علی پور کا ایلی (1256 - 1258)

عمر دراز

محفلین
صفحہ نمبر 1256
نقشہ ہو مگر وہ زندگی کی ایک نظریہ حیات کے مطابق اور ایک فنی نظر کے مطابق تعمیرضرورہے۔ علی پور کے آصفی محلہ کی سماجی اخلاقی قدریں‌ہیں۔ ان کا مذہب عالم اسلام ہے جو ہندویت اور تصوف سے متاثرہے۔ ایلی اس مذہب پر اٹھایا جاتا ہے۔ مگر تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے وہاں‌سے بالاتر ہوگیاہے۔وہ توہمات میں عقیدہ کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اسلام کا دینی درجہ پر اسے کوئی علم نہیں ہے مگر جدید یورپین فلسفیوں سے اس نے عظیم تصور خدا حاصل کرلیاہے۔ وہ خدا کے ساتھ اخلاقی قدریں وابستہ نہیں کرتا مگر اس کی عظمت کا احساس رکھتاہے۔ اس کے والد عورتوں کے شائق ہیں۔ وہ ان کی عیاشی کو دیکھ رہا ہے اور اسے عورت سے جسمانی تعلق سے نفرت ہو جاتی ہے۔ شہزاد کے حسن کا وہ گرویدہ ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں اعلٰی عشق اور پست عشق کے درمیان کشمکش ہوتی ہے۔ اور وہ شوہر والی چھ بچوں کی ماں سے شادی کر ہی لیتاہے۔ اس کا ادب کی طرف دھیان ہے اور وہ اعلٰی ترین شاہکار سے دلچسپی لیتا ہے اور آخر میں وہ صحافی ہو جاتا ہے۔ وہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں پیش کرتا مگر فلم زدوں سے وابستہ نظر آتا ہے۔ اس میں ‌احساس کمتری کے باوجود ہمت اور استقلال بھی آ جاتا ہے۔ اسے سیاست سے کوئی غرض نہیں ہے مگر پاکستان بننے پر وہ خوش ضرور ہوتا ہے۔ اسے اپنے وطن سے لگاو ضرور ہے مگر وہ پاکستان میں آجانے کو نیا جیون سمجھتا ہے۔ اس کے ذریعہ کوئی مستقل نظریہ حیات اس طرح سامنے نہیں‌آتا کہ خواہ مخواہ کو ٹھونس ٹھانس معلوم ہو مگر اس کا ایک جدید نظریہ حیات ضرور ہے۔ اس میں‌وقت ارادہ کی کمی صا ف صاف نمایاں سہی مگر وہ اپنے ارادے کا پکا بھی ہے اسے اپنی طرح پر جو کچھ کرتا ہے وہ کر گزرتا ہے اور اپنے ماحول کی خلاف ورزی کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ بات یہ ہے کہ اس کے نقطہ نظر کو مفتی صاحب نے بالکل خارجی کر دیا ہے اور کہیں‌تجریدی نہیں ہونے دیا۔ اسکے واقعات اور عمل نقطہ نظر سے اس قدر ہم آہنگ ہیں کہ واقعات ہی واقعات دکھائی دیتے ہیں اور نظریات بالکل چھپ جاتے ہیں یہ ڈرامہ نگاری اور ناول نگاری کی حد ہے۔ شیکسپئر کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کردار کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ اس سے کوئی واضح نقطہ نظر نکال لینا ناممکن ہے۔ مفتی صاحب نے ایلی کو بھی اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ اپنا اور اس کا نقطہ نظر بالکل چھپانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اسی طرح وہ تخلیق کے سلسلے میں بھی ہر فن کاری سے اپنی بے نیازی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ناول کو ایک ڈھیر کردیتے ہیں یعنی فنکارانہ ترتیب ۔ انتخاب ارتفع سے منہ موڑ لیتے ہیں مگر
صفحہ نمبر 1257
اس ناول کے مختلف حصوں میں بیانات میں جو بہت کم ہیں اور مکالموں میں جو بڑی فراوانی سے لائے گئے ہیں زبردست ڈرامہ نگاری کا شعور نظر آتاہے۔ ان کی افسانہ نگاری کی قوت اور اس میں مشق مسلم ہے اور بیان طویل چیز کو ربط دینے میں‌بھی کامیاب ہیں۔ وہ کسی فن کے تابع نہیں ہیں مگر فن ان کے سامنے ہاتھ باندھے نظر آتا ہے اور وہ اس کا احترام کرتے ہوئے جدھر چاہتے ہیں ادھر اس کی باگ موڑ دیتے ہیں۔ وہ صرف ایک اصول کے قائل ہیں جو حافظ کے اس شعر سے ادا ہوتا ہے۔
