علی پور کا ایلی(1146-1175 )

سارا

محفلین
‘‘پتہ نہیں‘‘ وہ بولی۔۔۔‘‘ سوئی ہوئی تھی۔۔‘‘
‘‘پھر؟ ‘‘
‘‘پھر ایسے ہوا جیسے کسی نے مجھے جھنجھوڑا۔۔‘‘
‘‘کس نے؟ ‘‘
‘‘پتہ نہیں کسی نے میرے کان میں کہا۔۔مل لو۔۔‘‘
‘‘ہوں۔۔‘‘ایلی سوچ میں پڑھ گیا۔۔
‘‘میں نے عالی کو اٹھا لیا اور باہر نکل آئی۔۔‘‘
‘‘تم سے تو چلا بھی نہیں جاتا۔۔‘‘
‘‘نہیں جاتا۔۔‘‘ وہ بولی۔۔‘‘پر تم سے ملنا تھا اس لیے۔۔‘‘
ایلی نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے گال پر رکھ لیے۔۔وہ دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔۔
‘‘تو تم مجھے بھولی نہیں آجتک۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘نہیں۔۔‘‘وہ بولی۔۔
‘‘ان دنوں تو بہت غصہ تھا۔۔‘‘
‘‘تھا۔۔لیکن یہ بھلا مجھے بھولنے دیتا ہے۔۔‘‘
‘‘کون ؟‘‘
‘‘یہ عالی۔۔‘‘وہ کھانستے ہوئے بولی
‘‘عالی؟ ‘‘
‘‘ہاں سارا دن بیٹھا ابو ابو کرتا رہتا ہے۔۔‘‘
‘‘مجھے دیکھ کر سہم جاتا ہے۔۔‘‘
‘‘پتہ نہیں۔۔گھر میں ابو ابو کرتا ہے۔۔‘‘
‘‘ہوں۔۔‘‘وہ بولا۔۔
پھر کھانسنے لگی اور پھر خون تھوکا۔۔
ساری رات دونوں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔۔صبح کے قریب ایلی کی آنکھ لگ گئی۔۔جب وہ بیدار ہوا تو صبح کے سات بجے تھے۔۔
‘‘شہزاد۔۔‘‘ وہ بولا۔۔
 

سارا

محفلین
‘‘جاگ پڑے۔۔‘‘شہزاد بے بسی سے مسکرائی۔۔
‘‘تم نہیں سوئی کیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔۔
‘‘اب تو دیر ہو گئی۔۔‘‘
‘‘یعنی۔۔‘‘ اس نے پوچھا۔۔
‘‘دیر سے سونا چھوٹ گیا۔۔‘‘وہ کھانسنے لگی۔۔
‘‘کیوں ؟ ‘‘
‘‘نیند نہیں آتی۔۔‘‘
‘‘ساری رات بیٹھی رہتی ہو۔۔‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘
‘‘وقت نہیں گزرتا۔۔‘‘
‘‘باتیں یاد آتی ہیں۔۔‘‘
‘‘کونسی؟ ‘‘
‘‘ایک ایک۔۔‘‘اسے پھر کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔۔
‘‘اچھا۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘میں آ جاؤں گا۔۔‘‘
‘‘کہاں ۔۔‘‘ اس نے پوچھا۔۔
‘‘تمہارے پاس۔۔‘‘
‘‘سچ۔۔‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔‘‘آج جا کر چھٹی لے آؤں ایک مہینے کی۔۔‘‘
‘‘ایک مہینے کی ؟‘‘ اس نے پوچھا۔۔
‘‘ہاں۔۔اکھٹے رہیں گے۔۔‘‘
‘‘اچھا۔۔‘‘اس نے ایلی کا ہاتھ دبایا۔۔کب تک مل جائی گی؟‘‘
‘‘ہفتے کے اندر۔۔‘‘
‘‘ہفتہ۔۔‘‘اس نے برا سا منہ بنایا۔۔اسے پھر کھانسی چھڑ گئی۔۔
‘‘کیوں ؟‘‘ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘ہفتہ نہیں۔۔‘‘وہ بولی۔۔‘‘جلدی۔۔‘‘
 

سارا

محفلین
‘‘اچھا۔۔میں کوشش کروں گا۔۔اب جاتا ہوں۔۔‘‘
‘‘اچھا۔۔‘‘شہزاد نے بیٹھنے کی کوشش کی۔۔‘‘اگر جانے سے پہلے کوٹھے پر چھوڑ آؤ۔۔‘‘
‘‘کیا مطلب۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘میں سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی۔۔دھوپ میں پڑھی رہوں تو آرام رہتا ہے۔۔‘‘
‘‘اٹھا کر لے چلوں۔۔‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘ وہ بولی اور کھانسنے لگی۔۔
ایلی نے اسے دونوں بازؤں سے اٹھا کر اپنے سینے سے لپٹا لیا۔۔وہ یوں اس کی چھاتی سے چمٹی ہوئی تھی جیسے کوئی بچہ ماں کی چھاتی سے چمٹا ہو۔۔
‘‘آؤں گا۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘ تو روز تمہیں کوٹھے پر لے جایا کروں گا۔۔‘‘
‘‘ہاں۔۔دھوپ میں مجھے آرام رہتا ہے۔۔‘‘وہ بولی۔۔
‘‘اکھٹے دھوپ میں بیٹھا کریں گے۔۔‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘وہ بولی۔۔‘‘پر جلدی آنا۔۔‘‘
ایلی اسے چارپائی پر لٹانے لگا تو شہزاد کا سر پلنگ کے پائے سے ٹکرا گیا۔۔
‘‘اوہ۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘تمہیں چوٹ آئی ہے۔۔‘‘
‘‘اچھا ہوا۔۔‘‘وہ بولی۔۔
ظاہر تھا کہ شہزاد کو بے حد چوٹ لگی ہے۔۔
‘‘مجھ سے غلطی ہوئی۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘اچھا ہوا۔۔‘‘تمہارے ہاتھوں چوٹ آنی ہی تھی مجھے۔۔‘‘
‘‘کیوں۔۔‘‘
‘‘بس۔۔اچھا ہی ہوا۔۔‘‘وہ کھانسنے لگی۔۔
وہ دیر تک اس کا سر ہاتھوں سے ملتا رہا اور پیار سے اسے دباتا رہا۔۔وہ بڑی محبت سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
‘‘اچھا میں اب جاتا ہوں۔۔‘‘وہ بولا۔۔
شہزاد نے چپ چاپ اسے دیکھا اس کی‌آنکھوں میں آنسو تھے۔۔
قاضی پور پہنچ کر وہ سیدھا سکول پہنچا۔۔
 

