علی پور کا ایلی(جاوید اقبال) 336-365

قیصرانی

لائبریرین
رچانے کے خیال ہی سے گویااس کی جان نکلتی تھی۔
اگر اس مٹیالی چاندنی میں وہ تنہائی میں اس کے قریب نہ بیٹھتی یااس کے ہاتھوں پرحنائی رنگ نہ ہوتایاحنامیں وہ بونہ ہوتی جوایلی کومشتعل کردیاکرتی تھی یاوہ ہاتھ ازراہ اتفاق ناگ کی طرح پھن نہ اٹھاتااورایلی کویہ محسوس نہ ہوتاکہ اسے اپنی حفاظت کرنی ہے تووہ کبھی شہزادکواپنی گرفت میں نہ لیتا۔
اگرشہزادبارباراسے نہ بلاتی تو اس کی گردن جھکی ہی رہتی اورآہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے اپنی حماقت کااحساس ہوجاتایااگرشہزادتنہائی میں اس سے اس کے احمقانہ رویہ کے متعلق استفارکرکے اسے لاجواب نہ کردیتی تووہ اپنی گزشتہ حماقت کااعادہ نہ کرتااوراس کی زندگی میں شہزادکارنگین بھنورپیدانہ ہی ہوتااوراس کی داستان حیات سراسرمختلف ہوتی۔
ان چھوٹی چھوٹی تفصیلات نے مل کرایلی کی زندگی کے دھارے کارخ پھیردیا۔ڈوبتے کی طرح ایلی کے لئے وہ رنگین ہاتھ تنکابن گئے اوروہ ان رنگین ناگوں سے دیوانہ وارچمٹ گیاان ہاتھوں سے چمٹنے کے لئے صرف ایک جوازہوسکتاتھا۔صرف ایک’’مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘مجھے تم سے مجبت ہے۔‘‘اپنی لغزش پرپردہ ڈالنے کے لئے وہ اس جملے کودہراتاگیاحتیٰ کہ وہ کمرہ وہ مکان اس کے جملے سے گونجنے لگا۔’’مجھے تم سے محبت ہے شہزاد۔‘‘نہ جانے ان الفاظ نے یااس بڑھتی ہوئی شدت نے جس سے وہ اداکئے جاتے تھے یاان کی ادائیگی کے تواترنے شہزادکی عقل وخردکومغلوب کردیایاممکن ہے کہ اس میں قوت دماغ باقی نہ رہی ہو۔ممکن ہے شہزادان الفاظ کی بھوکی ہواورشریف نے ہمیشہ اسے اس جملے سے محروم رکھاہو۔اس لئے شہزادنے انجانے میں ایلی کووہ الفاظ کہنے پرمجبورکردیاہو۔شایدشہزاداپنے خاوندکے رویے سے اکتاچکی ہو،جوہروقت ٹکٹکی لگائے چھت کی طرف دیکھتارہتاتھا۔جوکبوترکی سی آنکھیں بناکرلیٹارہتاتھاجوہربات پرآہ بھرتاتھااورانورکی محبت کے خودساختہ فریب میں ڈبکیاں لینے میں لذت محسوس کرتاتھااورشہزاداس کے قریب اس بات کی تمنامیں گھلتی رہتی تھی کہ وہ ایک نظراس کی طرف دیکھے۔ایک بارماضی کے دھندلکے سے نکل کرحال کی طرف متوجہ ہو۔ممکن ہے کہ شہزادشریف کی سچی محبت کے اکتادینے والے تسلسل سے بیزارہوگئی ہواوراس کے دل میں یہ آرزوان جانے میں بیدارہوگئی ہوکہ وہ بھی کسی کی انوربن جائے۔بہرصورت اس کی کوئی بھی وجہ ہونتیجہ یہ ہواکہ شہزادکوفریب دینے کے بعدایلی نے ان جانے میں اپنے آپ کوفریب دیناشروع کردیااس نے حقائق کواپنے خودساختہ جذبات کے ایندھن میں جلاجلاکرسرخ کرلیااوراسے یقین ہوگیاکہ اسے شہزادسے محبت ہے۔
گودی کاگیند
اس روزوہ سارادن شہزادکے قدموں میں بیٹھاروتارہا۔’’مجھے تم سے محبت ہے شہزاد۔مجھے تم سے عشق ہے۔میں نے باربارچاہاکہ اظہارمحبت نہ کروں۔تمہیں ناراض نہ کروں ۔مجھے ڈرتھاکہ تم ناراض ہوجاؤگی اورتم ناراض ہوجاؤ توپھرزندگی میں باقی کیارہ جاتاہے۔شہزادتم ناراض تونہیں۔شہزاد۔بولوتم خاموش کیوں ہو۔میں تمہارے قابل نہیں شہزادمیں تمہارے قریب آجاؤں توتم میلی ہوجاتی ہو۔تم چاندہوشہزاداورمیں بے وقوف بچہ۔میں تمہارے قابل کہاں۔مجھے برداشت کروگی شہزاد۔بولوشہزاد۔‘‘
شہزادحیرانی سے اس کی باتیں سنتی رہی۔ابتدامیں تواس کی حیرانی میں بیگانگی کاعنصرغالب تھا۔مگرآہستہ آہستہ وہ بے تکی باتیں وہ احمقانہ شدت۔وہ بے مصرف پگلاپن جو ایلی کی باتوں اورچہرے سے ہویداتھا۔‘‘اس کے دل پرنہ جانے کیااثرپیداکرگیا۔ایلی کی بے تکی باتیں اس کے کانوں سے داخل ہوکرچہرے پررینگنے لگیں گالوں پرسرخی بن کرجھلکنے لگیں آنکھوں سے پرنم مستی بن کرجھانکنے لگیں۔
’’تم میری حماقت کسی کوبتاؤگی تونہیں شہزاد۔میری دیوانگی اپنے تک محدودرکھوگی نا۔وعدہ کروشہزاد،اگرتم نے کسی سے کہہ دیاتومیراکیاہوگا۔پھرمیں اس گھرمیں کیسے آسکوں گااور۔۔تم سے دوررہ کرزندگی کیسے کٹے گی۔شہزادغصہ نہ کرنا۔میں مجبورہوں شہزاد۔‘‘
شہزادکے چہرے پرحیاکی سرخی جھلکنے لگی۔اس کی آنکھیں جھکنے لگیں۔اس کی ناک پرپسینہ آنے لگااورپھراس کے بازوبے جان ہوکرلٹکنے لگے جیسے سپردگی کے شدیدجذبے سے شل ہوچکے ہوں۔
مگرایلی کویہ احساس نہ تھاکہ اس کے منہ پرحیاکیوں جھلک رہی ہے۔اس کی ناک پرپسینہ کیوں موتیوں کی طرح ابھرتاآرہاہے اوراس کے بازولٹک کیوں رہے ہیں۔وہ ابھی تک زینے کی پہلی سیڑھی پرہی قدم جمانے کی جدوجہدمیں دیوانہ وارمصروف تھا۔
’’تم بتاؤگی تونہیں شہزاد۔۔تم مجھے معاف کرسکوگی۔میں تمہیں دورسے دیکھاکروں گا۔دورسے بس۔اتناتم برداشت کرلوگی۔نا۔‘‘
ایلی عورت سے واقف نہ تھااسے معلوم نہ تھاکہ اس کی بے تکی باتوں نے شہزادکوکھوکھلاکردیاہے۔اسے احساس نہ تھاکہ تمام کاتمام زینہ گرکراس کے قدموں میں ڈھیرہوچکاہے اورپہلی سیڑھی پرقدم جمانے کی کوشش میں کھوئے رہنابیکارہے۔اسے احساس نہ تھاکہ وہ لٹکتے ہوئے رنگین ناگ اس کی الٹرگرفت کے لئے منتظرتھے۔بے تاب تھے اوروہ ڈولتی ہوئی پرنم شربتی آنکھیں اس انتظارمیں کھلی تھیں کہ کوئی لمس انہیں بندکرکے راحت بھراسکون بخش دے اوروہ رنگین گٹھڑی جوہرلمحہ بندہوئی جارہی تھی اس بات کی خواہشمندتھی کہ کوئی اسے اٹھاکرگودی کاگیندبنالے۔
اسے ان باتوں کااحساس بھی کیسے ہوسکتاتھا۔وہ بیچارہ عورت اورمحبت کی دنیاکی دہلیزسے بھی واقف نہ تھا۔اس کامقصدتوصرف اس قدرتھاکہ کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کوبچالے اپنی حماقت کونشرنہ ہونے دے اپنے خودساختہ رازکومحفوظ کرے۔
عین اس وقت اگرہاجرہ نہ آجاتی تونہ جانے وہ دونوں کب تک یونہی ہی بیٹھے رہتے ۔ہاجرہ کے پاؤں کی چاپ سن کراس منتظرمونگیاگٹھڑی کاطلسم ٹوٹ گیا۔وہ اچھل کراٹھ بیٹھی۔
’’اچھاتوچائے ۔بناؤں تیرے لئے ۔‘‘وہ بولی
’’چائے ۔‘‘ وہ گھبراگیا۔چائے کی توبات ہی نہیں ہورہی تھی۔
’’نہیں۔نہیں۔‘‘شہزادبولی۔’’اب توچائے پی کرہی جانا۔‘‘
ہاجرہ کے آنے پرشہزادکااندازہی بدل گیاوہ یوں ہنس ہنس کراس سے باتیں کرنے لگی جیسے کوئی بچی انتہائے معصومیت میں اظہارمسرت کرتی ہے۔ایلی چپکے سے اٹھ بیٹھااوربن بتائے چوری سے باہرنکل گیاتاکہ کوئی اسے روک نہ لے۔جو ں جوں وہ شہزادکے چوبارے سے دورہوتاگیاتوں توں اس کے دل میں ازسرنویہ ڈرپیداہوتاگیاکہ شہزاداماں کووہ بات نہ بتادے شکایت نہ کردے۔اگراس نے شریف سے کہہ دیاتونہ جانے اس نے اس نے اسے معاف بھی کیاہے کہ نہیں۔
فرار
باہرجاکراس نے فیصلہ کرلیاکہ وہ واپس امرتسرچلاجائے گاتاکہ پھرشہزادکے سامنے جانے کاخدشہ نہ رہے۔
گھرپہنچ کراس نے اپنی تمام چیزیں اکٹھی کیں اورپھرسوٹ کیس اٹھاکرباہرنکلا۔صحن میں فرحت ہنڈیاپکارہی تھی۔’’میں جارہاہوں فرحت۔‘‘وہ بولا۔
’’جارہاہے توکیاواقعی جارہا ہے۔‘‘وہ بولی۔’’کہاں جارہاہے تو؟۔۔ہائیں۔اتنی جلدی۔‘‘وہ حیران رہ گئی۔‘‘تمہیں توابھی چاردن اوررہناتھا۔‘‘
’’نہیں ۔میں جارہاہوں۔ابھی ۔‘‘ایلی نے بولا۔
’’آخربات کیاہے؟فرحت نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’کسی بات سے ناراض ہوگیاہے کیا؟‘‘
’’اونہوں۔‘‘
’’نہ جانے توہم سے کیوں ناراض رہتاہے۔ایلی۔ہماراکیاقصورہے؟‘‘
’’نہیں تو۔‘‘وہ گھبراکربولا۔
’’توکیاشہزادنے کہاہے کچھ؟‘‘
’’میں کہتاہوں۔‘‘وہ چڑکربولا۔’’کچھ بھی نہیں۔کسی نے کچھ نہیں کہامجھ سے۔‘‘
’’تومیں شہزادکوبلاؤں۔وہی تمہیں روک سکتی ہے۔‘‘فرحت نے مخلصانہ طورپرکہا۔
