علم کے فروغ اور سود کی تعدیم کا تعلق

عاطف بٹ

محفلین
ایک اور بڑا مسئلہ جس پر حکومتِ وقت خصوصی توجہ دینے کے عزم کا اظہار کرچکی ہے، تعلیم کا مسئلہ ہے۔ تعلیم کی سطح اور پھیلاؤ دونوں اس قدر توجہ طلب ہوچکے ہیں کہ ان میں مزید تاخیر کی گنجائش بہت کم ہے۔ دسیوں ایجوکیشن کمیشنوں نے پاکستان کی تخلیق سے پہلے بھی اور اس کے مابعد بھی تمام متعلقہ مسائل کے جواب دیئے ہوئے ہیں، (سوائے ایک کے) اور ان پر اصلاح کی چنداں گنجائش نظر نہیں آتی۔ دقت صرف ایک ہے اور اس کا نام سرمایہ ہے۔ تعلیم کو نتیجہ خیز اور عام کرنے کے لئے جتنے وسائل کی ضرورت ہے وہ سرے سے میسر ہی نہیں۔ نئے سکول بناؤ، انہیں تخلیقی و فنّی رجحان دو، یونیورسٹی کی تعلیم اور بالخصوص آرٹس کی تعلیم بےانتہا قابلیت کے طلباء کے لئے مختص کرو، لیبارٹریاں بناؤ، کھیل کے میدان بناؤ، پرائمری مدارس کی تعداد میں تین گنا اضافہ کرو، ایک یا دو استادوں والے پرائمری سکول صحیح تعلیمی بنیاد فراہم کرنے سے قاصر رہتے ہیں، ان میں استادوں کی تعداد بڑھاؤ۔ اب اگر ہزاروں نئے سکول کھولے جائیں اور ہزاروں سکولوں میں اساتذہ کی کمی پوری کی جائے اور اس پر مستزاد یہ اصرار کہ اساتذہ کی تنخواہوں میں اتنا اضافہ کرو کہ ملک کے بہترین نوجوان اس پیشہ کی طرف راغب ہوجائیں۔ جس تجویز کو بھی دیکھو ٹنوں سونا مانگتی ہے۔ ایک بات جو کسی ایجوکیشن کمیشن نے نہیں بتائی وہ یہ ہے کہ ٹنوں سونا کہاں سے آئے گا؟ حکومت کی آمدنی تو وہی ہے جو ٹیکسوں سے وہ حاصل کرتی ہے۔ ان ٹیکسوں کو قومی پیداوار کے ایک مناسب جز سے آگے لے جانا ترقیِ معکوس کا پیش خیمہ بن جاتا ہے، لہٰذا بنیادی حل اس تمام مسئلے کا قومی پیداوار میں انقلاب آفریں اضافہ ہے۔ اس سطح کا اضافہ اسی سطح کی سرمایہ کاری کے بغیر ممکن نہیں، اور سرمایہ کاری کی سطح میں انقلاب آفریں اضافہ سود اور بنکنگ ریزرو ختم کرنے کے بغیر ناممکن ہے۔
ایک چھوٹی سی مثال سے شاید بات واضح ہوجائے، آج شرح سود صفر پر لے آئیے تو ملک کے تمام بیمار کارخانے صحت مند ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے کسی کا بیلنس شیٹ اٹھا کر دیکھیے تو ایک قدرِ مشترک جو ہر بیمار کارخانے میں نظر آئے گی، یہ ہے کہ کارخانے پر سود کا بوجھ اس کی مجموعی آمدنی سے کہیں زیادہ ہے۔ اب نقصان اٹھا کر کارخانہ چلانا کسی کے بس میں نہیں ہوتا، لہٰذا کارخانہ بند ہوجاتا ہے اور بیمار کارخانہ کہلاتا ہے۔ ان بیمار کارخانوں میں ملک کی مجموعی صنعتی سرمایہ کاری کا ایک چوتھائی لگا ہوا ہے۔ آج شرح سود صفر پر لے آئیے تو ان میں سے ہر کارخانہ صحت مند کارخانہ بن جاتا ہے اور ہزار ہا لوگوں کی روزی اور حکومت کی آمدنی میں بیش بہا اضافے کی صورت نکل آتی ہے۔ صحیح پالیسی بنانے میں سوائے قوتِ فیصلہ کے کچھ خرچ نہیں ہوتا، الٹا حکومت کا خزانہ بھرنا شروع ہوجاتا ہے۔
پھر شرح سود صفر تک گرنے سے محض بیمار کارخانے ہی صحت مند نہیں ہوں گے، صحت مند کارخانے چھلانگیں لگانے لگیں گے اور پیداوار بڑھانے کی بھرپور کوششیں کریں گے، مسابقت کے تقاضے نت نئے کارخانے وجود میں لائیں گے اور پھر محض نئی صنعتیں اور نئی ٹیکنالوجی ہی میسر نہیں آئے گی، زراعت پیشہ لوگ ٹریکٹر اور ٹیوب ویل لگائیں گے کیونکہ سرمایہ بغیر سود کے میسر ہے۔ متوسط لوگ پاور لوم قسم کے چھوٹے چھوٹے کارخانے لگائیں گے، غریب لوگ چھوٹے چھوٹے مرغی خانے یا ایک دو بھینس خرید کر اپنی روزی پیدا کرلیں گے اور جو اس قابل بھی نہیں، وہ ان ملازمتوں کی طرح رجوع کرسکیں گے جو سرمایہ کاری میں اضافہ کی وجہ سے پیدا ہوجائیں گی۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک طرف بےروزگاری صفر کی سطح تک اتر جائے گی، دوسری طرف ہر سمت سے قومی دولت میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا اور اس مسلسل اضافے کا ایک حصہ حکومت کے خزانے تک پہنچ کر اسے بھرنا شروع کردے گا۔ یہ واحد طریقہ ہے جس سے وہ ٹنوں سونا میسر آسکتا ہے جس سے تعلیم (اور بہت سی چیزوں) کی نتیجہ خیز اصلاح اور توسیع دونوں کا راستہ کھل جاتا ہے۔

