علی پور کا ایلی۔(846-875)

حجاب

محفلین
[align=right:97f0f00ef5] " سچّی محبت کا تو اپنے کو پتہ نہیں کچھ البتہ پیار کرتی ہے۔جیسے ماں بچّے کو کیا کرتی ہے۔اس عمر میں ماتا مل گئی اور مجھے کیا چاہیئے۔“
" تو کیا ماتا کی تلاش تھی تمہیں۔“
سبھی کو ہوتی ہے۔کیا تمہیں نہیں !“ وہ ہنسنے لگا۔" یار یہ فلسفہ چھوڑو ۔مجھے تو یہ غم کھائے جا رہا ہے اب میں کیا کروں گا۔ہم کیسے دن گزارا کریں گے۔پرماتما کرے ہم دونوں فیل ہو جائیں۔“
شام کی باتیں عجیب تھیں۔اس کی شخصیت میں عجب مٹھاس تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ تمام باتیں بلا تامّل کہہ سکتا تھا جو ایلی کے دل میں بھی تھیں لیکن وہ انہیں زبان پر لانے یا اپنے آپ سے اظہار کرنے سے ہچکچاتا تھا۔ڈرتا تھا غالباً اسی وجہ سے ایلی کا شام سے محبت تھی۔
اس روز شام کی بات سُن کر ایلی نے محسوس کیا جیسے اُس نے ایلی کے دل کا راز فاش کردیا ہو۔جیسے وہ ایلی کے اس راز سے کما حقہ، واقف ہو اور اس بات کو اچھی طرح جانتا ہو کہ ایلی کو شہزاد سے کیوں محبت تھی۔اور وہ ایلی کا راز فاش کر رہا تھا۔رادھا کا تو محض بہانا تھا۔
ایلی کو پسینہ آگیا اُس کی زبان بند ہوگئی اس کے بعد نہ جانے شام کیا کہہ رہا تھا۔شائد سرسری جسم کی تعریف کر رہا تھا۔یا اس کے جسم کے خم و پیچ کی بات کررہا تھا۔ایلی کے روبرو اُس وقت شہزاد کھڑی تھی۔اُس کی آنکھیں نمناک تھیں۔کہہ رہی تھی۔
" میں‌نے اس سودے میں کچھ پایا نہیں کھویا ہے۔ایلی میں نے اپنا آپ کھو دیا ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ میں اپنے آپ سے گئی ہوں۔ایک تم ہو جس نے آج تک اس بات کو نہیں پایا“
جی۔کے کی ٹانگ ٹھیک ہوچکی تھی۔لیکن وہ ابھی تک اُسی کمرے میں مقیم تھے ۔اب آخری ایّام میں کمرہ بدلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔بیماری کے ایّام میں جی۔کے کی جذباتی کیفیت کچھ عجیب سی تھی۔
جس روز سے ایلی نے اُس کا محبت نامہ پڑھا تھا جی۔کے کے متعلق ایلی کا نقطہء نظر ہی بدل گیا تھا پہلے اس کا خیال تھا کہ جی۔کے جذبات سے قطعی طور پر عاری ہے ۔دوستوں سے تو وہ اکثر مبہم طور پر اظہارِ محبت کیا کرتا تھا لیکن ایلی کے اندازے کے مطابق وہ لڑکیوں سے محبت کرنے کا اہل نہ تھا چونکہ بنیادی طور پر وہ خود پسند شخص تھا ۔اور جو اس حد تک خود پسند ہو ایلی کے خیال کے مطابق وہ کسی کا نہیں ہو سکتا تھا۔لیکن خط پڑھنے کے بعد ایلی کے مفروضات کا محل دھڑام سے گِر چکا تھا۔اسے کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا بہرحال اب وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ جی۔کے کے ادلتے بدلتے موڈ درحقیقت اس راز کی وجہ سے تھے جسے وہ یوں سینے سے لگائے بیٹھا تھا۔نہ جانے وہ کون لڑکی تھی۔نہ جانے وہ کہاں رہتی تھی۔نہ جانے وہ دونوں کبھی ملتے بھی تھے یا نہیں۔البتہ ایک بات اُس خط سے واضح تھی کہ جی۔کے اپنی محبوبہ کے سامنے سرنگوں ہونے کا قائل نہ تھا۔اُس کے انداز میں سپردگی نہ تھی لیکن اُس کے باوجود جی۔کے کے جذبات کی شدّت دیوانہ کن تھی۔
جس روز وہ ایک دوسرے سے جدا ہونے والے تھے۔ایلی کے منہ سے بات نکل گئی۔
" جی۔کے “ وہ بولا "مجھے معلوم نہ تھا کہ تمہاری زندگی میں دکھ کا عنصر اس حد تک حاوی ہے میں سمجھتا رہا کہ تمہارا رویّہ بدمزاجی کا شاہد ہے۔“
اس پر جی۔کے کی ناک یوں تن گئی جیسے کسی نے تلوار نکال لی ہولیکن وہ خاموش رہا۔
" پہلے مجھے تمہاری محبت کا علم نہ تھا۔“ ایلی نے کہا۔" لیکن اب میں جانتا ہوں کہ تم دکھی ہو۔“
" نہیں نہیں “ جی۔کے سنجیدگی سے بولا۔میرے دکھ کو چھوڑو۔مجھے تو صرف یہ دکھ ہے کہ وہ دکھی ہے۔اس کے دکھ کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا اور ------------ اور ----------- “
جی۔کے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ------------
"اُس کے لئے محرومی کے سوا کچھ نہیں کچھ نہیں۔مجھ سے اُس کا دکھ دیکھا نہیں جاتا“
اُس وقت وہ سامان باندھ رہے تھے۔
" کب سے دکھی ہے ۔“ ایلی نے پوچھا۔
" اوّل سے “ وہ بولا۔
" ازل سے ! “
" ہاں ۔ازل سے “ جی۔کے نے بڑے دکھ سے کہا۔صدیاں گزر گئیں ۔صدیاں۔اب تو اس بیچاری کی ہڈیاں بھی گل سڑ گئی ہیں۔ایک ڈھانچہ رہ گیا ہے اور وہ صرف اسی لئے جی رہی ہے۔صرف ایک آرزو، ایک امید کی زور پر۔“ جی۔کے کے منہ سے ایک سسکی سی نکل گئی اور وہ غسل خانے کی طرف دوڑا غالباً وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اُسے اس عالم میں دیکھے۔
ایلی حیرت سے اُس کو بھاگتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔زندگی کس قدر عجیب ہے۔کردار کتنے عجیب تھے اور اس کے سوچے ہوئے خیالات اور پڑھی ہوئی باتیں اور سمجھے ہوئے اصول کس قدر غلط تھے۔
باہر میدان میں برگد کے پتّے جھڑ رہے تھے۔زمین خشک پتّوں سے بھری ہوئی تھی ۔درخت کے تلے سامان رکھے اسفند ٹہل رہا تھا۔اُس کے چہرے پر وہی ملائمت تھی۔سامنے برآمدے میں کلاس ٹیچر چھڑی سنبھالے کھڑا تھا۔
ایلی نے محسوس کیا جیسے وہ سب بےبس اپاہج ہوں۔نہ جانے وہ کون تھی جس نے کلاس ٹیچر کے ماتھے پر تیوری کندہ کردی تھی جس نے اسفند کو پلپلاہٹ بخش دی تھی نہ جانے وہ کون تھی جس نے کے۔جی کے ناک کو دھار دیدی تھی ۔دور کوئی چکّی ہونک رہی تھی۔وہ وہ وہ !

سیس نویا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
گاڑی میں بیٹھے ہوئے ایلی ایک انجانی خوشی محسوس کررہا تھا۔عرصہ دراز کے بعد وہ شہزاد کے پاس جا رہا تھا۔وہ شہزاد جو علی پور میں صرف اُس کے لئے بیٹھی تھی کہ اُسے ایلی کے آنے کا انتظار تھا۔ایلی کو بار بار شام کی بات یاد آرہی تھی ۔عورت میں صرف ایک خوبی ہوتی ہے صرف ایک کہ وہ تم سے محبت کرتی ہے ۔اِس ایک خوبی کے لئے مرد اُسے چاہتا ہے۔
ہاں ۔ شام سچ کہتا تھا۔عورت میں صرف ایک خوبی ہوتی ہے۔لیکن شہزاد میں تو بیسیوں خوبیاں ہیں۔وہ اتنی دیر سے ایلی کا انتظار کر رہی ہے۔اُس سے محبت کر رہی ہے۔بے لاگ محبت جس میں ہوس کا عنصر نہیں اور اُس نے اِس محبت کے لئے سب کچھ کھو دیا ہے۔کچھ پانے کی اُمید نہیں۔اُس میں حسن ہے رنگینی ہے جرّات ہے۔کتنی جرّات ہے اس میں ۔ایلی کے لئے وہ ساری دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے لوگوں کی جلی کٹی باتیں سننے کے لئے تیار ہے۔ایلی کے دل میں شہزاد کے لئے نئے جذبات اُبھر رہے تھے۔وہ شہزاد کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