’’نہیں۔نہیں۔‘‘شہزادکانام سن کروہ ڈرگیا۔’’مجھے امرتسرسے خط آیاہے۔‘‘
’’خط آیا؟‘‘
’’ہاں میرادوست بیمارہے۔‘‘
’’اوہ ۔‘‘اس نے اطمینان کاسانس لیا۔’’توپہلے کہاہوتامجھ سے ۔‘‘
’’اچھاتومیں چلتاہوں۔‘‘
’’لیکن اماں سے تومل کرجااورتیری دادی اماں۔وہ بھی توبیمارہے اس کی حالت۔‘‘
’’یہ کہہ کروہ چپکے سے سیڑھیاں اترنے لگا۔اسے ڈرتھاکہ راستے میں اس کادوست نہ مل جائے۔اگررضامل گیاتوغضب ہوجائے گا۔وہ اسے تنگ کرے گا۔لیکن خوش قسمتی سے چوگان میں بچوں کے سواکوئی نہ تھااوررضاسے بچنے کے لئے وہ ایک اورراستہ اختیارکرسکتاتھا۔
۔۔ریل میں بیٹھے ہوئے وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے چاروں طرف دیکھ رہاتھا۔اس روزدنیاہی بدلی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔سبزہ گویانئے اندازمیں لہرارہاتھا۔بوٹے عجیب شان سے کھڑے تھے۔پھول بہت شوخ تھے۔جیسے رنگین دیئے ٹمٹارہے ہوں۔کھیتوں میں کام کرتے ہوکسان انوکھی رومان بھری فضامیں ڈوبے ہوئے تھے۔گاڑی یوں چلی جارہی تھی جیسے مورچھاتی پھلاکرپروازکررہاہو۔ایلی کاجی چاہتاتھاکہ مناظرکے حسن پررودے۔
امرتسر پہنچ کراس نے محسوس کیاجیسے وہ کسی نئے شہرمیں آپہنچا،جسے اس نے سپنے میں دیکھاہو۔سٹیشن کے گنبدالف لیلےٰ کے کسی پراسرارمنظرکی یاددلارہے تھے۔سڑکیں خوشی سے ادھراودھردوڑرہی تھیں لوگ آرہے تھے۔جیسے کسی تقریب پراکٹھے ہورہے ہوں۔
لیکن بورڈنگ میں وہی ویرانی چھائی ہوئی تھی۔راموبیٹھابرتن صاف کررہاتھا۔بندوآٹے کی بوریاں میں سردئیے بیٹھاتھا۔ہرنام سنگھ،گورچرن سنگھ اورجیون ایک درخت کے نیچے بیٹھے اپنے کیس سکھارہے تھے۔کمرے میں اللہ دادکرسی پراپنی قمیض پھیلائے خودفرش پربیٹھاسرپرآم کی خشک گٹھلی رگڑرہاتھا۔
’’ارے ۔‘‘اللہ داداسے دیکھ کرچلایا۔’’توآگیا۔بیٹاچارروزپہلے ہی ماں کی گودچھوڑآیاتو۔اونہوں یہاں تیراجی نہیں لگے گا۔‘‘
’’بک نہیں۔‘‘ایلی نے بناوٹی غصے سے کہا۔
’’اچھابھئی۔‘‘اللہ دادچلایا۔’’ایک تم ہوکہ ماں کی گودنہیں چھوڑتے ایک وہ شفیع ہے ۔جوساراسارادن یوں سانپ مارنے میں لگارہتاہے۔جیسے کالج میں سانپ مارناسیکھنے کے لئے داخل ہو۔بس ایک میں رہ گیاہوں۔محنت کرنے کے لئے۔‘‘یہ کہہ کراس نے مظلومانہ اندازسے سرپرآم کی گٹھلی رگڑنی شروع کردی جیسے امتحان پاس کرنے کے لئے سرپرآم کی گٹھلی رگڑنالازم ہو۔
ایلی دھم سے چارپائی پرگرپڑا۔اسے اللہ دادکی باتوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی نہ جانے کیاہواتھااسے،دفعتاًاسے اس بورڈنگ ،کالج اورشہرسے کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔وہ کمرہ بیگانہ محسوس ہورہاتھااوراللہ دادیوں لگ رہاتھاجیسے اجنبی ہو۔
دیرتک کمرے میں خاموشی چھائی رہی ۔گٹھلی رگڑتے رگڑتے اللہ دادنے ایک نظرایلی کی طرڈالی اورپھرچپکے سے بولا۔’’ارے بھائی پہلے توہم سمجھتے تھے کہ ایلی بابوںماں کی گودکے لئے بے تاب رہتاہے۔اس لئے باربارگھرکوبھاگتاہے۔‘‘یہ کہہ کروہ خاموش بیٹھارہاپھرآپ ہی آپ بولا’’لیکن آخروہ بھی توگودہے۔دونوںمیں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا۔‘‘اللہ دادنے ایک لمبی آہ بھری۔’’وہ بھاگاں بھری تھی اپنی۔اللہ جانتاہے اس کی گودمیں پڑکرمجھے بے بے بھول جاتی تھی۔‘‘ایلی یہ سن کربھونچکارہ گیااس کم بخت کوکیسے معلوم ہوگیا۔کسے غصہ آنے لگا۔لیکن وہ کرہی کیاسکتاتھااوراللہ دادکی معصوم مسکراہٹ کے جواب میں غصہ کرنابالکل ہی بے معنی معلوم ہوتاتھا۔چپ چاپ اٹھ بیٹھااورٹہلتاٹہلتانہرکے کنارے پرجاپہنچادراصل اس کاجی چاہتاتھاکہ اچانک نورسے ملاقات ہوجائے اورشبھ لگن آجائے۔اس کے دل کے نچلے پردوں میں ایک شبھ لگن جھلک رہی تھی اوروہ چاہتاتھاکہ دل کی گہرائیوں سے نکل کر وہ اس پرمسلط ومحیط ہوجائے اورپھروہ پودوں کی اوٹ میں بیٹھ کرچپکے چپکے رو دے۔آنسو اس کے گالوں پرڈھلکیں اورنورپوچھے۔’’کیاہے جی۔‘‘جیسے اس کی عادت تھی اوروہ جواب دے۔‘‘کچھ بھی نہیں کچھ بھی تونہیں۔‘‘
’’ہائیں۔‘‘نہرکے کنارے آصف کوبیٹھے دیکھ کروہ حیران رہ گیااس کی آنکھوں میں وہی پھوارپڑرہی تھی لیکن یہ ظاہرنہ ہوتاتھاکہ وہ آیاوہ خوشی سے سرخ ہورہی ہیں یاغم کی وجہ سے۔
’’آگئے تم۔۔‘‘اس نے دبی دبی اداس مسکراہٹ سے کہا۔
’’ہاں۔‘‘ایلی نے آہ بھری۔’’تم یہاں کیاکررہے ہو۔نورکاانتظارکررہے ہوکیا؟‘‘
’’اونہوں۔‘‘آصف نے نفی میں سرہلایا۔
’’توپھر‘‘ایلی نے پوچھا۔’’سیرکرنے آئے تھے۔‘‘
’’سیر۔۔‘‘آصف نے زہرخندسے کہا۔’’میں کہاں جاؤں ایلی۔‘‘
’’کیوں۔‘‘ایلی نے گھبراکرپوچھا۔
کوئی جگہ بھی تونہیںرہی۔‘‘
’’کیوں ۔‘‘ایلی چلایا۔
دیس نکالا
’’وہ۔۔وہ واپس آگئی ہے۔‘‘آصف نے آہ بھرکرکہا۔
’’واپس آگئی ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘۔۔وہ بولا۔‘‘’’جیسے انتقام لینے آئی ہو۔‘‘
’’انتقام ۔‘‘ایلی نے دہرایا۔
’’اب وہ کسی کالحاظ نہیں کرتی اورایلی اب تووہ اعلانیہ کھڑکی میں کھڑی رہتی ہے گھروالے بیچارے ہارگئے ہیں۔محلے میں کہرام مچاہواہے اورمیں گھرسے بھاگاپھرتاہوں۔اب ہوگاکیاایلی۔کیاکروںمیں۔‘‘
۔۔ایلی کی سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ اس میں مشکل کونسی تھی۔یہ توبلکہ اس کی خوشی نصیبی تھی۔عجیب آدمی تھاآصف بھی۔
’’دیوانوں کی طرح آنکھیں پھاڑپھاڑکردیکھتی رہتی ہے۔‘‘
’’دیکھتی ہے تودیکھنے دو۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’اتنی رسوائی اتنی بدنامی ہورہی ہے کہ۔‘‘آصف سے جھرجھری لی۔’’میراتماشابنارکھاہے اس کے گھروالے کہتے ہیں ہم کیاکریں۔لڑکی ہوش وحواس کھوچکی ہے اوراگراس پر۔۔‘‘وہ خاموش ہوگیااورپھرحسرت ویاس بھری نگاہ سے اس نے ایلی کی طرف دیکھا۔
’’میری طرف محلے والے یوں دیکھتے ہیں جیسے کوئی مجرم ہوں۔جیسے اس کی دیوانگی میری وجہ سے ہو۔وہ توپاگل ہوکرآزادہوگئی ایلی مجھ سے تووہی اچھی ہے۔لیکن میں کیاکروں میرااپنے گھرمیں آناجانابندہوچکاہے۔مجھے تودیس نکالامل گیاہے۔‘‘
’’اچھا۔‘ایلی سوچ میں پڑگیا۔
’’اگرتم کہوتومیں تمہارے بورڈنگ میں آرہوں۔‘‘آصف سے پوچھا۔
’’ہاں۔ہاں۔‘‘ایلی نے کہا۔’’یہ تواوربھی اچھاہے۔‘‘
’’تومیں کل آجاؤں۔‘‘آصف کے منہ پرمسکراہٹ پھیل گئی جیسے وہ ایلی کاسہاراپاکرخوش ہوگیاہو۔
’’آجاؤ۔‘‘ایلی خوشی سے چلایا۔’’کتنااچھارہے گا۔ہم صبح وشام اکٹھے رہیں گے۔‘‘’’سچ‘‘آصف نے اس کاہاتھ دبایااورنہ جانے کب تک وہ اسی طرح ہاتھ میں ہاتھ پکڑے نہرکے کنارے بیٹھے رہے۔آصف اپنے خیالات میں مگن تھامگرایلی کے روبروکچھ اورہی تھاایک گوراگورابازواس کی طرف بڑھتااورحنامالیدہ ہاتھ اسے اپنی گرفت میں لے لیتا۔’’ایلی تم لوگوں کی پرواکرتے ہو؟‘‘۔۔دو گلابی آنکھیں اس کی طرف دیکھتیں ،گلال بھری پچکاری چلتی اوراسے شرابورکرجاتی۔وہ ایک نگاہ کس قدرمدہوش کن تھی۔ایک نگاہ۔۔اس نگاہ کوحاصل کرنے کے لئے ایلی دنیاکی بڑی سے بڑی مشکل کامقابلہ کرنے کوتیارتھا۔ساری دنیاکے خلاف جہادکرنے پرآمادہ تھا۔ایلی کاجی چاہتاتھاکہ آصف سے وہ رازکہدے کسی سے کہدے اوراپنے آپ کومحفوظ کرلے مگروہ شہزادکارازتھاوہ اسے کس طرح افشاکرسکتاتھااورپھرآصف سے وہ رازکہتاجواس غم میں گھل رہاتھاکہ ایک حسینہ اس کے لئے پاگل ہورہی ہے۔بھلاشہزادکی مست کن نگاہ آصف کیسے سمجھ سکے گا۔ایلی بات کہتے کہتے رک جاتااورپھرآسمان پرپھیلی ہوئی سرخی کودیکھنے میں کھوجاتااسے ایسامحسوس ہوتاجیسے شہزادکے گالوں سے اترکروہ سرخی آسمان پرپھیل گئی ہواوراس کاہرچھوٹے سے چھوٹادھبہ کہہ رہاہو۔’’تم لوگوں کی پرواکرتے ہو۔تم ایلی۔‘‘اگلے روزصبح سویرے وہ دونوں پرنسپل کے گھرچلے گئے اوراس سے درخواست کی کہ وہ آصف کوایک ماہ کے لئے بورڈنگ میں رہنے کی اجازت دے دے۔