(شیخ محمود احمد کی ’سود کی متبادل اساس‘ سے اقتباس)
پسِ تحریر: نومبر 1977ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے سود کی متبادل اساس کا فیصلہ کرنے کے لئے ماہرینِ معاشیات اور ممتاز بنک کاروں پر مشتمل ایک پینل تشکیل دیا تھا۔ شیخ محمود احمد ایک ممتاز ماہرِ معاشیات کی حیثیت سے اس پینل کے رکن تھے اور آپ نے فروری 1980ء میں پینل کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ پر مارچ 1980ء میں ایک جامع اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا جو بعدازاں ’سود کی متبادل اساس‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔ اس اختلافی نوٹ کو بالغ نظر اور سنجیدہ فکر حلقوں میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی، تاہم اس میں پیش کردہ سفارشات کو پاکستان میں مروج سودی نظام کے خاتمے کے لئے سرکاری سطح پر استعمال کرنے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کی گئی۔
 

تلمیذ

لائبریرین
بٹ جی، اصلی مسئلہ تب حل ہوگا جب پالیسی ساز اپنا قبلہ درست کریں گے اور ان کی بنائی ہوئی مثبت پالیسیوں پر عملدرامد کرنے اور کروانے والے ایماندار، مخلص اور ڈیلور کرنے والے میسر ہوں گے۔ خود شعبہ تعلیم میں ہونے کی وجہ سے آپ اس بات اتفاق کریں گے کہ صورت حال اس کے بالکل برعکس اور انتہائی گھمبیر ہے۔'پنبہ کجا کجا نہم، دل ہمہ داغ داغ شد' والا معاملہ ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ کچھ ایسے اسباب پیدا ہوں جس سے حالات بہتری کی جانب رخ کریں۔
فلک شیر
 