سارا

محفلین
دھندلکا

اس روز اس نے محسوس کیا کہ قاضی پور کی عمارت بہت بڑی اور خوبصورت تھی اور ملحقہ پارک بڑے سلیقے سے بنایا گیا تھا اور گراؤنڈ میں سفیدے کے درخت بہت خوبصورت لگتے تھے۔۔
سکول میں آدھی چھٹی ہو چکی تھی۔۔اساتذہ حسب معمولی باغیچہ میں بیٹھے تھے۔۔پہلی مرتبہ وہ اساتذہ کے پاس جا کھڑا ہوا۔۔
‘‘آئیے آئیے الیاس صاحب ‘‘ ایک شخص نے بڑی گرمجوشی سے اس کا استقبال کیا۔۔
‘‘آپ تو الگ تھلگ رہتے ہیں۔۔‘‘دوسرے صاحب بولے۔۔
‘‘کبھی صورت ہی نہیں دکھائی۔۔‘‘تیسرے صاحب بولے۔۔
آپ جیسی صورت ہو تو مجھے بھی دکھانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
انہوں نے حیرت سےاس کی طرف دیکھا اور مسکرانے لگے۔۔
‘‘وہ صاحب۔۔‘‘ایک صاحب کہنے لگے۔۔آپ تو بولنے لگے۔۔‘‘
‘‘میرا قصور نہیں۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔موسم ہی ایسا ہے۔۔‘‘
‘‘تو آپ دیدرکاک ہیں۔۔‘‘دوسرے صاحب نے کہا۔۔
اس پر ایک قہقہ پڑا۔۔
اس روز وہ دیر تک اساتذہ سے باتیں کرتا رہا۔۔
شام کو وہ ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملا اور چھٹی کی درخواست پیش کر دی۔۔
‘‘دیکھئے الیاس صاحب۔۔‘‘انصاری بولے۔۔‘‘میں ایک ماہ کی چھٹی تو منظور نہیں کر سکتا۔۔ہاں سفارش کر کے لاہور بھجوا دیتا ہوں۔۔منظور ہو جائے تو آپ شوق سے چھٹی پر چلے جائیے۔۔‘‘
‘‘کب تک منظور ہو جائے گی۔۔‘‘اس نے پوچھا۔۔
‘‘ایک ہفتہ لگے گا۔۔‘‘وہ بولے۔۔‘‘کم از کم۔۔‘‘
‘‘بہت خوب۔۔‘‘
جب وہ گھر پہنچا تو اس نے محسوس کیا کہ اسے چند چیزیں خرید کر گھر میں رکھنی چاہیں۔۔یہ خواہش ایلی نے اس شدت سے محسوس کی اور اسی وقت بازار چلا گیا تا کہ پتا لگائے
 

سارا

محفلین
کہ آیا اسے چند ایک چیزیں کرایہ پر مل سکتی ہیں۔۔دیر تک وہ بڑے بازار میں گھومتا رہا۔۔
‘‘کیا فرنیچر کرایہ پر دیتے ہیں۔۔‘‘ اس نے پوچھا۔۔
‘‘ہاں ہاں۔۔کیوں نہیں۔۔‘‘لڑکے کے والد نے کہا۔۔‘‘آپ فرمائیے آپ کو کیا چاہیے۔۔‘‘
رات کو وہ دیر تک وہ مکان میں فرنیچر کی چند چیزیں سجاتا رہا اور پھر سو گیا۔۔اس روز اس کی دنیا ہی بدلی ہوئی تھی۔۔
ایلی کے بدلے ہوئے رویے کو دیکھ کر سبھی حیران تھے۔۔
جماعت میں وقت کاٹنے کی بجائے اس نے پڑھانا شروع کر دیا تھا۔۔نویں جماعت کے لڑکے تو اس کے دو ایک سبق دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔۔
اساتذہ بھی اب اس میں دلچسپی لینے لگے حتٰی کہ انصاری صاحب نے بھی اس تبدیلی کو محسوس کیا تھا۔۔انہوں نے ایلی کو بلا کر اس سے بات بھی کی تھی۔۔بولے :
‘‘الیاس صاحب۔۔کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اپنی لمبی چھٹی کو ملتوی کر دیں۔۔‘‘
ایلی نے گھبرا کر ان کی طرف دیکھا۔۔
‘‘دیکھئے نا۔۔‘‘انصاری بولے۔۔‘‘امتحانات بالکل قریب ہیں۔۔اگر آپ چھٹی پر چلے گئے تو نتیجہ پر برا اثر پڑے گا۔۔‘‘
‘‘جی۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔‘‘لیکن مجبوری ہے۔۔‘‘
‘‘آخر آپ کس لیے چھٹی لے رہے ہیں۔۔‘‘
‘‘جی میری بیوی بیمار ہے۔۔‘‘
‘‘آپ انہیں یہاں کیوں نہیں لے آتے۔۔‘‘انصاری نے کہا۔۔
‘‘جی وہ بہت بیمار ہے۔۔‘‘
‘‘اگر میں موٹر کا انتظام کر دوں تو۔۔‘‘
‘‘شاید۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔‘‘شاید یہ ممکن ہو۔۔‘‘
‘‘آپ کوشش کریں گے۔۔‘‘
‘‘جی۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘کروں گا۔۔اگر ممکن ہوا تو۔۔‘‘
ابھی وہ ہیڈ ماسٹر سے بات کر رہا تھا کہ ڈاکیا آ گیا۔۔اس نے ایک لفافہ سا اٹھایا ہوا تھا۔۔
‘‘جی۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘الیاس آصفی۔۔‘‘
 

سارا

محفلین
الیاس نے وہ خط ہاتھ میں تھام لیا اور بدستور ہیڈ ماسٹر صاحب سے باتیں کرتا رہا۔۔‘انصاری صاحب میرے حالات میرے بس میں نہیں۔۔کچھ ایسی الجھنیں ہیں۔۔میں کوشش ضرور کروں گا۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
‘‘ارے بھائی۔۔‘‘انصاری بولے۔۔‘‘اس تار کو پڑھ لو پہلے۔۔‘‘
‘‘تار۔۔‘‘ایلی نے ہاتھ کے لفافے کی طرف دیکھا۔۔
اس نے جلدی سے تار کھولا۔۔
‘‘کیوں۔۔خیریت تو ہے؟ ‘‘ ہیڈ ماسٹر نے پوچھا۔۔
‘‘جی۔۔‘‘ایلی چونکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پھر کھو چکا تھا۔۔اس نے تار ہیڈ ماسٹر کے ہاتھ میں تھما دی۔۔لکھا تھا۔۔
‘‘شہزاد کل رات فوت ہو گئی۔۔جنازہ کل صبح نو بجے ہو گا۔۔‘‘
سامنے گھڑی گیارہ بجا رہی تھی۔۔
گردوپیش پر دھندلکا چھا چکا تھا۔۔
انصاری کے ہونٹ ہل رہے تھے۔۔
باغیچے میں ایک بڑے سے پلنگ پر ایک لاش پڑی تھی۔۔
پاس ہی ایک بچہ ہاتھ اٹھا کر چلا رہا تھا۔۔‘‘ابو۔۔ابو۔۔‘‘پھر وہ بھاگ رہا تھا۔۔بھاگے چلا جا رہا تھا۔۔
‘‘اب کیا ہے۔۔اب کیا ہے۔۔‘‘لاش منہ سے چادر اٹھا کر کہہ رہی تھی راستے کی رکاوٹ۔۔ریل ہونک رہی تھی۔۔انجن چیخیں مار مار کر رو رہا تھا۔۔
تانگے والے چلا رہے تھے۔۔
پھر بہت سے لوگ دروازے اور کھڑکیوں میں کھڑے اسے گھور رہے تھے۔۔
‘‘وہ آ گیا۔۔وہ آ گیا۔۔‘‘
‘‘ہٹ جاؤ۔۔ہٹ جاؤ۔۔‘‘
‘‘اب آیا تو کیا آیا۔۔‘‘
‘‘یہ ہو کے رہے گا۔۔‘‘حاجی صاحب مسکرا رہے تھے۔۔
‘‘تم آگئے۔۔‘‘شہزاد اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔
 