پرنسپل نے ان کی بات سن کرحیرت سے ایلی طرف دیکھا۔
’’آصف کیابات ہے۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’بات توکوئی نہیںپرنسپل صاحب۔۔‘‘آصف کے چہر ے پرگھبراہٹ کاطوفان آگیاجواس کی بات کواعلانیہ جھٹلارہاتھا۔پرنسپل مسکرانے لگا۔’’بھئی ایک بات کرو۔زبان سے کہہ رہے ہوکہ کچھ نہیں اورنگاہیں کہہ رہی ہیں بہت کچھ ہے۔‘‘ایلی نے گھبراکرسچی بات کہہ دینے کی غرض سے منہ کھولا’’جی بات یہ ہے ۔‘‘آصف نے بھرپورنگاہ ایلی پرڈالی اس نگاہ میں ایک طوفان تھا۔غصہ تھا۔بے بسی تھی۔منت تھی۔دھمکی تھی۔ایلی سہم کرخاموش ہوگیا۔
پرنسپل نے ان دونوں کی طرف تعجب سے دیکھااس کے چہرے پرمسکراہٹ پھیل گئی ’’نہیں۔نہیں۔‘‘وہ ہنس کربولا’’پڑھائی کابہانہ نہ کرنا۔ادھرادھرکی باتیں کرنے کاکیافائدہ ہے توبہتر ہے کہ صاف کہہ دیاجاتاکہ اس کی وجہ بتانے سے ہم قاصر ہیں۔بہرصورت مجھے یقین ہے کہ تم شرارت کے درپے نہیں ہواورکوئی ایسی بات سرزدنہ ہوگی جوکالج کے لئے باعث بدنامی ہو۔‘‘
’’جی نہیںایسی کوئی بات نہ ہوگی۔‘‘آصف بولا
’’اچھاتواجازت ہے۔‘‘پرنسپل نے کہا۔’’اب تم جاؤاورآرام کرومجھے صورت حال اچھی نہیں دکھتی اگرمجھے دوست سمجھ کربتادیتے توشایدمیں کچھ مددکرسکتا۔لیکن خیر۔۔‘‘
جب وہ بورڈنگ میں پہنچاتولڑکوں نے اسے دیکھ کرشورمچادیا۔’’ایلی،ایلی۔ارے تیراتارآیاہے۔‘‘
دادی اماں
تار۔۔ایلی کادل ڈوب گیا۔تارآیاہے ۔اسے زندگی بھرکبھی تارنہ آیاتھا۔بس شہزادکارازکھل گیا۔نہ جانے اب کیاہوگا۔شہزادنے وہ بات بتادی۔اس روزکہتی جوتھی۔ایلی مجھے تم سے ایسی توقع نہ تھی۔تم نے یہ کیاکیاایلی ۔ہائے تم نے یہ کیاکیا۔۔ایلی کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔اب کیاہوگااوربرآمدے میں کھڑاہوکرسوچنے لگا۔
’’ارے جاکرپتہ بھی لگائے گاکہ نہیں۔‘‘شفیع چلانے لگا۔
اللہ دادبولا’’بھئی تاروالاادھرہی توگیاہے تمہیں دیکھنے کے لئے۔‘‘
ایلی کاجی چاہتاتھاکہ چپکے سے بھاگ جائے ۔جہاں تاروالااسے تلاش نہ کرسکے تاکہ وہ اس خفت سے بچ جائے مگراسے تاروالے کی تلاش کرناہی پڑی۔اللہ دادکیاکہے گا۔لڑکے کیاسمجھیں گے اس کے باوجودوہ دعائیں مانگ رہاتھاکہ تاروالاجاچکاہو۔
تاروالے کودیکھ کراس کادل ڈوب گیا۔پیشانی پرپسینے کے قطرے ابھرآئے۔اسے یوں بت بنے دیکھ کراللہ دادنے تاراس کے ہاتھ سے چھین لیااورتارکھولتے ہوئے بولا۔‘‘ماں اپنے لاڈلے کی فرقت میں اداس ہوگئی ہوگی۔‘‘دفعتاًاللہ دادخاموش ہوگیا۔اس کی انگلیاں اضطراب سے تارکوپھرتہہ کرنے میں مصروف ہوگئیں۔’’ابے‘‘شفیع نے اس سے پوچھنے کے لئے کچھ کہناچاہامگراللہ دادکاچہرہ دیکھ کراس میں ہمت نہ پڑی دیرتک برآمدے میں خاموشی چھائی رہی ۔پھرآصف آہستہ سے بولا۔’’ایلی تمہاری دادی۔۔‘‘
’’دادی اماں۔‘‘ایلی نے حیرانی سے دہرایا۔
’’ہاں۔تمہاری دادی اماں چلی گئیں۔‘‘آصف نے کہا۔
’’چلی گئیں؟۔۔‘‘ایلی نے گھبراکرتارکی طرف دیکھااس کے منہ سے ایک ہچکی سی نکلی اورپھردورسے آوازآئی۔‘‘نہیں ایلی۔کچھ بھی نہیں کچھ بھی تونہیں۔‘‘
جب وہ محلے کے چوگان میں پہنچاتواس کادل ڈوب گیا۔چوگان کے عین درمیان میں جنازہ پڑاتھا۔چاروں طرف محلے والے کھڑے تھے۔محلے والیاں پنکھے چلاتے ہوئے کچرکچرباتیں کررہے تھے۔محلے والے جنازے کے متعلق یون تفصیلات طے کررہے تھے۔جیسے کوئی عام سی تقریب ہو۔جس میں غم یادکھ کاکوئی عنصرنہ ہو۔
ایلی کودیکھ کرکوئی چلائی ’’اے ہے لڑکے کوتوآلینے دواپنی دادی کے قریب۔‘‘
’’ہائیں آگیاتوایلی۔شکرہے آگیاتو۔‘‘
’’ہائے بہن اس کے بغیرتودم نکلتاتھااس کی دادی اماں کا‘‘۔۔۔‘‘
’’اس کے سوااورتھاہی کون اس کا۔علی احمدنے توکبھی پوچھاہی نہیں۔‘‘
’’آخری دم تک یادکرتی رہی تجھے۔لے دیکھ لے اس کامنہ۔‘‘
ایلی دادی اماں کی طرف دیکھنے سے ڈررہاتھاوہ نہیں چاہتاتھاکہ مری ہوئی دادی کی طرف دیکھے ۔نہیں نہیں وہ جیتی ہے مری نہیں۔اس کے تخیل میں وہ ابھی تک جیتی تھی۔وہ نہیں مرسکتی۔وہ کبھی نہیں مرسکتی ایلی نے نگاہ پھیرلی اوردادی اماں کی طرف دیکھے بغیرہی وہاں کھڑارہا۔
جنازہ
چاروں طرف لوگوں کاجھمگٹالگاہواتھاہرکوئی دوسرے سے بات کررہاتھا۔۔ان کی باتوں پرایلی کوغصہ آرہاتھا۔کیاانہیں دادی اماں کی موت کاغم نہیں۔کیاانہیں اس کی موت پردکھ نہیں ہوایوں شوخی سے ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے۔ناگاہ ایلی کی نگاہ علی احمدپرپڑی۔وہ چپ چاپ بت بنے کھڑے تھے۔
ایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیاجیسے وہ دکھ محسوس کررہے ہوں۔پہلی مرتبہ ایلی کوخیال آیا۔کہ ان کے دل میں بھی جذبات ہیں۔انہیں بھی کسی کے مرنے پردکھ ہوتاہے۔انہیں بھی عزیزوں کے دکھ سکھ کااحساس ہے۔یہ احساس ایلی کے لئے بالکل نیاتھااوراتناعجیب تھاکہ اس نے جلدہی اس سے مخلصی پانے کی کوشش کی۔پھرچاربزرگوں نے بڑھ کرجنازے کواٹھالیااوروہ سب ان کے پیچھے قبرستان کی طرف چل پڑے۔
علی پورکے بازارمیں جنازے کودیکھ کرراہ چلتے چلتے لوگ رک جاتے تھے۔دوکاندارسوداسلف تولناچھوڑکرایک طرف ادب سے کھڑے ہوجاتے گاہک بازارسے ہٹ کرکسی بنددوکان کے تختے پرچڑھ جاتے۔کھیلتے ہوئے بچے سہم کررک جاتے اورمنہ میں انگلیاں ڈال کرحیرانی سے اس جلوس کی طرف دیکھتے۔
بازارسے نکل کروہ کھیتوں میں جاپہنچے ۔کھیتوں پرکام کرنے والے کسان انہیں دیکھ کرکام چھوڑکران کے ساتھ چل پڑے۔
’’کیوں بھائی کس کاجنازہ ہے۔‘‘
’’مائی کس کی والدہ تھی۔‘‘
’’اچھاوہ جودفترکے بابوہیں۔‘‘
’’آیاکرتے ہیں کبھی اس طرف۔‘‘
’’کیاتکلیف تھی۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘وہ توبہانے ہوتے ہیں۔اصل میں توتقدیرکالکھاہوتاہے جوہوکررہتاہے۔‘‘
جنازے کے آگے محلے کے بوڑھے آخ تھوآخ تھوکرتے کھانستے چلے رہے تھے۔کبھی کبھارکوئی کھانستے کے علاوہ مدھم آوازمیں چلاتے ’’یارب العزت یااللہ‘‘۔۔’’قادرمطلق ۔۔‘‘ان کے پیچھے پیچھے محلے کے جوان تھے اورسب سے آخرمیں محلے کے نوجوان جوچلتے ہوئے ایک دوسرے کوکہنیاں مارتے تھے،چٹکیاں بھرتے تھے،پھریوں سنجیدگی اختیارکرلیتے تھے۔جیسے وہ ایسی حرکت کے اہل ہی نہ ہوں۔کبھی کبھی نوجوانوں کی قطاروں سے دبے دبے قہقہے بلندہوتے جس پرمحلے کے بوڑھے آخ کہہ کررک جاتے اورتھوکرنے کی بجائے غضب آلودنگاہوں سے پیچھے کی طرف دیکھتے۔
لیکن اس روزایلی سب سے پہلی قطارمیں چل رہاتھااسے احساس نہ تھاکہ بوڑھے مضحکہ خیزاندازمیں تھوآخ تھوکررہے ہیں یاجوان وزدیدہ نظروں سے کھیتوں میںبنے ہوئے گھروندوں سے جھانکتی ہوئی سیاہ فام مگرنوجوان لڑکیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں یانوجوان کہنیاں مارمارکرایک دوسرے کوکسی قابل توجہ منظرکی طرف دیکھنے کااشارہ کررہے ہیں۔اس روزایلی کاذہن ایک وسیع خلامیں تبدیل ہوچکاتھا۔اس پرایک پریشان کن تعطل مسلط اورمحیط تھا۔نہ گھبراہٹ تھی نہ پریشانی نہ خوشی تھی نہ غم۔اس کی سمجھ میں نہ آرہاتھاکہ کیاہوگیاہے۔۔دادی اماں کی موت کامفہوم کیاہے۔اس کے نتائج کیاہوں گے۔اس کی سمجھ میں نہ آرہاتھا۔وہ چلے جارہاتھاخاموش بے حس!