کھڑکی سے باہر ہرے بھرے کھیت دوڑ رہے تھے۔دور پہاڑوں کی چوٹیاں دکھائی دے رہی تھیں اور اُس کے اوپر نیلا آسمان۔پھر اسے وہ دن یاد آگیا جب براتیوں کی حیثیت سے شہزاد کو لارہے تھے۔جب شہزاد زنانے ڈبّے میں سبز گھٹڑی بنی بیٹھی تھی اور محلّے کے لڑکے باری باری زنانے ڈبّے کی طرف جاتے تھے اور بہانے بہانے اُس سے بات کرنے کی کوشش کرتے تھے اور دعائیں مانگتے تھے کہ اس سبز گھٹڑی کے پٹ کھل جائیں اور وہ ایک جھلک دیکھیں صرف ایک جھلک ---------------------- اُس روز بھی گاڑی سرسبز میدانوں میں بھاگ رہی تھی اور دور پہاڑوں کی چوٹیاں دکھائی دے رہی تھیں جن پر نیلا آسمان تنا ہوا تھا۔
اُس سفر کو بیتے ہوئے آج بارہ برس ہوچکے تھے۔بارہ برس۔اب شہزاد چار بچّوں کی ماں تھی مگر اُس کے انداز کی رنگینی میں ذرا فرق نہ آیا تھا۔اُس کا چہرہ ویسے ہی جاذبِ نظر تھا ۔اُس کے ماتھے کا تِل ویسے ہی روشن تھا۔اُس کا جسم ویسے ہی خم و پیچ سے بھرپور تھا۔آنکھیں اسی طرح مدھ بھری تھیں۔ڈولتی تھیں۔ایلی کو شہزاد کا قرب حاصل ہوئے دس سال ہوچکے تھے۔دس سال سے شہزاد نے اُسے آنکھوں پر بٹھا رکھا تھا۔اور صرف یہی نہیں دس سال سے اُس نے اسے اعلانیہ اپنا رکھا تھا۔اب تو بات اتنی پرانی ہوچکی تھی کہ لوگوں نے اسے تسلیم کرلیا تھا اور وہ تھک کر خاموش ہوگئے تھے۔
لیکن ایلی مسلسل دس سال سے شہزاد سے شاکی رہا تھا ۔اُسے شکوہ تھا کہ شہزاد اُس کے قریب نہیں آتی۔اُس سے دور رہتی ہے۔اس سے صرف کھیلنا مقصود ہے جیسے ایلی کھلونا ہو۔ایلی کا خیال تھا کہ شہزاد کو صرف ایلی کے اُس جذبہ کو قائم رکھنے کا شوق ہے جو اُس کے دل میں شہزاد کے لئے موجزن تھا اُسے بذاتِ خود ایلی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ایلی سوچ رہا تھا۔ہاں واقعی اُس نے شہزاد کی محبت کی قدر نہیں کی بلکہ اُسے کبھی تسلیم تک نہیں کیا۔اور وہ ہمیشہ اس بات کے لئے کوشاں رہا کہ اُس سے جسمانی قرب پیدا کرے۔
پھر سادی کے آنے کے بعد ایلی نے دفعتاً محسوس کیا تھا کہ شہزاد اس کی محبت میں اس کی زندگی میں ایک رکاوٹ ہے اور اسی وجہ سے اُس کی زندگی نارمل نہیں رہی ۔نہیں رہ سکتی۔سادی سے میل ملاپ کے بعد اس نے شدّت سے محسوس کیا تھا کہ ایک شادی شدہ عورت سے محبت کرنا عظیم بدقسمتی ہے۔
لیکن ایلی سوچنے لگا کہ اس میں شہزاد کا کیا قصور کہ وہ شادی شدہ تھی۔شہزاد نے تو اس کا ہاتھ نہیں تھاما تھا۔خود ایلی نے اُس کا ہاتھ تھاما تھا اور ہاتھ تھامتے ہوئے تو اُس کو احساس نہ تھا کہ اُسے شہزاد سے محبت ہے اُس وقت تو محض ہوس کی وجہ سے اُس نے ہاتھ تھاما تھا ۔مانا کہ اُس کا کوئی مقصد نہ تھا ۔صرف ایک حسین عورت کا قرب ۔اور وہ قرب اُسے حاصل ہوگیا تھا۔اب وہ صرف اس لئے دکھی تھا کہ وہ شہزاد کو اعلانیہ اپنانا چاہتا تھا۔یہ تو ایک ناممکن خواہش تھی اور چونکہ پوری نہ ہو سکتی تھی لہٰذا اسنے آتشِ رقابت میں جلنا شروع کردیا تھا۔وہ شہزاد کے نقاب کے ابھرے ہوئے تاروں کو گنا کرتا تھا۔
ایلی کو ان باتوں پر ازسرِ نو ندامت ہو رہی تھی ۔وہ محسوس کررہا تھا کہ اُس نے شہزاد کی قدر نہیں کی۔اُس کی محبت کی قدر نہیں کی۔اُس کی قربانی اور جرّات کی قدر نہیں کی۔
" نہیں نہیں۔اب میں ایسا نہیں کروں گا۔وہ دیوی ہے دیوی۔اور میرا کام ہے اُسے منانا۔اُس کے سیس نوانا۔“
ہاں ہاں ۔ اب میں اُس کے پاس پہنچ لوں اب کی بار ---------------
محلّے کا میدان ویران پڑا تھا ۔غالباً محلّے کے لڑکے دوسری طرف کھیل رہے تھے عورتیں غالباً گرمی کی وجہ سے اپنے اپنے مکانات کی چھتوں پر جا چڑھی تھیں۔اُس وقت غالباً 9 بجے ہونگے۔ لیکن گرمیوں میں رات کے 9 بجے تک تو میدان میں چہل پہل رہا کرتی تھی۔
ایلی نے اوپر کھڑکیوں کی طرف نگاہ ڈالی ۔رابعہ کی کھڑکی بند تھی۔اوپر کے چوبارے کی کھڑکی کُھلی تھی۔لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔جب وہ چھتی گلی میں داخل ہوا تو مائی نتّھی کی آواز سُن کر ڈر گیا۔اُس کا خیال تھا کہ وہاں کوئی نہیں۔مائی نتّھی اتنی لاغر اور نحیف تھی کہ چھتی گلی کے دروازے کے ساتھ لگی ہوئی وہ ایلی کو دکھائی نہ دی تھی۔
" کون ہے ؟“ ماں نتّھی نے پوچھا۔
" میں ہوں۔“ ایلی نے اُسے پہچانے بغیر جواب دیا۔
" میں کون۔“ اُس نے پوچھا۔
" ایلی۔“ وہ بولا۔" سلام کہتا ہوں۔“
" ہئے اپنا ایلی ہے۔“ اللہ تجھے خوش رکھے۔تیرا گھر آباد ہو۔اب کی بار تو بڑی دیر سے آیا ہے تو خیر تو ہے نا۔“
" ہاں ہاں۔“
" اے اچھا کیا دیر سے آیا تو۔یہاں روز آکر کرنا کیا ہے تونے۔لڑکے اپنے کام پر ہی اچھے لگتے ہیں۔اچھا ہوا جو دیر سے آیا تو۔جان چھٹی تیری۔اس دلدل میں پھنس کر تونے کیا لینا تھا۔خواہ مخواہ۔اُس کے تو لچھن ہی ایسے ہیں۔“
" ایلی اُس کی بات سُن کر چونکا۔نہ جانے کیا کہہ رہی تھی۔ایلی نے اُس کی بےمعنی باتوں سے مخلصی پانے کے لئے بات کا رخ بدلا۔
" تو تو خیریت سے ہے نا ماں۔“
" اللہ تیرا بھلا کرے بیٹا میرا----------“
" اچھا تو کل ملوں گا ماں۔“ یہ کہہ کر وہ چل دیا۔
لیکن وہ رہ رہ کر اس کی بات یاد آرہی تھی کس کے لچھن کی بات کر رہی تھی وہ اور دیر سے آنے کا کون سا فائدہ جتا رہی تھی ۔اُسے کچھ سمجھ میں نہ آیا۔

آگئے مہاراج۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
رابعہ کا چوبارہ مقفل تھا۔شہزاد کو حیرت میں ڈالنے کے لئے وہ دبے پاؤں اوپر چڑھنے لگا---------- اوپر پہنچ کر وہ رک گیا اور چوبارے کا جائزہ لینے لگا۔اندر شہزاد چوکی پر بیٹھی تھی۔اُس کے قریب ہی صفدر اکڑوں بیٹھا تھا۔صفدر نے اپنی آنکھیں شہزاد پر گاڑ رکھی تھی۔اُس کے چہرے پر عجیب سا تبسّم تھا۔
ایلی یہ منظر دیکھ کر گھبرا گیا۔اُس نے محسوس کیا جیسے زینہ بیٹھتا جا رہا ہو اور وہ گِرا جا رہا ہو۔اُس نے بصد مشکل اپنے آپ کو سنبھالا اور پھر آخری سیڑھی پر چڑھ کر روشنی میں آ کھڑا ہوا۔
ایلی کو دیکھ کر صفدر گھبرا گیا اور فوراً سرک کر پیچھے ہوگیا۔ایک ساعت کے لئے شہزاد کی آنکھوں میں تذبذب لہرایا --------------- پھر وہ سنبھل کر بولی۔
" آگئے مہاراج ۔“ اُس کی آواز میں خوشی کا عنصر نہ تھا۔
" جی ۔ آگئے۔“ وہ بولا غالباً اُس کی آواز میں دھار تھی۔
" تو آجاؤ۔“ وہ ہنسی۔
کتنی خشک تھی وہ ہنسی ۔!
