علم فلکیات پر ترجمہ شدہ مختصر مضامین

زہیر عبّاس

محفلین
کاربن کے علاوہ - "کائنات میں دوسری جگہوں پر زندگی کے امکانات حیرت انگیز ہیں"

http://www.jahanescience.com/2016/02/dailygalaxy-4.html
پانی کے بغیر برسوں زندہ رہنے والی، جبکہ دوسری خلاء کی خالی کھلی ہوئی جگہ میں زندہ رہ سکنے والی عجیب و غریب مخلوق۔ زمین پر کچھ بہت ہی زیادہ غیر معمولی جاندار شولزے مکوخ کو اندازہ لگانے کے لئے راہ دکھاتے ہیں کہ کائنات میں کہیں پر حیات کس طرح کی ہو سکتی ہے۔

پچھلے ماہ 100 نئے سیاروں کی ملکی وے کے اندر مجمع النجموم بربط اور دجاجہ میں ناسا کی دریافت نے خلائی حیات کے بارے میں قیاس آرائیوں کا ایک طوفان چھوڑ دیا ہے۔ جریدے لائف میں اپنے ایک مضمون میں شولزے مکوخ زمین کی سب سے زیادہ شدید ماحول میں رہنے والی حیاتی شکل اور مریخ اور زحل کے چاند ٹائٹن کی طرف توجہ دلاتے ہیں تاکہ اس تصویر کو واضح کر سکیں کہ دوسرے سیاروں پر موجود حیات کیسے ہوگی۔

مثال کے طور پر زمین پر بمبار نامی بھونرے کی ایک نوع شکاریوں سے بچنے کے لئے ہائیڈروجن پیروکسائڈ اور دیگر کیمیائی مرکبات کو ملا کر کے ایک دھماکہ خارج کرتی ہے۔

"دوسرے سیارے پر جہاں مریخ پر موجود قوّت ثقل جیسی صورتحال موجود ہو بمبار بھونرے جیسی خلائی مخلوق اسی طرح کا رد عمل خارج کرکے اپنے آپ کو ہوا میں 300 میٹر تک دھکیل سکتا ہے،" شولزے مکوخ کہتے ہیں۔
http://www.jahanescience.com/2016/02/dailygalaxy-4.html
ہو سکتا ہے کہ مریخ کے کھوجی زمین جیسی مخلوق کو دیکھ لیں تاہم ٹائٹن جیسے سیارے پر حیات کے لئے بالکل نئی حیاتیاتی کیمیا کی ضرورت ہوگی۔ اس طرح کی دریافت سائنس دنیا میں ایک بڑی کامیابی ہوگی جس کے انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