درپس آیئنہ طوطی صفتم داشتہ اند آنچہ استاد ازل گفت ہماں می گویم
مگر وہ ایسی طوطی ہیں جس کو استاد ازل نے ناول نگار ہونے کی صلاحیت دی ہے اور پھر شعور اور مشق سے اس صلاحیت کو آگے بڑھا کر وہ اس مقام پر آگئے ہیں۔ وہ بے ساختگی سے اور ظاہرہ بے پرواہی سے لکھتے چلے جارہے ہیں۔ ان کے تجربہ کا دریا امنڈتا چلا آ رہا ہے اور اسے بغیر زور لگائے ہوئے فن میں تبدیل کرتے چلے جارہے ہیں۔ فن اپنی قدرتی جگہ لئے ہوئے ہے اور انگلی کے سیلاب میں ایسا چھپ گیا ہے کہ اس کی طرف توجہ جانا ممکن نہیں رہ گیا ہے۔ فنکاری مشکل کام ہے اور اس میں کامیابی کی داد دی جاسکتی ہے مگر فن کو چھپانا کمال ہے اور مفتی صاحب اس کمال پر پہنچ گئے ہیں۔ سطحی نظریہ یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ “ علی پور کا ایلی ۔“ میں کوئی فن نہیں اور اس کے مصنف نے فن سے بے نیازی کا اعلان بھی کردیا مگر غور کی نظروں‌کو یہاں‌وہ فن نظر آئے گا جو بہت اوپر چلا جاتا ہے اور حقیقت کو اس طرح سامنے لاتا ہے جہاں فن کار بول اٹھے۔
ہم وہاں‌ہیں‌جہاں‌سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں‌آتی
آخر میں میں‌اس بات پر واپس آتا ہوں کہ “ اسے آدم جی انعام نہیں دیا گیا۔“ ممکن ہے کہ اس بات پر پبلک سے شکایت ہو مگر اس سے انعام دینے والوں‌کی نااہلی کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ مصلحتوں کے ماتحت انعام دیتے ہیں اور اس کتاب کو کسی مصلحت سے انہوں نےانعام نہیں دیاہوگا۔ اس بات کوطے کرنے ولے “نقاد۔“ ہو گے اور میں‌ان کو ہی نہیں بلکہ ان کے اچھے اچھوں‌کو ناول پر تنقید کرنے کا نااہل قرار دے چکا ہوں‌۔ وہ ناول کا کوئی ذوق نہیں رکھتے اور اسے کچھ لگے بندھے اصولوں سے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ “علی پور کا ایلی۔“ کے ایسے اوریجنل شاہکار کو کیسے محسوس کرسکتے ہیں اور عام طور پر بھی
صفحہ نمبر 1258
نقاد کسی نئے راہ کو سمجھنے کے اہل نہیں ہوتے بردست نے اپنی عظیم اور ضخیم ناول کے بابت کہا ہے۔ “ مجھے اس کی قدر کرنے کی نقاد سے کوئی امید نہیں‌ہاں ان صاحبان ذوق سے امید ہے جو بجائے اصولوں‌کے اپنی ادبی پر ٹیک لیتے ہیں۔“ “آلارشر سے دو تان بارود۔“ کی ضخامت اس کے اور آپ کے درمیان حائل نہ ہوتی۔“ اصل بات یہی ہے کہ ہمارے پروفیسر نقاد کے لئے ادب لگائے بندھانے کا سودا ہے اور وہ جو طالب علم نکال رہے ہیں وہ بھی ان کے سے ہوتے ہیں۔ “علی پور کا ایلی۔“ کو وہ مقبولیت بھی حاصل ہے جو آج دوسری ناولوں کو ملی۔ مگر مجھے یقین ہے کہ یہ آہستہ آہستہ لوگوں کے دلوں میں‌گھر کرتی جائے گی اور اس سے لوگ ناول کے آشنائے راز ہوتے جائیں گے۔ ممکن ہے کہ یہ ناول نگاری کے سلسلے میں ماڈل ہو جائے کیونکہ یہ اس سب آلائش سے پاک ہے جو فن و فکر کے بہانے ناول سے وابستہ کی جارہی ہے۔ میں‌نے ایک کتاب “ناول کیا ہے؟“ پچیس برس پہلے لکھی تھی۔ اس وقت تک “علی پور کا ایلی۔“ وجود میں نہیں آئی تھی۔ اب اگر کوئی شخص مجھ سے یہ سوال کرے تو اس کا جواب میں یہ دوں گا “ علی پور کا ایلی کو پڑھ ڈالو معلوم ہو جائے گا کہ ناول کیا ہے۔ کیا ہونا چاہئیے کہ وہ عظیم ناول کے دائرے میں آجائے۔“ حقیقت یہ ہے کہ کسی ناول میں ناول کی روح نہایت آزادی سے وسیع اور عظیم سفر طے کرتی نظر آتی ہے۔ اس دور کی ناولوں میں یہی اس کی انفرادی صفت ہے۔
 
Top