عاطف بٹ

محفلین
بٹ جی، اصلی مسئلہ تب حل ہوگا جب پالیسی ساز اپنا قبلہ درست کریں گے اور ان کی بنائی ہوئی مثبت پالیسیوں پر عملدرامد کرنے اور کروانے والے ایماندار، مخلص اور ڈیلور کرنے والے میسر ہوں گے۔ خود شعبہ تعلیم میں ہونے کی وجہ سے آپ اس بات اتفاق کریں گے کہ صورت حال اس کے بالکل برعکس اور انتہائی گھمبیر ہے۔'پنبہ کجا کجا نہم، دل ہمہ داغ داغ شد' والا معاملہ ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ کچھ ایسے اسباب پیدا ہوں جس سے حالات بہتری کی جانب رخ کریں۔
فلک شیر
متفق علیہ!
سر، آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ شیخ صاحب نے تقریباً سوا سو صفحات کا جو اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا اس کا مقصد بھی اس جانب توجہ مبذول کرانا تھا کہ ہمارے ہاں حکمت عملی وضع کرنے اور عملدرآمد کرانے کی ذمہ داری جن لوگوں پر ہے، وہ مخلص نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل نے شیخ صاحب کا مذکورہ نوٹ شائع ہی نہیں کیا اور بعدازاں انہوں نے اپنی ذاتی گرہ سے اس کی دو سو نقول سائیکلو اسٹائل کروا کر اہلِ فکر و دانش اور حکومت کے متعلقہ حلقوں کو بھیجیں۔
کتاب پڑھنے کے بعد میرے دل میں شیخ صاحب سے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی مگر ادارہء ثقافتِ اسلامیہ سے پتہ چلا کہ ان کا تو دو ڈھائی عشرے قبل انتقال ہوگیا تھا۔
 

عاطف بٹ

محفلین
کتاب کے فلیپ پر موجود دس چھوٹے چھوٹے تبصروں میں سے مجھے اشفاق احمد کا تبصرہ سب سے زیادہ پسند آیا۔ لکھتے ہیں:
’میری آرزو ہے کہ اس مختصر رسالے کو گھر گھر پہنچاؤں اور پھر لوگوں کو اس پر بحث کرنے کے لیے مواقع تلاش کر کے دوں۔‘
 

الف نظامی

لائبریرین
آج شرح سود صفر پر لے آئیے تو ان میں سے ہر کارخانہ صحت مند کارخانہ بن جاتا ہے اور ہزار ہا لوگوں کی روزی اور حکومت کی آمدنی میں بیش بہا اضافے کی صورت نکل آتی ہے۔ صحیح پالیسی بنانے میں سوائے قوتِ فیصلہ کے کچھ خرچ نہیں ہوتا، الٹا حکومت کا خزانہ بھرنا شروع ہوجاتا ہے۔
پھر شرح سود صفر تک گرنے سے محض بیمار کارخانے ہی صحت مند نہیں ہوں گے، صحت مند کارخانے چھلانگیں لگانے لگیں گے اور پیداوار بڑھانے کی بھرپور کوششیں کریں گے، مسابقت کے تقاضے نت نئے کارخانے وجود میں لائیں گے اور پھر محض نئی صنعتیں اور نئی ٹیکنالوجی ہی میسر نہیں آئے گی، زراعت پیشہ لوگ ٹریکٹر اور ٹیوب ویل لگائیں گے کیونکہ سرمایہ بغیر سود کے میسر ہے۔ متوسط لوگ پاور لوم قسم کے چھوٹے چھوٹے کارخانے لگائیں گے، غریب لوگ چھوٹے چھوٹے مرغی خانے یا ایک دو بھینس خرید کر اپنی روزی پیدا کرلیں گے اور جو اس قابل بھی نہیں، وہ ان ملازمتوں کی طرح رجوع کرسکیں گے جو سرمایہ کاری میں اضافہ کی وجہ سے پیدا ہوجائیں گی۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک طرف بےروزگاری صفر کی سطح تک اتر جائے گی، دوسری طرف ہر سمت سے قومی دولت میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا اور اس مسلسل اضافے کا ایک حصہ حکومت کے خزانے تک پہنچ کر اسے بھرنا شروع کردے گا۔
سرمایہ بغیر سود کے میسر ہے!(اخوت کے کارنامے)
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
سنہ 1999 میں شریعت کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ سود کو پاکستان سے (غالباً ایک سال کی مدت میں) ختم کیا جائے گا۔ اس فیصلے پر عمل درامد نہ ہو سکا۔ 2002 میں سپریم کورٹ نے اسی معاملے پر ایک فیصلہ سنایا جو کہ سپریم کورٹ کی ویبسائٹ پر موجود ہے۔ اس کا بغور مطالعہ کرنے سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ سود کو ختم کرنے میں کون کون سی رکاوٹیں درپیش ہیں۔ اس میں چند مشہور مسلمان سکالرز کی اس معاملے پر آراء بھی دی گئی ہیں۔