وہ مرگئی
جنازے کی نمازکے بعدقبرستان میں دیرتک وہ اس جگہ بیٹھارہاجہاں کھڑے ہوکراس نے نمازپڑھی تھی اورجہاں پاس ہی چادرسے ڈھکی ہوئی چارپائی پردادی اماں پڑی تھیں۔وہاں بیٹھے ہوئے اس نے اللہ سے بڑی عجزبھری دعائیں مانگی تھیں۔’’یااللہ یہ کیاہوگیایااللہ دادی اماں اب مجھ سے کبھی نہ ملیں گی۔یااللہ‘‘اس نے بن سوچے سمجھے یہ سب دعائیں مانگی تھیں۔اسے یہ خیال بھی نہ آیاتھاکہ دعائیں مانگ رہاہے یاوہ دعائیں نہ تھیں بلکہ سوالات تھے۔عجیب سوالات تھے۔ایسے سوالات جن کاکوئی جواب نہ تھا۔دعائیں مانگ کروہ وہیں بیٹھ کرزمین کریدتارہاتھا۔حتیٰ کہ اسے اس مقام سے وحشت ہونے لگی۔دورلوگ قبرکھودنے میں مصروف تھے۔قبرستان میں یہاں وہاں محلے والے ٹولیوں میں بیٹھے ہوئے دبی دبی آوازوں میں باتیں کررہے تھے۔جوان دورپختہ تالاک کی طرف نکل گئے تھے اورنوجوان نہ جانے کہاں تھے۔
وہ اٹھ کربیٹھااورپھرتاپھراتاان کچی قبروں میں جاپہنچاجہاں محلے کے عام آدمی دفنائے جاتے ہے۔وہ گھبراکررک گیا۔سامنے صفدرایک پیڑکے نیچے چپ چاپ بیٹھاتھا۔نہ جانے وہ اپنی ہی دھن میں بیٹھاکیاسوچ رہاتھا۔اس وقت اس کی آنکھوں میں چمک نہ تھی۔بازولٹک رہے تھے اورہونٹوں پرکوئی بول نہ تھا۔۔
’’تم ایلی۔۔وہ اسے دیکھ کرگھبراکراٹھ بیٹھا۔’’آؤآؤ۔تالاب کی طرف چلیں۔آؤ۔ابھی قبرمیں اتارنے میں دیرہے ۔آؤ۔‘‘اس کی آوازروئی تھی۔
وہ دونوں چپ چاپ تالاب کی طرف چل پڑے ۔‘‘تم آگئے۔۔‘‘وہ بولاتم توچلے گئے تھے نااچھاکیاآگئے۔‘‘وہ بولا۔’’بہت اچھاکیا۔میں بھی جارہاتھامگرنہ گیا۔محض اتفاق ہے ورنہ چلاجاتا۔‘‘اس کاگلاخشک ہوگیا۔
دیرتک صفدرخاموش رہا۔پھرزیرلب بولا۔’’مرگئی۔۔‘‘اورچپ ہوگیاجیسے گلاآوازسے خالی ہو۔پھردفعتاًاس کے ہونٹ ہلے اوراس نے مٹی کاایک ڈھیلااٹھاکردورپھینک دیا۔ایلی نے محسوس کیاجیسے وہ کہہ رہاہوحافظ خداتمہاراجیسے دادی اماں پارسی لڑکی ہواوراس کے چلے جانے پرصفدرکاگلاآوازسے خالی رہ گیاہو۔
’’تم کہتے تھے وہ مرتی بھی نہیں ۔‘‘ایلی نے گلوگیرآوازمیں کہا۔
’’ہاں۔‘‘صفدربولا۔’’کہتاتھا۔مگروہ مرگئی۔مرگئی۔‘‘
ایسامعلوم ہوتاتھا۔جیسے صفدرکاوہ لفظ داستان کوچھپائے ہوئے ہو۔
’’ہاں مرگئی۔‘‘
صفدرکے کہنے کااندازایساتھاکہ ایلی کی آنکھوں میں پھرآنسوآگئے مگرصفدراپنی ہی دھن میں گنگنائے چلاجارہاتھااورہردس قدم کے بعدچپکے سے کہتا’’مرگئی۔‘‘
بھیانک اداسی
دادی اماں کودفنانے سے فارغ ہوکروہ محلے میں واپس پہنچے چوگان میں چاروں طرف کھڑکیوں اورمنڈیروں پرعورتیں کھڑی تھیں اسے علم نہ تھاکہ شہزادبھی وہیں کھڑی ہے۔اس کے سیاہ ڈوپٹے میں ستارے چمک رہے تھے بازوڈوپٹے سے الجھے ہوئے ہیں۔لمبی ترچھی آنکھوں پرمثرگاں ڈھلکی ہوئی ہیں۔اسے شہزادکے وجودکااحساس نہ تھا۔وہ اسے بھول چکاتھا۔اسے یادہی نہ تھاکہ شہزادنے اس کے ہاتھ تھام کراس سے کہاتھا:۔
’’ایلی تم لوگوں کی پرواکرتے ہو!۔۔تم ایلی ؟‘‘
چوگان سے وہ ان جانے میں گھرکی طرف چل پڑا۔لیکن سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دفعتاًاس نے محسوس کیاکہ وہ کہاں جارہاہے۔کیوں جارہاہے۔گھرمیں اب کیادھراتھا۔کچھ بھی نہیں۔تخت ویران پڑاہوگا۔چولہے کے پاس گھٹنوں میں سردیئے کوئی بیٹھانہ ہوگا۔کوئی اس سے نہیں کہے گا۔
’’توآگیا۔میں نے تیرے لئے کچھ رکھاہواہے۔ہنڈیامیں۔‘‘
کوئی نہیں چیخے گا’’ہے تونے میری ہڈیاں توڑدیں۔‘‘
کسی کاجھریوں بھراہاتھ اسے تھپکے کانہیں۔’’کچھ بھی توانہیں ایلی۔‘‘وہ رک گیااورسیڑھیاں اترنے لگا۔
’’دادی اماں۔دادی اماں۔‘‘وہ قبرپربیٹھارہو رہاتھا۔’’دادی اماں یہ کیاہوگیا۔کیاہوگیاہے یہ۔‘‘ایک بوڑھاچہرہ اس کی طرف دیکھ کرمسکرایادوجھلی داربازواس کی طرف بڑھے۔’’کچھ نہیں ایلی۔کچھ بھی تونہیں۔‘‘چاروں طرف سے بھیانک اداسی چھائی تھی۔قریب ہی کوئی کنواں کراہ رہاتھا۔دورچکی ہونک رہی تھی۔مغرب میں سورج غروب ہورہاتھا۔
قبرستان سے اٹھ کرابھی اس نے چندایک قدم اٹھائے تھے کہ رضاآگیا۔’’تم‘‘ایلی نے رضاکی طرف تعجب سے دیکھا۔
’’چل۔‘‘رضا’’تیرے ابابلارہے ہیں۔‘‘وہ خاموشی سے ایلی کے ساتھ چلنے لگا۔ایلی کاجی نہیں چاہتاکہ گھرجائے لیکن وہ چپ چاپ رضاکے ساتھ چل پڑا۔
جب وہ گھرپہنچاتوعلی احمدنے اسے اپنے پاس بٹھالیا۔’’بیٹھ جاؤایلی۔تم کہاں آوارہ گھوم رہے ہو۔فضول۔۔ایلی کی ماں۔‘‘انہوں نے ہاجرہ کوبلایا’’اس کابستربچھادویہاں۔آج یہ یہیں رہے گا۔ہمارے پاس۔۔‘‘
ایلی تم ۔تم ایلی
اگلے روزصبح سویرے ایلی چپکے سے علی پورسے امرتسرچلاآیا۔نہ جانے اس کے لئے علی پورمیں رہناکیوں ناممکن ہوچکاتھا۔اس کاجی چاہتاتھاکہ علی پورسے چلاجائے اس مکان سے دوربھاگ جائے اس کے لئے تخت کی طرف دیکھناناممکن ہوچکاتھاجہاں دادی اماں بیٹھ کرنمازپڑھاکرتی تھی۔
وہ رات علی پورمیں اس نے یوں کاٹی جیسی کانٹوں پرپڑاہو۔اسے یقین نہیں پڑتاتھاکہ دادی فوت ہوچکی ہے۔ایسے محسوس ہوتاتھاجیسے کانٹوں پرپڑاہو۔اسے یقین نہ پڑتاتھاکہ دادی اماں فوت ہوچکی ہے۔ایسے محسوس ہوتاتھاجیسے وہ اپنے تخت پربیٹھی نمازپڑھ رہی ہواورابھی وہ نمازسے فارغ ہوکرچارپائی پراس کے سرہانے آبیٹھے گی اوراپنے جھلی دارہاتھوں سے اسے تھپکنے لگے گی۔‘‘سوجاایلی سوجا۔کچھ بھی تونہیں۔‘‘
اس خیال پرایلی کوخوف سامحسوس ہوتاکہ دادی مرچکی ہے اوراب وہ کبھی آکراس تخت پرنمازنہیں پڑھے گی ۔اسی بے نام ڈرکی وجہ سے اب کی بارعلی پورمیں رہنااس کے لئے ناممکن ہوگیاتھا۔علی الصبح وہ اٹھ بیٹھا۔سیدہ کھڑی کے پاس بیٹھی قرآن کریم پڑھی رہی تھی۔
’’خالہ۔‘‘اس نے سیدہ کی طرف دیکھے بغیرکہا۔’’میں جارہاہوں۔‘‘
’’کہاں جارہاہے تو۔‘‘سیدہ نے سرسری طورپرپوچھا’’جارہاہوں۔‘‘اس نے سرکی جنبش سے ظاہرکرنے کی کوشش کی ۔’’میں پوچھ رہی ہوں کہاں جائے گاتواس وقت ‘‘سیدہ چڑگئی۔
’’امرتسر‘‘وہ یوں بولاجیسے امرتسراس مکان کے کسی کمرے کانام ہو۔
’’امرتسر؟‘‘وہ حیرانی سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔
’’ہاں۔‘‘ایلی نے کہا’’مجھے جاناہی چاہیۓ۔‘‘
’’اباسے توپوچھ لے۔‘‘وہ جھنجھلاکربولی۔
’’نہیں۔‘‘وہ بولا’’پوچھنے کی کیابات ہے اس میں۔‘‘
’’نہیںنہیں یہ مناسب نہیں۔‘‘وہ بولی۔’’بڑوں سے بات کرنااچھاہوتاہے۔‘‘
ایلی نے گویاسیدہ کی بات سنی ہی نہیں۔وہ سیڑھیوں کی طرف چل پڑا۔
سیدہ نے شورمچایا۔’’ایلی امرتسرجارہاہے میںکہتی ہوں سناآپ نے ایلی جارہاہے۔‘‘اورسیدہ اسے آوازدیتی رہ گئی۔
علی احمدکی آوازسن کروہ رک گیااوراسے ان کے روبروحاضرہوناپڑا۔
’’مجھے امتحان کے لئے تیاری کرنی ہے۔‘‘اس نے کہا’’مجھے جاناہی چاہیئے۔‘‘
یہ بات سن کرعلی احمدخاموش ہوگئے۔
’’یہ توبلکہ اچھاہی ہے۔‘‘سیدہ بولی:’’پڑھائی میں لگ جائے گا۔‘‘
گاڑی میں بیٹھتے ہی ایلی نے محسوس کیاجیسے اس کے دل کابوجھ اترگیاہو۔وہ خلاجواس پرمسلط اورمحیط تھااب ختم ہواجارہاتھا۔لیکن اب غم بوندبونداس کے بندبندمیں سرائت کررہاتھا۔
