچھا۔“شہزادہنسنے لگی۔”کیاشرط ہے؟“
”وہاں میں کپڑے کی ایک آرام کرسی میں بیٹھوں گا۔“ایلی نے معصوم اندازسے کہا۔
”بس ۔اتنی سی بات ہے۔میں ابھی جانوکوبھیجتی ہوں نیچے سٹورمیں وہاں رکھی ہیں دوکرسیاں۔ابھی لے آئے گی۔ یہ کون سی بڑی بات ہے۔“
ایلی نے نفی میں سرہلادیا:
”جانوکونہ بھیجنا۔وہ باتیں بنائے گی۔خواہ مخواہ طعنے دے گی۔“
”اچھاتو۔“شہزادبولی۔“میں خودلے آتی ہوں۔اتنی سی بات تھی۔“
ہنستے ہنستے وہ اٹھی اورفرحت کوچھیڑتی ہوئی اپنے گھرکی طرف چل پڑی ۔اسے جاتے دیکھ کرپہلے توایلی کادل گھبراگیا۔پھرہمت کرکے دیوانہ واراٹھااوردوسرے راستے بیٹھک کی طرف بھاگاتاکہ شہزادکے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی کھلی کھڑکی کے ذریعے کمرے کے اندرجاپہنچے۔
ایلی کی تجویزکارگرہوچکی تھی لیکن عین موقعہ پراس کادل ڈوباجارہاتھا۔اس کی روح کی گہرائیوں سے نفرین کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔وہ محسوس کررہاتھاجیسے وہ محبت کی تذلیل کررہاہو۔اس روزپہلی مرتبہ اس نے محسوس کیاکہ وہ گناہ کررہاہے۔دوسرے کی بیوی سے محبت کی جذبات وابستہ کرنااس کے نزدیک قابل نفرین نہ تھا۔مگرمحبت میں جسمانی ملاپ کی خواہش کرنایقینا گناہ تھا۔
ذہنی طورپرایلی سمجھتاتھاکہ محبت دراصل ایک فطری تقاضاہے۔ایسافطری تقاضاجس میں جسمانی قرب ضروری ہے مگرجذباتی طور پرسمجھتاتھاکہ محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے۔ایک روحانی لگاو جوجسم کی آلائش سے قطعی پاک ہے۔یوسف زلیخا،ہیررانجھااورسسی پنوں کے قصے سن کراسے یقین ہوچکاتھاکہ محبت ایک جذبہ ہے جس میں محرومی کاعنصرلازم ہوتاہے اورجس کا نتیجہ موت ہوتاہے۔ان قصوں کے علاوہ علی احمدکے کمرے کے قرب میں رہ کراسے یقین ہوچکاتھاکہ محبت ایک ایساجذبہ ہے جس میں محرومی کاعنصرلازم ہوتاہے اورجس کانتیجہ موت ہوتاہے۔ان قصوں کے علاوہ علی احمدکے کمرے کے قرب میں رہ کراسے جسمانی محبت سے نفرت ہوچکی تھی۔وہ جسمانی محبت جس نے اسے والدکے قرب اوراس کی محبت سے محروم کررکھاتھا۔
بندبیٹھک
ان خیالات کے باوجودایلی دیوانہ وارشہزادکی بیٹھک کی طرف بھاگاجارہاتھا۔اس کے دل میں شہزادکے حسین جسم کاشوق نہ تھابلکہ جب بھی اے اس کاخیال آتاتووہ گھبراہٹ سی محسوس کرتا۔اسے محسوس ہوتاجیسے وہ چاندکومیلاکررہاہو۔اسے اپنے جسم سے نفرت تھی۔اسے اپنی جسمانی کمتری کاشدت سے احساس تھالیکن ان سب باتوں کے باوجودوہ آگے بڑھاجارہاتھا۔اس کے روبروشفیع مسکرارہاتھا:”ان کی آرزووزں پوری نہ کروتووہ انتقام لیتی ہیں۔“
بیٹھک کے پاس پہنچ کراس نے دھڑکتے دل کے ساتھ کھڑکی کھولی اوراندرداخل ہوگیا۔اس نے احتیاط سے کھڑکی کے پٹ بندکئے اورکباڑخانے کاجائزہ لینے لگا۔کمرے میں ٹوٹی ہوئی چارپائیاں ،چندمیزیں کرسیاں اوردیگرسامان گردسے اٹاپڑاتھا۔نہ جانے کب وہ کمرہ بندپڑاتھا۔جگہ جگہ مکڑی کے جالے تنے ہوئے تھے۔مکڑے بڑی بڑی ٹانگیں پھیلائے دیواروں پربیٹھے تھے۔ہرجگہ گردکی تہہ جمی ہوئی تھی۔
