علی پور کا اہلی (1236 - 1238)

عمر دراز

محفلین
( صفحہ نمبر 1236)
جو داستان کی بنیادی چیز ہوگا پورے طور سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ ہاجرہ کو وہ ہیرئن اور صفیہ کو وہ ولن سمجھتا ہے اور علی احمد کے ہر حکم پرچلنےکوتیارہے۔ علی احمد اس سے محبت کرتے ہیں جواس بات سے ظاہر ہوتی ہےکہ کھانا کھاتے وقت گوشت کی بوٹی اسے دو انگلیوں سے اٹھا کردیتے ہیں۔ یہ محبت بڑے خاص قسم کی گوشت کی بوٹی دوانگلیوں سے اٹھاکردیتے ہیں۔ یہ محبت بڑے خاص قسم کی گوشت کی بوٹی دوانگلیوں سے اٹھا کر دیناایساپیارہےجوثابت کرتاہےکہ علی احمد کا خاص رحجان تواپنےکام کی طرف ہے یا پھرعورتوں سےتعلق پیدا کرنے میں ہے مگروہ ایلٰی کی طرف باپ کے فرائض اور باپ کی محبت کے تقاضےپورے کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ بہر حال ابتدا ایک فوکس ہے جس میں ساری ناول دکھائی دے گئی ہے اور اس سے علی پور کی طرف گریز اور اسکا مناسب بیان نہایت قدرتی ہے۔ اس کا آصفی محلہ ایک چھوٹی سی دلکش دنیا ہے اور اس کے بادشاہ اورملکہ علی احمد اور صفیہ کے نقوش اور بھی گہرےکر کے سامنے لائے جاتے ہیں۔ فرحت بھی دبے پاوں اس گھر میں آجاتی ہے۔ صفیہ اور حاجرہ کے آپس میں تعلقات انوکھا انتقام اور نرالاامتحان کے واقعات کے ذریعہ روشن ہو جاتےہیں۔ پہلا باب “گردوپیش۔“ اسی طرح مکمل ہو جاتا ہے۔ ہر باب کی ایک سرخی ہے اور اس کے ہرحصہ کی ماتحت سرخی ہے جو مارجن میں چھپی نظر آتی ہے۔ ظاہرہ یہ تاثرہوتا ہے ناول کی قاشیں اور اس پر چھوٹی قاشیں کر دی گئی ہیں‘ مگر یہ سب قدرتی اور منطقی تسلسل سے جڑی ہوئی ہیں۔ سرخیوں پر سرخیوں کا استعمال وضاحت میں اور دھیان لگا رہنے میں خاص مدد کرتا ہے۔ کتاب ایک ڈھیر ہے اور معمولی ڈھیر بھی نہیں ‌بلکہ بڑے سائزکے قریب بارہ سو صفحوں کا چوڑا اور اونچا ڈھیر ہے۔ اک پہاڑی کہئے مگر اس پر جانے کا راستہ چکر کا سہی مگر صاف ہے۔ ہر چوٹی اور موڑ پر نشان کے تختے لگے ہوئےہیں اور سفر کرنے والے کی راہنمائی کرتے ہیں اور ہر ہر گوشے کی نوعیت کا علم بہم پہنچاتے ہیں۔ “علی پور کا ایلی۔“ قدرتی طور پر ایک بے شکل پہاڑی ہے مگر مفتی صاحب نے پورے شعور کے ساتھ اور فنکارانہ اُپچ اور جدت کے ساتھ اس پر چلنے والے کے لئے ہر ہر قدم پر دلچسپ راہبر کے فرائض ادا کئے ہیں۔ بے خیالی میں یہ مان لینا ممکن ہے ناول کا کوئی اسٹرکچر نہیں ہے مگر غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک بے ہنگم ڈھیر کو ناول نگار نے نہایت درجنوں چھوٹے حروف میں لکھی ہوئی سرخیاں ایک عظیم ڈھیر کو جو قدرت کا بنایا ہوا ہے انسان کے ذہن نشین کرانے اور مواد کو ایک فارم دینے میں خاص طور پر ممد ثابت ہوتی ہیں۔ اس لئے یہ کہنا