ایلی کی نفسیات کی یہ عجیب خصوصیت تھی کہ کسی تکلیف دہ واقعہ پراس کے دل کوغم کادھچکانہیں لگتاتھابلکہ ایسے واقعہ کی خبرسن کراس کے ذہن میں ایک خلاپیداہوجاتاجواس کے تخیل اوراحساسیات کوشل کردیتا۔دیرتک اس پریہ کیفیت طاری رہتی۔جیسے وہ عالم خواب میں گھوم پھررہاہو۔پھربوندبوندغم اس کے دل میں سرائت کرتااداسی چاروں طرف سے یورش کرتی۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی ایلی نے محسوس کیا۔جیسے ساری دنیاایک بے معنی پھیلاؤہوچاروں طرف سے اداسی امڈی آرہی تھی۔دوردرختوں کے جھنڈمیں دادی اماں اس کی طرف دیکھ کرمسکررہی تھی۔اس کاہاتھ ایلی کی طرف بڑھ رہاتھا۔’’اے ہے کیاہے تمہیں۔کچھ بھی تونہیںہوا۔کچھ بھی تونہیں۔‘‘لیکن اس کے باوجودایلی محسوس کررہاتھاجیسے کچھ ہوگیاہو۔کچھ کھوگیاہو۔ایلی نے آہ بھری۔’’اب مجھے کون تھپک کرسلائے گا۔‘‘
دفعتاًاس کی نگاہ گھاس کی سبزگٹھڑی میں حرکت ہوئی۔شہزادکامتبسم چہرہ نمودارہوا۔پھولداردوپٹے سے گوراچٹابازوبرآمدہوا۔’’میں جوہوں۔‘‘وہ مسکرائی۔‘‘میں جوہوں۔‘‘تم مجھے بھول گئے کیا۔‘‘
شہزادکودیکھ کروہ ششددرہ گیا۔’’ہائیں‘‘گھبراکراس نے شہزادکی طرف دیکھاشہزادتوبالکل اس کے ذہن سے مفقودہوچکی تھی۔اسے اس کے وجودکااحساس ہی نہ تھا۔پورے چوبیس گھنٹے علی پورمیں رہنے کے باوجوداس کے ذہن میں شہزادکاخیال نہ آیاتھااس نے محسوس کیاگویاوہ بہت بڑے گناہ کامرتکب ہواہو۔علی پورایک دن رہنے کے باوجوداسے شہزادکاخیال بھی نہ آیاتھا۔جیسے شہزاداس کے لئے ایک دم معدوم ہوگئی ہو۔شہزادکے گھرکی دیواروں کی طرف دیکھنے کے باوجوداس کی کھڑی کے سامنے کھڑے ہونے کے باوجوداس کااحساس ہی نہ ہواتھا۔اپنی اس دیوانگی پروہ بوکھلاگیا۔نہ جانے وہ دل میں کیاکہتی ہوگی ہوسمجھتی ہوگی کہ اس روزاس کے بازوپکڑکرجوکچھ ایلی نے کہاتھاوہ سب جھوٹ تھا۔فریب تھامحض وقتی دل بہلاواتھا۔اس پراس کے سینے پرسانپ لوٹ گیا۔شہزاددل میں کیاکہتی ہوگی۔اف ایلی نے دونوں ہاتھوں سے سرتھام لیا۔
پھراس کے دل میں شبہات پیداہونے لگے۔شایدشہزادکواس کی آمدکااحساس ہی نہ ہواہو۔شایداس نے ایلی کوقابل توجہ ہی نہ سمجھاہو۔شایداس کی وہ مسکراہٹ وہ جملہ۔’’تم لوگوں کی پرواکرتے ہو؟‘‘ایلی تم؟‘‘محض ایک مذاق ہواایک اداہو۔پھراسے اس تمام واقعہ کی حقیقت پرشک پڑنے لگا۔شایدیہ سب کچھ میرے دماغ کی اختراع ہو۔ورنہ شہزادمیری پرواکرے؟نہیں نہیں یہ کیسے ہوسکتاہے۔شہزادسی رنگین حسینہ مجھے دنیاکے روبروکھڑے ہونے کی شہہ دے۔نہیں نہیںیہ سب خوش فہمی ہے۔محض خوش فہمی!
یہ سوچ کرایلی گھبراگیا۔اس کی گردوپیش سرسبزکھیت ویران ہونے لگے سرسوں کے پھول خزاں زدہ پتے دکھائی دینے لگے۔پھردورایک ٹیلے پرکھڑی ہوکرکوئی مسکرانے لگی۔اس کے بازوایلی کی طرف بڑھنے لگے۔حنامالیدہ ہاتھوں کی مٹھیاں کھلیں ۔’’ایلی تم؟‘‘وہ مسکراکربولی۔’’تم ایلی؟‘‘وہ آوازگاڑی کے پہیوں میں گونجنے لگی۔ایلی تم،تم ،تم ایلی۔‘‘گاڑی کی رفتارتیزہوتی جارہی تھی۔ساری کائنات پھولدارآنچل میں لپٹی جارہی تھی۔

جاوید اقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
اکتاہٹ
بورڈنگ کی سڑک پرنہرکے قریب اسے مہراورنورملے وہ دونوں بورڈنگ سے واپس آرہے تھے۔
وہ دونوں ایلی کے قریب سے گزرگئے۔چارایک قدم چلنے کے بعدوہ رک گئے مہرکھڑاہوگیااورنورایلی کی طرف بڑھا۔اس کے ہونٹوںپروہی خم تھا۔آنکھوں میں وہی نگاہ تھی۔جسے دیکھ کرایلی ندامت سے زمین میں گڑگیامہرکیاکہے گا۔وہ ایلی کے متعلق کس قدرغلط اندازہ لگائے گا۔
’’آگئے۔‘‘نورنے ترچھی نگاہ سے ایلی کی طرف دیکھا۔
’’ہاں۔‘‘
’’کب آئے۔‘‘نورکی نگاہوں نے ایلی کے چہرے پرپنجے گاڑدیے۔
’’ابھی۔‘‘
’’وہ مجھے ادھرآنے نہیںدیتے۔‘‘اس نے شکایت کی۔
’’کون؟‘‘
’’وہی۔‘‘وہ مسکرایا’‘محلے والے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘نورنے ہونٹ بٹوہ سے بنائے ۔
’’اچھا۔‘‘ایلی چل پڑا۔
’’وہ شک کرتے ہیں۔‘‘اس نے راستہ روک لیا۔
’’ہوں۔‘‘ایلی نے بے پروائی سے کہا۔
’’پھر؟‘‘نورنے یوںاس کی طرف دیکھاجیسے کہہ رہاہوتم ان کے شکوک کوپوراکیوں نہیںکرتے۔
’’پھرکچھ نہیں۔‘‘ایلی نے جواب دیااوربورڈنگ کی طرف چل پڑاجیسے نورکی با ت سمجھاہی نہ ہو،نہ چاروں طرف اکتاہٹ پھیلی ہوئی تھی۔
آموں کی کوٹھی کے میدان میں بہت سے لڑکے بیٹھے کھاناکھارہے تھے۔رسوئی سے پھلکوں کی بارش ہورہی تھی۔
’’آگئے بابوجی۔‘‘رامواسے دیکھ کرمسکرایا۔اس نے غلیظ دانت چمکے۔
کمرے میں آصف ہاتھوں میں سردئیے بیٹھاتھا۔’’تم آگئے۔‘‘وہ ایلی کودیکھ کربولااللہ دادنے سراٹھایااورتہہ بندجھاڑکرکہنے لگا۔’’یہ توجاتاآتاہی رہتاہے۔‘‘
شفیع نے اللہ دادکوڈانٹا’’بک نہیں ۔دادی اماں کی موت کوتوکیاجانے۔‘‘
’’یہ بھی ٹھیک ہے۔‘‘اللہ دادنے زیرلب کہا’’نہ اپنی کوئی دادی اورنہ اماں۔وہ جوکٹڑے میں رہتی ہے ناخورشیدبائی اس کے پاس گیاتھا۔بہتیری منتیں کیں کہ مجھے بیٹابنالولیکن سالی نے بات سنی ہی نہیںالٹامیراثیوں سے کہہ کرمجھے باہرنکلوادیا۔لوبولو۔اب میں کیاکروں توکیاکروں۔‘‘
شفیع ہنسنے لگا۔’’میں بتاؤں۔‘‘وہ بولا۔’’بس چپ چپ بیٹھارہ تو۔‘‘
اللہ دادآہ بھرکرخاموش ہوگیا۔
رات کوکھاناکھانے کے بعدآصف اورایلی چہل قدمی کے لئے باہرنکل گئے۔فضابے حداداس تھی۔چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔اندھیرے میں دھندلی سڑک ڈارونامنظرپیش کررہی تھی۔چپ چاپ وہ دونوں کمپنی باغ کی طرف چلے جارہے تھے۔دفعتاًآصف گویااس خاموشی سے اکتاکربولا’’ایلی‘‘
’’جی۔‘‘ایلی نے اپنے خیالات میں ڈوبے ہوئے کہا۔
’’میراکیاہوگاایلی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’میراانجام کچھ اچھامعلوم نہیں ہوتا۔‘‘وہ بولا
’’خواہ مخواہ ۔‘‘
’’خواہ مخواہ نہیں۔‘‘آصف نے کہا۔’’میں محسوس کرتاہوں۔‘‘
’’کیامحسوس کرتے ہو۔‘‘
’’جیسے جیسے نہ جانے کیاہونے والاہے۔‘‘
’’آخربات تواتنی ہے ناکہ وہ آگئی ہے۔‘‘
’’نہیں یہ نہیں۔‘‘آصف نے آہ بھری۔
’’پھر؟‘‘
’’اس کی بات نہیں۔‘‘
’’توپھرکس کی بات کررہے ہو؟‘‘
’’میں کہتاہوں۔یہ لڑکیاں مجھے تنگ کیوں کرتی ہیں؟‘‘اس نے آہ بھرکرپوچھا۔
’’تنگ تم خودہوتے ہوآصف ۔‘‘ایلی نے کہا‘‘وہ نہیں کرتیں۔‘‘
’’تمہیں نہیں معلوم۔‘‘آصف نے جواب دیا‘‘اب دیکھوناکتنی بدنامی ہورہی ہے میری نہ جانے اس نے وہاں گھرمیں کیاطوفان بپاکررکھاہے۔اماں کیاکہتی ہوں گی اورمحلے والے وہ توپہلے ہی کہتے تھے۔تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔‘‘
’’توانہیں کہنے دوتمہاراکیاجاتایہ۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’نہیں نہیں۔‘‘آصف چلایا۔‘‘تم ایسانہ کہاکرو۔‘‘
’’توبتاؤ کیاکہوں میں۔‘‘
’’یہ بتاؤکہ میراکیاہوگا؟‘‘آصف پھرآہ بھری۔
’’مجھے کیامعلوم ۔‘‘ایلی چڑگیا۔
’’نہ جانے کیاہوگا؟‘‘آصف نے ہاتھ مل کرکہا۔کچھ دیر کے لئے وہ دونوں خاموشی سے چلتے رہے پھرآصف نے بات بدلی۔
’’ایلی۔‘‘و ہ بولا’’تم نیم سے نہیں ملے؟‘‘
’’نیم۔‘‘ایلی چونک پڑا۔وہ نیم کوقطعی طورپربھول چکاتھا۔
’’مجھ سے چھپاتے ۔‘‘آصف ہنسا۔
’’نہیں تو۔‘‘ایلی نے کہا۔ایک ساعت کے لئے اس کے آئی کے آصف سے شہزادکی بات کہہ دے لیکن اس میں جرات نہ ہوئی۔آصف سے یہ بات کرناممکن نہ تھاایلی محسوس کرتاتھا۔جیساطبعی رنگینی کے باوجودآصف ایک ملاتھا۔جس سے دل کی بات نہ کہی جاسکتی تھی۔