ایلی سوٹ کیس اُٹھائے فرحت کے گھر کی طرف نکل گیا۔
فرحت اور امّاں سے باتیں کرتے ہوئے وہ مسلسل شہزاد کے چوبارے کی طرف دیکھتا رہا کہ وہ کب آ کر اُسے لے جائے۔“
" چل تجھے کریلے کھلاؤں۔لو کب سے ادھر چائے بنی پڑی ہے چلو چائے تو پی لو پہلے۔“
لیکن اس روز شہزاد فرحت کی طرف نہ آئی ۔البتہ اُس کے آنے کے چند منٹ بعد صفدر جھومتا ہوا آیا اور رسمی طور پر ایلی کی مزاج پُرسی کرتا ہوا اپنے مکان کی طرف چلا گیا۔
یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔اور پھر اُس کا یوں شہزاد کے اس قدر قریب بیٹھنا اور آنکھوں میں وہ تبسّم اور پھر ایلی کو دیکھ کر گھبرا کر پیچھے ہٹنا--------------یہ سب باتیں بڑی عجیب تھیں۔پھر شہزاد کا وہ روکھا لہجہ اور خشک رویہ۔یہ سب کیا تھا۔ایلی سوچ رہا تھا۔نہ جانے اس کا کیا مطلب ہے۔
اُس کی نگاہوں تلے ماں نتھی آ گئی۔" اے اچھا کیا جو تو دیر سے آیا۔“ اچھا کیا تیری جان چھٹی اُس کے تو لچھن ہی ایسے ہیں۔“
دفعتاً ماں نتھی کی بے ربط باتیں معانی سے بھر گئیں۔اُن میں مفہوم پیدا ہوگیا۔خطرناک،ڈراؤنا مفہوم ۔ایلی بری طرح لڑکھڑا رہا تھا۔وہ محسوس کر رہا تھا جیسے زلزلہ آگیا ہو۔درودیوار گھوم رہے تھے جھول رہے تھے۔چاروں طرف سے اندھیرا یورش کر رہا تھا۔وہ دیوانہ وار اُٹھا۔اُس کا جی چاہتا تھا کے شہزاد کے چوبارے میں جا گھسے اور باآواز بلند کہے۔
" اچھا کیا جو میں دیر سے علی پور آیا۔میری جان چھوٹ گئی۔“
اور پھر وہ واپس آکر آرام سے سو جائے۔

رت آئے رت جائے۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
ساری رات وہ کانٹوں پر پڑا رہا۔اُس کے ذہن میں عجیب و غریب منظر آ رہے تھے۔
اب وہ کھڑکیوں میں کھڑے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہیں۔اُن کے مکانات کی کھڑکیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں ناں۔صفدر نے اپنی آنکھیں شہزاد کی آنکھوں میں ڈال رکھی ہیں۔وہ مسکرا رہا ہے۔شہزاد اُسے اشارے کر رہی ہے۔ابھی نہیں ذرا ٹھہر جاؤ۔بچّے جاگ رہے ہیں۔
پھر اُسے خیال آتا کہ اب وہ چپ چاپ کھڑکی سے پھلانگ کر شہزاد کے چوبارے میں آرہا ہے اب وہ دبے پاؤں اُس کی چارپائی کی طرف بڑھ رہا ہے۔اب اُس نے شہزاد کو جگایا۔شہزاد نے آنکھیں کھول دیں اور اور --------------- اس خیال پر ایلی تڑپ اُٹھتا۔آگ کا ایک شعلہ نہ جانے کہاں سے اُٹھتا اور اُس کے تن بدن کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔
ایلی دیوانہ وار اُٹھتا ۔جی چاہتا کہ دیوانہ وار شہزاد کے چوبارے کی طرف اٹھ بھاگے اور اُن دونوں کے سرہانے کھڑا ہو جائے اور جب شہزاد اُس کی طرف دیکھے تو اس کے منہ پر تھوک دے اور واپس آجائے۔دو ایک مرتبہ یہ دیوانگی اس شدّت سے مسلّط ہوئی کہ وہ واقعی اُدھر جانے کے لئے تیار ہوگیا ۔پھر اُسے خیال آیا اگر وہ اکھٹے نہ ہوئے تو۔اگر شہزاد اکیلی ہوئی تو۔یہ ڈر اُس کے لئے سوہانِ روح ہوگیا اور وہ دعائیں مانگنے لگا۔یا اللہ وہ اکھٹّے ہوں۔وہ کھڑکی پھلانگ کر آچکا ہو۔
صبح سویرے حسبِ معمول شہزاد آگئی مگر اُس کے انداز میں نہ وہ شوخی تھی نہ رنگینی ۔اس نے ایک نظر ایلی پر ڈالی اور پھر فرحت سے مخاطب ہوکر نہ جانے کیا کہنے لگی۔اندر سے ہاجرہ نکلی۔
" اے ہے۔“ وہ بولی۔" ایلی آیا ہوا ہے ۔تجھے معلوم نہیں کیا۔تو کل رات بھی نہیں آئی۔“
" اب اسے آنے کی فرصت کہاں ۔“ فرحت نے طنزا ً کہا ۔" وہ دن گئے امّاں۔رت رت کی بات ہے۔“
"یہ بھی ٹھیک ہے۔“ شہزاد ہنسی۔" دن تو بدلتے ہی رہتے ہیں۔دنیا کا یہی دستور ہے میں نے کہا چلو میں بھی چار روز کے لئے خوشی منالوں تو کیا حرج ہے ------------ “
" توبہ ہے تم سے کون بات کرے۔“ فرحت بولی۔
" اے ہے ایلی سے بات نہ کرے گی ۔تو ناراض ہے کیا ؟“ ہاجرہ نے پوچھا۔
" ناراض تو نہیں۔“ وہ بولی۔" لیکن ڈر آتا ہے۔“
" کیوں۔؟“
" مزاج چڑھے ہوئے ہیں کوئی بے ادبی ہوگئی تو پٹ جاؤں گی۔“شہزاد نے کہا۔
" تجھے بھی کوئی پیٹ سکتا ہے کیا؟“ فرحت نے طنزاً پوچھا۔
" میں ہی تو پٹتی ہوں“۔وہ بولی۔" وہی پٹتے ہیں نا جنہوں نے کشتی دریا میں ڈال رکھی ہو۔تم کنارے پر بیٹھنے والیاں کیا جانو۔“
" تو پھر کیوں ڈال رکھی ہے سمندر میں۔“ فرحت بولی۔
" تھپیڑوں کا مزہ آتا ہے۔“ شہزاد ہنسنے لگی۔
" تو پھر روتی کیوں ہو؟“
" رو رہی ہوں کیا ؟“ وہ قہقہہ مار کر ہنسی۔
" تم خواہ مخواہ جھگڑتی ہو۔“ ہاجرہ بولی۔" چھوڑو اب۔“
" آ چائے پی لے۔“ فرحت نے شہزاد سے کہا۔
" پلا دے۔“ شہزاد نے جواب دیا۔" ہمارے ہاں کوئی پینے نہ آئے تو پھر ہمیں ہی پینے کے لئے آنا ہوگا۔کیوں مہاراج۔“ وہ ایلی کی طرف مخاطب ہوئی۔" ہم درشن کرنے کے لئے آئے ہیں۔“
ایلی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔
" دکشنا دو نا۔“ فرحت ہنسنے لگی۔
" دیں گے۔“ شہزاد بولی۔" دیوتا بات تو کریں۔“
" یہ دیوتا پتھر کا نہیں بنا۔“
" ہم کب کہتے ہیں۔“ وہ ہنسی۔
" کہتی نہیں سمجھتی ہو۔“ ایلی نے روکھے انداز سے جواب دیا۔
"اونہوں۔“ شہزاد بولی۔" ابھی نہیں۔ابھی مہاراج غصّے میں ہیں۔ابھی دال نہیں گلے گی۔“
" ہاں ہاں۔“ ایلی بولا۔" ابھی چولہے پر چڑھائے رکھو۔“
" ایلی سے جیتے تو جانیں۔“ فرحت بولی۔" ہمیں کو لاجواب کرنا آتا ہے تمہیں۔“
" گرو مہاراج سے کیسے جیتوں۔“وہ بولی۔
عین اُس وقت جانو آ گئی۔
" ہئے ایلی آیا ہے۔کب آیا تو۔اب کی بار تو تیری شکل ہی نہیں دیکھی۔“ پھر وہ شہزاد سے مخاطب ہوکر کہنے لگی۔" وہ آیا ہے۔تیرا صفدر ادھر بیٹھا انتظار کر رہا ہے۔کہتا ہے سنار کے ہاں جا رہا ہوں۔بندے ٹھیک کرانے ہیں تو دیدے۔“
" ہئے میں تو بھول ہی گئی۔“ شہزاد چلائی۔" میں ذرا بتا آؤں اُسے۔“ اور پھر ایلی کی طرف دیکھے بغیر ہی بھاگ گئی۔
ایلی نے محسوس کیا جیسے صفدر کی آمد کی بات سنتے ہی شہزاد کا رنگ ہی بدل گیا ہو۔نہ جانے یہ ایلی کا وہم تھا یا حقیقت پر مبنی تھا کہ صفدر کی خبر سن کر شہزاد کی آنکھوں میں وہی مسکراہٹ لہرائی تھی جو کبھی اس کی آمد پر لہرایا کرتی تھی۔
چائے پینے کے بعد ایلی باہر جانے کے لئے تیار ہوگیا۔
کہاں جائے گا تو۔“ ہاجرہ نے پوچھا۔
باہر جا رہا ہوں لوگوں سے ملنے کے لئے۔“
لوگوں سے ملنے کے لئے۔“ فرحت نے معنی خیز انداز سے کہا۔آج لوگوں کا ملنا یاد آگیا تجھے۔“
میں نے کہا۔ہاجرہ بولی۔تو کیا شہزاد سے ناراض ہو۔؟“
نہیں تو“ وہ بولا۔
تو ادھر گیا کیوں نہیں۔“
جاؤں گا۔“
اماں“ فرحت بولی۔تو بھی حد کرتی ہے خواہ مخواہ۔“
نہیں بیٹی۔ ہاجرہ بولی۔نہ کسی سے اتنا میٹھا ہونا چاہیئے اور نہ اتنا کڑوا۔جا کر مل لے اُس سے ورنہ لوگ کیا کہیں گے۔“
مجھے لوگوں کی پرواہ نہیں اماں۔“ایلی بولا۔
دیکھو نا ایلی۔“ فرحت بولی ۔اب تو تعلیم سے فارغ ہوگیا ہے اب تجھے یہاں نہیں رہنا چاہیئے۔پھر اُسی جھنجھٹ میں پھنس جائے گا۔اب تو تجھے کسی نہ کسی نوکری پر چلے جانا چاہیئے۔
ابھی تو نتیجہ نہیں نکلا۔ابھی سے نوکری کہاں ملے گی۔ایلی اُسے گھورنے لگا۔
ابّا نے ہمیں لکھا ہے کہ فوراً اُسے بھیج دو۔نتیجہ نکلنے سے پہلے ہی نوکری مل سکتی ہے۔فرحت نے جواب دیا۔“
ہاں بیٹا۔ہاجرہ بولی۔اب تو وقت ضائع نہ کرنا۔اتنے سال ضائع کر چکا ہے اس طرح تو تیری زندگی کبھی نہیں سنورے گی۔تباہ رہے گی ساتھ ہماری بھی۔
ایلی خاموش ہوگیا۔
تو کیا میری بات مان لے گا۔ہاجرہ نے پوچھا ،دیکھ میں اک تیری امید کے آسرے پر جی رہی ہوں۔ہاجرہ کی آنکھ میں آنسو ڈبڈبا آئے۔
چلا جاؤں گا اماں، ایلی نے کہا۔
دو ایک دن میں نا۔“ فرحت بولی۔
ہاں ! وہ بولا۔دو ایک دن میں۔“