(صفحہ نمبر 1237)
بالکل غلط ہوگا کہ ناول کا کوئی خاص فارم نہیں ہے۔ ناول زندگی کی طرح بے ہئیت ہے مگراس پر مصنف نے ایک فارم عائد ضرور کیا ہے۔ یہ عام طور سے جو فارم ناولوں میں نظر آتے ہیں ان سے مختلف ہی نہیں‌بلکہ ان کا متضاد ہے مگر غور کرنے والوں پر روشن ہو جاتا ہے کہ بالکل نئی چیز ضرور ہے اور مفتی صاحب کاشعور داد کے قابل ہے کہ انہوں نے فارم کوبھی خوبی سے چھپایا ہے یامواد بھی وہ اسی خوبی سے چھپ گیا ہے کہ ناول نگاری میں ایک بالکل نئی اور اچھوتی ہئیت کا اضافہ ہوتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس ہئیت کو قدم بقدم طے کرنا ایسا طول عمل ہوگاکہ تنقید بھی کتاب کے برابر ضخیم ہو جائے گی۔ ہر چھوٹی سرخی ایک دلچسپ واقعہ سامنے لاتی ہے اور بڑی سر خی ان کا ایک مستقل ترتیب میں آجانا پہچانا ہوا کردار کوئی نئی چھب دکھاتا ہے۔ تفصیل سے ہٹ کر ہم دیکھتے ہیں تو علی احمد، ایلی اور کچھ آگے چل کر شہزاد کے قصبے پلاٹوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ علی احمد کے معاشقوں کا پلاٹ اس طرح آتا ہی کہ ناول کا وہ ناول کا مرکزی پلاٹ ہوجاتا ہے۔ مگر اصل پلاٹ ایلی کی سرگزشت کا ہے۔ یہ ناول کو علی پور سے باہر لے جاتا ہے۔ لاہور اور امرتسر کے واقعات اس میں شامل کرتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب دا وہ علاقہ جو علی پور کو مرکز مان کر اور امرتسر کو حد مان کر دائر ے مین بلا یا جا سکتا ہے۔ ناول کا ماحول ہے۔ ایلی دلی اور بمبئ کی بھی خبر لیتا ہے مگر جہاں بھی جاےیہ ماحول اس کے ساتھ ہے اور ساتھ نہیں تو اس کے دل اور اس کے کردار میں رچابسا ہے۔ پنجاب اور اس کا وہ مخصوصہ حصہ جسے علی پور کہتے ہیں۔ ایک واقعاتی مگر نئی اور عجیب کائنات کی طرح پوری ناول پر حاوی رہتا ہے۔ اور مختلف بلکہ گو ناگوں قصوں اور کردار کوایک اتحاد میں لاتا ہے۔ اس طرح اس وسیع پیمانے پر پھیلے ہوے مواد میں ایک تخیُل اتحاد صاف طور پر موجود نظر آتا ہے۔ ناول کی سرخی “علی پور کا ایلی۔“ نہایت سادہ۔ نہایت سیدھی۔ سپاٹ اور اردو میں سرخی دینے کی رسم کو دیکھتے ہوئےنہایت درجہ بلکہ ممکن حد تک بے مزا ہے مگر یہ انگریزی اور یوروپی ناولوں کی سرخیوں سے بالکل ہم آہنگ ہے۔
اور ان کی طرح بغیر کسی دکھاوے کے اول مواد کے ہر ہر جزو میں پروئی ہوئی نظر آتی ہے۔
(صفحہ نمبر 1238)