اگلے روزکالج سے فارغ ہوکرایلی آغاکی طرف چل پڑا۔اسے اس کوچے سے بے حددلچسپی تھی،ان چہروں سے تواسے ڈرلگتاتھاجوکھڑکیوں اورجنگلوں میں بنے سنورے دکھائی دیتے تھے۔لیکن کٹڑے والیوں کی لوچدارآوازیں سن کرایلی کے دل پرسانپ جاتا۔اسے محسوس ہوتاجیسے کوئی کلیجہ مسل رہاہو۔اس میٹھی جلن میںکس قدرلذت تھی۔پھرجب سارنگی کسی ایک چوبارے میںبین کرتی اورطبلہ سرپیٹتاتوایلی پرایک کیفیت طاری ہوجاتی۔
ابھی وہ چوک میں ہی تھاکہ حئی نہ جانے کہاں سے آدھمکا۔’’ارے تم ایلی؟‘‘وہ چلایا‘‘تم توجیسے کھوگئے۔کیاہواتمہیں۔‘‘
’’دادی اماں فوت ہوگئیں تھیں۔‘‘ایلی نے رونی آوازمیں کہا۔
’’اوہ ۔‘‘ایک ساعت کے لئے حئی خاموش ہوگیا۔پھروہ مخصوص اندازسے مسکرانے لگا۔’’دادی مائیں ایساہی کیاکرتیںہیں۔ان کی توعادت ہی ایسی ہے اب چھوڑوبھی۔تم نے توایساحال بنارکھاہے۔جیسے دنیاتیاگ دوگے۔آؤتمہیں اپنی عاشق کے پاس لے چلوں۔اسے دیکھ کرسب کچھ بھول جاؤگے۔شرط لگالو۔نہ بھولو۔تواپناذمہ۔میں اپنے دکھ وہاںاٹھاکرلے جاتاہوںاوروہ ایسی اچھی ہے کہ ایک نظردیکھ لے توسب بھول جاتاہے آؤ۔‘‘ایلی کاجی چاہتاتھاکہ حئی اسے زبردستی ساتھ لے جائے لیکن اس کے باوجوداس کے دل کے کسی کونے میں ڈرچھپاہواتھا۔
’’نہیں نہیں۔‘‘وہ جھجک کرپیچھے ہٹا۔ساتھ ہی وہ ڈررہاتھاکہ کہیں حئی اس کے احتجاج کوتسلیم نہ کرلے۔اسے اکیلاچھوڑکرنہ جائے۔لیکن حئی اسے کھینچتاہواچوبارے پرچڑھنے لگا۔
بائی۔اور’’ہے نا۔‘‘
پھرزینے میں حئی نے آوازدی۔’’ہے نا۔ادھرآؤبھاگ کرمیں ایک شخص کوپکڑلایاہوں۔بھاگ نہ جائے دوڑکرآؤنا۔وہ چلاتاگیا۔
’’ہے نا۔‘‘کودیکھ کرایلی حیران رہ گیا۔اس کاخیال تھاکہ وہ رقاصہ کی طرح بنی سنوری ہوئی عورت ہوگی ،اس کے کپڑوں میں وہی بھڑک ہوگی۔اس کے بال ویسے ہی بنے ہوں گے۔ان سے خوشبوکی لپٹیں آتی ہوںگی۔لیکن وہ توگویاباورچی خانے سے دال بھگارتی ہوئی اٹھ کرآئی تھی۔کپڑے عام سے تھے۔جن میں اجلاپن نام کونہ تھا۔بال الجھے ہوئے تھے۔آستینیں یوں اوپرچڑھی ہوئی تھیں۔جیسے روزکپڑے دھوتی ہواورچہرے پرجوانی کی شگفتگی کے سواسنگارکاکوئی عنصرنہ تھا۔وہ بھاگی بھاگی آئی اورسوچے سمجھے بغیرایلی کابازوپکڑکراسے کھینچنے لگی۔ایلی نے اس کی طرف حیرانی سے دیکھا۔وہ یوں مسکرارہی تھی جیسے صدیوں سے اسے جانتی ہواوراس کاجسم یوں بے تکلفی سے ایلی کوچھورہاتھاجیسے وہ عورت ہی نہ ہو۔
پھرچندمنٹوں میں ایلی کے پاس ایک چارپائی پربیٹھی ہوئی بلاتکلف باتیں کررہی تھی۔‘‘حئی نے مجھے کئی بارتمہارے متعلق بتایاہے۔حئی کہتاہے تم اس کے دوست ہو۔مجھے حئی کے سبھی دوست پیارے ہیں۔‘‘وہ مسکرائی اورپھرہم۔ہم نام بھی توہیں۔توالیاس ہواورمیںالماس کچھ زیادہ فرق تونہیں۔ہے ناحئی مجھے پیارسے کہتاہے میرااصلی نام توالماس ہے۔‘‘
’’بکتی ہے یہ۔‘‘حئی چلایا۔’’الماس ولماس کوئی نہیں یہ۔وہ تونمائشی چیزہوتی ہے۔یہ ہے نا۔توخالص گھرکی رانی ہے ۔کیوں ایلی؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ایلی نے اثبات میں سرہلایا۔
’’کیوں ایلی۔‘‘حئی نے پوچھا۔‘‘ہے ناالماس بائی ہوسکتی ہے کیا؟‘‘
’’ہے نا۔‘‘کی آنکھیں پرنم ہوگئیں۔۔وہ مسکرائی۔’’گھرکی رانی کوسبھی کچھ میسرہے ایک گھرنہیں۔اورنہ ہوگا۔‘‘اس کے گالوں پرآنسوڈھلکنے لگے۔
’’پاگل پاگل۔‘‘حئی غصے سے چیخنے لگا۔’’پھروہی حماقت۔‘‘
’‘مجھے معلوم ہے۔ہے نانے آنسوپیتے سوئے کہا۔’’میرادل گواہی دیتاہے کہ گھرنصیب نہ ہوگاتم چاہے لاکھ کہو۔‘‘
’’میں کہتاہی کیاہوں۔‘‘حئی ہنسا۔
’’چاہے کہوبھی۔لیکن جولکھاہے ہوکررہتاہے یہ چنددن تومیں گھربناکررہ لوں گی پھرچاہے کچھ ہوجائے۔یہ روڈ۔‘‘اس کی آوازبھرآئی۔’’ایلی تم بھی یہاں میرے پاس رہو۔رہوگے؟چندروزتوہیں۔صرف چندروزپھرایک دن الماس بائی کوچوبارہ میںجاناہی پڑے گا۔‘‘
ہے نانے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔’’وہ وہیں جابیٹھے گی جہاں سے آئی ہے۔‘‘ہے نانے کھڑکی کی طرف اشارہ کیا۔
ایلی بت بنااس کی طرف دیکھ رہاتھا۔
’’پاگل ۔‘‘حئی چلایا۔
’’کیوں ایلی رہوگے میرے ساتھ؟جب حئی چلاجاتاہے تویہ گھرویران ہوجاتاہے،پھرمیں اکیلی بیٹھی گھبراجاتی ہوں۔تم آجاؤتوہم اکٹھے رہاکریں گے تمہیں بہت سی باتیں سنایاکروں گی میں۔۔بہت سی آؤگے نا؟‘‘
’’میں میں۔‘‘ایلی گھبراگیا۔لیکن اس کاجی چاہتاتھاکہ ہمیشہ کے لئے ہے ناکے پاس آرہے ہروقت چارپائی پراس کے پاس بیٹھ کراس سے باتیں کرتارہے لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس کی باتیں سن کرایلی کاجی چاہتاتھاکہ اس کے قریب ہوجائے اورقریب اورقریب اورپھراپناسراس کے زانوپررکھ کرسوجائے۔اسے اپنی اس خواہش پرندامت محسوس ہوتی تھی۔ لیکن اس کے باوجودوہ خواہش اس کے دل سے نکلتی نہ تھی۔
دفعتاًکٹڑے میں شورسنائی دیا۔حئی تڑپ کراٹھا۔’’کیاہے کیاہے؟‘‘وہ چلایا۔
’’ہوناکیاہے۔‘‘ہے نابولی۔’’وہی جواس بازارمیں ہوتارہتاہے اورکیا۔‘‘
’’کیاہوتارہتاہے یہاں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’دیکھ لوچل کر۔‘‘وہ بولی۔ ’’چلو۔‘‘
’’یہاں توبھیڑلگی ہے۔‘‘ایلی نے بازارمیں جھانک کرکہا۔
’’وہ تولگی رہتی ہے۔یہ بازاربوتل کی طرح چڑھ جاتاہے۔‘‘وہ بولی۔
’’ہے ناہے۔‘‘حئی دوسری کھڑی میں سے چلایا۔’’سناتم نے رؤف گرفتارہوگیا۔‘‘’’ہائیں‘‘ہے نانے سینہ تھام لیا۔’’وہ سیٹی پیٹی والاراجاگرفتارہوگیاکیا۔‘‘’’ہاں ‘‘حئی سیڑھیوں کی طرف بھاگتے ہوئے بولا۔’’وہی ۔میں ابھی آیا۔‘‘اورپھرزینہ اترنے لگا۔
ہے ناکھڑی میں ایلی پرجھک گئی حتیٰ کہ اس کاتمام ترجسم ایلی سے چھونے لگاایلی نے حیرانی سے ہے ناکی طرف دیکھامگروہ اپنی دھن میں نیچے دیکھ رہی تھی اسے احساس ہی نہ تھاکہ اس کاجسم ایلی سے مس ہورہاہے۔اس کے چہرے پروہی پاکیزگی وہی گھرکی دیوی پن واضح تھالیکن ایلی کی حالت غیرہورہی تھی۔وہ محسوس کررہاتھا۔جیسے وہ اس جھکی ہوئی عورت کادودھ پیتابچہ ہوجسے اس نے چھاتی سے لپٹارکھاہو۔
دفعتاً‘ہے نانے محسوس کیاکہ ایلی سمٹاجارہاہے۔
’’ہیں یہ تم سمٹے کیوں جارہے ہو۔‘‘اس نے پوچھا۔
’’تم بہت قریب ہونااس لئے۔‘‘ایلی نے ڈرتے ڈرتے اسے چھیڑا۔
’’توپھرکیاہوا۔‘‘وہ ہنسی اوراس نے ایلی کودونوں ہاتھوں سے آغوش میں لے کربھینچ لیا۔’’تم توہمارے اپنے ہو۔‘‘وہ یوں بولی جیسے کوئی ماں اپنے بچے کوآغوش میں لے کراس کامنہ چوم لیتی ہے۔
یہ محسوس کرکے ایلی احساس ندامت میں ڈوب گیااورہے ناپھرسے اس کے وجودسے بے خبرہوگئی۔
’’یہ سیٹی والی پیٹی والاکلمونہہ میرے پاس بھی آیاتھا۔سمجھتاتھاکہ ڈرجائے گی۔مگرمیں کیاسمجھتی ہوں ایسوں کو۔وہ ڈانٹامیں نے کہ پھرمیرے گھرکارخ نہیں کیا۔‘‘
’’لیکن اسے قیدکیوں کرلیاگیاہے؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’کچھ کردیاہوگانشے میں۔‘‘و ہ بولی۔’’کسی کاقتل نہ کردیاہو۔‘‘
اسی وقت ایک ساعت کے لئے ’’ہے نا‘‘کی جگہ بائی کھڑکی میں آکھڑی ہوئی اس نے دونوں ہاتھ اپنے کولہوں پررکھ لئے۔ہونٹ بٹوہ سے بن گئے اورآنکھ میں چمک لہرائی۔
’’سمجھتاتھا۔‘‘وہ بولی۔‘‘کہ اسے بھی دھمکی دے کرگرالوں گا۔بڑابنتاتھا۔‘‘
ایلی الماس کودیکھ کرگھبراگیا۔۔’’ہے نا‘‘وہ بولا۔’’پانی پلاؤ گئی۔‘‘
’’پانی ۔‘‘وہ چونک پڑی اوردفعتاًبائی کی جگہ ہے نامسکرانے لگی۔’’تم مجھے تنگ کرنے لگے ہو۔‘‘وہ چلائی اوراندرجاداخل ہوئی۔
