علی پور کا ایلی(1248 - 1255 )

عمر دراز

محفلین
(صفحہ نمبر 1248)
زمانے میں جب ایلی چھٹی لے کر علی پور آتا ہے اور شریف بھی آموجود ہوتا ہے حرکات سے محبت ٹپکتی ہے اور وہ اسے بڑی ذہانت سے بیباکی کے روپ میں چھپاتی رہتی ہے۔ وہ ایلی کو ڈھونڈھنے جاتی ہے۔ اور اسے گھسیٹ کر لے آتی ہے۔ اپنے شوہر کے سامنے ایک فرضی محبوبہ کی باتیں‌کرتی ہے جن کا اشارہ اپنی طرف ہوتا ہے۔ وہ اس پردے میں صاف صاف عشق کا اظہار کرتی ہے۔ اور اکیلے میں اس کی تصدیق بھی کر دیتی ہے۔ گھر میں اور محلہ میں‌ہر ایک کو شبہ ہے کہ وہ ایلی سے عشق لڑا رہی ہے۔ اور وہ اس عشق کو کبھی بیباکی میں اور کبھی زکاوت کی باتوں میں چھپالیتی ہے۔ اس کا چھم سے آجانا۔ اس کا چھن سے آجانا قیامت ہے۔ وہ وارفتہ بھی ہو جاتی ہے مگر اپنے کو سنبھالے رہتی ہے۔ وہ اپنے میاں کی افسردگی سے نفرت کا اظہار بھی کرتی ہے اور ایلی سے محبت کا بھی ۔ اس کی محبت میں‌ جنس کا مقام بھی سمجھ میں نہیں‌آتا۔ وہ اپنے کو اس سے بالاتر سمجھتی ہے اور پاک عشق کرنا چاہتی ہے۔ اس کے میاں سے ایلی رقابت محسوس کرتا ہے۔ تو اسے سمجھاتی ہے کہ جسمانی تعلق کچھ نہیں‌ہے۔ کئی بار وہ کہہ دیتی۔“تم مجھے سمجھے کیا ہو۔“ تم مجھے نہیں سمجھتے۔ حقیقت میں وہ ایسا کرشمہ ہے۔ جسے انہوں نے محسوس کیا ہے اور وہ ہمیں محسوس کرانے میں پورے کامیاب ہیں۔ ایلی اس کے پاس چلاجاتا ہے۔ دوسری عورتوں کی طرف متوجہ ہوتا رہتاہے مگر وہ اس کے دل و ماغ میں ایسی بس گئی ہے کہ چھن سے تصور میں آجاتی ہے ۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ بھی کامیاب زندگی گزار ہی ہے۔ گھر کے ہرکام میں فرد ہے اور دھڑا دھڑ بچے بھی ہو رہے ہیں۔ ایلی سے ملاقات ہو تی رہیتیں ہیں۔ کبھی نیاز اور آخر میں اس چھ بچوں کی ماں سے کنوارا ایلی شادی کر لیتا ہے ۔ ایلی نوکر ہے اور وہ اس گھر کی ہی نہیں دکی کی بھی شہزادی بنی رہتی ہے۔ شادی کے بعد وہ دھیمی پڑتی جاتی ہے۔ سخت بیمار بھی ہوجاتی ہے مگر ہومیوپیتھ کی دوا سے مرنے سے بچ جاتی ہے۔ مگر اپنی شریف سے لڑکی کے بارے میں اس کا ایلی سے جھگڑا ہوتا ہے۔ وہ بالکل دوسری چیز ہے ایلی اس سے الگ بھی ہو جاتا ہے۔ اور ہمارا دل بھی اس کی طرف سے پھر جاتا ہے۔ آخر وہ دق ہو کر مر جاتی ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی قیامت کے حسن پر پانی پھر گیا۔ شہزاد کے ارتقاء کے سلسلے میں مجھے ناول نگار کی حیثیت سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر اس کے آخری دور کا کردار نہ دکھایا جاتا تو حسن اور خوبی کی مکمل تصویر ہمارے تخیل پر ثبت ہیتی۔ ٹولسٹوئے نے ان کارینہ کو اس درجہ پر پہنچنے سے