سارا

محفلین
‘‘ابو۔۔ابو۔۔‘‘دو ننھے منھے ہاتھ اس کی طرف بڑھے۔۔
ایلی نے ایک بچے کو سینے سے چمٹا لیا۔۔
پھر وہ جا رہا تھا۔۔نہ جانے کہاں جا رہا تھا۔۔
چاروں طرف قبریں پھیلی ہوئی تھیں۔۔
ایک بڑی سی قبر سامنے آ گئی۔۔اس پر تازہ پھول پڑے ہوئے تھے۔۔
وہ قبر پھیلنے لگی۔۔پھیلتی گئی۔۔حتٰی کہ سارا قبرستان اس کی اوٹ میں آ گیا۔۔
پھر وہ ابھرنے لگی۔۔ابھرتی گئی زمین سے آسمان تک پھیل گئی۔۔
‘‘تم آ گئے۔۔‘‘ایک جانی پہچانی آواز آئی۔۔
پھر ایک سیلاب امنڈ آیا۔۔پانی ہی پانی۔۔وہ قبر اس پانی میں بہہ گئی پھر وہ بچوں۔۔
پھر وہ بچوں کی طرح بلبلا کر چیخیں مار رہا تھا۔۔اس سیلاب میں ڈوب رہا تھا۔۔
دفتعاً اس کی نگاہ اس بچے پر پڑی جو اس کے سینے سے چمٹا ہوا تھا۔۔‘‘ابو۔۔۔ابو۔۔‘‘
وہ اٹھ بیٹھا جیسے دفتعاً اسے سہارا مل گیا ہو۔۔جیسے زندگی میں پھر سے مفہوم پیدا ہو گیا ہو۔۔
‘‘عالی عالی ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے کوئی جھنجھوڑ رہا تھا۔۔
اسے عالی کو اس سیلاب سے بچانا تھا۔۔
پھر وہ بھاگ رہا تھا۔۔دیوانہ وار بھاگ رہا تھا۔۔
‘‘ابو۔۔۔ابو۔۔‘‘ریل گاڑی چیخ رہی تھی۔۔‘‘ابو۔۔ابو۔۔‘‘
سامنے شہزاد کھڑی مسکرا رہی تھی۔۔
 

سارا

محفلین
پاکستان

مہینے کی چھٹی گزارنے کے بعد گویا اس کے دل کی گہرائیوں سے ایک نیا آدمی ابھر آیا تھا۔۔ایک ایسا آدمی جسے اپنے ماضی سے نہ لاگ تھا نہ لگاؤ جو اپنی گزشتہ زندگی پر نہ تو شرم محسوس کرتا تھا اور نہ بیتے ہوئے واقعات کو ذہن میں دہرانے کا شوق رکھتا تھا‘ اسے اپنے گزشتہ افعال پر پیشمانی نہ تھی نہ ہی وہ اس پر فخر کرتا تھا۔۔جو بیت چکا تھا۔۔وہ اپنے گزشتہ عشق کو حماقت نہیں سمجھتا تھا۔۔اسے اب بھی عشق کی عظمت کا اعتراف تھا۔۔وہ حماقتوں کہ اہمیت کا معترف تھا۔۔وہ جانتا تھا کہ ان حماقتوں نے اس کی زندگی میں رنگ پیدا کیا ہے۔۔وہ حماقتیں فطری تھیں انسانیت بخش تھیں۔۔وہ انہیں دہرانے کا بھی شوقین نہ تھا۔۔اس کی گزشتہ زندگی اس کے مستقبل پر سایہ نہیں ڈال رہی تھیں۔۔
یہ محض حسن اتفاق تھا ک گزشتہ زندگی کے پھوڑے اور پھنسیوں نے اس کی طبعیت شخصیت کردار‘ خیالات‘ محسوسات پر کوئی داغ نہ چھوڑا تھا۔۔اسے اس حسن اتفاق کا شدت سے احساس تھا۔۔یہ بھی ممکن تھا کہ وہ اپنی گزشتہ زندگی سے عشق لگا کر بیٹھ جاتا اور شریف کی طرح باقی زندگی آہیں بھرنے اور چھت کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے میں بسر کر دیتا۔۔یا اپنی گزشتہ زندگی کو قابل نفرین قرار دے کر من نہ کر دم شما حذر بکنیہ کا پرچارک بن جاتا۔۔
اسے یہ بھی احساس تھا کہ یہ زاویہ نگاہ اس کہ اپنی کوششوں کا نتیجہ نہیں اس لیے اس نے التزاماً کچھ بھی نہ کیا تھا۔۔اسے احساس تھا کہ گزشتہ زندگی سے اخذ کیے گئے لاگ یا لگاؤ سے
 