زمینی حیات اپنی منفرد حیاتیاتی کیمیائی آلات کے ساتھ مریخ جیسے کسی سیارے پر چند نئی مطابقت پذیری کے ساتھ سہولت سے جی سکتی ہے۔
http://www.jahanescience.com/2016/02/dailygalaxy-4.html
سب سے پہلے جانداروں کو اس ماحول میں پانی کی ضرورت ہوگی جو چلی کے ایٹاکاما صحرا کا مزید خشک اور ٹھنڈی بدلی ہوئی صورت ہے۔ ایک ممکنہ مطابقت میں پانی کے بجائے پانی اور ہائیڈروجن پیروکسائڈ کے آمیزے کو بینُ الخِلوی(intracellular) مائع کے طور پر استعمال کیا جانا پڑے گا، شولزے مکوخ کہتے ہیں۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/dailygalaxy-4.html
ہائیڈروجن پیروکسائڈ قدرتی ضد انجماد ہے جو خرد حیات کو مریخی سردی میں جمنے سے بچنے میں مدد دے گا۔ یہ جاذب رطوبت بھی ہے یعنی کہ یہ قدرتی طور پر ماحول سے پانی کے سالموں کو کھینچے گا۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/dailygalaxy-4.html
دن کے دوران، پودوں جیسے جاندار مریخ جیسی سطح پر ہائیڈروجن پیروکسائڈ کی ضیائی تالیف کر سکتے ہیں۔ رات کے وقت جب ماحول نسبتاً مرطوب ہوتا ہے تو وہ اپنی ذخیرہ شدہ ہائیڈروجن پیروکسائڈ کا استعمال کرکے کرۂ فضائی سے پانی کو ڈھونڈ نکال سکتے ہیں بعینہ ایسے جیسے کہ خرد اجسام کی آبادی ایٹاکاما میں نمی کا استعمال کرتی ہے جہاں وہ ہوا سے کھاری پانی نکال کر زندہ رہتے ہیں۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/dailygalaxy-4.html
شولزے مکوخ زمین کے بمبار بھونرے سے مشابہت رکھنے والی اس پیچیدہ خلائی مخلوق کے بارے میں اندازہ لگاتے ہیں کہ وہ ان خرد اجسام کو خوراک اور پانی کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔ حیات کو دوام بخشنے والے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے کے لئےخرد اجسام اس طرح کے اپنے آپ میں موجود قدرتی راکٹ جیسے دھکیلو استعمال کر سکتے ہیں۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/dailygalaxy-4.html
سورج سے عظیم فاصلے کی وجہ سے ٹائٹن زمین سے کہیں زیادہ ٹھنڈا ہے۔ اس کی سطح کا درجہ حرارت اوسطاً منفی 290 ڈگری فارن ہیٹ ہوتا ہے۔ مزید براں سطح پر مائع پانی بھی نہیں ہے اور نہ ہی کرۂ فضائی میں کاربن ڈائی آکسائڈ موجود ہے۔ حیات کے بارے میں جتنا ہم جانتے ہیں یہ دونوں اجزاء اس کے لئے لازمی ہیں۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/dailygalaxy-4.html
اگر حیات ٹائٹن یا کائنات میں کہیں اور ٹائٹن جیسے سیارے پر موجود ہوگی تو وہ پانی کے علاوہ کوئی اور چیز بینُ الخِلوی مائع کے طور پر استعمال کر رہی ہوگی۔ ایک امکان میتھین یا ایتھین کی طرح مائع ہائیڈروکاربن کا بھی ہے۔ پانی کے بغیر حیات کی شکل آسانی کے ساتھ میتھین یا ایتھین کی ان جھیلوں یا سمندروں میں رہ سکتی ہے جو ٹائٹن کی سطح کا ایک بڑا حصّہ ہیں بعینہ جس طرح زمین پر پانی میں جاندار رہتے ہیں، شولزے مکوخ کہتے ہیں۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/dailygalaxy-4.html
اس طرح کی قیاسی مخلوق آکسیجن کی جگہ ہائیڈروجن کو لے کر اس سے بلند توانائی کی ايسيٹيلِيَن سے کرۂ فضائی میں تعامل کروائے گی تاکہ کاربن ڈائی آکسائڈ کے بجائے میتھین کو پیدا کر سکیں۔


اپنے منجمد ماحول کی وجہ سے ان جانداروں کو انتہائی قوی ہیکل (زمین کے معیار کے مطابق) اور بہت ہی آہستہ نظام تنفس والے خلیات سے بنا ہوا ہونا ہوگا۔ نظام تنفس کی آہستہ شرح کا مطلب یہ ہوگا کہ وہاں پر ارتقاء اور عمر میں اضافہ زمین کے مقابلے میں کہیں کم رفتار سے ہوگا جس سے ممکنہ طور پر انفرادی جانداروں کی حیات کا عرصہ کافی زیادہ بڑھ جائے گا۔
http://www.jahanescience.com/2016/02/dailygalaxy-4.html
"زمین پر ہم نے ابھی صرف ان فعلیاتی چناؤ کی سطح کو ہی کھرچا ہے جو جانداروں کے پاس ہیں۔ تاہم ہم جو بات جانتے ہیں وہ بہت ہی دم بخود کر دینے والی ہے،" شولزے مکوخ کہتے ہیں۔ "زندگی کے امکانات کائنات میں اس سے بھی کہیں زیادہ حیرت انگیز ہیں۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/dailygalaxy-4.html
"صرف ماورائے ارض حیات اور دوسرے حیاتیاتی کرہ کی دریافت سے ہی ہم ان مفروضات کی جانچ کر سکیں گے،" انہوں نے کہا، "جو ہمارے جیسی نوع کے لئے سب سے عظیم تر دریافتوں میں سے ایک دریافت ہوگی۔"