اور اگر شہزاد سے صلح ہو گئی پھر بھی۔فرحت نے چمک کر کہا۔
اے ہے تو چھوڑو۔خواہ مخواہ ایسی بات کرتی ہے۔ہاجرہ بولی،اور دیکھ شہزاد سے ہنستے ہنستے جدا ہونا غصّے میں نہیں۔کیا فائدہ ہے۔“؟
اُس بےچاری نے تیرا کیا بگاڑا ہے۔الٹا اس نے تو ہم سے بہت ہی اچھا سلوک کیا ہے۔ہاجرہ نے کہا۔“
ہوں ۔“ ایلی بولا اور چل پڑا۔

اجنبی عورت۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
سیڑھیوں کے قریب پہنچ کر دفعتاً اُس نے باہر جانے کا ارادہ بدل دیا اور شہزاد کے گھر کی طرف چل پڑا وہ سوچ رہا تھا شائد یہ میرا وہم ہے ناحق اُس پر شک کر رہا ہوں۔شائد کوئی بات ہی نہ ہو۔
اسے وہ دن یاد آگیا۔جب سنٹر ٹریننگ کالج میں جانےسے پہلے وہ رابعہ کے چوبارے میں شہزاد سے ملا تھا ۔شہزاد اُس کے روبرو آ کھڑی ہویئ۔
تم سمجھتے ہو۔“ اُس نے کہا۔کہ میں تمہاری طرف اس لئے بڑھی تھی کہ مجھے ہوس پوری کرنا تھی ۔الٹا میں نے تو ہوس پوری کرنے کے سب راستے بند کر دیئے ہیں۔میں نے اپنے خاوند سے بگاڑ کر لیا۔میں اُس کے ساتھ نہیں جاتی۔یہاں میں کس لئے بیٹھی ہوں۔کس لئے کس اُمید پر۔
ایلی گھبرا گیا۔اُسے کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔یقینناً اُس کا وہم تھا۔ناحق اُس پر شک کر رہا تھا ۔جب وہ شہزاد کے کمرے میں پہنچا تو وہ چپ چاپ بیٹھی مشین پر کام کر رہی تھی۔
یہ دیکھ کون آیا ہے۔“ جانو چلّائی۔
شہزاد چپ چاپ کام کئے گئی۔
میں نے کہا ایلی آیا ہے۔جانو بولی۔
آیا ہے تو ٹھیک ہے۔“ وہ بولی۔میں کیا جانتی نہیں کہ آیا ہے۔
ایلی کو دھچکا سا لگا۔
چائے نہیں پلائے گی کیا۔“ ایلی نے دل کڑا کر کے کہا۔
کیوں نہیں۔“ وہ ویسے ہی کام میں مصروف بولی۔جا جانو چائے لے آ۔لگا دے اُس میز پر۔
یہ انتہا تھی۔ایلی کا جی چاہا کہ اُٹھ کر چلا جائے لیکن وہ ضبط کئے بیٹھا رہا۔جانو چائے لانے کے لئے نیچے چلی گئی تو اُس نے شہزاد پر نگاہیں گاڑ دیں لیکن وہ اس قدر مصروف تھی کہ اُس نے آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا۔
یہ صفدر یہاں کب سے آتا ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔
جب میں بلاتی ہوں آتا ہے۔“ اُس نے روکھے انداز سے جواب دیا۔
دن میں کئے بار بلاتی ہو۔“
جتنی بار دل چاہے۔“ وہ بولی۔
بہت دل چاہتا ہے تمہارا۔“ ایلی نے نفرت سے پوچھا۔
اپنا اپنا دل ہے۔“ وہ بولی۔مجھ پر کون بندش ڈال سکتا ہے۔“
ایلی حیرت سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔کیا یہ وہی شہزاد تھی جو ابھی ابھی فرحت کے پاس بیٹھے ہوئے اُسے دیوتا کہہ رہی تھی۔
شہزاد کیا تمہیں معلوم ہے۔“ ایلی نے کہا۔کہ وہ ایک اوباش آدمی ہے۔شرابی ہے اور اُسے کسی کی عزّت کا خیال نہیں۔“
جس کی عزّت ہو وہ سوچے یہ باتیں۔مجھے ان سے کیا۔اُس نے جلے کٹے انداز سے جواب دیا۔
ایلی اُٹھ بیٹھا اور شہزاد کی طرف بڑھنے لگا۔
نہ مہربانی کرو۔“ وہ ہاتھ جوڑ کر طنزاً بولی۔مجھے آرام سے جینے بھی دو گے یا نہیں۔
لیکن تم نہیں سمجھتی۔“ وہ چلّایا۔
میں سمجھنا نہیں چاہتی ۔مجھے کوئی نہ سمجھائے۔
تو کیا یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے۔“ایلی نے پوچھا۔
مجھ سے یہ سوال پوچھنے کا کسی کو حق نہیں۔“ وہ اُٹھ کر کھڑی ہو گئی۔اُس کی آنکھوں سے نفرت کے شرارے نکل رہے تھے۔
شہزاد یہ تم کہہ رہی ہو۔“ وہ چلّایا ۔
وہ خاموش رہی۔
میں کیا پوچھ رہا ہوں۔“؟
میں کیا مجرم ہوں کہ جواب دیتی پھروں۔“
وہ چپ چاپ پھر سے کرسی پر بیٹھ گیا اور وہ مشین چلانے لگی۔دیر تک وہ دونوں چپ چاپ بیٹھے رہے۔
کچھ دیر بعد جانو کی نیچے سے آواز آئی۔
یہ آگیا صفدر۔“ وہ بولی۔
اچھا میں آئی۔“ یہ کہہ کر وہ قلانچیں بھرتی ہوئی سیڑھیاں اُترنے لگیں۔
ایلی چپ چاپ اُٹھا اور نہ جانے کدھر کو چل پڑا۔اُس کے حواس معطل ہو چکے تھے۔اُسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔دماغ میں ایک بھیانک خلا پھیل رہا تھا۔اس وقت نہ اسے غم تھا نہ غصّہ۔اُس کا ذہن ایک سادہ ورق میں تبدیل ہوچکا تھا۔اس کے ارد گرد چاروں طرف لامحدود وسعتیں پھیل گئی تھیں۔اور ان میں ایلی گویا کھو گیا تھا۔وہ بوجھل اور بھیانک خلا یوں جھول رہا تھا جیسے سمندر ہو۔اُس میں لہریں اُٹھ رہی تھیں اور ایلی کی ناؤ جھول رہی تھی۔بہہ رہی تھی۔بہے جا رہی تھی۔نہ بادبان تھے نہ چپّو ۔نہ کوئی راستہ نہ منزل۔
سارا دن نہ جانے وہ کہاں کہاں مارا پھرتا رہا۔محلّے والے اُسے دیکھ کر رک جاتے۔
ایلی ہے۔کب آیا تو ۔ارے۔“وہ چلاتے ۔یہ تجھے کیا ہوا ہے۔اپنی شکل کی طرف تو دیکھ۔بیمار ہے کیا۔“؟
پہلے تو اُس نے یہ بات سن کر تعجب کا اظہار کیا ۔پھر اُس نے کہنا شروع کردیا۔ہاں بیمار ہوں۔“
کیا بیماری ہے۔؟ وہ پوچھتے۔
بخار آتا رہا ہے۔“وہ جواب دیتا۔
لوگوں کو ایسے سوال کرتے دیکھ کر اُس نے اپنا پروگرام بدل دیا۔اُس کا ارادہ تھا کسی کے پاس جا بیٹھے لوگوں سے ملے۔رضا تو امرتسر جا چکا تھا۔چلو ہمدم کی طرف ہی سہی یا بھا اور جاہ کے گھر چلا جائے۔لیکن یہ محسوس کرکے کہ اُس کا چہرہ ضبط کے باوجود بھیانک دکھائی دے رہا ہے۔وہ باہر قبرستان کی طرف چلا گیا اور نہ جانے کہاں کہاں مارا پھرتا رہا۔
وہ سوچ رہا تھا میں کیا کروں؟کیا کروں میں ؟
شہزاد وہ شہزاد نہیں تھی۔کہاں وہ ہنستی کھیلتی مسکراتی ہوئی شہزاد اور کہاں یہ عورت۔ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ایک اجنبی عورت ہو جسے ایلی نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو۔ہنستی تو وہ تھی مگر اس کی وہ ہنسی کسی اور کے لئے مخصوص ہو چکی تھی اور پھر صفدر کے لئے۔ایلی کے دل میں ٹیس سی اُٹھتی۔اگر شہزاد ویسے ہی ٹھکرا دیتی تو اُسے تکلیف نہ ہوتی۔کسی ایسے کے لئے ٹھکراتی جو کسی حیثیت کا مالک ہوتا ۔جس کی کوئی شخصیت ہوتی۔کچھ بھی ہوتا لیکن صفدر ایک خود غرض شرابی۔یہ سوچ کر اُس کا دل ڈوب جاتا۔
اس وقت اُس کی نگاہوں کے سامنے صفدر ابھرتا۔اُس کی انکھوں میں تحقیر بھری مسکراہٹ جھلکتی اور وہ ایلی کی طرف دیکھتا۔
میں نے تو کہا تھا بانٹ کر کھائیں کتنی منتیں کی تھیں کہ ہمیں بھی اس دہلیز پر بیٹھنے کی اجازت دو۔“ وہ قہقہہ لگاتا۔لیکن تم کب سنتے تھے۔“ ----------- پھر وہ ایڑیاں اُٹھا کر گانے لگتا۔حافظ خدا تمہارا۔“ --------- اور یوں اشارے کرتا جیسے کہہ رہا ہو۔اب چھٹی کرو بھائی۔“ ----------- پھر وہ شہزاد کی طرف متوجہ ہوتا اور دوسرا مصرعہ اُسے مخاطب کرکے کہتا ۔“ اے دلربا،ہوں میں فدا۔“
گھر پہنچ کر ایلی کو سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرے۔بہرحال ایک بات واضح تھی اُس کا علی پور میں رہنا ناممکن ہو چکا تھا۔اُسے جانا ہی ہوگا۔اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔لیکن وہ چاہتا تھا کہ یوں نہ جائے۔شائد کسی روز شہزاد کہے۔تم خود مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔وہ سبھی کچھ برداشت کر سکتا تھا لیکن یہ الزام برداشت نہیں کرسکتا تھا کہ اُس نے شہزاد سے بےوفائی کی۔
وہ چاہتا تھا کہ جانے سے پہلے ثابت کردے کہ شہزاد بے وفائی کر رہی ہے لیکن اس کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا ۔بات تو واضح تھی ۔شہزاد کی ہر حرکت سے ظاہر ہوتا تھا کہ اُسکی تمام تر توجہ صفدر پر مرکوز ہو چکی ہے اور اب وہ ایلی کو محض ایک رکاوٹ سمجھ رہی ہے ۔لیکن وہ چاہتا تھا کہ ڈرامائی انداز سے اُس وقت اُن کے سر پر جا کھڑا ہو جب وہ ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کر رہے ہوں تاکہ وہ شہزاد کی بے وفائی اور اپنی مظلومیت کی دھاک بٹھا دے اور پھر ایک سچے عاشق کی طرح ان کے راستے سے ہٹ جائے اور باقی ساری زندگی اُس بےوفا محبوبہ کی یاد میں رو رو کر بسر کردے۔