سارا

محفلین
بچے رہنا ایک بہت بڑی نعمت ہے لیکن اسے علم نہیں تھا کہ یہ نعمت کس کی دین ہے۔۔
محسوسات کے لحاظ سے وہ ابھی تک بچہ تھا۔۔ذہنی طور پر اس کی پختگی اور بڑھ گئی تھی۔۔جذباتی پہلو کے لحاظ سے زندگی نے اسے کچھ نہ سکھایا تھا۔۔ذہنی لحاظ سے ہر تجربہ ہر مشاہدہ اس کے فکر میں ایک نئی کلی بن کر رہ جاتا تھا۔۔اور اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا تھا۔۔
زندگی کے بہاؤ کی منجدھار گزر چکی تھی۔۔اب وہ پایاب پانی میں چل رہا تھا۔۔لیکن پایاب پانی میں پہنچ کر الیاس آصفی نے دفتعاً محسوس کیا کہ وہ آزاد ہے۔۔قطعی طور پر آزاد۔۔اپنی انا کی بندشوں سے آزاد اس کی آنکھوں سے ذاتیات کے چشمے اتر گئے تھے۔۔اب وہ دنیا کو دیکھ سکتا تھا۔۔
دنیا بے حد وسیع تھی۔۔مگر وہ بلا کی وسعت اداسی پیدا نہیں کر رہی تھی۔۔اس میں ایک عجیب سی عظمت تھی۔۔اس نے پہلی مرتبہ دوسروں کو دیکھا۔۔اس کے روبرو سینکڑوں ایلی تھے جو جذبات کے بھنور میں ڈبکیاں کھا رہے تھے۔۔وہ انہیں قابل نفرین نہیں سمجھتا تھا۔۔ان کا مذاق نہیں اڑاتا تھا۔۔اسے ان سے ہمدردی تھی اس کے دل میں ان کی عزت تھی۔۔
ایلی میلے سے واپس آرہا تھا۔۔لیکن جو میلے کو جا رہے تھے ان کو خندہ زن نہ تھا۔۔وہ سمجھنے لگا تھا کہ بھرپور شوق سے میلے کو جانا بھی ضروری ہے۔۔اور بے لاگ لگاؤ وہاں سے لوٹنا بھی ضروری ہے۔۔
اس کے خیال میں محبت ایک عظیم تجربہ تھا۔۔اور اس عظیم تجربے کے چار ضروری دور تھے۔۔پہلا یہ کہ شدت سے محبت کرے دوسرے اسے محبت میں مظیم کامیابی حاصل ہو یعی تخت پر بیٹھے اور مور چھل کرائے۔۔تیسرے یہ کہ محبت اس کی تذلیل کرے اور دھکا دے کر تخت سے نیچے پھینک دے ذلت اور رسوائی چاروں طرف سے اسے گھیر لیں اور چوتھا یہ کہ وہ عشق کامیابی تذلیل اور رسوائی سب سے بے نیاز ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے لاگ بے لگاؤ۔۔
اس کا یہ نظریہ جسمانی عشق کے متعلق تھا افلاطونی یا روحانی عشق کے تخیل سے وہ واقف ہی نہ تھا۔۔افلاطونی عشق تو محض ایک قصہ تھا۔۔البتہ روحانی عشق کے وجود سے وہ منکر نہ تھا۔۔لیکن اسے کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ روحانی عشق کا مطلب کیا ہے۔۔ایک انسان کس طرح اللہ سے محبت کر سکتا ہے۔۔اس نے کئی مرتبہ مرشد کا نام سنا تھا۔۔لیکن بیعت اور مرشد کے متعلق ابھی تک اس کے وہی خیالات تھے جن کا کسی زمانے میں دلی کی جامع مسجد میں اس نے حاجی صاحب کے روبرو اظہار کیا تھا۔۔
 

سارا

محفلین
گروپتن

قاضی پور سے ایلی کا تبادلہ ہو چکا تھا۔۔اور اب وہ گروپتن میں مقیم تھا۔۔گروپتن ایک چھوٹا سا خوبصورت سا قصبہ تھا۔۔اس میں دو ایک کشادہ سڑکیں تھیں جن پر بنگلے اور کاٹیج بنے ہوئے تھے دو ایک تنگ و تاریک بازار تھے شہر کے باہر چند ایک صاف ستھری آبادیاں تھیں کچھ حصہ گھٹا گھٹا سا تھا جیسے پرانے شہروں میں ہوتا ہے۔۔گردوپتن میں طرز کہن اور طرز جدید دونوں پہلو موجود تھے۔۔
بازاروں میں بھیڑ تھی سول لائنز نما علاقے میں خوبصورت ویرانی تھی۔۔ایلی کو ویرانی پسند تھی۔۔اور اس کا مکان بھیڑ اور ویرانی بھرے علاقوں کے سنگم پر تھا۔۔گھر میں عالی تھی اور عالی کی ماں ہاجرہ۔۔اب ایلی اکیلا نہیں رہ سکتا تھا اس لیے کہ عالی سے الگ رہنا تکلیف دہ تھا۔۔چونکہ اس نے اپنی ساری محبت عالی پر مرکوز کر دی تھی۔۔اس محبت میں ہسٹیریا کا عنصر نہ تھا۔۔پھر بھی اس کی تمام تو توجہ عالی پر مرکوز تھی غالباً گزری ہوئی تلخی کو بھلانے کے لیے اس نے عالی کا سہارا لے لیا تھا۔۔
عالی ایک بھدا سا لڑکا تھا۔۔اس کے نقوش موٹے تھے۔۔چہرے پر بے حسی چھائی ہوئی تھی۔۔حرکات خاصی حد تک بے ربط تھیں۔۔اس کے خدوخال میں قطعی طور پر شہزاد کی جھلک نہ تھی۔۔
ہاجرہ کا ایلی کے پاس رہنا نا گزیر تھا۔۔چونکہ چار سال کے بچے کو پاس رکھنا ایلی کے لیے ممکن نہ تھا۔۔وہ اکیلا نہ تو اس کی دیکھ بھال کر سکتا تھا۔۔اور نہ اسے گھر میں اکیلا چھوڑ کر خود نوکری کے فرائض ادا کر سکتا تھا۔۔
ایلی نے پھر سے مطالعہ شروع کر دیا تھا۔۔زندگی میں پہلی مرتبہ بلاواسطہ کتاب اٹھائی تھی اس سے پہلے اس نے کئی مرتبہ شدت سے مطالعہ کیا تھا۔۔لیکن اس کی حثیت محض فرار کی سی تھی۔۔تلخ واقعات کو بھولنے کے لیے اس نے کئی بار کتاب کا سہارا لیا تھا۔۔لیکن اب پہلی مرتبہ اس نے کتاب کے لیے مشبت شدت سے محسوس کی تھی۔۔
سارا دن یا تو وہ پڑھتا یا عالی سے کھیلتا رہتا اور پھر اس کا جی چاہتا کہ شام کو کسی طرف نکل جائے اور پھر کسی غلام کے پاس جا بیٹھے۔۔اور ستار کی لرزشیںاسے چاروں طرف سے گھیر لیں اور وہ ان میں ڈوب جائے۔۔
 