(صفحہ نمبر 1249)
پہلے ہی مار ڈالا۔ فلا بیر نے میدم بواری کے ساتھ بھی یہی کیا۔ مگر مفتی صاب بالکل رومانی فنکار نہیں ہیں۔ وہ کامل ریلسٹ ہیں۔ وہ اس حسین مجسمہ کو رفتہ رفتہ مٹتا بھی دکھاتے ہیں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ فنکار کو کچھ چیزیں چھوڑ بھی جانا چاہئے۔ بہرحال جس حسن و خوبی سے انہوں نے شہزاد کو پر اثر بنایا ہے وہ ان کے تجربہ کا اور اس کو نہایت کامیابی سے پیش کرنے کا حق ہے۔ اردو ناول نگاری کی وہ سب سے زیادہ حسین اور واقعیاتی ہیروئن ہو جاتی ہے۔ وہ پنجاب کے حسن و کرشمہ کا اشارہ ہے۔ وہ ہر کشمہ ساز عورت کا اشارہ ہے۔ وہ شیکسپئر کی کلیوپاترا کو نگر کی میلانات- ٹولسٹوئے کی انا- فلابیر کی ایماء اور ہر عظیم ہیرئن کے ساتھ برابر کا مقابلہ کرتی ہے۔ اردو کی بساط ہی کیا ہے۔ ------------ وہ ہماری ناول نگاری میں سب سے بڑا فنی شاہکار ہے۔
(4)
مگر ناول کی ریڑھ کی ہڈی۔ روح رواں ‌اور جان ایلی ہے اور مفتی صاحب اسی کی طرف خاص طور سے متوجہ ہیں۔ دوسرے کردار اس کے ضمن میں آتے ہیں اور اس کی طویل اور وسیع سرگزشت کی سطح پر چھوٹے چھوٹے نقوش بنا کر چلے جاتے ہیں۔ ان نقوش میں علی احمد شہزاد کے نقوش زیادہ حصہ گھیرتے ہیں۔ ایلی کے کردار واضح‌کرنے کے لئے ہی ساری ناول لکھی گئی اور اس کو مفصل طور سامنے لانے کے لئے پوری ناول کے خلاصے کی ضرورت ہے۔ اسی کے بابت پیش لفظوں‌میں مفتی صاحب نے اظہار خیال کیا ہے۔ ان کی رائے میں ایلی ایسا کردار ہے تمام تجربے اور تعلیم کے باوجود نہیں بدلتا۔ جس کے خیالات اور جذبات میں ہمیشہ کشمکش رہی جس کی بناء پر وہ اپنا کوئی کردار نہ نبا سکا۔ دوسرے الفاظ میں وہ ہر اخلاقی اور نفسیاتی معیار سے بالکل بے کردار شخص ہے مگر پھر بھی وہ مستقل حقیقت ہے۔ اسے پنجاب کے اس خطہ کا نمائندہ کہا جا سکتا ہے جس کا مرکز علی پورہے اور جس کا دائرہ امرتسر اور لاہور تک بھی جاتاہے۔ وہ دلی اور بمبئی میں‌بھی مقیم رہتا ہے مگر اپنی مخصوس پراسرار صنعت نہیں کھولتا۔ ایسا پنچھی جو پانی میں ڈبکیاں لگاتاہے مگر پر چھاڑ کر پھر جوں کا تو خشک ہو جاتا ہے۔ شاید بلکہ یقینا ایسے لوگ کسی خاص جغرافیائی علاقہ سے مخصوص نہیں کئے جاسکتے۔ شاید بلکہ یقیینا ہر شخص کے اندر باوجود شدید اختلاف کے ایک ایلی چھپا ہو رہتا ہے۔ وہ معمولی نہایت ہی معمولی ہستی ہے اور اسی لئے نہایت درجہ معمولی ہے ہمارے تصور میں ایک معمولی انسان ہے مگر یہ معمولی انسان کہیں‌