رات تک وہ فیصلہ کر چکا تھا۔
رَت جگا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
فیصلہ کرنے کے بعد وہ مطمئن ہوگیا۔اُسے یقین تھا کہ رات کے وقت وہ دونوں ضرور ملتے ہونگے صفدر اپنی کھڑکی سے پھلانگ کر شہزاد کے چوبارے میں آ جاتا ہوگا۔شہزاد اکیلی ہی تو تھی۔اُس کی ماں بیگم کہیں گئی ہوئی تھی۔جانو گھر کا کام ختم کرنے کے بعد اپنے گھر چلی جایا کرتی تھی۔صرف شہزاد اور اُس کی چار بچیاں چوبارہ میں رہ جاتی تھیں۔پھر رکاوٹ کونسی تھی۔وہ ضرور ملتے ہونگے ضرور۔
بارہ بجے تک وہ چپ چاپ پڑا رہا ۔اس نے بہانا بنایا جیسے سو رہا ہو۔پھر وہ چپ چاپ اٹھا اور دبے پاؤں شہزاد کے چوبارے کی طرف چل پڑا ۔وہ اس دروازے میں جا کھڑا ہوا جو شہزاد کے کوٹھے پر کھلتا تھا اور حالات کا جائزہ لینے لگا۔شہزاد کی بچیاں باہر صحن میں سوئی ہوئی تھیں اور وہ خود اندر کھڑکی میں کھڑی غالباً صفدر سے باتیں کر رہی تھی ۔اُسے یوں مصروف دیکھ کر وہ دبے پاؤں اندر داخل ہوا اور رابعہ کے خالی چوبارے میں جا کر چھپ گیا۔
وہاں کھڑا ہوکر وہ شہزاد کی طرف دیکھتا رہا۔وہ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی ۔اُسے اُن کی گفتگو کے متعلق کچھ علم نہ ہوسکا چونکہ وہ اُن سے کافی دور تھا لیکن اُن کے قہقہے ایلی کو سنائی دے رہے تھے ۔وہ کتنی خوش نظر آ رہی تھی۔
پھر دفعتاً اُس نے ہنسنا موقوف کردیا اور وہ زیرِ لب باتیں کرنے لگے۔ضرور وہ ملنے کی تفصیلات طے کر رہے تھے۔
تقریباً آدھ گھنٹے بعد شہزاد چلّائی ۔
ہئے۔آدھی رات ہوچکی ہے اب مجھے نیند آتی ہے۔“ یہ کہہ کر اُس نے آخری قہقہہ لگایا اور پھر باہر چارپائی پر آکر لیٹ گئی۔
دیر تک ایلی وہاں کھڑا رہا۔پھر وہ بیٹھ گیا۔
محلے پر سکوت طاری تھا ۔تمام آوازیں بند ہوچکی تھیں البتہ احاطہ میں چمگاڈڑیں چیخ رہی تھیں جو اس سکوت کو اور بھی بھیانک بنا رہی تھیں۔احاطے میں گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔شہزاد کے کوٹھے پر بھی خاصا اندھیرا تھا ۔اندر چوبارے میں ایک چھوٹا سا دیا جل رہا تھا جس کی مدّھم روشنی صحن کے ایک حصّے پر پڑ رہی تھی۔
اگر صفدر نے آنا تھا تو شہزاد نے دیا کیوں جلا رکھا تھا ۔وہ سوچنے لگا -------- شائد اس لئے کہ کھڑکی پھلانگ کر آنے میں اسے دقت نہ ہو ۔وہ کھڑکی پر نگاہیں جمائے سوچتا رہا ۔مسجد کی گھڑی نے دو بجا دیئے اور وہ چونکا۔دو بج گئے۔
پھر وہ دبے پاؤں نکلا اور شہزاد کے سرہانے آ کھڑا ہوا۔وہ بازو سر تلے رکھے بے خبر سو رہی تھی جیسے کہ اُس کی عادت ھی۔ایلی کا دل چاہا کہ اُسے جگا دے اور پھر اُس کے پاؤں پر سر رکھ کر رو دے لیکن اُسے شہزاد کے قہقہے یاد آگئے۔اُسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ایلی دکھی ہے ۔دکھی نہ سہی چلو ناراض ہی سہی اور وہ جان بوجھ کر صفدر کے ساتھ قہقہے لگا رہی تھی۔اور پھر جب وہ اس وقت اس کے پاس آیا تھا تو کس بے اعتنائی سے اُس نے کہا تھا جانو اِسے چائے پلا دے۔جیسے کسی بھکاری کو بھیک دی جاتی ہے۔
چند منٹ وہاں رک کر وہ شہزاد کے چوبارے میں داخل ہوگیا۔
وہاں وہ صندوقوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا۔بہت رات بیت چکی اب تو شائد صفدر نہیں آئے گا۔اسے اس بات پر دکھ ہو رہا تھا اس وقت اس کی سب سے بڑی خوشی اس بات پر منحصر تھی کہ صفدر کھڑکی پھلانگ کر آجائے۔آکر شہزاد کو جگائے اور شہزاد اُس کے گلے میں باہیں ڈال دے پھر ایلی چپکے سے باہر نکلے اور اُن کے روبرو آکر کہے۔
آداب عرض ہے محترمہ۔“
اور پھر چپ چاپ اپنے گھر آجائے اور اگلے روز صبح سویرے ہی ہمیشہ کے لئے علی پور کو خیر باد کہہ دے گھڑی نے تین بجا دئیے ۔اب اُسے یقین ہو گیا کہ اُس کی آرزو پوری نہ ہوسکے گی ۔شائد وہ اس لئے نہیں مل رہے تھے کہ ایلی وہیں تھا اور شہزاد کو ڈر تھا کہ کہیں بھانڈا پھوٹ جائے ------- پھر وہ اعلانیہ قہقہے کیوں مارتی تھی --------- ایلی کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
بہر صورت کوئی ثبوت تو ہونا چاہیئے ۔شائد شہزاد کے ٹرنک میں صفدر کے محبت نامے ہوں۔صفدر نے ضرور خط لکھے ہوں گے۔جیسے وہ خود شہزاد کو لکھا کرتا تھا۔
اُس نے شہزاد کا صندوق کھول کر اُس کی ہر چیز باہر نکال کر دیکھی لیکن اس میں کوئی خط نہ تھا البتہ اُس میں‌کئی ایک ایسی بیکار چیزیں پڑی تھیں جو کسی زمانے میں ایلی نے اُسے دی تھیں مثلاً ایلی نے ایک مرتبہ شہزاد کو ایک کھلونا دیا تھا ۔سیاہ لکڑی کو بنا ہوا ایک جاپانی کبڑا ۔اور ایلی نے یہ کُبڑا دیتے ہوئے اُس سے کہا تھا۔
جانتی ہو یہ کون ہے۔؟ یہ تمہارے میاں ہیں ۔“ دیکھ لو پہچان لو ۔“
اور شہزاد نے قہقہہ لگایا تھا۔
پھر وہ تسبیح تھی جو اندھیرے میں روشن دکھائی دیتی تھی۔اُس کے علاوہ ٹرنک میں شہزاد نے اپنی پرانی پھٹی ہوئی دو بنیانیں سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں۔
جب بھی ایلی شہزاد سے ملتا تو وہ تقاضا کیا کرتا کہ شہزاد اُسے اپنی پرانی میلی بنیان دے دے ۔ایلی کو شہزاد کے جسم کی بو سے بہت محبت تھی۔وہ اُس کی پہنی ہوئی میلی بنیان پہن کر بے حد مسرت محسوس کیا کرتا تھا کہتا تھا یہ بنیان پہن کر میں محسوس کرتا ہوں جیسے تم مجھ سے بغل گیر ہو ۔اسی لیئے شہزاد اپنی پرانی بنیانیں سنبھال کر رکھا کرتی تھی کہ ایلی آئے تو اُسے تحفتاً دے۔
ایلی ان سب چیزوں کو غورسے دیکھ رہا تھا۔اُسے ان چیزوں کو دیکھ کر دکھ ہورہا تھا۔
مایوس ہوکر اُس نے صندوق بند کردیا۔
دفعتاً اُس کی نگاہ لیٹر پیڈ پر پڑی ۔ہائیں۔اُس نے سوچا،لیٹر پیڈ۔شہزاد نے تو کبھی لیٹر پیڈ استعمال نہیں کیا۔جب بھی اُسے خط لکھنا ہوتا تھا تو وہ اپنی بچیوں کی اسکول کی کاپی سے ورق پھاڑ لیا کرتی تھی۔پھر یہ پیڈ۔
اس نے پیڈ کو اُٹھا لیا۔اچھا خاصا خوبصورت پیڈ تھا۔ابھی نیا ہی تو تھا۔صرف چند ایک ورق ہی پھاڑے گئے تھے۔
ارے ------------- وہ پیڈ اُٹھا کر دیئے کے پاس جا بیٹھا۔اوپر کے ورق پر الفاظ کھدے ہوئے نظر آرہے تھے جیسے کسی نے پینسل سے کسی ورق پر کچھ لکھا ہو اور نچلے ورق پر دباؤ کی وجہ سے نشانات پڑ گئے ہون۔
اُس نے پیڈ کا اوپر کا ورق پھاڑ لیا اور اُسے دیکھنے لگا لیکن روشنی کافی نہیں تھی اس لئے وہ کچھ پڑھ نہ سکا بہرحال الفاظ واضح طور پر موجود تھے۔
اُس نے وہ کاغذ اُٹھایا اور دبے پاؤں چپ چاپ گھر واپس آگیا۔
حافظ خدا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
گھر آ کر بھی وہ سو نہ سکا۔وہ چاہتا تھا کہ جلد صبح ہو اور وہ کاغذ روشنی میں پڑھ سکے۔پیڈ کے اس کاغذ پر سرنامے کی جگہ واضح طور پر صفدر لکھا ہوا تھا اور اختتام پر شہزاد۔ایلی نے ہر ممکن طریقے سے کوشش کی کے اسے نفس مضمون کے متعلق کچھ علم ہو جائے لیکن وہ نقوش بے حد مدّھم تھے اور ان سے کوئی اندازہ نہ لگ سکتا تھا۔
سارا دن وہ اس خط کو پڑھنے کی ترکیبیں سوچتا رہا ۔اُس نے خورد بین مہیا کی۔آئینہ استعمال کیا۔اس کاغذ کی فوٹو لی اور آخرش اس پر سیاہی ملی تاکہ دباؤ سے بنے ہوئے الفاظ کی سفیدی واضح ہوجائے لیکن اُس کی کوئی ترکیب کامیاب نہ ہوئی۔
اُس پر دفعتاً اسے غصّہ آ گیا میں‌ بھی کمینہ ہوں وہ سوچنے لگا۔جو ثبوت مہیا کر رہا ہوں کیا شہزاد کی ہر حرکت ایک واضح ثبوت نہیں ہے۔کیا اُس کا برتاؤ واضح ثبوت نہیں ہے۔تو پھر ثبوت کیوں۔یہ سوچ کر اُس نے اماں کو بلایا۔