یہ رہا ربط
 

سید زبیر

محفلین
عاطف بٹ صاحب مسئلہ یہ کے میرا یقین کامل نہیں ہے ، صرف زباں سے لا الٰہ کہتا ہوں ، میرا یقین اُس مولوی کی طرح ہے جو اپنے وعظ میں اللہ پر یقین کی تعلیم دیتا تھا مگر جب دریا عبور کرنا پڑا تو مقتدی تو اللہ پر یقین کامل سے عبور کرگیا مگر امام صاحب دریا عبور کرنے کی ہمت ہی نہ کر پائے ۔ اگر ہم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجائیں تو اللہ کریم کی نصرت بھی ہمیں حاصل ہو جائے گی ۔
اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ، راستے بالکل واضح ہیں مگر منزل پر یقین نہیں ہے ۔ اللہ کرم فرمائے (آمین ثم آمین)
 

یوسف-2

محفلین
سنہ 1999 میں شریعت کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ سود کو پاکستان سے (غالباً ایک سال کی مدت میں) ختم کیا جائے گا۔ اس فیصلے پر عمل درامد نہ ہو سکا۔ 2002 میں سپریم کورٹ نے اسی معاملے پر ایک فیصلہ سنایا جو کہ سپریم کورٹ کی ویبسائٹ پر موجود ہے۔ اس کا بغور مطالعہ کرنے سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ سود کو ختم کرنے میں کون کون سی رکاوٹیں درپیش ہیں۔ اس میں چند مشہور مسلمان سکالرز کی اس معاملے پر آراء بھی دی گئی ہیں۔

یہ رہا ربط
سب سے بڑی رکاوٹ تو ایمان کی کمزوری ہے۔ مغربی نطام تعلیم سے فارغ التحصیل اور متاثر ہونے والے ہم مسلمانوں کا اب یہ ”ایمان“ ہی نہیں رہا کہ سود بھی ایک لعنت ہے جس کی اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شدید مذمت کی ہے۔ جس دن ہم اور ہمارے حکمران سود کی حرمت پر ایمان لے آئے، سودی نطام کو ختم کردیں گے۔ میں یہاں سود سے متعلق قرآن و حدیث کے اقتباسات پیش نہیں کر رہا کہ کہیں لوگ قرآن و حدیث کی سود سے متعلق احکامات کی ”مخالفت“ ہی شروع نہ کردیں :)
 

سید ذیشان

محفلین
مجھے خود بھی معاشیات کے نظام کا کوئی خاص علم نہیں ہے تو اس لئے اس ٹاپک پر میں بات نہیں کرتا۔ لیکن ایک بات جو مجھے بخوبی معلوم ہے کہ چودہ سو سال پہلے کے اور دور حاضر کے نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت کی اصطلاحات اور ان کو آج کے نظام پر منطبق کرنا کوئی ماہرِ معاشیات، جو کہ اسلام سے واقف ہو،کر سکتا ہے۔
سود کی حرمت پر تمام مسلمانوں کا ایمان ہے لیکن سود کی تعریف اور زمانہ جدید میں اس کے بغیر معاشی نظام کا نفاذ ماہرین کا کام ہے۔
 
آخری تدوین:

عاطف بٹ

محفلین
مجھے خود بھی معاشیات کے نظام کا کوئی خاص علم نہیں ہے تو اس لئے اس ٹاپک پر میں بات نہیں کرتا۔ لیکن ایک بات جو مجھے بخوبی معلوم ہے کہ چودہ سو سال پہلے کے اور دور حاظر کے نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت کی اصطلاحات اور ان کے آج کے نظام پر منتبق کرنا کوئی ماہرِ معاشیات، جو کہ اسلام سے واقف ہو،کر سکتا ہے۔
سود کی حرمت پر تمام مسلمانوں کا ایمان ہے لیکن سود کی تعریف اور زمانہ جدید میں اس کے بغیر معاشی نظام کا نفاذ ماہرین کا کام ہے۔
دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق معاشیات پر کام تو بہت سے مسلم ماہرینِ معاشیات نے کیا ہے مگر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکمتِ عملی کی توضیع اور نفاذ جن لوگوں کے ذمے ہے وہ سرے سے مخلص ہی نہیں اور نہ ہی وہ کوئی ایسا نظام چاہتے ہیں جس سے ان کی ذاتی منفعتوں پر زد پڑتی ہو۔ معاشیات کا ایک ادنیٰ سا طالبعلم ہونے کی وجہ سے مجھے پتہ ہے کہ بلاسود بنکاری سے لے کر نظامِ معیشت کی بحالی تک اسلامی نقطہء نظر سے بہت کچھ لکھا گیا اور بہت سی قابلِ عمل تجاویز بھی دی گئیں مگر سرکاری سطح پر ان تجاویز سے فائدہ اٹھانے یا ان پر سنجیدہ طریقے سے غور و فکر کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔
اسلامی نظامِ معیشت کا نفاذ تو بہت دور کی بات ہے، یہاں حال یہ ہے کہ گزشتہ پارلیمان میں مسلم لیگ (ق) کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر دونیہ عزیز نے اگست 2008ء میں ’قانون برائے معاشی ذمہ داری و تحدیدِ قرض (Fiscal Responsibility & Debt Limitation Act)‘ مجریہ 2005ء میں ایک ترمیم کی تجویز دی تھی کہ حکومتِ پاکستان آئندہ ایک روپے کا بھی بیرونی قرضہ یا امداد حاصل کرے تو تیس دن کے اندر اس کی تمام تر تفصیلات سے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا جائے مگر پانچ سالہ پارلیمانی مدت میں اس تجویز کو کبھی بحث کے قابل بھی نہیں سمجھا گیا۔
 

عاطف بٹ

محفلین
ایک کتاب ہے جو پاکستان کے مشہور ماہر معاشیات نواب حیدر نقوی اور ریاضی کے مشہور ماہر اصغر قادر نے تحریر کی ہے۔

A Model of a Dynamic Islamic Economy and the Institution of Interest

فرصت ملے تو اس کا مطالعہ کیجئے گا۔
جزاک اللہ
میں نے ڈاؤنلوڈ کرلی ہے، پڑھتا ہوں اسے۔ :)
 

سید ذیشان

محفلین
ایک کتاب ہے جو پاکستان کے مشہور ماہر معاشیات نواب حیدر نقوی اور ریاضی کے مشہور ماہر اصغر قادر نے تحریر کی ہے۔

A Model of a Dynamic Islamic Economy and the Institution of Interest

فرصت ملے تو اس کا مطالعہ کیجئے گا۔

یہ کتاب عام قارئین کے لئے نہیں ہے صرف ریاضی دانوں کو ہی اس کی مکمل سمجھ آ سکے گی لیکن اس کا آخری چیپٹر (نتائج) کوئی بھی پڑھ سکتا ہے کیونکہ اس میں ریاضی کا استعمال نہیں ہے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
یہ کتاب عام قارئین کے لئے نہیں ہے صرف ریاضی دانوں کو ہی اس کی مکمل سمجھ آ سکے گی لیکن اس کا آخری چیپٹر (نتائج) کوئی بھی پڑھ سکتا ہے کیونکہ اس میں ریاضی کا استعمال نہیں ہے۔
چلیں، کامرس گریجوایٹ ہونے کی وجہ سے ہماری تو بچت ہوگئی کہ خالص ریاضی دان نہیں تو کم از کم نیم ریاضی دان تو ہیں ہی۔ :)
 