’’ایلی یہاں آؤ۔یہاں نیچے بازارمیں۔‘‘حئی چلانے لگا۔اس کی آوازسن کرایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیاکہ وہ الماس کے چوبارے میں تھا۔اسے شرم آنے لگی۔گھبراکرکھڑکی سے پیچھے ہٹ گیااورپھردفعتاًاسے خیال آیاکہ حئی کوخاموش کرنے کے لئے اسے نیچے جاناہی پڑے گا۔جب وہ سیڑھیوں کے پاس پہنچاتوہے نابھاگی بھاگی آگئی۔
’’یہ لواپناپانی۔‘‘وہ بولی اوراپنے آپ کویوں سنبھالنے لگی۔جیسے گاؤں کی الڑگوریاں بھاگنے کے بعدتھک کرآنچل اوراپناآپ سنبھالتی ہیں۔
’’میں جارہاہوں۔‘‘ایلی نے کہااورزینہ اترنے لگا۔
’’پھرآؤگے نا۔‘‘وہ بولی ۔’’ضرورآنا۔میں یہاں اکیلی بیٹھے بیٹھے تھک جاتی ہوں۔ضرورآنا۔ضرور۔‘‘ اس کی آوازگونج رہی تھی اورایلی بازارمیں پہنچ چکاتھا۔
انوکھی تحقیق
کٹڑے میں بھیڑ لگی ہوئی تھی۔لوگ جگہ جگہ گروہوں میں کھڑے باتیں کررہے تھے۔پنواڑیوں کی دوکانوں پرلوگ جمع تھے۔پان کی پیک تھوک کریاسگریٹ کالمباکش لگاکروہ باربارسبزجنگلے والے چوبارے کی طرف دیکھتے اورپھرچہ میگوئیاں کرنے لگتے۔
چوباروں میں رقاصائیں منہ میں انگلیاں ڈالے کھڑی تھیں اس وقت انہیں بناؤسنگارکاہوش نہ تھا۔انہیں معلوم نہ تھاکہ ان کے بال پریشان ہورہے ہیں۔چہروں پرتھکن کی جھریاں پڑی ہیں۔گال پاؤڈراورروغن سے خالی ہیں یاپاؤں ننگے ہیں ۔غالباً اس وقت انہیں یہ احساس نہ تھاکہ وہ رقاصائیں ہیں۔اس وقت تمام بائیاں ہے ناہوئی تھیں۔جیسے دفعتاً باورچی خانے سے کام کرتے کرتے بھاگ کر جنگلے میں آکھڑی ہوں۔
وہ سب حیرانی سے سبزجنگلوں کے مکان کی طرف دیکھ رہی تھی۔سبزجنگلہ ویران پڑاتھا۔بازارمیں لوگ حیرانی سے چلارہے تھے:
’’بھئی حدہوگئی۔وہی سیٹی پیٹی والاراجہ۔۔حدہوگئی۔‘‘ایک بولا۔
’’سالہ مخومت کرتاتھایاں کٹڑے پر۔‘‘
’’حکومت سی حکومت سناہے سیٹھ جمناداس نے ہاتھ جوڑے تھے۔اس کے روبرو۔‘‘بھئی کیوں نہ جوڑتا۔دل کامعاملہ تھا۔‘‘
’’سیٹی پیٹی والاچاہتاتوسالہ چارموٹرکاریں مانگ لیتا۔سیٹھ سے۔‘‘
’’موٹرکیاہے جوچاہتاسولیتاہاں۔‘‘
’’پراسے تومیاں ’’شادی ‘‘کے سواکچھ سوجھتاہی نہ تھا۔وہ اس کے سرپرسوارتھی۔‘‘
’’وہ شادی سالی ہے بھی توبندبوتل چڑھ جاتی ہے ایک دم ۔‘‘
’’پراب توبابوکھل گئی وہ بندبوتل۔کیوں بھئی ۔‘‘
’’پرعالم کیسے ہواپہلوان کوکہ سالہ ویسے ہی راجہ بناہواہے جھوٹ موٹ کا۔‘‘
’’بس ہوگیا۔کاٹھ کی ہنڈیاکب تک چڑھتی ہے ۔ہاں۔‘‘
’’بھئی ہنڈیاتوآٹھ مہینے چڑھی رہی۔میرے بھائی۔‘‘
’’اورمیں کہتاہوں یہ توچڑھی ہی رہتی اگراپنے بابوکی بنی کونہ چھیڑتاوہ۔‘‘
’’کون بنی؟‘‘
’’ارے یہی سبزجنگلے والی۔‘‘
’’وہ جوسانوری سلونی سی ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں بڑی مرچیلی ہے وہ۔بابواس کے ہاں آتاجاتاہے نا۔‘‘
’’کون بابو؟‘‘
’’بابوکونہیں جانتے ۔بھئی وہ گوراچٹا۔یہیں کٹڑے میں رہتاہے۔سرداراں کے چوبارے کے پچھواڑے کی گلی میں کھفیہ پولیس مین ہے وہ بابواپنا۔‘‘
’’لیکن کیسے معلوم ہواکہ سیٹی پیٹی والابناوٹی افیسربن کرتحقیق کررہاہے۔‘‘
’’بس جی بابونے پہلے تو اس بہروپیے کی منتیں کیں۔تم جانتے ہوایک محکمے کے آدمی ایک دوسرے سے بات کرلیتے ہیں اپنے بابونے کہابھئی جس پرجی چاہے ہاتھ رکھ ڈالواپنے کوکچھ تعلخ نہیںپر’’بنی‘‘پرہاتھ نہ ڈالنا۔‘‘
’’پھرکیاہوا؟‘‘
’’بات توکھری کہی بابونے پیارے۔‘‘
’’ہاں بھئی صاف بات اچھی ہوتی ہے۔‘‘
’’پروہ توگویاںنفلوں کابھوکاتھا۔اسی شام کووہ ’’بتی‘‘کے چوبارے پرچڑھ گیااوربابوخون کے گھونٹ پی کررہ گیا۔پھربابونے جاکردفترسے مالومات لیں۔اس سے پوچھاپوری تخیخ کی اورمالوم ہواکہ سرکارنے تفیش کے لئے کوئی حکم جاری نہیں کیااوربس صاحب آج بابومیاں دوخان پرآیااوربولااستادآج کہیں سرکنانہیں وہ تماشہ دکھاؤں گاکہ یادکروگے ایساتماشہ کٹڑے والوں نے کبھی نہ دیکھاہوگااوراس وقت وہ اوپر’’بنی ‘‘کے چوبارے میں ہے اورساتھ پلس ہے تاکہ سیٹی پیٹی والے کوہتکھڑی لگالے۔‘‘
’’ہوں تویہ بات ہے۔‘‘
’’بھئی شابشے بابوکا۔‘‘
’’بڑامجے کاآدمی ہے وہ اگرچہ ہے کھیفہ پلس کاپراپنایارہے۔‘‘
عین اس وقت آغاآگیا۔اس کے چہرے پروہی بے نیازی برس رہی تھی۔
’’تم ہوایلی؟‘‘آغااس کی طرف دیکھنے لگے۔
وہ سرسری اندازسے بولا۔’’آگئے تم۔اب کی مرتبہ تودیرکردی تم نے یہ تماشادیکھاحدہوگئی۔کس کومعلوم تھاکہ یہ انکوائری محض ڈھونگ ہے اوروہ سی آئی ڈی کاانسپکٹردراصل ایک موقوف شدہ پلسیہ ہے ۔پٹھے نے آٹھ مہینے کٹڑے میں عیش کئے ہیں۔دعوتیں اڑائی ہیں۔مجرے دیکھے ہیں۔گانے سنے ہیں اورجس کی سیج پرچاہالیٹاہے۔خداکی قسم ایساستم ظریف تھاکہ چوٹی کی بائیوں سے چلمیں بھرواتارہا۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔
’’لیکن ۔‘‘ایلی نے پوچھا’’پوری بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘
’’ہاں ۔‘‘آغاہنسا۔’’میں سمجھاشایدتم جانتے ہواس معاملے کوکٹڑے کاتوبچہ بچہ جانتاہے۔‘‘
آغاہنسنے لگے۔’’کیاواقعی ۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’یہ سیٹی پیٹی والاانسپکٹرپہلے پولیس میں تھا۔پھرنہ جانے کس وجہ سے برخواست ہوگیا۔اس کے بعداس شخص نے ایک جعلی حکمنامہ بنایا۔جس میں لکھاتھاکہ فلاں شخص نے حکومت کاایک لاکھ روپیہ غبن کیاہے اوربیان کیاجاتاہے کہ اس نے زیادہ ترروپیہ امرتسرکٹڑہ رنگین میں اپنی محبوبہ بنام سردارویابہاروپرصرف کیاہے۔انسپکٹررؤف کوحکم دیاجاتاہے کہ وہ موقعہ پرجاکراس امرکی تحقیق کرے اوراپنی رپورٹ پیش کرے۔‘‘آغاصاحب ہنسنے لگے۔
’’کمبخت کوکیاسوجھی اورپھراس نے رقاصاؤں کے جودونام لکھے اس خط میں وہ بہت سوچ کرلکھے ۔ چونکہ کٹڑے میں ان ناموں کی بہت سی رقاصائیں ہیں اوروہ سب اوپرکے درجے کی ہیں۔بس تواس نے یہ خط یہاں کے ایس پی کودکھایا۔انہیں بھلاکیااعتراض ہوسکتاتھااس کے بعداس نے تفیش کے پردے میں وہ کیاجس کاجواب نہیں۔‘‘
’’آخاہ آخاہیں۔‘‘ایک نوواردان کی طرف بڑھااوروہ دونوں باتیں کرتے ہوئے سبزجنگلے والے چوبارے کی طرف چل دیئے۔
ایلی نے آغاکی ڈیوڑھی کی طرف دیکھاوہاں نیم کھڑی مسکرارہی تھی۔نیم کواپنے مخصوص اندازمیں مسکراتے ہوئے دیکھ کرایلی کادل ڈوب گیا۔معاًاسے خیال آیاشایدنیم بھی وہیں کہیںموجودہوگی۔وہ تڑپ کرمڑامگرآغاکے چوبارے کی کھڑکیاں جوں کی توں بندتھیں۔چقیں بے جان اندازسے لٹک رہی تھیں اورحرکت سے قطعی طورپربے گانہ تھیں۔اوپرکوٹھے کے منڈیرپرسریابازوکاکوئی حصہ بھی دکھائی نہ دے رہاتھا۔ایک بارپھراس پرمایوسی چھاگئی۔اس نے نیم کی طرف دیکھاجوویسے ہی کھڑی مسکرارہی تھی۔اس کی مسکراہٹ سے ظاہرہوتاتھاجیسے کوئی خوشخبری اس کے ہونٹوں میں دبی ہوئی ہو۔
باادب باملاحظہ ہوشیار
ایلی نے آغاکی طرف دیکھاوہ دورجاچکاتھا۔حئی پان کی دوکان پرکھڑاباتوں میں مصروف تھا۔اس نے دومرتبہ ادھرادھر دیکھااورپھرحالات کوسازگارسمجھ کرنیم کی طرف بڑھا۔اسے آتے دیکھ نیم کے ماتھے پرپیاراشکن پڑگیا۔بھویں کمانوں کی طرح ہوتی گئیں۔
’’ہم نہیں بولتے تم سے۔‘‘وہ ایک اندازسے زیرلب بولی۔
’’کیوں؟‘‘ایلی نے نگاہیں چمکاتے ہوئے کہا۔
’’بس تم نے کھودیا۔‘‘اس سے ناک چڑھاکرکہا۔