اماں۔“ وہ بولا۔اماں۔ میں خان پور جا رہا ہوں۔
اچھا۔“ ہاجرہ کی باچھیں کِھل گئیں۔کب؟
آج رات کی گاڑی سے۔“
آج۔وہ گھبرا گئی۔اے ہئے دو چار دن تو رہ لے۔“
اماں تم بھی حد کرتی ہو۔اگر وہ خوشی سے جاتا ہے تو روکو نہیں۔فرحت بولی۔
تو خوشی سے جا رہا ہے ایلی؟ ہاجرہ نے پوچھا۔
تو کیا مجبوری سے جا رہا ہوں۔ایلی نے جواب دیا۔
تو شہزاد سے ناراض ہوکر تو نہیں جا رہا؟“ ہاجرہ بولی۔
واہ اماں۔“ فرحت چلّائی۔
ہئے کوئی بری بات کر رہی ہوں کیا ؟“ ہاجرہ نے معصوم انداز سے کہا۔
تو بھی بڑی بھولی ہے اماں۔
مجھے نہیں آتیں ٹیڑھی باتیں۔“ ہاجرہ نے کہا۔ہئے کسی سے ناراض ہوکر کیوں جدا ہو کوئی۔“
تو پھر ان دونوں کو منادے۔“ فرحت ہنسنے لگی۔
ہاں ہاں۔ہاجرہ بولی۔اس میں کیا ہرج ہے۔
تو اس کی باتیں نہ سن ماں۔“ ایلی نے کہا۔
مجھے نہیں سمجھ میں آتیں یہ باتیں ۔میرا دل تو صاف ہے۔ہاجرہ بولہ۔“
کچھ زیادہ ہی صاف ہے ماں۔“ فرحت ہنسی۔
چل میرے ساتھ شہزاد کی طرف۔“ ماں نے فرحت کی بات پر غور کئے بغیر کہا۔
نہیں اماں چھوڑ اس بات کو۔“ ایلی گھبرا کر بولا۔
ایلی رخصت ہونے لگا تو جانو نے شور مچا دیا۔
کچھ خبر ہے یا اپنی ہی دھن میں غرق رہو گی۔“وہ شہزاد سے کہنے لگی جو اس وقت صفدر سے باتوں میں مصروف تھی۔
کیا ہے۔“؟ شہزاد بولی۔
ایلی خان پور جا رہا ہے۔“
شہزاد نے قہقہہ لگایا۔تو پھر۔“؟
اے میں کہتی ہوں واقعی وہ جا رہا ہے۔“جانو چلّائی ۔
شہزاد پھر ہنسی۔تو کیا کروں۔“؟وہ بولی۔کیا گھوڑا گاڑی جوت کر لاؤں۔“
ہئے کیا باتیں کر رہی ہے تو۔ابھی کل تو ------- ۔“ جانو رک گئی۔
بہت منا دیکھا میں نے۔“ شہزاد نے کہا۔اب نہیں ۔“
ایلی نے سنا۔اس کے دل پر کسی نے گویا جلتی ہوئی میخ گاڑ دی۔
محلے کے چوگان میں محلے والیوں نے ایلی کو روک لیا۔
کون جا رہا ہے ماں۔؟ ایک کھڑکی میں آ کھڑی ہوئی۔
اپنا ایلی ہے۔“ ماں نے کہا۔
جا رہا ہے۔علی پور چھوڑ کر جا رہا ہے۔“ دوسری بولی۔
ہئے شہزاد کی کھڑکی خالی ہے۔“ ایک نے طعنہ دیا۔
وہ اُدھر دوسری کھڑکی میں کھڑی ہے نا۔اس لئے۔“
ہئے کتنی کھڑکیاں کھلتی ہیں اُس کے چوبارے میں۔“
بارہ دری ہے ماں۔“ وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑی۔
ایک دن جانا ہی پڑتا ہے بیٹا۔“ ماں بولی۔چلو اچھا ہی ہوا تو بھی کام کاج پر لگے گا۔“
ایلی کا سر جھک گیا۔اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اُن سب نے گوبر کی ٹوکری اُس کے سر پر گِرا دی ہو۔شرمساری اور ذلّت سے لت پت وہ چل پڑا ۔اُس کے قدم بوجھل ہو رہے تھے۔گردن کا منکا گویا ٹوٹ گیا تھا۔سامنے ایک خلا تھا۔ایک دھندلکا تاریکی جو منہ کھولے بیٹھی تھی۔دور صفدر کا گراموفون چلّا رہا تھا۔
حافظ خدا تمہارا۔اے دلربا ہوں میں فدا۔

بن باسی۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
خانپور جاتے ہوئے ایلی کے دل میں غم بوند بوند گِر رہا تھا لیکن دراصل اس غم کی حیثیت ثانوی تھی۔اسے شہزاد سے جدائی کا غم نہ تھا۔شہزاد کی محبت کھو دینے کا صدمہ نہ تھا بلکہ احساسِ ندامت اور شکست کی وجہ سے اُس کا دل چور چور تھا۔
ایلی جذبہء عشق اور احساسِ غم سے بیگانہ تھا۔اگر وہ عشق یا غم سے محروم نہ ہوتا تو یہ واقعہ اس کے کردار میں ایسی گہرائی پیدا کرتا جو اپنی نوعیت میں تعمیری ہوتی۔اُس کے برعکس وہ محسوس کررہا تھا کہ دیوتا پتھر کے ٹکڑے کی طرح ٹھکرا دیا گیا۔اور اب وہ دیوتا نہیں محض ایک پتھر ہے جو لوگوں کی ٹھوکروں میں پڑا ہے۔آج تک اُس کی تمام تر اہمیت کا انحصار شہزاد کی توجہ کا مرکز ہونے کی وجہ سےتھا ------ اب وہ کسی کی توجہ کا مرکز نہ تھا۔
گاڑی فرّاٹے بھرتی ہوئی جا رہی تھی۔گاڑی کی چھکا چھک کی آواز اُسے یوں سُنائی دے رہی تھی جیسے شہزاد اور صفدر قہقہے مار کر ہنس رہے ہوں۔سبھی اس پر ہنس رہے تھے۔
آخر ایک نہ ایک دن جانا ہی پڑتا ہے۔“ ماں نتّھی مسکرا رہی تھی۔ایسے اعمال کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔“ چچا صمد چلّا رہا تھا۔
بہن اُس کے چوبارے میں تو کھڑکیاں ہی کھڑکیاں ہیں ۔بارہ دری ہے۔“
جارہا ہے تو میں کیا کروں۔؟ شہزاد ہنس رہی تھی۔
حافظ خدا تمہارا ۔“ صفدر قہقہے مار رہا تھا۔
اور جب وہ خانپور پہنچے گا تو علی احمد ہنسیں گے۔
[/align:97f0f00ef5]
 

حجاب

محفلین
[align=right:94680b5d94]لو بھئی نصیر احمد کی ماں۔“ ایلی آ گیا۔آخر آ ہی گیا۔ہی ہی ہی ہی بھئی بڑی ہمت سے کام کیا ہے ایلی نے سنتی ہو نصیر کی ماں۔کارنامہ دکھایا ہے ہی ہی ہی ہی۔وہاں سے چلے آنا کوئی آسان بات تھی کیا ؟ -------------- اونہوں۔ لیکن تمہیں کیا معلوم تم کیا جانو۔“
اُن کی آنکھ میں چمک لہرائے گی اور پھر وہ جھک کر راجو کے کان میں کہیں گے:۔
تمہیں کیا پتہ مرد کی مجبوریاں۔تم خود مجبوری ہو ہی ہی ہی۔“
ایلی کو خانپور جانے سے ڈر آتا تھا۔علی احمد کے روبرو جانے سے ڈر آتا تھا۔اگرچہ علی احمد نے واضح الفاظ میں ایلی کو کبھی شہزاد کا طعنہ نہیں دیا تھا۔لیکن ان کی ہنسی میں وہ ہمیشہ دھار محسوس کرتا تھا۔اُن کی خصوصی ہنسی ایلی کے لئے کند چھری کی حیثیت رکھتی تھی۔شائد اسی وجہ سے راستے میں وہ ایک روز کے لئے لاہور رک گیا۔
پنکچر۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
لاہور ٹھہرنے کے لئے کوئی جگہ نہ تھی اس لئے وہ سیدھا دہلی مسلم ہوٹل چلا گیا اور کمرے میں سامان رکھ کر وہ چارپائی پر ڈھیر ہوگیا۔
وہ محسوس کر رہا تھا جیسے پہلی مرتبہ گھر سے باہر نکلا ہو جیسے پہلی مرتبہ ایک بچّہ انگلی کا سہارا لئے بغیر چلنے کی کوشش کر رہا ہو۔
اگلے روز وہ لاہور میں گھومتا رہا یوں جیسے ایک بیگانہ شہر ہو۔
سنٹرل ٹریننگ کالج ویران پڑا تھا۔ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے ایک اجنبی مقام پر ہو۔اسے یقین نہیں آتا تھا کہ ابھی چند روز پہلے وہ اسی بورڈنگ میں رہتا تھا۔وہ چھ لڑکیاں وہ شام۔جی۔کے لاجونتی سب اُس کے ذہن میں دھندلا چکے تھے جیسے انہیں کبھی خواب میں دیکھا ہو۔
شام کے وقت جب وہ انارکلی میں گھوم رہا تھا تو دفعتاً کسی نے آکر اُس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔
ارے تم۔“؟کوئی چلّایا۔
شام۔“ ایلی کی چیخ نکل گئی ۔تم یہاں ہو؟“
ہم اب کہیں جانے کے قابل نہیں رہے۔بس اب تو یہیں اپنا مقبرہ بنے گا۔“ شام مسکرا رہا تھا۔
کیوں۔“؟
بس سگ ناقہ لیلیٰ ۔“ شام ہنسا۔وہ میرے لئے یہیں رک جائے تو پھر میں کہیں جا سکتا ہوں کیا۔“؟
رک گئی ہے؟“ ایلی بولا۔
ہاں ۔اُس نے یہاں نوکری کر لی ہے۔“
اور تم۔‘؟
میں نے لاء کالج جوائن کر لیا ہے۔کالج کا تو بہانہ ہی ہے۔شام نے آنکھ ماری۔“ مطلب ہے جہاں فیڈنگ وہاں گلیکسو بےبی۔“
شام کو ایلی اپنے نئے بورڈنگ میں لے گیا۔لیکن کمرے میں پہنچتے ہی جب اُس نے روشنی میں ایلی کی طرف دیکھا تو چلّانے لگا۔“
ارے تم۔تمہیں کیا ہوا؟“
مجھے۔“ ایلی نے جھوٹ موٹ دہرایا۔“ کیوں مجھے کیا ہے؟“
دایہ سے پیٹ چھپاتے ہو۔“ شام چلّیا۔
تمہیں کیا دکھائی دیتا ہے؟“ ایلی نے پوچھا۔
شام کی آنکھ میں چمک لہرائی۔
بتاؤں؟“ وہ بولا۔
ہاں بتاؤ۔“
ٹھس س س س س۔“ وہ چلّایا۔پنکچر۔“
پنکچر۔“ ایلی نے بناوٹی حیرت سے دہرایا۔
وہ پنکچر ہوا ہے کہ ساری ہوا نکل گئی ہے --------- کیوں اب بولتے نہیں۔“ شام چلّایا۔
بولو نا۔“
سچ کہتے ہو۔“ ایلی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