فلک شیر

محفلین
بٹ جی، اصلی مسئلہ تب حل ہوگا جب پالیسی ساز اپنا قبلہ درست کریں گے اور ان کی بنائی ہوئی مثبت پالیسیوں پر عملدرامد کرنے اور کروانے والے ایماندار، مخلص اور ڈیلور کرنے والے میسر ہوں گے۔ خود شعبہ تعلیم میں ہونے کی وجہ سے آپ اس بات اتفاق کریں گے کہ صورت حال اس کے بالکل برعکس اور انتہائی گھمبیر ہے۔'پنبہ کجا کجا نہم، دل ہمہ داغ داغ شد' والا معاملہ ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ کچھ ایسے اسباب پیدا ہوں جس سے حالات بہتری کی جانب رخ کریں۔
فلک شیر
جہاں تک شعبہ تعلیم کا تعلق ہے........جس کے حوالہ سے محترم اصغر صاحب نے اس فویر کو ٹیگ کیا ہے.......تو عرض یہ ہے کہ ایک ہی ملک میں دسیوں نظام ہائے تعلیم ہیں......پرائیویٹ سیکٹر میں اتنے اتنے بڑے مضبوط گروپ ہیں......جن کے اپنے مالی اور ثقافتی مفادات ہیں....کہ سرکار کے کسی وزیر وغیرہ کو گھاس ڈالنے کے لیے ہی وہ تیار نہیں ہوتے..........پھر یہ کہ جدید تعلیمی اسالیب اور وسائل سے وہ مسلح ہیں......ہمارے EDOلیول کے عہدیداران بھی اس قابل نہیں ہوتے کہ باعتماد طریقہ سے ان سے معاملات کر سکیں.........
ایک دن میں کلاس پڑھا رہا تھا کہ پرنسپل آفس سے بلاوا آیا......پہنچا تو دیکھا کہ ایک صاحب بیٹھے ہیں اور گپ چل رہی ہے.........پرنسپل صاحب فرمانے لگے کہ یہ ساہیوال کے ای ڈی او ایجوکیشن ہیں.......اور میرے کلاس فیلو ہیں.......آپ چونکہ گورنمنٹ سیکٹر چھوڑ کے آئے ہیں، تو یہ آپ سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں.......دوران گفتگو معلوم ہوا کہ حکومت صرف نمائشی امور پہ توجہ دے رہی ہے اور بس......
میں خود ذاتی طور پہ بھی اس سے واقف ہوں........پچھلے سال جب میں گاؤں کے سکول میں گیا تو دیکھا کہ کلاسز میں حاضری تو تیس پینتیس تک ہے لیکن رجسٹر پہ ستر اسی بچے درج ہیں........پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ حکومتی افسران خود اس بات کی ترغیب دیتے ہیں ..........اور یہی fakeحاضری اب روزانہ dcoآفس smsکی جاتی ہے...........اور وزیر اعلیٰ صاحب بہت خوش ہوں گے کہ کمال کر دیا............
ایک پرائمری سکول........سات جماعتیں.........دو استاد(جن میں سے ایک میٹرک پی ٹی سی )........آکسفورڈ کے لیول کا نصاب.........اور ہر ماہ محکمانہ امتحان(جس میں ننانوے فیصد سکولوًں میں افسر معائنہ کے سامنے سو فیصد نقل ہوتی ہے.......یعنی استاد بورڈ پہ لکھتا ہے اور شاگرد دیکھ کر مشکل س لکھ پاتے ہین)...................پرائمری اور مڈل تعلیم کا پبلک سیکٹر میں بیڑہ مکمل غرق ہو چکا ہے...........میں خود اس کا ذاتی مشاہدہ کر چکا ہوں........
اس کا رونا کہاں تک رویا جائے...........
رہی تجاویز کی بات.......تو وہ عرض کی جاسکتی ہیں.........لیکن بھینسوں کے آگے بین بجانا زیادہ مفید عمل نہیں لگتا..........:)
 
Top