سارا

محفلین
ایلی کے کردار کی شدت اگرچہ بہت کم ہو چکی تھی پھر بھی وہ مٹھاس بھرے تاثرات کا محتاج تھا ایسے تاثرات جو اس کی شخصیت کے کونوں کو تراش کر ہموار کر دیں۔۔بچی کچھی تلخیوں کو سمیٹ لیں۔۔اس کے نزدیک موسیقی سے بڑھ کر کوئی چیز نہ تھی۔۔جو اسے سکون سے ہم آہنگ کر سکتی تھی۔۔اس کا جی چاہتا تھا کہ اپنی شخصیت میں لے پیدا کرے۔۔پھر دفتعاً اسے خیال آیا کیوں نہ میں طبلہ بجانا سیکھوں۔۔
اس نے اس سلسلے میں تحقیق کی۔۔لیکن ہر جگہ سے اسے ایک ہی جواب ملا۔۔سارے گروپتن میں صرف ایک ہی فرد تھا جو طبلہ بجانے اور رنگینی محفل کے لیے مشہور تھا۔۔اور غالباً اسی وجہ سے سب لوگ اسے رنگی کہتے تھے۔۔
رنگی کسی سرکاری دفتر میں انسپکٹر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ایلی کو یقین نہ آتا تھا کہ کوئی انسپکٹر طبلے میں دلچسپی لے سکتا ہے۔۔اس لیے اس نے انسپکٹر سے ملنے کا خیال کی ترک کر دیا۔۔اسے ایک بڑے عہدے دار سے راہ و ربط پیدا کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی تھی۔۔
گروپتن میں جو مکان انہیں ملا اس کے پڑوس میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت اور دو لڑکیاں رہتی تھیں وہ وقت بے وقت ان کے گھر آ جاتی تھیں۔۔اور بے حجابانہ ایلی کی طرف دیکھ کر پراسرار طور پر مسکراتی رہتیں۔۔
ایلی نے پہلے تو ان سے دور رہنے کی کوشش کی۔۔وہ گھر میں داخل ہوتی تو وہ کمرے میں گھس جاتا۔۔وہ کسی نہ کسی بہانے کمرے میں پہنچ جاتیں تو وہ باہر صحن کی طرف بھاگتا۔۔ایک روز جب وہ صحن کی طرف جانے لگا تو بڑی لڑکی اس کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔۔اور بامعنی انداز میں مسکرانے لگی۔۔ایلی کو اس کی مسکراہٹ بہت بری معلوم ہوئی۔۔اب وہ ان جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔۔اسے عورت میں وہ خصوصی دلچسپی نہ رہی تھی جو کسی زمانے میں محسوس کیا کرتا تھا۔۔۔۔جوانی میں وہ عورت سے ڈرتا تھا۔۔اس لیے اس کی طرف بری طرف کھنچا چاہتا تھا۔۔ڈر اور دلچسپی۔۔عورت اس کے دل میں یہ دو جذبات پیدا کرتی تھی۔۔نتیجہ یہ تھا کہ عورت کو اس نے بے حد اہمیت بکش رکھی تھی۔۔
پھر عورت کے بارے میں اس کے خیالات تلخی سے بھر گئے۔۔وہ بے وفا تھی‘ اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔۔ وہ مردوں کو کھلونا بنا کر ان سے کھیلتی تھی۔۔وہ ایک سنہرا جال تھی۔۔لیکن اس کے باوجود اس کا سحر عظیم تھا۔۔
 

سارا

محفلین
اب وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ عورت ایک کمزور اور بے بس مخلوق ہے۔۔اور اس کی جاذبیت میں گہرائی نہیں۔۔اس کی شخصیت عظمت سے خالی ہے۔۔قدرت کی طرف سے وہ تسخیر پر مجبور ہے۔۔
شاید اسی وجہ سے ان دو لڑکیوں سے قطعاً دلچسپی پیدا نہ ہوئی بلکہ اس نے سوچا کہ وہ اس کی آزادی میں مخل ہو رہی تھیں۔۔اس لیے اس نے کوشش کر کے اپنا مکان بدل لیا۔۔اور وہ شہر کے کونے پر ایک چھوٹے سے مکان میں منتقل ہو گئے۔۔

رنگی
پہلے روز ہی رات کے وقت اس کے کان کھڑے ہوئے کوئی شخص طبلہ بجا رہا تھا۔۔پھر کسی نے گانا شروع کر دیا۔۔اسے غلام یاد آ گیا۔۔
اگلے روز شام کے وقت پھر ایلی نے طبلے کی آواز سنی۔۔وہ چپکے سے گھر سے باہر نکل گیا۔۔قریب ہی پڑوس میں ایک بیٹھک سے طبلہ کی آواز آ رہی تھی۔۔اس نے دور کھڑے ہو کر بیٹھک کی طرف دیکھا۔۔
ایک خوش پوش نوجوان سوٹ پہنے بو لگائے فرش پر بیٹھا طبلہ بجا رہا تھا۔۔اس کا لباس‘ خوبصورت تھا۔۔انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی آرسٹو کریٹ ہو۔۔لیکن اس کے باوجود اس کے چہرے پر بلا کی جاذبیت تھی اس کی شخصیت سے مٹھاس کے چھینٹے اڑ رہے تھے۔۔
ایلی قریب چلا گیا۔۔
‘‘آئیے آئیے۔۔‘‘ وہ مسکرایا ‘‘بیٹھئے۔۔‘‘
‘‘نہیں نہیں۔۔‘‘ایلی بولا۔۔‘‘آپ شغل جاری رکھیے میں یہیں سے سنوں گا۔۔‘‘
‘‘آئیے بیٹھیے نا۔۔‘‘ وہ بولا‘‘ آ بھی جائیے۔۔‘‘وہ پھر مسکرایا۔۔اس کی مسکراہٹ بے حد دلنواز تھی
‘‘اب آ بھی جائیے۔۔‘‘
ایلی اندر داخل ہو گیا۔۔
دیر تک وہ طبلہ بجاتا رہا۔۔ایلی سنتا رہا۔۔
 

سارا

محفلین
پھر اس نے طبلہ ایک طرف رکھ دیا۔۔اور بولا‘‘ لیجئے میں ذرا سستا لوں۔۔اجازت ہے نا؟‘‘
وہ یوں ہنس ہنس کر بات کر رہا تھا جیسے عرصہ دراز سے اسے جانتا ہو۔۔
‘‘آپ کو اس میں دلچسپی ہے کیا ؟‘‘اس نے طبلے کی طرف اشارہ کیا۔۔
‘‘سننے کا شوق ہے۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘یہ تو کان کا رس ہے۔۔‘‘وہ مسکرایا۔۔‘‘جس کے کان میں رس ہے اس کی روح میں مٹھاس ہے۔۔
‘‘جی ہاں۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔‘‘کان میں رس نہیں لیکن روح میں مٹھاس پیدا کرنے کی آرزو ہے‘‘۔۔
‘‘سب رنگ رس کا کھیل ہے۔۔‘‘وہ بولا۔۔
‘‘آپ کی تعریف ؟‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘مجھے رنگی کہتے ہیں۔۔‘‘
‘‘رنگی۔؟‘‘
‘‘ہاں طنزاً کہتے ہیں۔۔‘‘وہ بولا بے رنگ ہوں نا اس لیے۔۔‘‘
‘‘بے رنگ ہیں آپ۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔‘‘ایسا اچھا طبلہ بجاتے ہیں۔۔‘‘
‘‘اونہوں۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘زندگی صرف کر دی لیکن سمجھیے کھو دی۔۔بات پیدا نہیں ہوئی۔۔‘‘
‘‘نہیں ہوئی۔۔‘‘
‘‘بالکل نہیں ہوئی۔۔‘‘وہ بولا‘‘ رس پیدا نہیں ہوا۔۔صرف ڈب ڈب کرنا سیکھ لیا ہے۔۔صرف فارم روح نہیں شور ہے دھڑکنیں نہیں۔۔‘‘
ایلی حیرانی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔اس قدر رنگین شخصیت۔۔اس کی ہر بات میں رنگ تھا رس تھا۔۔انداز بیان میں‘چھوٹی چھوٹی حرکات میں۔۔نگاہ میں‘ تکلم میں‘ گردوپتن کے صحرا میں وہ پہلا نخلستان تھا۔۔
رنگی پھر سے طبلہ بجانے میں مصروف ہو چکا تھا۔۔طبلہ بجاتے ہوئے اس کی بیٹھک بھی عجیب تھی چھاتی نکلی ہوئی۔۔سر اٹھا ہوا۔۔کتنا وقار تھا اس بیٹھک میں ایلی اس کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا۔۔
دفتعاً وہ مسکرایا۔۔‘‘تکلیف نہ ہو تو ذرا آگے سے ہٹ جائیے۔۔ذرا ادھر کو۔۔‘‘انہیں تکلیف ہوتی ہے اس لیے کہتا ہوں۔۔‘‘رنگی پھر مسکرایا۔۔
 