’’کیاکھودیا؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’سب کچھ ۔‘‘وہ بولی۔’’تم توبس کھوہی دیتے ہو۔میں بناتی ہوں بات اورتم بگاڑدیتے ہو۔‘‘
’’آخربتاؤ بھی نا۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’پھرتم آتے کیوں نہیں ہمارے یہاں۔‘‘وہ بولی۔
’’تمہاری آپاجوچھپی رہتی ہے۔‘‘اس نے پینترہ بدلا۔’’دیکھ لوآج بھی چھپی بیٹھی ہے۔‘‘
’’اوں۔‘‘وہ بولی۔’’وہ تونہیں چھپتی پردادی اسے باہرآنے بھی دے۔‘‘
’’کیوں دادی کیاپکڑے رکھی ہے اسے۔‘‘
’’سائے کی طرح سواررہتی ہے۔آپاکہتی تھی۔۔‘‘وہ رک گئی۔
’’میرے متعلق کچھ کہتی تھی۔بتاؤ‘‘ایلی نے منت کی۔
’’نہیں بتاتی۔‘‘اس نے بسورکرکہا۔’’مجھ سے ملتے جونہیں توبتاؤں کیوں۔‘‘
’’تم بڑی پیاری ہو۔‘‘وہ اس کے قریب ترہوگیا۔
’’جھوٹ ۔‘‘نیم نے اپناآپ اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔’’چھوڑوہیں۔‘‘
ایلی نے محسوس کیاجیسے وہ چھوٹی سی لڑکی درحقیت ایک بالغ عورت ہو۔ایک عورت جولبھانے کے اندازسے پورے طورپرواقف ہو۔اس نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھانیم نے اس حوالگی کے باوجوداپنامنہ موڑرکھاتھا۔
عین اس وقت ایک شوراٹھااورکٹڑے میں کھڑے تمام لوگ سبزجنگلے والے مکان کی طرف بھاگے۔
’’ادھرآؤ۔ادھرآؤ۔‘‘حئی نے بڑھ کرایلی کاہاتھ پکڑلیا۔’’وہ اسے نیچے لارہے ہیں۔‘‘
حئی ایلی کودیوانہ وارگھسیٹنے لگا۔
وہاں ایک کہرام مچ گیا۔
’’جوتے ماروجوتے۔‘‘
’’کہاں ہے بہروپیہ؟‘‘
’’پکڑلیاکیا۔‘‘
’’سے لارہے ہیں۔‘‘
’’پہلوان ذرادیکھنادوکان کومیں آیا۔‘‘
سب لوگ دیوانہ وارسبزجنگلے والے چوبارے کی طرف لپکے ۔حئی نے دوایک کوگرایادوایک کوپچھاڑااوردھاڑتاہواایلی سمیت سبزجنگلے والے چوبارے کی سیڑھیوں کے سامنے جاپہنچا۔چندایک سپاہی سیڑھیوں سے نیچے اتررہے تھے۔ہجوم کودیکھ کرانہوں نے اپنے چابک چلانے شروع کردیئے۔’’ہٹ جاؤہٹ جاؤ۔‘‘لوگوں نے بڑی مشکل سے راستہ دیا۔حئی یہ دیکھ کراس دوکان کی طرف لپکاجوان سیڑھیوں سے ملحقہ تھی اوراس نے ایلی کوچھجے پرگھسیٹ لیا۔
سپاہوں کے پیچھے سیٹی پیٹی والارؤف ہتکھڑی پہنے بڑے وقارسے آرہاتھا۔ایک ساعت کے لے وہ رکا۔اس نے بڑے غیوراندازمیں چاروں طرف دیکھااوربارعب اندازمیں بولا۔جیسے اپنی رجمنٹ کوحکم دے رہاہو۔
’’اے ہمارے لئے موٹر بھی نہیں لائے تم۔ہم موٹرکے بغیرکیسے جائیں گے۔‘‘
بابونے ایک زہرخندمسکراہٹ سے اس کی طرف دیکھا۔سپاہی مسکرائے۔
’’اوردیکھو۔‘‘ملزم نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ہمیں سگریٹ چاہئیں پہلوان ’’وہ چلایا۔‘‘سگرٹ کاایک ٹین ۔‘‘
’’سگرٹ کانہیں۔‘‘پہلوان پنواڑی چلایا۔’’اب توبیٹے ویسے ہی ٹین پاٹ ہوگا۔‘‘
’’سالاموٹر مانگتاہے۔‘‘ہجوم سے آوازآئی چل توسہی تھانے میں تیراایکسیلیٹر دبائیں گے توہوش میں آجائے گا۔‘‘
’’ارے اوسیٹی والی پیٹی۔‘‘
’’خاموش‘‘ملزم نے انہیں ڈانٹا۔’’ہمیں نہیں جانتے تم۔‘‘
بابوہنسنے لگا’’اب سالہ دیوانہ بنتاہے۔‘‘
’’بکارخویش ہشیارہے۔‘‘
وہ جلوس آہستہ آہستہ کٹڑے میں چلنے لگا۔ہجوم نعرے لگارہاتھا۔لوگ بیڑیوں کے ٹکڑے اس معزول شدہ راجہ پرپھینک رہے تھے۔اوپررقاصائیں جنگلوں سے نیچے لٹکی ہوئی تھیں کئی ایک ہاتھ مل رہی تھیں۔کئی ایک شرمندگی محسوس کررہی تھیں کہ انہیں دھوکادے کرلوٹ لیاگیااورسیٹی پیٹی کامتوالاتحکمانہ اندازسے احکامات جاری کرتاہواچلاجارہاتھا۔
’’ہٹ جاؤیہ ہماراجلوس ہے باادب باملاحظہ ہوشیار۔‘‘
اس روزشام کوجب ایلی واپس اپنے بورڈنگ ہاؤس کوجارہاتھاتووہ محسوس کررہاتھاجیسے وہ خودسیٹی پیٹی کابہروپے ہواورایک روزاسے بھی یونہی جلوس میں چلتے ہوئے پکارناہوگیا’’باادب باملاحظہ ہوشیار۔‘‘
الوداع
پھروہ سب امتحانات کی تیاری میں مصروف ہوگئے ۔شفیع صبح سویرے ہی اپنی ہاکی سٹک اورکتابیں اٹھاکرقریب کے باغ میں جابیٹھااوروہاں دن بھرپڑھنے اورسانپ مارنے کے مشاغل میں وقت کاٹتا۔آصف اوروہاں دن بھرپڑھنے اورسانپ مارنے کامشاغل میں وقت کاٹتا۔آصف اورایلی نہر کے کنارے جابیٹھے۔جہاںآصف پڑھنے کے علاوہ ٹھنڈی آہیں بھرتااورباربارایلی سے پوچھتا‘‘ایلی اب کیاہوگا‘‘اورایلی یہ سن کرسونے لگتااوراس وقت اس کے روبروشہزادآکھڑی ہوتی اس کے حنامالیدہ ہاتھ ایلی کی طرف بڑھتے اورپھرایک رنگین آوازسنائی دیتی۔’’ایلی تم‘مجھے تم سے یہ توقع نہ تھی۔‘‘
’’ایلی اب کیاہوگا۔‘‘آصف کی آوازسنائی دیتی اورپھرایلی کے سامنے وہ سیٹی پیٹی کادیوانہ آموجودہوتااورتحکمانہ اندازسے چلاتا’’باادب باملاحظہ ہوشیار۔‘‘
اللہ دادسارادن کمرے میں بیٹھارہتااورپڑھنے کے علاوہ سرپرآم کی گٹھلی رگڑتارہتااورپھرباآوازبلندبنگالی بابوکوگالیاں دیتاجس کی وجہ سے گوشت کھانے سے محروم کردیاگیاتھا۔
’’ان ہندوؤں کواللہ غارت کرے یامہاتمابدھ ان پراپناقہرنازل فرماکہ انہوں نے ایک سچے مومن پرگوشت کھاناحرام کررکھاہے۔‘‘
رام ان کوبن باس دے کہ انہوں نے مجھے دال کھلاکھلاکرتباہ کردیاہے میرامعدہ ہروقت لاحول پڑھتاہے۔‘‘
اللہ دادکاشورسن کرہرنام اورلیناسیان آجاتے اوروہ سب مل کرشورمچاتے۔ہوسٹل کابنگالی سپرنٹنڈنٹ اللہ دادکی بددعائیں سنتااورچوری چوری مسکراتاکیونکہ وہ خودمظلوم تھا۔سبھاوالوں نے اس پربھی مچھلی کھانے کے خلاف پابندی لگارکھی تھی۔
جب وہ سب امتحان سے فارغ ہوئے تواللہ دادنے سکھوں کے ساتھ مل کربورڈنگ میںایک جلوس نکالا۔وہ جلوس تین لڑکوں پرمشتمل تھاایک ہندوایک مسلمان اورایک سکھ،اللہ دادخوداس جلوس کالیڈرتھا۔وہ ہرکمرے میں جاکرنعرہ لگاتے۔
’’جے ہندو دھرم کی جے۔‘‘
’’اے بندوؤ۔‘‘اللہ دادچلاتا۔’’خداتمہاراکلیان کرے۔تم نے سال بھرہمیں دالیں کھلاکھلاکراندرباہر سے خوشبوداربنادیاہے۔‘‘اس پرباقی لڑکے چلاتے۔’’جے ہندودھرم کی جے۔‘‘
اللہ دادکے نعرے سن کررسوئی کے تمام نوکرمسرت سے سرہلارہے تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ واقعی اندرباہرسے خوشبودارہوناایک قابل تعریف امرہے۔ہندوجذبات کے اثرسے بھیگی ہوئی تحسین بھری نگاہوں سے اللہ دادکودیکھ رہاتھا۔دوربنگالی بابوزیرلب مسکراتے ہوئے ٹہل رہے تھے۔ادھرآصف اپنی ہی دھن میں کھویاہوایلی کے کان میں کہہ رہاتھا’’اب کیاہوگااب میں گھرکیسے جاؤں گاایلی؟‘‘
عین اس وقت پرنسپل اپنی لینڈومیں آموں والی کوٹھی میں آدھمکا۔چندایک ساعت کے لئے پودوں کے پیچھے چھپ کروہ لڑکوں کی باتیں سنتارہاپھرمعاملہ کی نوعیت کوبھانپ کرمسکرایااوروہیں سے چلانے لگا۔’’اواللہ دادیہ کیساشورہے؟‘‘جلوس پرنسپل کودیکھ کرتھم گیا۔سکھ دفعتاًاپنے کھلے بالوں میں کنگھی کرنے میں مشغول ہوگئے ۔اوررامواورلالوبھاگ کررسوئی میں برتن صاف کرنے لگے۔اللہ دادایک ساعت کے لئے چپ چاپ کھڑارہااورپھراسے سوجھی۔
اس نے جیب سے آم کی خشک گٹھلی نکالی اوراسے اپنے سرپررگڑنے لگا۔
’’کیاکررہے ہواللہ داد۔‘‘پرنسپل نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’سلام پرنسپل جی۔سرسے خشکی نکال رہاہوں۔‘‘
’’ہوں۔لیکن تمہاری سرکی خشکی کبھی نہ جائے گی۔خشکی آم کی گٹھلی سے نہیں جاتی عقل سے جاتی ہے۔‘‘اس پرسب لڑکے ہنس پڑے۔
’’حضور۔‘‘اللہ دادنے ہاتھ جوڑکرکہا۔’’اسی عقل کے کھوج میں اس کالج میں آیاتھاپریہاں بھی نہیںملی۔‘‘

جاوید اقبال
 
Top