(صفحہ نمبر 1250)
ڈھونڈھے نہیں ملتا اس لئے اسے نایاب کہہ دیتے ہیں۔ ایلی وہ نایاب معمولی انسان ہے ۔ مفتی صاحب کو وہ مل گیا ہے اور اسے انہوں نے صفحہ ناول پر اتار دیاہے۔ ناول کا شروع ہی سے یہ مقصد رہا کہ نارمل انسان کی شکل دکھائے۔ میلڈنگ نے ٹوم جونس میں ایسا ہی کردار پیش کیا جو تمام ناول نگار کے لئے آج ماڈل ہے۔ مفتی صاحب نے بھی ایلی میں ایسا کردار پالیاہے شاید وہ خود ایلی میں اور ساری سرگزشت ان کی آپ بیتی ہے۔ ان میں ایسا کردار پالیاہے۔ شاید وہ خود ایلی میں اور ساری سرگزشت ان کی آپ بیتی ہے۔ ان میں ادیب کی اعلٰی صلاحتیں بھی ہیں جو ایلی میں نہیں ہیں مگر ان کی نظر اپنی ان صلاحیتوں ہے جو نہایت معمولی نہایت عام ہیں اور جن میں پنجاب کا ہر آدمی ہندوستان کا ہر آدمی اور دنیا کا ہر آدمی ان کا حصہ دارہے۔ دوسرے ناول نگار جب اپنے کو اپنی ناول میں پیش کرتے ہیں تو اپنی مخصوص صلاحیتوں‌کو سامنے لاتے ہیں یا انکساری میں‌ اپنے کو اصلیت سے گرا کر پیش کرتے ہیں۔ مفتی صاحب کو نہ بڑھانے سے سروکار ہے نہ گٹھانے سے۔ ان کے ذاتی تجربہ سے جو آدمی محض آدمی نکلتا ہے وہ ہمارے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔ عموما بڑا آدمی اور اس کا کوئی بڑا کام سنسنی پیدا کر کے عام آدمی کے لئے دلچسپ ہو جاتا ہے۔ ایلی میں کوئی بھی بڑائی چھو کر بھی نہیں گزری اور نہ اس نے کوئی بڑا کام ہی کیا۔ وہ نہایت معمولی گھر میں پیدا ہوا۔ نہایت معمولی ماحول سے زندگی بھر گزرتا رہا۔ احساس کمتری کے سوا اسے کوئی احساس نہیں ہوا۔ قوت ارادہ کا تو اس کے اندر سوال ہی نہیں اٹھتا۔ زمانے کے اثرات اسے جیسے بہاتے گئے وہ بہتا رہا۔ ٹوم جونس راسکل ہے مگر تجربہ اسے ہیرو بنا ہی دیتا ہے۔ جرمن ناولوں‌میں‌ جنہیںROMAN BUILDING کہا جاتا ہے ایک معمولی لڑکا ارتقاء کی منزلیں طے کرتا ہوا نظر آتا ہے اور آخر میں غیر معمولی مقام حاصل کر لیتا ہے۔ ایلی یوں بھی ارتقاء‌ ‌نہیں کرتا۔ وہ ڈبکی لگانے کے بعد پر جھاڑ کر ویسے کا ویسا ہی رہ جاتا ہے۔ اسے کسی قسم کی قدروں سے سروکار نہیں جو وہ اپنے کو بہتر بنائے۔ وہ مٹی میں گڑا ہوا پودا ہے جس کا قد اور سن مٹی اور پانی کے اثر سے بڑھ جاتا ہے مگر جس میں ذہنی یا اخلاقی شعور یا رحجان آنے کا سول نہیں۔ باپ کا زور اگر نہ ہوتا تو وہ تعلیم بھی نہ حاصل کرتا۔ بسر اوقاف کی ضرورت نہ ہوتی تو وہ ملازمت بھی نہ کرتا۔ اگر وہ جاندار نہ بنایا گیا ہوتا تو وہ جیتا بھی نہیں‌۔ وہ ایسا آدمی ہے جس کو ہم چھوٹتے ہی بڑا گھٹیا کہہ دیں گے مگر وہ اس حد سے زیادہ گھٹیا پن کی وجہ سے نہایت درجہ دلچسپ ہو جاتا ہے۔