سارا

محفلین
‘‘کسے تکلیف ہوتی ہے ؟‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘شریمتی کو۔۔۔‘‘ وہ مسکرایا۔۔
شریمتی وہ حیران تھا۔۔لیکن مزید بات پوچھنے کی اسے ہمت نہیں ہوئی۔۔
کچھ دیر رنگی اسی طرح بیٹھا رہا۔۔پھر آپ ہی آپ مسکرا کر بولا۔۔‘‘شب بخیر شب بخیر جائیے۔۔
آرام فرمائیے۔۔‘‘ اس کا رؤئے خطاب ایلی کی طرف نہیں تھا۔۔

شریمتی
‘‘ارے۔۔‘‘ایلی حیران تھا کہ وہ کس سے بات کر رہا ہے اس نے دروازے کے باہر دو ایک بار دیکھا تھا۔۔لیکن باہر گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔۔
‘‘معاف کیجئے گا صاحب۔۔‘‘ رنگی ایلی سے مخاطب ہوا۔۔‘‘شریمتی آ جاتی ہیں تو مجھے انہیں اٹنڈ کرنا پڑتا ہے۔۔اکثر آتی ہیں۔۔مطالبہ یہ ہے کہ دروازے کے سامنے بیٹھو۔۔روشنی منہ پر پڑے۔۔دروازے میں کسی کو کھڑا نہ ہونے دو ہم تو احکامات کے پابند ہیں۔۔‘‘
‘‘کون ہے وہ ؟‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘ہے۔۔‘‘وہ مسکرایا۔۔‘‘اپنے مہربانوں میں سے ایک ہے۔۔اپنی زندگی ان مہربانوں کی نگاہ کرم کے سہارے بیت رہی ہے۔۔‘‘
رنگی سے مل کر ایلی ساری رات بیٹھ کر یہ سوچتا رہا۔۔رنگی میں کس قدر جاذبیت تھی۔۔کتنا رنگین کردار تھا۔۔ایلی نے پہلے روز ہی محسوس کیا گویا وہ رنگی کے بے حد قریب ہو بہت قریب۔۔
اس کے بعد اس کا معمول ہو گیا کہ مدرسہ سے آ کر ایک پیالہ چائے پیٹ میں انڈیل کر وہ رنگی کے پاس جا بیٹھتا۔۔رنگی کی شخصیت سے رنگ کے چھینٹے اڑتے اور بھیگ بھیگ جاتا۔۔
‘‘ایلی صاحب۔۔‘‘تیسرے ہی روز رنگی نے مسکرا کر کہا۔۔‘‘آپ شریمتی کے چانسز تباہ کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔۔دروازے سے ہٹ جائیے نا۔۔انہیں دیکھ کر اپنا شوق پورا کرنے دئجیے۔۔‘‘
ایلی نے مڑ کر دروازے سے دیکھا۔۔
دور سے ایک بڑی سی کوٹھی کو چار دیواری پر ایک رنگ دار گٹھا سا رکھا ہوا تھا۔۔‘‘اونہوں
 

سارا

محفلین
یہ فاؤل ہے۔۔‘‘رنگی بولا۔۔‘‘ادھر اعلانیہ دیکھنا فاؤل ہے۔۔ہاں اندر بیٹھ کر چھپ کر شوق سے دیکھئے۔۔میرے سارے دوست دیکھتے ہیں مطلب یہ کہ شریمتی یہ سمجھیں کہ ان کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔۔حالانکہ میرے سبھی دوست جانتے ہیں اور شریمتی جانتی ہے کہ وہ جانتے ہیں۔۔اور چھپ چھپ کر اسے دیکھتے ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو دھوکا دینا چاہتی ہیں کہ اس راز کو صرف ہم دونوں جانتے ہیں وہ خود اور میں۔۔کیا پیار دھوکا ہے۔۔کیا ساری شریمتاں ہی پیارے دھوکے ہیں۔۔جی چاہتا ہے کہ ان پیارے دھوکوں کا ایک جمگھٹا لگا رہے اور میں اس میں ڈوبا رہوں۔۔‘‘ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔۔
‘‘ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔‘‘وہ ایلی کی طرف دیکھے بغیر بولا۔۔‘‘میں انہیں دیکھوں آپ مجھے دیکھیں۔۔‘‘
کچھ دیر تک وہ دیکھتا رہا پھر مسکرا کر بولا۔۔‘‘لیجئے‘‘ شریمتی چلی گئیں غالباً پِتا جی آ گئے۔۔‘‘
‘‘وہ کون ہیں ان کے پِتا جی ؟‘‘
رنگی نے جھرجھری لی۔۔‘‘پِتا جی وہ ہیں جو چاہیں تو مجھے تین سال کے لیے اندر کر دیں۔۔‘‘
‘‘یعنی۔۔‘‘ایلی نے حیرت سے پوچھا۔۔
‘‘مجسٹریٹ ہیں غالباً اور روز دعائیں مانگتے ہیں کہ میں کبھی ان کے پنجے میں پھنس جاؤں۔۔‘‘
‘‘ارے۔۔‘‘وہ چلایا۔۔‘‘ میں آپ سے باتیں کرنے میں وقت گنوا رہا ہوں اور ادھر وہ انتظار کر رہے ہیں۔۔‘‘ وہ دوڑ کر باہر نکلا اور بیٹھک سے باہر کھڑا ہو کر دوسری سمت دیکھنے لگا۔۔
ایلی جوں کا توں بیٹھا رہا۔۔
کچھ دیر کے بعد رنگی داخل ہوا وہ مسکرا رہا تھا۔۔
‘‘یہ کون تھے؟‘‘
‘‘اپنے ایک مہربان دوست ہیں۔۔اپنی زندگی میں اور ہے ہی کیا۔۔انسپکٹری کی بک بک۔۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔۔
‘‘انسپکٹری؟‘‘ایلی نے رنگی کی طرف دیکھا۔۔
‘‘نوکری اور کیا۔۔‘‘وہ بولا۔۔
‘‘تو کیا آپ انسپکٹر ہیں؟‘‘
 

