علی پور کا ایلی (1259 - 1262)

عمر دراز

محفلین
صفحہ نمبر 1259
مصنف کا نوٹ
اگرچہ علی پور کا ایلی ناول کی شکل میں لکھی گئی ہے لیکن دراصل یہ ممتاز مفتی کی خود نوشت آب بیتی کا پہلا حصہ ہے۔ اس کتاب کی واحد خوبی ہے کہ اس میں ہر واقعہ سچ سچ بیان کر دیاگیا ہے۔ اخلاق‘ادب‘ راویت اور کلچر سے بے نیاز مجھے یقین تھا کہ اس کتاب کی کوئی ادبی حیثیت نہیں ہو سکتی‘ لیکن زبان دانوں اور ناقدروں نے اسے شرف قبولیت بخش دیا۔ یہ ان کی کرم نوازی ہے۔
اب اس خود نوشت کی تصدیق کے لئے مجھ پر لازم ہے کہ میں کتاب کے اہم کرداروں کے اصلی نام پیش کردوں تاکہ حقائق کے متعلق تحقیق میں آسانی ہو۔

مصنف کے آبا شیخ فیروز ولی اور احمد راست قلم کے قلمی کتابوں‌سے اخذ شدہ کوائف
شہر بٹالہ پاک و ہند برصغیر میں تقریبا 76 طول بلد اور 32 عرض بلد پر 1465ء مطابق 869ھ بہلول لودھی کے دور حکومت میں آباد ہو سولہویں صدی عیسوی میں نواب شمشیر خان 3 کروڑی ناظم علاقہ ماجھہ و دوآبہ جالندھر نے بٹالہ میں مستقل رہائش اختیار کی اور اس شہر میں عالیشان عمارات‘ خوبصورت باغات وسیع تالاب تعمیر کئے اور یوں شہر کو فروغ ملا۔ خاندان مغلیہ کے دور حکومت میں‌بٹالہ کو پرگنہ کی حثیت حاصل تھی اور اس کا انتظام ایک کروڑی منصبدار کے سپرد تھا۔ سکھوں کے زمانے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی بیوی مہتاب کور کی والدہ سداکور اور مہاراجہ شیرسنگھ
صفحہ نمبر 1259
عرصہ تک بٹالہ میں سکونت پذیر رہے اور مہاراجہ رنجیت سنگھ اکثر موقعوں پر بٹالہ آکر نواب شمشیر خاں‌کے بنوائے ہوئے تالاب کے قریب کئی روز متواتر قیام کرتا۔ برطانوی راج میں بٹالہ کافی عرصہ تک ضلع کا صدر مقام رہا اور بعد میں حکومت نے ضلع کا صدر مقام بٹالہ سے گورداسپور منتقل کیا اور بٹالہ کو تحصیل بنا دیا۔
آزادی برصغیر اور تقسیم صوبہ پنجاب کے وقت 1947ء میں بٹالہ شہر کی آبادی پچاس ہزار سے تجاوز کر چکی تھی‘ شہر بٹالہ کی جنوبی فصیل میں دروازہ کلاں ہے جسے تقسیم پنجاب تک بڑا دروازہ یا ہاتھی دروازہ بھی کہا جاتا تھا۔ اس دروازہ کے اندر کچھ فاصلہ پر شہر میں شمال کی جانب ایک قلعہ نما محلہ مفتیاں تھا‘ جسے عام شیخاں‌حویلی بھی کہتے تھے۔ یہ محلہ ستمبر 1947ء تک خاندان مفتیاں بٹالہ کی اقامت گاہ رہا اور تقسیم ملک کے بعد اس کا نام چتوڑگڑھ رکھا گیا ہے۔
ہم نے بزرگوں سے سنا ہے کہ شہنشاہ جلال محمد اکبر کے دور حکومت میں بٹالہ میں چار درویش وارد ہوئے۔ چاروں عرب نژاد بزرگ ایران سے اپنے عقائد کی حفاظت کی خاطر ہندوستان آئے۔ ان کے قافلہ میں ایک مرزا غیاث بیگ بھی تھے۔ جن کے اس سفر کے دوران ایک لڑکی تولد ہوئی جس کا نام مہرالنساء رکھا گیا اور جو بعد میں‌نورجہان کے لقب سے ملکہ جہانگیر بنی۔ یہ چار بزرگ بٹالہ میں مقیم ہوئے اور باقی قافلہ آگے دہلی کی طرف چل دیا۔ ان بزرگوں میں سے ایک فقیر منش اور درویش صفت بزرگ نے شہر باہر شمال مشرق کی جانب ایک میل کے فاصلہ پر گوشہ نشینی اختیار کی اور مصروف عبادت ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد وہیں‌ان خانقاہ زیارت گاہ خاص و عام بنی تیسرے بزرگ شہر کے جنوب مشرقی حصہ (اندرون نصیرالحق دروازہ) میں سجادہ نشین ہوئے اور ان کی اولاد میں قادریہ سلسلے کی کئی خدا رسیدہ بزرگ اور اولیاء اللہ ہوئے۔ چوتھے بزرگ شیخ فیروزولی بن شیخ بہلول بن شیخ جلال تھے۔ شیخ فیروز ولی کے بٹالہ پہنچتے ہی قاضی عبداللہ خطیب ان کی علمیت اور قابلیت سے متاثر ہوئے اور انہیں اپنے ہمسایہ میں ایک مسجد کے قریب رہنے کی دعوت دی اور ملازمت حاکم کی ترغیب دلائی بلکہ شیخ فیروزولی کو خوجہ معین تک رسائی کرائی۔ جس سے شیخ فیروز ولی کا تقرر فورا روزنامچہ نرخ پر ہو گیا۔ شیخ فیروز ولی
صفحہ نمبر 1261
مسجد کے نزدیک اولین رہائش گاہ اور قریبی علاقہ کے گرد 1579ء میں ان کے تیسرے صاحبزادہ شیخ فتح اللہ صدی نے فصیل کھینچ کر محلہ مفتیاں کی بنیاد رکھی۔
1919ء میں ایک اور نظریہ فروغ پایاکہ شیخ ویلی بن شیخ بہلول (بیلیو) بن شیخ جلال ( جلو) بن ودود بن نادر بن لکڑ بن جیل بن ہانس بن سپل بن شاہ تلوچر قوم راجپوت موضع بوہ پر گنہ ہیت پورپٹی سے خضر خان گورنر لاہور کے ہاتھوں موضع بوہ کی تباہی کی وجہ سے اپنے موروثی علاقہ سے کئی سو گاوءمیش چھوڑ چلے اور مو ضع گوبندوال اور موضع رائے پور سے ہوتے ہوئے بٹالہ پہنچے تھے۔ باقی تفصیلات البتہ کوئی فرق نہیں۔ شاید کو تحقیق طلب ان نظریات کی گھتی کو سلجھائے۔ جب کہ ہر دو نظریات بے کم و کاست خاندان مفتیاں کے اجداد کے بارے میں یہاں‌رقم ہیں۔
شیخ فیروز ولی کے دوسرے فرزند شیخ احمد فیروز 1554ء میں شیخ فیروزولی کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ کا اسم مبارک سلیم خاتون تھا۔ اس وقت ان کے بڑے بھائی شیخ محمد ولی کی عمر دو یا تین سال تھی۔ آپ نے بٹالہ میں ہوش سنبھالا‘ مسجد کی قربت اور والد کے علمی ذوق اور مشاغل کے درمیان اپنے بڑے بھائی شیخ ولی محمد ( تاریخ پیدائش 1552ء) اور چھوٹے بھائیوں‌مسمی شیخ فتح اللہ (تاریخ پیدائش1557ء) اور شیخ نعمت اللہ ( تاریخ پیدائش 1567ء) کے ساتھ احسن تربیت پائی۔ خود منشی طبیعت تھے۔ بچپن میں تبدیلی وطن کی صعوبت برداشت کی جس نے عمر بھر کے لیے محنت اور کاوش کی عادت ڈال دی۔ رقوم ثلث‘ نسخ‘ نستعلیق و سیاق اور خط شکستہ میں ‌کمال حاصل کیا اور جدت پسند طبعیت نے ان میں نئی اختراعات پیدا کیں۔ ادھر خاندانی روایت کے تحت فنون حرب میں ایسی استعداد حاصل کی کی مغل اور افغان آپ کے تیر اندازی کی تعریف کرتے۔ آپ بیس سال کی عمر میں نواب و زارت پناہ قاضی علی سلطان کے سر خط نویس مقرر ہوئے پھر روزنامچہ پر ترقی پائی۔ اور دہ بیستی منصب پایا۔ نواب جالینوس الزمانی حکیم ابوالفتح اور حکیم ہمام گیلانی جیسے نامور بزرگوں کے مقرب رہے۔ اور تقریبا تینتیس سال کی عمر 996ھ میں دیوان پر گنہ شہر کوٹ اور پرگنہ فاربرہ مقررہوئے۔ 1004ھ میں خواجہ طاہر محمود والد خواجہ عمادالدین اور نواب آصف صفات آصف خاں کی وساطت سے دربار اکبری پہنچے اور بادشاہ کے دہن مبارک سے “راست قلم۔“ کا لقب پایا۔ اکثر امراء نے آپ کو مبارک دی۔ اس وقت آپ کے چھو ٹے بھائی شیخ فتح اللہ شاہی تخت کے پاس نواب آصف خان کی مسند کے عقب میں کھڑے
صفحہ نمبر1262