ارے۔“ شام اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر گھبرا گیا۔
سب ختم ہو گیا۔“ ایلی بولا۔وہ تخت و تاج و شہنشاہی سب۔صرف میں باقی رہ گیا ہوں۔اور شائد میں بھی ختم ہو جاؤں۔“
زہر ------- شام نے بات کو مذاق میں ٹالنے کے لئے کہا۔ابھی تک میرے ٹرنک میں پڑی ہے اور الیاس،بھگوان کی سوگند بس ساری عمر ٹرنک میں‌ پڑی رہے گی۔نہ مجھ میں کھانے کی ہمت ہوئی نہ تم میں ہوگی۔“ وہ ہنسنے لگا۔
نہیں شام۔“ ایلی بولا۔ساری زندگی چوپٹ ہوگئی ۔بساط ہی الٹ گئی۔اب جینا بےکار ہے۔
اس کے باوجود جئے جاؤ گے بیٹا۔آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔زندگی پٹ سے چِت ہو جائے گی۔بساط پھر قائم ہو جائے گی۔غم نہ کھاؤ۔“
غم تو اب لگ گیا ہے۔“ ایلی بولا۔
ایک بات پوچھوں۔؟ شام نے کہا۔
ایلی نے اثبات میں اشارہ کیا۔
اُس نے بےوفائی کی ،بس یہی بات ہے نا؟“
ہاں۔“ ایلی بولا۔پہلے تخت پر بٹھایا۔پھر مورچھل کرتی رہی اور پھر دھکّا دے کر وہاں سے گرا دیا۔“
بس تم سمجھ لو رشی منی بن گئے تمہارا کلیان ہوگیا۔“
کیوں۔“؟
جس نے کامیابی دیکھی ۔تخت پر بٹھایا گیا۔مورچھل کروایا۔وہ مکمل نہیں ہوتا جب تک اسے عروج پر سے گرایا نہ جائے۔سمجھ لو تمہارا کلیان ہوگیا۔آؤ تمہیں بیئر پلاؤں۔“وہ چلّانے لگا ۔لاجواب چیز ہے پنکچر لگ جائے گا۔پھر سے تخت پر بٹھا دے گی،مورچھل کرے گی۔آؤ یار،اب اپنا آپ سنبھالو۔“شام کہنے لگا۔جوتیاں کھانا تو اپنا پرانا پیشہ ہے۔تم تو یوں شکل بنائے ہوئے ہو جیسے پہلی بار جوتا کھایا ہو۔ہمت کرو۔“
مجھے نصیحتیں کرتا ہے بے سالے۔“ ایلی جلال میں آ گیا۔
کر لینے دو۔کر لینے دو۔شام چلّایا۔“ تمہارا کیا بگڑتا ہے۔میری نصیحتوں سے تم نے کونسا اثر لیا ہے۔لیکن اپنی بات بن رہی ہے۔کر لینے دو نصیحتیں مجھے ۔“
کیوں؟۔“ ایلی نے پوچھا۔
یار ایلی۔“ شام بولا۔ساری عمر بیت گئی ہے ہمیشہ مجھے ہی پنکچر ہوتا رہا۔ہمیشہ لوگ مجھے ہی نصیحتیں کرتے رہے ۔ بھگوان جانے یہ پہلا موقع ہے جب میں تمہیں نصیحت کر سکتا ہوں۔دل چھوٹا نہ کرو۔“
بائے بائے۔“ ہوٹل میں پہنچ کر شام چلّایا۔“ چار بوتل۔اچھی سی لانا۔وہ ہنسا۔تیز سی جو تخت پر بٹھائے اور مورچھل کرے۔
خانپور پہنچتے ہی سب سے پہلے اسے جمیل مل گیا۔جب ایلی پلیٹ فارم پر قلی ڈھونڈ رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ بریک کے قریب جمیل کھڑا ہے۔
ارے تم۔“ وہ حیرت سے جمیل کی طرف دیکھنے لگا۔
جمیل مسکرا رہا تھا۔
میں تو یہیں ملازم ہوں، ابھی ٹھہرو اکٹھے چلیں گے ۔“
خانپور کے اس صحرائے اعظم میں جمیل ایلی کے لئے واحد نخلستان تھا۔اگرچہ ایلی کو جمیل سے حجاب سا محسوس ہو رہا تھا۔چونکہ جمیل صفدر کا چھوٹا بھائی تھا اس لئے وہ جمیل پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ اُس کی زندگی میں‌کیا المیہ واقع ہوا ہے۔
آج تک ایلی نے شہزاد کو راز بنائے رکھا تھا۔اُس نے شہزاد کے متعلق اپنے کسی دوست سے بات نہ کی تھی۔لیکن اب اس عظیم شکست کے بعد اُس کا جی چاہتا تھا کہ وہ ہر کسی کو رو رو کر اپنی کتھا سنائے اور راہ چلتوں کو بتائے کہ اس نے ایلی سے کیا سلوک کیا ہے ۔ہر ملنے والے کو خبردار کرے کہ کبھی کسی عورت پر بھروسہ نہ کرے کبھی اس کی محبت پر اپنی خوشی کا انحصار نہ رکھنا۔لیکن یہ بات جمیل سے نہیں‌ کر سکتا تھا۔صفدر کے چھوٹے بھائی سے یہ بات کرنا یہ اُسے گوارا نہ تھا۔
محفل۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
علی احمد کے گھر میں کئی ایک تبدیلیاں ہو چکی تھیں۔
مثلاً اُن کی تیسری بیوی شمیم جو کشمیر کے سیب کھا کھا کر پلی تھی۔اور علی احمد کے گزشتہ بیان کے مطابق بذاتِ خود ایک سیب تھی اب قطعی طور پر اپنی شخصیت کھو چکی تھی۔کشمیر کا یہ سیب اب گل سڑ گیا تھا۔صرف یہی نہین وہ اس حد تک اعترافِ شکست کر چکی تھی کہ اب اُس میں یہ احساس ہی نہیں رہا تھا کہ وہ عورت ہے۔غالباً نا اُمیدی اور مایوسی کی شدّت کی وجہ سے اُس نے اپنا آپ مسخ کرلیا تھا۔ازخود۔
علی احمد کی چوتھی بیوی راجو، جو کسی زمانے میں دوراہے کی رانی تھی اب چار دیواری سے گھرے ہوئے گھر کی خاتون بن کر رہ گئی تھی۔
نہ تو اُس کی نگاہوں میں شوخی تھی نہ انداز میں نمائش اور نہ چال میں مٹک جو نگاہوں کو دعوت دیتی ہے۔اُس کی یہ تبدیلی حیرت انگیز تھی۔لیکن اُس سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ ٹین کا سپاہی ابھی تک اُس قلعے کی تسخیر میں جوں کا توں منہمک تھا۔اُس کے علاوہ علی احمد کے گھر میں اب استانیوں کی آمد و رفت اب قطعی طور پر ختم ہوچکی تھی۔ممکن ہے علی احمد نے خود ہی اس رسم کو توڑ دیا ہو یا شائد اس کی وجہ راجو کا رویّہ ہو۔بہرحال علی احمد کا گھر اب ایک گھر تھا۔گھر میں علی احمد تھے ۔شمیم اور اُس کی دو بیٹیاں۔ناظمہ اور انجم، اور راجو کے دو بیٹے شیر علی جو اُس کے پہلے شوہر سے تھا اور نصیر جو علی احمد سے تھا۔
وہاں پہنچ کر دو ایک روز تو ایلی کھویا کھویا رہا۔پھر محض اتفاق سے اُس کی توجہ کتاب پر مرکوز ہوگئی اور وہ شہزاد کو بھولنے کے لئے ------- اپنے کھوئے ہوئے تخت و تاج کو بھولنے کے لئے کتاب میں کھو گیا۔
سارا دن وہ کتابیں پڑھنے میں مصروف رہتا اور جب مطالعہ سے اکتا جاتا یا جب سادی اور شہزاد کتاب کے صفحات سے جھانک کر مسکراتیں ،اشارہ کرتیں تو وہ کتاب پھینک کر جمیل کی طرف چلا جاتا۔اور جمیل فارغ ہوتا تو وہ اسے اپنے دوستوں کی محفل میں لے جاتا جہاں وہ تاش کھیلتے،گپیں ہانکتے اور حالاتِ حاضرہ پر بحث کرتے۔
جمیل کے ساتھی تو بہت تھے لیکن ان میں‌صرف دو ایسے تھے جنہوں نے ایلی کو اپنی طرف متوجہ کیا۔نقی اور راز۔
نقی ادھیڑ عمر کا دبلا پتلا آدمی تھا، اُس کا چہرہ پچکا ہوا تھا،جسم مخنی تھا ۔آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں۔ناک اس حد تک ابھری ہوئی تھی کہ سوائے ناک کے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔لیکن اُس کی باتیں بے حد دلچسپ تھیں۔اُن میں رنگینی یا مزاح کی جھلک نہ تھی۔اس کے برعکس اُن میں گہرائی ہوتی اور نقی کو یہ احساس نہ ہوتا کہ وہ کوئی اچھنبھے کی بات کر رہا ہے یا اس کی شخصیت میں انوکھا پن ہے۔وہ یوں بات کرتا جیسے عام سی بات کر رہا ہو۔اور جب لوگ اُس کی بات پر چونکتے تو وہ گہری سوچ میں پڑ جاتا۔
ہاں یار۔“ وہ سنجیدگی سے کہتا۔مجھے احساس نہ تھا کہ میں اتنی با معنی بات کر رہا ہوں ۔میں تو ویسے ہی بن سوچے سمجھے برسبیل تذکرہ کچھ کہنے کے لئے بات کر رہا تھا۔“
مثلاً اگر وہ دفعتاً خاموش ہوجاتا تو جمیل پوچھتا۔
کیوں نقی ! تم کس سوچ میں پڑے ہو ؟۔“
نقی چونکتا۔کیا میں واقعی سوچ میں پڑا تھا۔“
ہاں ہاں ۔“ راز چٹکی بجا کر گنگناتا۔کس سوچ میں بیٹھا ہوں آخر مجھے کیا کرنا۔“
اس پر نقی چیختا ۔یار اس کا اگلا مصرعہ کیا ہے۔؟“
راز اپنے آپ پر کیفیت طاری کر کے ،آنکھوں میں مستی پیدا کرکے دوسرا مصرع گاتا۔
دلبر کا کہا کرنا یا دل کا کہا کرنا۔“
انہوں۔ نقی چلّاتا ۔بات نہیں بنی۔کش مکش کا سوال ہی پیدا نہیں‌ ہوتا۔بھئی دلبر کا کہا کرنا ۔اور کیا ؟“
تم نے یہ تو بتایا ہی نہیں‌ کہ کیا سوچ رہے تھے۔“ جمیل اُسے چھیڑتا۔
ٹھہرو۔نقی چیختا۔ ایک سیکنڈ -------- ہاں ٹھیک ٹھیک میں‌سوچ رہا تھا واقعی ۔ٹھیک سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی مجھ میں‌اس قدر ضبط ہے کہ دو دن بیوی کو پیٹے بغیر رہ سکوں۔نقی اس قدر معصومیت سے کہتا جیسے بیوی کو پیٹنا خاوند کے لئے نارمل بات ہو بلکہ اس کا فرض ہو۔