سارا

محفلین
‘‘ہاں۔۔‘‘بڑی ذلیل چیز ہے یہ انسپکٹری۔۔دم گھٹتا ہے۔۔‘‘
تو یہ وہی انسپکٹر تھے جنہیں ایلی ملنے سے ہچکچاتا تھا۔۔
‘‘جی چاہتا ہے۔۔‘‘رنگی بولا ‘‘کہ آج ہی استعفٰی دے دوں‘ پر گزارہ گزر کیسے ہو گا۔۔دال روٹی سے بھی جواب مل جائے گا۔۔مجبور ہوں۔۔‘‘
رنگی کی شخصیت میں رنگ اور رس کے علاوہ عجیب تضاد تھے۔۔طبعاً وہ ایک محبوب تھا۔۔
لیکن اس کے باوجود اس میں عشق کرنے کے لیے بے پناہ تڑپ تھی۔۔عشق میں وہ ایک بھنوار تھا جو پھول پھول بیٹھ کر رس چوستا ہے۔۔اس کے علاوہ اس میں واضح نسائیت کی جھلک تھی۔۔لیکن جسم مردانہ خصوصیات کا حامل تھا۔۔اس کی حرکات و سکنات میں ایک عظیم مرد کی جھلک تھی۔۔کردار میں بھی مردانہ رنگ تھا۔۔تیسری بات یہ تھی کہ وہ پیدائشی ارسٹوکریٹ تھا مگر اس کے خیالات اور جذبات میں عوام سے بے پناہ ہمدردی تھی اور وہ خود کو ہمیشہ عوام میں سمجھتا تھا۔۔اور آخری بات یہ تھی کہ اسے اپنی بیوی سے محبت تھی۔۔بہرحال زندگی کی بے پناہ شخصیت نے ایلی کو جذب کر لیا اور گہرے دوست بن گئے۔۔

رضی

پھر ایک روز رضی آگیا۔۔
رضی رنگی کا دوست تھا لیکن اس میں کوئی خصوصیت نہ تھی۔۔
رضی ادھیڑ عمر کا آدمی تھا۔۔بدن فربہی مائل تھا۔۔چہرے پر اکتاہٹ برس رہی تھی۔۔بال سفید ہو رہے تھے۔۔اس کی طرف دیکھ کر محسوس ہوتا تھا۔۔جیسے وہ اپنی زندگی بیت چکا ہو اور اب کنارے پر بیٹھ کر نظارہ کر رہا ہو۔۔گزشتہ زندگی کی جھلک اس کی آنکھوں سے‌صاف ظاہر تھی۔۔
رضی کی آنکھیں بھری بھری تھیں جیسے نا جانے کیا کیا جذب کر چکی ہوں۔۔ان میں ایک دنیا آباد تھی۔۔ایک شوخ و شنگ دنیا‘جیسے ان آنکھوں سے کبھی رنگ کے پچکاریوں کے فوارے بہے ہوں جیسے وہ کبھی سرخ چیونٹیوں کے مسکن رہی ہوں۔۔وہ بلاٹنگ پیپر اب بھی بھرے ہوئے تھے لیکن اب تو نہ ان میں تلخی تھی نہ شدت۔۔مٹھاس کی پھلجڑی چل رہی تھی۔۔مسکراہٹ اس مٹھاس کو ہوا دیتی تھی۔۔
‘‘ان سے ملیے یہ میرے نئے دوست ایلی ہیں‘نام تو الیاس آصفی ہے۔۔لیکن مجھے ایلی پسند ہے۔۔ایلی‘رضی اور رنگی کیا تگڑی ہے۔۔‘‘
 

سارا

محفلین
‘‘یہ وہ رضی ہیں۔۔‘‘ رنگی ایلی سے کہنے لگا ‘‘جو اس مردے میں جان ڈالتے ہیں۔۔‘‘ اس نے طبلے کی طرف اشارہ کر کے کہا۔۔‘‘ہاں تو رضی‌صاحب آج کچھ ہو جائے۔۔‘‘رنگی نے اپنی ستار رضی کی طرف بڑھا دی ‘‘ آج تو رضی ایمان سے آگ لگا دو۔۔آگ آگ۔۔چاروں طرف شعلے اٹھیں۔۔اپنے مہربان بھی کیا یاد کریں گے۔۔انہیں بھی پتہ چلے کہ تڑپ کسے کہتے ہیں۔۔‘‘
رضی مسکرایا۔۔اور کچھ کہے بغیر اس نے ستار بجانی شروع کر دی۔۔رنگی نے طبلہ اٹھایا۔۔
رضی گانے لگا۔۔اے ری عالی پیابن۔۔‘‘
اس کی آواز بیٹھی ہوئی تھی۔۔اکتاہٹ بھری اداسی پھیل رہی تھی۔۔وسعتیں اور بڑھ رہی تھیں۔۔خلا قریب تر آرہا تھا۔۔خاموش ویران خلا۔۔
‘‘اے ری عالی پیابن۔۔‘‘
ایک روز جب رضی اور ایلی اکیلے تھے تو شریمتی آ گئیں۔۔
‘‘آپ بھی درشن کر لیں۔۔‘‘ایلی نے رضی سے کہا۔۔
رضی مسکرا دیا۔۔اس کی مسکراہٹ میں عجیب سی بے نیازی تھی۔۔
‘‘آپ کو دلچسپی نہیں۔۔‘‘ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘بہت‘ بے حد۔۔‘‘رضی مسکرایا۔۔
‘‘تو پھر ؟‘‘
‘‘تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب نہیں۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘پہلے راہ چلتی سے تھی۔۔چاہے راہ چلتی ہو۔۔یا منڈیر پر کھڑی ہو۔۔کہیں ہو۔۔کیسی ہو۔۔‘‘
‘‘کیسی ہو۔۔‘‘ ایلی نے دہرایا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘رضی نے کہا۔۔‘‘ہر عورت حسین ہوتی ہے۔۔ہر عورت۔۔‘‘
‘‘کیا واقعی۔۔‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘رضی بولا ‘‘لیکن اب تو سب بیٹیاں بن گئیں ہیں۔۔کوئی عورت رہی ہی نہیں۔۔‘‘
‘‘کیوں۔۔‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘بھرا میلا دیکھ لیا۔۔بس ہم بھرا میلا چھوڑنے کے قائل ہیں۔۔‘‘رضی مسکرایا۔۔
‘‘کوئی تلخی رکاوٹ بن گئی کیا ؟‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔
 

سارا

محفلین
‘‘نہیں۔۔‘‘رضی نے جواب دیا۔۔‘‘الٹا اب تو مٹھاس ہی مٹھاس ہے۔۔‘‘اس نے ایک مٹھاس بھری مسکراہٹ چمکائی۔۔
‘‘رنگی تو مصروف کار ہے۔۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘اچھا ہے۔۔‘‘رضی بولا۔۔‘‘جو مصروف ہے‘ وہ مصروف ہے۔۔‘‘
‘‘نصحیت کرنے کو جی نہیں چاہتا کیا؟‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔
رضی پھر ہنسا۔۔‘‘لوگوں نے ہمیں بہت کی تھیں۔۔‘‘
‘‘کیا۔۔‘‘
‘‘پھر۔۔‘‘
‘‘وہ اپنا وقت ضائع کرتے تھے۔۔ہم نہیں کرتے تھے کیوں کریں۔۔یہ سب بھگوان کی لیلا ہے۔۔‘‘
رضی مسکرایا اور پھر چھوٹی آواز میں گانے لگا۔۔
‘‘گردھر کی مرلیا باجے رے۔۔۔۔۔۔۔۔مدھوبن میں رادھکاں ناچے رے۔۔‘‘
‘‘گردھر کی مرلیا باجے رے۔۔‘‘
ایلی کے لیے یہ ایک نیا نظریہ تھا۔۔کتنا رنگین تھا۔۔کتنا پیارا تھا۔۔
ساری رات وہ سوچتا رہا۔۔اور گردھر کی مرلیا۔۔باجتی رہی۔۔مرلیا کے بول فضا میں گونج رہے تھے۔۔اس کی تلخیاں ان سروں میں دھوئی جا رہی تھیں۔۔شہزاد کے ماتھے کی بندیا چمک رہی تھی۔۔وہ اسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ بھی گردھر کی ایک رادھکاں ہو۔۔اس کے دل میں نہ محبت تھی نہ نفرت۔۔