مفتی صاحب کے ہم وطنوں‌سے یعنی لاہور اور امرتسر کے جوار کے لوگوں سے ملئے توان
(صفحہ نمبر 1251)
میں ہر شخص ہر شریف خاندان اوسط طبقہ کا فرد ایلی معلوم ہوگا۔ ایک قصباتی ماحول کے ایک خاص گھر میں پلا ہوا۔ والد معمولی ملازمت پر رہے ہوں گے مگر مستعد اور کام میں چوکس ہوں گے جس کی وجہ سے اس کی زندگی ایک معمولی دھڑے پر لگ گئی ہوگی۔ بچپن کھیل میں یا گھر کے معمولی کام بددلی سے کر آنے میں گزار ہوگا۔ زبردستی اسکول اور کالج بھی گیا ہوگا۔ اور کسی نہ کسی طرح تعلیم نپٹا کر معمولی ملازمت بھی آگیا ہوگا۔ رسمی طور پر اس کی منگنی اور شادی بھی ہو گئی ہوگی۔ اگر اس میں غیر معمولی بات ہوگی تو وہ اس کی عورتوں کی طرف توجہ سے نمایاں ہو گی مگر یہ بات بھی غیر معمولی نہ کہی جاسکے گی کیونکہ اس کے خاندان میں ہر شخص اور اس کے ساتھیوں میں‌ ہر شخص کو اس کی طرح کی جنسی دلچسپی رہی ہو گی۔ عشق و حسن کا معیار اگر پست نہیں تو اعلٰی بھی نہیں ہوگا۔ زندگی سے لگاو بھی جبلی سطح‌کا ہوگا اور اس میں ان خاص جذبات کے زور کی کوئی گنجائش نہ ہوگی جو اعلٰی انسانیت سے پیداہوتے ہیں۔ اسے ہم اچھا آدمی نہیں کہہ سکتے تو برا بھی نہیں کہیں گے۔ اس میں خود غرضی بھی واجبی واجبی ہو گی۔ وہ ایک گھٹیا سا معلوم ہوگا جو زمین پر اپنا جسم بڑھاتا گھٹاتا ہو نظر آئے گا۔ وہ اچھائیوں اور برائیوں میں پڑنے کا برابر اہل اور نااہل ہوگا۔ ہم خالص جذباتی EVERY MAN کی تصویر ہے۔
اس کے حالات بھی ایسے ہی معمولی ہیں صرف اس فرق کے ساتھ کہ وہ ان شہریوں اور ان قصبوں اور ان گاوں سے مخصوص ہیں جہاں ایلی جاتا ہے۔ اس کی لاتعداد مردوں اور عورتوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ ان میں وہ سب سےمختلف اور اس طرح مختلف نظر آتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر شخص کے ساتھ تولے جا رہا ہے اور اس کا وزن سب سے کم نکل رہا ہے اور ناولوں کے ہیرو اس کے لیے دلچسپ ہوتے ہیں کہ وہ وزن میں سب سے کچھ نہ کچھ زیادہ ضرور نکلتے ہیں۔ ایلی کی دلچسپی ہی ہے کہ وہ ہر کام میں نااہل ثابت ہوتا ہے اور ہر شخص سے ہر بات میں کم نظر آتا ہے۔ یہ ایک عجیب راز ہے جس کو مفتی صاحب نے دریافت کر لیا ہے۔ اور اس کی بنا پر ہم ایلی کو حد سے زیادہ دلچسپ پاتے ہیں۔ اس کی باتیں حماقت میں مگر ہم کو ان پر ہنسی نہیں‌آتی۔ نہیں وہ ہر گز احمق نہیں ہے۔ اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا کوئی خاص تاثر بھی نہیں ہے۔ مگر پھر بھی ہم اسے سپاٹ نہیں کہ سکتے۔ اس میں بے پناہ سادگی ہے اور خلوص ہے۔ وہ تکڑم بازی کر ہی نہیں سکتا۔ وہ کسی کو برا نہیں‌سمجھتا۔ وہ مردم شناس بھی نہیں ہے مگر کسی کے دھوکے میں بھی نہیں آتا۔ شہزاد کے سلسلے میں اس کے اندر ڈھملاہٹ کے باوجود ایک عزم اور