تھے۔ چند روز کے بعد بادشاہ نے منصب میں بھی ترقی دی۔ دو دفعہ کشمیر کا دورہ کیا۔ اولا حکیم ہمام کے ہمراہ‘ دوئم شہنشاہ اکبر کے جلومیں۔ دکن‘ مالوہ اور برہان پور کی مہمات میں شامل ہوئے۔ نواب کا لقب اور کروڑی منصب پایا۔ شاہی دربار میں آگرہ پہنچے تو وہاں روسا اور امرا آپ کی مہمان داری کا شرف چاہتے۔ 1029ھ مطابق 1620ء شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نورجہاں کی مہمان داری چھ روز تک بٹالہ میں کی اور بارہ روز تک رسد بٹالہ سے کلاہ نور بھجوائی۔ یہ تھی دنیاوی دولت اور عزت۔
شبیہ کا یہ عالم تھا کہ بسیار خوش صورت‘ پوشاک اور طریق یوں اپنائے کہ دربار اکبری میں اکثر امراآپ کو مغل زادہ سمجھتے۔ اخلاق حسنہ کی بلندی کا یہ حال کہ غربا کی مدد فرماتے۔ فقرا کو گھر بلاتے‘ مہمانداری کرتے اور عزت و احترام سے پیش آتے۔ پاکبازی‘ خشوع‘ ہر دلعزیزی‘ دلربائی اور راست گفتاری میں مشہور وقت جس کی مندرجہ ذیل جھلکیاں‌اس زمانے کے خطوط میں ملتی ہیں۔
“شیخ احمد راست قلم و دوست کردار۔۔۔۔۔۔۔“
“برگزیدہ نیکاں و پاکاں ہندوستان یعنی شیخ الشیوخ شیخ احمد مخطوظ بود ہمیشہ ورکشاکش و طلب تصدیع دوستاں‌راسخ دم وثابت قدم۔۔۔۔۔۔“
راستی شد چون شعار قلمش احمد راست قلم شدعلمش
“ بے تکلف و مبالغہ‘ ہیچ روزے نیست کہ ان کہن سال دودمان اخلاص یعنی پیر عدالت گزیں شیخ احمد را از صمیم قلب یاد نمہکینم واز مفارقت او تاسف نداریم۔۔۔۔۔۔“
حق گوئی میں اتنے یکتا ئے زمانہ کہ بڑے بڑے آپ کی وکالت اور فیصلے کے خواہاں‌رہتے۔ گھر میں ہر بزرگ و خورد کا صلاح مشورہ لیتے اور اگر کوئی مشکل پڑتی تو خاندان کا اجلاس طلب کرتے پھر نقش عمل مرتب کرتے۔ نماز‘ روزہ اور ذکر خدا میں کسی حال کوتاہی نہ کرتے اور ہر دعا میں‌روح بزرگان کو ثواب بخشتے۔ اور سلامتی افراد خاندان کی دعا فرماتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق تھا۔ چہار یار با صفا کے مداح۔ حضرت غوث الثقلین شیخ عندالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے ثناخواں اور حضرت فرید گنج شکر علیہ رحمتہ کے مرید تھے۔
حضرت والدہ اور بڑے بھائی کے عزت کرتے۔ چھوٹے بھائیوں اور عزیزگاں سے شفقت سے پیش آتے۔ اور جب کاردنیا سے فرصت ملتی روضہ حضرت فرید گنج پاکپتن اور والدہ کی خدمت میں بٹالہ حاضر ہوتے۔
قصہ مختصر نواب شیخ احمد فیروز راست قلم کروڑی نے اپنی زندگی میں کرہاے دنیا ودین میں صحیح توازن رکھا۔ 1933ء میں اس توازن کا نقشہ یعنی روئداد (202) دو سو دو حکایات کی صورت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فارسی کتاب “قصص الاحمد۔“ میں محفوظ کر گئے۔
شیخ فیروز ولی ( جیسا کہ ہم بزرگوں سے سنتے آئے ہیں) سادات ہاشمی تھے۔ جن کے بزرگ عرب سے آکر ایران میں آباد ہوئے۔ اور جب شیخ فیروزولی نے اپنے عقائد کے تحفظ کی خاطر حالات ایران ناسازگار پائے تو اپنے خاندان سمیت مغلیہ عہد میں ہندوستان چلے آئے اور بٹالہ میں اقامت اختیار کی۔ شیخ کا لقب انھوں نے اپنے علم‘ عمل اور قابلیت کی بنا پر پایا تھا۔ اس سلسلہ کا ذکر سید عبدالمجید امجد بخاری چشتی سلیمانوی نے بھی اپنی کتاب “ یادایام۔“ (بٹالہ اور مشاہیر بٹالہ کی مختصر تاریخ) ( مئولفہ 1969ء) میں صفحہ نمبر 7 پر کیا ہے۔
تقسیم کے وقت بٹالے کے مسلمان شہر بدر کر دیے گئے۔ مفتیاں محلے کے لوگ یا تو راستے میں دم توڑ گئے یا پاکستان پہنچنےمیں ‌کامیاب ہوگئے‘ لیکن سب بکھر گئے۔
 
Top