انشاء اللہ

ایک روز جب ایلی چپ چاپ اداس بیٹھا تھا تو ہاجرہ بولی۔۔‘‘ایلی۔۔‘‘
‘‘کیوں اماں !‘‘ اس نے اماں کی طرف دیکھا۔۔
‘‘تجھے چھٹی مل سکتی ہے۔۔کیا؟‘‘
‘‘کیوں نہیں۔۔‘‘
تو چار دن کی چھٹی لے لے۔۔‘‘وہ بولی۔۔
 

سارا

محفلین
‘‘کیوں اماں۔۔‘‘
‘‘سنا ہے دلی سے حاجی صاحب آئے ہوئے ہیں۔۔چل کے انہیں ملیں۔۔‘‘
ایلی علی پور جانے کا خواہشمند نہ تھا کیونکہ جب بھی وہ وہاں جاتا تو محلے والیاں اس پر انگلیاں اٹھاتیں کہتیں اے ایلی دیکھ لیا نا تو نے ان باتوں کا انجام بس آخر دھول ہی اڑاتی ہے۔۔
بوڑھے اسے دیکھ کر تیوری چڑھا لیتے تھے۔۔نوجوان سرگوشیاں کرتے۔۔
لیکن حاجی صاحب کا نام سن کر وہ تیار ہو گیا اور وہ چار روز کے لیے علی پور چلے گئے۔۔حاجی صاحب ایلی کو دیکھ کر مسکرائے۔۔‘‘آئیے الیاس صاحب۔۔‘‘وہ بولے۔۔‘‘بسم اللہ۔۔خیریت تو ہے۔۔ویسے تو اچھے ہیں آپ ؟‘‘
‘‘جی شکریہ ۔۔‘‘ وہ بولا۔۔
‘‘کہیے وہ طوفان گزر گیا نا۔۔‘‘
‘‘جی۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘جب طوفانوں کو چلنا ہوتا ہے چل کر رہتے ہیں۔۔‘‘وہ بولے۔۔
‘‘جی ہاں۔۔‘‘
‘‘اللہ تعالٰی نے آپ پر کرم کیا۔۔‘‘وہ بولے۔۔‘‘آپ بھیگے نہیں۔۔‘‘
ایلی کی سمجھ میں نہ آیا۔۔وہ خاموش رہا۔۔
‘‘ہر چیز کا وقت مقرر ہوتا ہے۔۔‘‘حاجی صاحب مسکرائے۔۔
‘‘کیوں ہمشیرہ صاحبہ۔۔‘‘وہ ہاجرہ سے مخاطب ہوئے۔۔‘‘وقت سے پہلے کچھ نہیں ہو سکتا۔۔‘‘
‘‘جی۔۔‘‘ہاجرہ بولی۔۔‘‘اب تو وقت آ گیا نا۔۔‘‘
انشا اللہ آئے گا۔۔‘‘وہ بولے۔۔
آئے گا ؟‘‘ ہاجرہ نے دہرایا۔۔
‘‘زیادہ دیر نہیں۔۔‘‘وہ بولے۔۔‘‘دھوپ نکلنے سے پہلے بادلوں کو صاف کرنا ہوتا ہے۔۔محفل لگنے سے پہلے صفائی ہوتی ہے۔۔فرش بچھایا جاتا ہے۔۔گھبرائیے نہیں ہمشیرہ صاحبہ اللہ کے فضل سے اچھا ہو گا۔۔‘‘
‘‘ابھی تو وہی حال ہے۔۔‘‘وہ زیر لب بولی۔۔‘‘ ایک قدم نہیں اٹھایا۔۔‘‘
‘‘ہوں۔۔‘‘ وہ مسکرائے۔۔‘‘کوئی چل کر آتے ہیں۔۔کوئی تلاش کرنے کے بعد پہنچتے ہیں۔۔کسی کو اٹھا کر لایا جاتا ہے۔۔
 

سارا

محفلین
‘‘سبحان اللہ۔۔‘‘وہ مسکرائے۔۔
‘‘شادی کا نام نہیں لیتا۔۔‘‘وہ زیر لب بولی۔۔
‘‘وقت کی بات ہے۔۔‘‘
‘‘کوئی لڑکی بھی ملے۔۔‘‘ہاجرہ نے کہا۔۔
‘‘پہلے ہی خیال رکھا ہوتا تو آج بات کی شکل ہی اور ہوتی۔۔‘‘حاجی صاحب مسکرائے۔۔
ایلی ان کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔۔لیکن اسے سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔۔
حاجی صاحب کی باتیں بے حد سادہ تھیں اس کے باوجود وہ انہیں سمجھ نہیں سکتا تھا۔۔ہاجرہ مسکرا رہی تھی ظاہر تھا کہ سمجھ رہی تھی۔۔لیکن عجیب بات تھی کہ ہاجرہ تو سمجھ لے اور وہ نہ سمجھ سکے۔۔
اس روز ایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ ایسی باتیں بھی ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے ذہن کے علاوہ کسی اور قابلیت کی ضرورت ہے۔۔مگر وہ قابلیت کیا تھی اس کے پاس ایسا کوئی جواب نہ تھا۔۔
بہرحال ایک بات تو مسلم تھی کہ حاجی صاحب کی ہر بات میں خلوص تھا۔۔وہ پیر نہیں تھے۔۔صحیح مرشد تھے یا نہیں اس کے بارے میں وہ کچھ نہ کہہ سکتا تھا لیکن ان میں انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔۔
حاجی صاحب دراصل اپنے کسی مرید کی سفارش کے لیے علی پور آئے تھے۔۔وہ مرید خود دلی جا کر انہیں ساتھ لایا تھا۔۔وہ آصفی محلے کا فرد نہ تھا اور حاجی صاحب اس کے گھر ٹھہرے تھے۔۔
دو ایک مرتبہ وہ آصفی محلے میں آئے تھے تا کہ لوگوں سے مل سکیں۔۔آصفیوں کی مسلسل منتوں کے باوجود انہوں نے اس کے پاس ٹھہرنے سے صاف انکار دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اندریں حالات ان کا وہاں رہنا مناسب نہیں۔۔
حاجی صاحب کے اس مرید نے اپنے مکان میں ایک کمرہ ان کے لیے خالی کرا دیا تھا۔۔کہ وہ وہاں اطمینان سے رہ سکیں۔۔
ان دنوں رمضان شریف کے دن تھے حاجی صاحب سے ملنے کے لیے رفیق اور یوسف بھی آئے ہوئے تھے۔۔۔
 
Top