صفحہ نمبر 1252
استقلال آجاتاہے اور وہ اس سے ہر مخالف کے باوجود شادی کر لیتاہے یوں تواسے دل پھینک کہہ سکتے ہیں گر شہزاد سے جھگڑا ہی اسے جذباتی سطح پر نہایت درجہ معمولی رویہ کے انسان سے اوپر لے آتے ہیں۔ آخر میں اس کے ملاقاتیوں‌کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور اس کی “ذہین۔“ قسم کے لوگوں سے ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں جن میں‌وہ کچھ زیادہ مستقل کردار دکھائی دیتا ہے۔ اس کے مذھب کے بابت مفتی صاحب بتاتےہیں۔
غالبااس کی وجہ یہ تھی کہ اگر چہ وہ بے حد ڈرپوک تھالیکن اللہ پر اس کا ایمان ڈر کی بنیاد پر قائم نہ تھا۔
اللہ کا تخیل جو اس کے دل میں قائم ہو تھا۔ وہ جنہیں خینز کی فلکیات ہالئوس بکسلے کے سائنس کا عجز‘ سے متعلق مضامین برٹرینڈرسل کے فزیکس ستیاتا کے جذبات کاونٹ کر۔ مکین کے مشاہدات اور ایچ جی ویلز کی سائنٹیفک فکشن کتابوں سے اخذ تھا۔
ڈر کے بجائے اس کا دل اللہ تعالی کی عظمت کے جذبات سے معمور تھا---------------
ہندویت اور عیسائیت کے مطابق اللہ کی محبت کا تخیل اس کے لئے قابل قبول تھا۔ اسلام کے مطابق تو صرف اللہ ہو اللہ ہو تھا‘ عظمت عظمت عظمت محبت کا سول پیدا ہی نہیں‌ہوتا تھا اور اس بے پناہ عظمت کا اسے کچھ کچھ احساس تھا ۔ جو اس نے مغربی علماء کی تحریروں سے اخذ کیا تھا اسلام سے نہیں‌لیکن اس کی جذباتی دنیا ذہنی خیالات سے دور اپنے ہی رنگ میں بستی تھی۔
معلوم ہوتا ہے کہ ایلی ویسا معمولی نہیں ہے جیسا کہ وہ اپنی سرگزشت سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی ذہنی دنیا بھی ہے اور وہ جدید ترین خیالات سے ہم آہنگ بھی ہے مگر وہ ایسی واقعاتی دنیا میں ہے جہاں وہ محض انسان ہی ہو کر رہ گیا ہے۔ ایلی کی اور اس دنیا کی ذہنی اور کرداری سطح ایک ہے۔ اس لئے وہ نمائندہ اور نارمل انسان ہے۔ آخری دور میں وہ معمہ بھی ہو جاتاہے ۔ اور ہمیں خیال آتا ہے کہ کب وہ معمہ نہیں تھا۔ سب سے بڑا معمہ یہی ہے کہ ہر چیز صاف اور معمولی ہو مگر پھر بھی وہ ہمیں ہر قدم پر تعجب میں‌ڈالے اور معمہ سے زیادہ معمہ ہوتی جائے۔ایلی اپنی تمام سادگی کے باوجود اور سادگی کی وجہ ہی سے ایسی ہی چیز ہے۔
سطحی نظر سے دیکھنے پر یہ محسوس ہوگا کہ یہ ایلی کی ظاہری سرگزشت ہے اور اس طرح