پاوں کی آہٹ سن کروہ ایک بچھی ہوئی چارپائی کے نیچے دبک کربیٹھ گیااورانتظارکرنے لگا۔کوئی سیڑھیاں اتررہاتھا۔
”اونہوں۔پاوں کی چاپ میں بھداپن واضح ہے وہ نہیں ہوسکتی۔اس کے قدموں کی چاپ میں لے ہوتی ہے۔“
پاوں کی چاپ قریب ترہوگئی---پھروہ آوازمدھم پڑگئی۔حتیٰ کہ خاموشی چھاگئی۔ایلی نے اطمینان کاسانس لیا۔اس کے دل کاایک حصہ دعائیں مانگ رہاتھاکہ شہزادنہ آئے۔
وہ غورسے اوپرکی آوازیں سننے لگا۔شہزادکاچوبارہ اوپرتیسری منزل پرتھااس لئے اس کی آوازیں سنائی نہیں دے رہی تھی۔درمیانی منزل میں عام طورپرسعیدہ رہاکرتی تھی جوان دونوں اپنے خاوندکے ساتھ کہیں باہرگئی ہوئی تھی۔اب وہاں اکیلی رابعہ رہتی تھی۔
رابعہ اپنے بیٹے کے ساتھ باتیں کررہی تھی۔”خبردار۔اسے ہاتھ نہ لگانا----نہ تجھے جوکہاہے بڑاپیارابیٹاہے یہ۔“
پھرخاموشی چھاگئی۔
ایلی نے محسوس کیاجیسے صدیاں بیت گئی ہوں۔اسے اس بندکمرے سے خوف آنے لگا۔باہرچوگان کی طرف شورسن کروہ چونکا۔اس نے محسوس کیاجیسے اس کے وہاں چھپنے کارازآشکارہوچکاہے۔
اوروہ سب اس کمرے کی طرف آرہے ہوں۔اس کادل ڈوبنے لگا۔
اس مٹی سے اٹے ہوئے کباڑخانے میں ایلی ایک قیدی کی طرح دبک کربیٹھاہواتھا۔ان حالات میں وہ اپنی محبوبہ شہزادکاانتظارکررہاتھاتاکہ اس کی آرزووں کوپوراکرکے ہمیشہ کے لئے اپنالے۔اورمحبوبہ بھی وہ جوپہلے سے ہی کسی اورکی تھی جوایک چھوٹی سی بچی کی ماں بن چکی تھی اوراس کااپنادل اس کے اپنے ارادوں پرنفرین بھیج رہاتھااوردل ہی دل میں چوری چوری دعائیں مانگ رہاتھاکہ شہزادنہ آئے۔
دفعتاً شہزادکی آوازسنائی دی۔اس کی پیٹھ پرگویاایک چوہاپھدکا۔وہ ڈرکراٹھ بیٹھا۔شہزادکی آوازمیں نہ جانے وہ لوچ کیسے آجاتاتھا۔اس کے گلے میں تارہی تارتھے۔اوراس کی ہربات میں مینڈسی سنائی دیتی تھی۔شہزادکی آوازسن کراس کے جسم میں جھانجریں بجنے لگیں۔
مگراس وقت وہ آوازاسے یوں سنائی دی جیسے موت کی گھنٹی بج رہی ہو۔ایلی کاحلق خشک ہوگیا۔دل میں دھنکی بجنے لگی اورجسم منوں بوجھل ہوگیا۔
”کیاہورہاہے رابعہ؟“اوپرکی منزل سے شہزادکی آوازسنائی دی۔
”کہاں جارہی ہے تو؟“رابعہ نے پوچھا۔”چابیوں کاگچھااٹھائے۔“
”ذرانیچے بیٹھک میں جارہی ہوں کچھ چیزیں لانے کے لئے۔“
”جانوکوبھیج دیتی۔وہاں توایک منٹ کے لئے ٹھہرانہیں جاتا۔“رابعہ کہہ رہی تھی۔
”جانوباہرگئی ہے۔“شہزادبولی۔
”توانتظارکرلیاہوتا۔“
شہزادہنسی:
”وہ کہاں کرتی ہے ایسے کام۔“یہ کہتے وہ سیڑھیاں اترنے لگی۔
اپنے احساس کمتری کودبانے کے لئے احساس گناہ کومعطل کرنے کے لئے اوراس آنے والے خطرے کامقابلہ کرنے کے لئے صرف ایک طریقہ تھاجیسے گھرے ہوئے کبوترکے لئے عقاب سے بچنے کاایک ہی طریق ہوتاہے۔وہ مڑکرعقاب پرچھپٹتاہے اوریہ حقیقتاً بھول جاتاہے کہ وہ ایک کبوترہے۔
جوںجوں آوازقریب ترہوتی گئی۔ایلی اپنے آپ میں وہی خودساختہ وحشت پیداکرنے کی سعی کرتارہا۔اس کی آنکھیں سرخ ہ
 
Top