اتحاد کا تاثر اسی سے شروع ہوتا ہے اور سارا مواد اس سے ابل کر نکلتاہوا اور تمام میں پھیلتا ہوا نظر آتا ہے۔ ایلی جو بنیادی طور پر علی پور ہی کا ہے ایک طرف علی احمد سے متعلق ہے اور ان کی تمام دلچسپیوں میں‌ایک مبصر کی طرح شریک ہے پھر اس کی اپنی بھی دلچسپیاں اور مصروفیات ہیں۔ اسے تعلیم حاصل کرنا ہے اور ملازمت پر آنا ہے۔ اور اس سلسلے میں وہ واقعات کا منفرد مرکز نظر آتا ہے۔ اس کا خاندانی گھر ہے اور اس میں اس کے عزیز کی بیوی اور اپنے سے کافی بڑی چھ بچوں والی شہزاد سے ہو جاتی ہے۔ شہزاد بھی اپنی جگہ پر بڑی دلکش اور زندہ دل عورت ہے اور ایلی کے اس عشق کا قصہ ناول کا سب سے زیادہ دلچسپ پلاٹ ہو جاتا ہے۔ کسی پراسرار اصول کے ماتحت ناول کو عشقیہ قصہ ہی مانا جاتا ہے اور عام ناول میں روایتی عشق کے واردات اور ایک معشوق کے لئے دوعاشقوں میں کشمکش سے ہی سارے قصے کی تعمیر ہوتی ہے۔ ممتاز مفتی کو جیسے کسی روایتی امر سے کوئی تعلق نہیں ہے ویسے روایتی عشق بازی بھی ان کے دائرے سے خارج ہے۔ ایلی اور شہزاد کے عشق میں ایک ہر بات حد سے زیادہ حقیقی ہے مگر ہم اسے بجا اور پر خلوص عشق ضرور کہیں گے۔ یہ عشق نا ممکن بھی کہا جا سکتا ہے۔ اور لوگوں کی نظروں میں بہت زیادہ مضحک بھی ہو سکتا ہے مگر اس کی واقعیت میں ایسا زور اور ایسی عظمت ہے کہ ہم اس کے مظاہرے پر ایک عجیب تخیلی دنیا مین کھو جاے ہیں اور آخر میں اسی کو ناول کا حاصل اور ممتاز مفتی کا اہم ترین تجربہ مان لیتے ہیں۔ اس قصہ کے مدارج بہت ہیں اور بہت دلچسپ ہیں۔ مگر ان میں سے بہت ہے خاص کا ذکر کرکے ہم اس کی اہمیت نوعیت اور جدت کا کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ایلی کی زندگی میں شہزاد اس کے ایک قریب عزیز کی دلہن کی طرح داخل ہوتی ہے اور علی پور کے آصفی محلہ کے سب سے خاص مکان یا محل میں آکر رہنےلگتی ہے۔ وہ ایلی سے کافی بڑی ہے اور پھر جلد ہی چھ بچوں‌کی ماں ہو جانے کی وجہ سے اس سے اور بھی دور ہو جاتی ہے۔ مگر دونوں کا دل قریب ہے۔ شہزاد اس کی طرف ایسی توجہ دکھاتی ہے۔ جیسے کوئی چاہنے والی بھاوج چھوٹھے دیور کی طرف دکھائےاس معاملے میں اگر عشق بھی آ جاتا ہے تو وہ پاک قسم کا ہے۔ دونوں دا تعلق جنس سے بالاتر ہے۔ ایلی کے جنسی رحجان کو وہ یہ کہہ کر روکتی ہے کہ وہ کہ وہ اسے دوسری عورتوں کی طرح نہ سمجھے۔ ایلی اس کی طرف آکر پلنگ پر پڑا رہتا ہے۔ اسے مشین چلاتے ہوئے یا اور کام کرتے ہوئے دیکھتا رہتا ہے۔ اس کے بازووں‌پر ایلی کی خاص نظر رہتی
(صفحہ نمبر 1239)
ہے۔
 
Top