صفحہ نمبر 1253
کردار نگاری کے سلسلے میں بیسویں صدی سے پہلے ہی کی راہ پر چل رہی ہے مگر غور سے دیکھنے کی ایسی ضرورت نہیں اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ جدید ناول کی طرح یہ مرکزی کردار کی اندرونی دنیا بھی سامنے آتی رہتی ہے۔ شروع ہی سے اس کا اپنی سوتیلی ماں صفیہ کی طرف ردعمل اور اس کے مہندی لگے ہوئے ہاتھوں سے اسے نفرت کا بھی تجزیہ ہوتا رہتاہے۔ شہزاد کا عشق ایلی کی اندرونی یا ذہنی کشمکش کا اظہار ہے وہ گو مگو کا عالم وہ یقین اور بے یقینی کا چکر جو اس کے دماغ میں چل گیا ہے پوری نفسیاتی تخیل کے ساتھ بیان ہوتا رہتاہے۔ شہزاد اس کے سر پر بری طرح سوار ہوتی ہے اور جب وہ دوسری عورتوں‌کی طرف بھی متوجہ ہے اور ان سے عشق بھی لگا ہواہے۔تو بھی شہزاد چھن سے اس کے سامنے آتی رہتی ہے۔ اس کی اندرونی اور بیرونی دنیائیں ساتھ ساتھ چلتی نظر آتی ہیں اور اس کی کردار نگاری اس طرح وہ سطحوں‌پر کردار نگاری کی مثال ہے جیسی جدید ترین ناولوں‌میں خاص طور پر جمیس جوائس کی “ جولیس۔“ میں کہتی ہے۔ مفتی صاحب INTERNAL MONO LOGUC کے فن سے بھی واقف ہیں اور اسے بھی بڑی چابک دستی سے برتتے ہیں۔ اپنے افسانوں میں‌انہوں‌نے جدید نفسیات کو افسانہ سے ہمکنار کرنے کی کوشش کی ہے مگر اس سلسلے میں کمال پر ایلی کے کردار کو واضح کرنےمیں پہنچے ہیں۔ مر جانے کے بعد بھی شہزاد ایلی کے لئے ایک زندہ حقیقت ہے جو اسے جگہ جگہ پر دکھائی دیتی ہے۔ جب وہ تقسیم کے نتیجےمیں ترک وطن کرکے بھاگ رہاہے۔ تواس کے تصور میں شہزاد اسی طرح آتی ہے۔
شہزاد کھڑکی سے چلا کر بولی۔“میں رکاوٹ تھی۔ میں دور ہو گئی۔“ وہ بولی ۔“ ایلی نیا جیون جیو۔ نیا جیون جیو۔“
شہزاد کے بعد اس کی محبت کا ظاہری مرکز اس کا شہزاد سے لڑکا عالی ہو جاتاہے۔ وہ بمبئی میں یہ سن کے کہ گورداس پور ہندوستان میں‌آگیا۔ پاگل سا ہوجاتا ہے۔ ہزار جتن کرتا ہے کہ امرتسر اور علی پور پہنچ جائے۔ تمام کوششیں ناکامیاب ہوتی ہے۔ وہ تھک جاتا ہے۔
اس کی آنکھوں تلے عالی دونوں ہاتھ اٹھائے رو رہا تھا-------------------
پرمٹ دفتر میں وہ ایک کونے میں بیٹھاتھا۔اس کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے “عالی عالی ۔“ اس کے دل میں کوئی رو رو کر تھکا ہوا بچہ بلک رہا تھا۔
صفحہ نمبر 1254
بہرحال ناول کے آخری صفحات میں یہ دوہری کردارنگاری بڑی فراوانی سے نمایاں ہے اور ناول کا خاتمہ یوں ہوتا ہے:- حضور حضور ------------- ایلی کا دل دھک دھک کر رہاتھا۔