یا راہ چلتے ہوئے دفعتاً نقی رک جاتا۔یار ! عجیب بات ہے۔وہ گویا اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتا۔ہے نا عجیب بات۔“
کیا بات ہے۔؟“ ایلی پوچھتا۔
یار حد ہوگئی۔نقی سر جھکائے ہوئے سنجیدگی سے کہتا۔یہ جو نانک شاہی اینٹوں کی بنی ہوئی حویلی ہے نا یہ سامنے میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اس حویلی سے پورے طور پر واقف ہوں اور اس کا ایک ایک کمرہ اور دالان جانتا ہوں۔حالانکہ میں کبھی اس کے اندر داخل نہیں ہوا۔بلکہ اس سے پہلے میں نے اسے باہر سے بھی کبھی نہیں دیکھا۔اس راستے سے کبھی آیا ہی نہیں میں۔ ہے نا عجیب بات۔“ یہ کہہ کر نقی آنکھیں بند کر لیتا اور پھر کہتا۔داخل ہوتے ہی ڈیوڑھی ہے۔دو دروازے ہیں۔بایاں دروازہ ایک کمرے میں کھلتا ہے ۔اس سے ملحقہ ایک دالان ہے۔دالان میں ہرن کے سینگ دیوار پر لگے ہوئے ہیں۔“
ارے ۔ راز چلّاتا ۔اب ختم بھی کرو گے یہ رام کہانی۔ جانتے ہو تم حویلی کو تو پھر کیا ہوا؟“ چھوڑ اب ۔“
نہیں یار۔ وہ چلّاتا۔ایسا کیوں ہے۔وہ ضدّی بچّے کی طرح اڑ جاتا۔
اس پر جمیل قہقہہ مارتا ۔ بتاؤ یار کوئی اسے کہ ایسا کیوں ہے ورنہ یہ اڑ کر یہیں کھڑا رہے گا عمر بھر۔“
ارے یار چھوڑو اب اس قصّے کو۔راز چلّاتا۔سنو تمہیں‌ شعر سناؤں ۔اور وہ اپنے مخصوص انداز سے گنگنانے لگتا۔
تلخ گھونٹ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
نقی کے مشاغل بے حد دلچسپ تھے۔وہ حقّہ پیتا تھا۔چائے کا شوقین تھا۔بحث میں بڑے شوق سے حصّہ لیتا تھا۔شطرنج اور تاش کھیلتا تھا۔شعر کہتا تھا اور فرصت کے اوقات میں کپڑے پر سوئی تاگے سے رنگین چڑیاں کاڑھتا تھا اور ہر رات بیگم کو پیٹتا تھا۔
راز کو گانے کا شوق تھا۔جب وہ گاتا تو اس کی آنکھوں میں عجب مستی چھلکتی۔برج کھیلنے کا شوقین تھا بشرطیکہ سٹیکس سے کھیلا جائے اور شوق کے باوجود ہارنے لگتا تو دفعتاً یا تو اُسے کام یاد آ جاتا اور یا ویسے ہی کھیلنا چھوڑ دیتا۔اُس کی باتیں رنگین ہوتی تھیں ۔اپنے والد صاحب کے متعلق قصّے سنانے کا خبط تھا جو بنگال کی طرف کسی علاقے میں بڑے عہدے پر معمور تھے۔
جمیل ایک خاموش لڑکا تھا لیکن اس کا دل جذبات اور ذہن خیالات سے بھرا ہوا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کرے ۔لیکن جہاں تک بات کرنے کا تعلق تھا اُس پر ایک حجاب مسلّط تھا۔اس حجاب کی وجہ سے اس کی طبعی جولانی گھٹ کر رہ گئی تھی۔غالباً اس کی وجہ احساسِ کمتری کی شدّت تھی۔وہ ملنسار تھا لیکن اس کی یہ عادت گونگے پن کی وجہ سے اذیت میں بدل چکی تھی۔پھر ایک روز اسے اتفاق سے اس اذیت سے نکلنے کا ایک راستہ مل گیا اور اُسے علم ہو گیا کہ شراب کے چند گھونٹ پینے سے وہ اپنے گونگے پن کو دور کر سکتا ہے اور سوسائٹی میں ایسے ہی چہک سکتا ہے جیسے راز چہکا کرتا تھا ۔غالباً اس سے پہلے اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اس کا دل اور ذہن جذبات و خیالات سے بھرے ہیں ۔اس روز اسے اپنے خیالات و جذبات اپنی زبان سے سن کر حیرت ہوئی اور اسے یقین ہوگیا کہ اس نے چھپے ہوئے خزانے کی کنجی پالی ہے۔
نقی کو شراب سے خاص دلچسپی نہ تھی چونکہ اُس کی شخصیت ہی میں مستی کا عنصر تھا ۔راز کے لئے شراب محض ایک پھلجھڑی کی حیثیت رکھتی تھی جس سے کھیلنا اسے پسند تھا لیکن اس پھلجھڑی کی حیثیت محض تفریحی تھی۔وہ اپنے شخصیت کے اظہار کے لئے اس کا محتاج نہیں تھا ۔ایلی کے لئے شراب کا اثر خاصہ تکلیف دہ ہوتا تھا پی کر اُسے وہ دن یاد آ جاتا جب وہ اور منصر ہوٹل میں بیٹھے تھے۔جب منصر نے چلّا کر کہا تھا۔“ بیرا دو بڑے۔“
اور ایلی کو یہ فکر دامن گیر ہو گیا تھا کہ شراب پلانے سے منصر کا مقصد صرف یہ ہے کہ ترنگ میں آکر ایلی سادی کے اس رومان کا راز کہہ دے اور ایلی نے عزم کرلیا تھا کہ چاہے وہ نشے میں دھت کیوں نہ ہو جائے وہ منصر کو حقیقتِ حال سے آگاہ نہیں کرے گا اور یہ سوچ کر وہ پتھر بن گیا تھا۔اس کے بعد جب کبھی اسے شراب پینے پر مجبور کیا جاتا تو اس پر وہی کیفیت طاری ہو جاتی۔وہ محسوس کرتا جیسے اس کے ساتھی منصر ہوں اور اس کا راز پا لینے کے لئے زبردستی پلا رہے ہوں۔

ایلی نے ذہنی طور پر اپنے آپ کو کئی بار سمجھایا تھا کہ یہ خیال غلط ہے وہاں کوئی منصر نہیں۔پینے سے مقصد صرف تفریح ہے لیکن سب بےکار ۔گلاس ہونٹوں سے لگاتے ہی خواہ مخواہ وہی کیفیت طاری ہوجاتی۔شائد اُسے ڈر تھا کہ کہیں شہزاد کی بات نہ چھیڑ دے۔بہرحال شراب ہمیشہ کے لئے اُس پر حرام ہو چکی تھی۔اُس کے لئے وہ گھونٹ تلخ بن جاتا۔جس کے بعد اس پر جمود طاری ہوجاتا۔جسم منوں بوجھل ہو جاتا۔سر چکراتا۔
ایلی کے لئے جمیل، نقی اور راز کی محفلیں یوں تھیں جیسے کسی طوفان زدہ ڈولتی ہوئی کشتی کے لئے کنارہ ہو۔وہ چاہتا تھا کہ ہر وقت اسی محفل میں بیٹھا رہے لیکن جب وہ وہاں پہنچتا تو نہ جانے کس اصول کے تحت اسے اپنی گزشتہ تباہی پھر سے یاد آجاتی اور وہ محفل میں بیٹھ کر پھر سے اپنے آپ میں کھو جاتا۔کنارے پر پہنچ کر پھر سے طوفان بیتنا شروع کر دیتا۔
ایلی نے اپنا راز جمیل سے نہ کہا لیکن جمیل کے طرزِ عمل سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ سب جانتا ہو سمجھتا ہو اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ خود جمیل نے کبھی شہزاد کی بات نہ کی چھیڑی تھی۔جمیل نے ایلی کو کبھی نہ جتایا تھا کہ وہ دکھی ہے ۔شائد اس لئے کہ اسے مزید دکھ نہ ہو۔جمیل نے ایلی کی آمد پر اس کی کیفیت بھانپ کر خاموش ،بے لاگ ہمدردی کی گود پھیلا دی تھی اور شائد اس گود نے ایلی کو تباہ ہونے سے بچا لیا تھا۔
ایلی کی آمد پر جمیل کی تمام توجہ ایلی پر مرکوز ہو گئی۔وہ اس کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال رکھتا تھا۔اپنی گونگی مٹھاس سے اس کی تلخی اور اضطراب کو دور کرتا اور ہر وقت اس کے ساتھ رہتا۔اس پر جمیل کی بیوی جو طبعاً خاوند کو جذب کرلینے کی قائل تھی۔بگڑ گئی۔نتیجہ یہ ہوا کہ جمیل کے گھر میں مشکلات پیدا ہوگئیں۔
گھر میں اُسے کتابوں میں منہمک دیکھ کر علی احمد ہنستے۔
دیکھو نا نصیر کی ماں ! ہمارا ایلی بھی عجیب شئے ہے ۔جب پڑھنے کے دن تھے تب سنیما دیکھتا رہا اور اب جب پڑھنے کے دن ختم ہو چکے ہیں تو کتابوں کا کیڑا بنا ہوا ہے۔ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسے --------- کیوں ایلی۔؟ “
اب اللہ رکھے جوان ہو گیا ہے ۔“ راجو کہتی۔اب اس کی شادی کی فکر کیجئے نا۔“
یہ کسی کی شادی کی فکر کیوں کرنے لگے۔“ شمیم بولتی۔یہ تو اپنی ہی تانک جھانک میں لگے رہتے ہیں۔“
لو نصیر کی ماں۔“ وہ ہنستے۔اسی کے لئے تانک جھانک کرتا ہوں ۔تم سمجھتی ہو اپنے لئے کرتا ہوں۔لاحول ولا قوۃ ۔“ وہ چلّاتے۔
وہیں کیوں نہیں کر دیتے جہاں وہ چاہتا ہے۔“ راجو بولتی۔
وہاں کیسے کر سکتے ہیں۔“ علی احمد جواب دیتے۔
کیوں نہیں کر سکتے۔؟“
وہ لوگ تو بہت بڑے ہیں اس لئے۔“
پھر کیا ہوا؟۔“ شمیم بولتی۔
میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔“ راجو ہنستی۔
بھئی تمہارے ہی بھلے کی سوچتا ہوں ۔“ علی احمد منہ پکا کر لیتے۔
ہمارے بھلے کی ،وہ کیسے؟۔“
بھئی۔“ علی احمد جواب دیتے ۔اگر وہاں ایلی کا بیاہ کردوں تو کیا وہ تمہاری قدر کریں گے نصیر کی ماں ! تمہیں دیکھ کر ناک بھوں چڑھائیں گے۔کہیں گے یہ کیا چیز ہے نہ شکل نہ صورت نہ منہ نہ ماتھا نہ تہذیب نہ تعلیم۔یہ کیا چیز ہے۔ہی ہی ہی ہی۔وہ ہنستے۔لو بھئی شمیم تم ہی۔
[/align:94680b5d94]
 
Top