مفتی صاحب نے پیش لفظ میں اپنے فن کی طرف کوئی خاص اشارہ نہیں کیا۔ ناول میں ایک جگہ وہ دوستوفسکی کے “بردار کارمائزاف۔“ کا ذکر کرتے ہیں اور ہم کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ ان کی کردار نگاری دوستوفسکی سے گہرے طریق پر متاثر ہے۔ ایلی کے کردار میں دوستوفسکی کے فن کا والہانہ پن اور فن سے بے نیازی ہے مگر وہ اپنے کردار کی تحلیل نفسی میں جدید ناول نگاروں کیلئے ماڈل ہے۔ مفتی صاحب بھی اس ماڈل پر چلنے میں پورے کامیاب ہیں۔ اور یہ کامیابی کسی ملک کی ناول میں بھی عظیم ہو سکتی ہے۔ اردو ناول نگاری میں تو یہ ایک مستحکم جھنڈا گاڑ دیتی ہے۔
(5)
مجھے محسوس ہوا کہ اس ناول پر تنقید کرنے میں‌تنقید کے پر جل ہی نہیں گئے بلکہ جل کر راکھ ہو گئے اور وہ راکھ بھی اڑگئی۔ اس کا رخ واقعیت کی طرف ہے جو ناول کی جان اور واقعیت بھی یہاں انگریزی اور فرانسیسی والے سے زیادہ روسی ناول کی تفصیل اور جزئیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ برتی گئی ہے اور پھر جدید واقعیت کی پیچیدگی یا پیچیدہ عالموں سے دلچسپی کا بھی خیال رکھا گیاہے جس کی وجہ سے ناول کا ضخیم ہو جانا لازمی تھااوراس دور میں ضخیم ترین ناول ہو بھی گئی ہے۔ مگر مفتی صاحب نے جو کمال دکھایا ہے اسے جانچتے وقت تمام اصول ٹوٹ جاتے ہیں اور پھربھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ایک فن اپنی پوری زندگی کے ساتھ موجود ہے اور اپنا تخیل اثر جماتا چلا جاتا ہے۔ یعنی اس ناول میں وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتاہے۔ میتھو آرنلڈ کا سب سے اہم اصول یہ تھا کہ ادب کو زندگی پر تنقید ہونا چاہئے ۔ مگر ٹولسٹو کی “اناکارینہ۔“ پر مضمون میں اسے اپنا اصول توڑتے ہوئے اس کی تعریف میں یہ کہا کہ یہ تنقید حیات نہیں‌ہے بلکہ ہو بہو حیات ہے۔ مفتی صاحب کی واقعیت نگاری اور نفسیات نگاری کے بابت بھی ایسا ہی کچھ کہ دینا پڑتا ہے۔ یہاں زندگی کا نقشہ نہیں ہے جس کے حدود ناپے جا سکیں‌ یا جس کے تاثرات کے صحیح یا غلط ہونے کا اندازہ لگایا جا سکے۔یہاں‌زندگی ہے زندگی ہی ہے اور مکمل زندگی ہے۔ مفتی صاحب اسے “ڈھیر۔“ کہتے ہیں مگر محض ڈھیر نہیں ہے اس میں‌ترتیب ہے مگر وہ ترتیب ہے جس کا اندازہ نہیں‌ لگایا جا سکتا کیونکہ وہ ہو بہو زندگی کی طرح‌ہے
صفحہ نمبر 1255
اور اسی طرح اپنے زور سے پڑھنے ولے کو پسپا کردیتی ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ وہ فنکاری میں ناکامیاب ہیں ان کا کوئی مقصد نہیں ہے اور وہ فضول کی بکواس کا ایک ڈھیر لگا گئے ہیں۔ مگر ان کا ناول کا منظر ہمیں یہ کہنے سے روک دیتا ہے بلکہ منہ بند کر دیتا ہے اور ہم اس کے خلاف کچھ کہنا نادانی مان لیتے ہیں۔ یہ ناول ہے۔ اس معنوں‌میں ناول نہیں جو ایک دلچسپ قصہ سنا کر ہمیں محظوظ کرتی ہے بلکہ اس معنٰے میں‌ناول کہ یہ ایک زندگی کی اور ایک گروہ کی زندگی کی مکمل تصویر ہے اور یہ تصویر خاص طور پر ایک مرکزی کردار کے ضمن میں لائی گئی ہے۔ اس میں وہ پھیلاو ہے اور جزئیات کی طرف وہ توجہ ہے جس کے برتنے میں روسی ناول نگار سب سے آگے ہیں۔ اس میں زندگی کا سا چڑھاو اور اتار ہے اور قصہ ہیرو کے بچپن سے شروع ہر کر ایک نئی زندگی کے آغاز تک جاتا ہے‘ اس کی کوئی ٹکی بندھی ہئیت نہیں ہے مگر وہ سیع ہئیت کا تاثر ضرور دیتا ہے۔ یہ ایک عظیم دریا کی طرح ‌ہے جس کا مخرج ایلی کا گھر ہے اور پھر وہ پھیلتا ہوا آصفی محلے‘ علی پور‘ امرتسر‘ لاہور تک جاتا ہے۔ وہ سارا خطہ جو گرداسپور سے لے کر لاہور تک ہے اس کی وسعت میں آجاتا ہے ۔ پھر یہ بمبئی تک پھیل کر سمندر کو بھی اپنے میں ملا لیتا ہے۔ اس کی سطح پر کثرت سے انسان پھیلے نظر آتے ہیں۔ جتنی وسعت بڑھتی جاتی ہے اتنی ہی انسانوں کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے۔ کچھ انسان مرکزی ہو جاتے ہیں اور باربارآتے رہتےہیں۔ یہ ایلی کے قریبی عزیز ہیں۔ سب سے زیادہ ایلی خود ہے جس کو ہم اس سیلاب میں‌ہر جگہ ڈبکی کھاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اس کو اس کا شناور کہنے کو جی چاہتا ہے مگر وہ شناور کی سی طبیعت اور مقصد نہیں رکھتا۔ وہ بہا چلا جاتا ہے سب لوگوں کی طرح کا ہے مگر سب سے مختلف ہے۔ وہ فرد بھی ہے مگر اس کی انفرادیت کی حد متعین نہیں ہو سکتی اور ہم اسے ہر جگہ اور ہر وقت محسوس ضرور کر لیتے ہیں۔ ناول میں بس وہی وہ ہے اور شہزاد تک اس کے ذہن کی پیداوار ہے۔
“یہ محسوس ہوتا ہے کہ مفتی صاحب اور ایلی ایک ہی شخص اور مفتی صاحب کے جاننے والے یہ تصدیق کرتے ہیں کہ “علی پور کا ایلی۔“ ایک خود نوشتہ سوانح ہے۔ مگر میں سوال کرتا کہ کیا ممکن ہے؟ یہ کتاب تاریخ نہیں‌ناول ہے اور ناول میں اس کا مصنف اپنے کو ضرور پیش کرتا ہے مگر وہ پورا کا پورا اپنے کو اتار نہیں سکتا۔ نام بدلنے سے اور تخیل کے دائرے میں آنے سے مصنف خود دوسرا آدمی ہو جاتاہے۔ اس لئے ایلی اور مفتی صاحب ایک نہیں ہو سکتے اور ایلی تاریخ کا فرد نہیں بلکہ تخیل کی تخلیق ہے اس لئے ایلی اور مفتی صاحب ایک نہیں ہو سکتے اور ایلی تاریخ‌کا فرد نہیں بلکہ تخیل کی تخلیق ہے اس لئے اس کی سر گزشت کتنا ہی واقعات کا
 
Top