http://www.jahanescience.com/2016/02/dailygalaxy-4.html
ڈیلی گلیکسی بذریعہ واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارض(Super Earth) سیاروں کی اجنبی کیمیا "کلاسیکل قوانین سے رو گرداں"


ریاضیاتی نمونوں کا استعمال کرکے، سائنس دان فوق ارض سیاروں کے اندروں میں 'جھانک' کر معلوم کر سکتے ہیں کہ اس میں ایسے مرکبات موجود ہو سکتے ہیں جن کو بننے کی اجازت کلاسیکل کیمیائی قوانین نہیں دیتے - یہ مرکبات حرارتی منتقلی کی شرح میں اضافہ اور ان سیاروں کے مقناطیسی میدان کو مضبوط کر سکتے ہیں۔
http://www.jahanescience.com/2016/02/Daily-Galaxy-Super-Earth-Exotic-Chemistry-2.html
مقالے کے مصنفین ماسکو انسٹیٹیوٹ آف فزکس اینڈ ٹیکنالوجی (ایم آئی پی ٹی) سے تعلق رکھنے والے محققین کی ایک جماعت ہے جس کی سربراہی اسکولکووو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے اور ایم آئی پی ٹی لیبارٹری آف کمپیوٹر ڈیزائن کے سربراہ ارٹیم اگانوف کر رہے ہیں۔ ایک پچھلی تحقیق میں اگانوف اور اس کے رفقاء نے ایک ایسا الوگرتھم استعمال کیا جو اگانوف نے بنایا تھا اور اس کو یوایس پی ای ایکس کہتے ہیں اس کا کام سوڈیم اور کلورین کے نئے مرکبات اور دوسرے اجنبی مادّوں کی شناخت کرنا تھا۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/Daily-Galaxy-Super-Earth-Exotic-Chemistry-2.html
ان کے تازہ ترین مقالے میں محققین نے یہ ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے کہ کون سا مرکب سلیکان، آکسیجن اور میگنیشیم سے بلند دباؤ پر بن سکتا ہے۔ ان مخصوص عناصر کو اتفاق سے چنا ہی نہیں گیا تھا۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/Daily-Galaxy-Super-Earth-Exotic-Chemistry-2.html
"زمین جیسے سیاروں میں سیلیکٹ کی ایک پتلی سے قشر سیلیکٹ آکسائڈ غلاف - جو زمین کی کل مقدار کا 7/8 حصّہ ہوتا ہے اور یہ 90 فیصد سے زیادہ سیلیکٹ اور میگنیشیم آکسائڈ پر مشتمل ہوتا ہے - اور ایک لوہے کا قلب ہوتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ میگنیشیم، آکسیجن اور سلیکان زمین اور زمین جیسے سیاروں پر کیمیا کی بنیاد بناتی ہیں،' اگانوف کہتے ہیں۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/Daily-Galaxy-Super-Earth-Exotic-Chemistry-2.html
یو ایس پی ای ایکس کے الوگرتھم کا استعمال کرتے ہوئے محققین نے میگنیشیم سیلیکٹ اور آکسیجن کی کئی ساختی تراکیب لیں جو 50 لاکھ سے 3 کروڑ فضائی دباؤ تک میں وقوع پذیر ہو سکتی ہیں۔ اس طرح کا دباؤ فوق ارض سیاروں کے اندرون میں موجود ہو سکتا ہے جن کی ٹھوس سطح زمین کی کمیت سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/Daily-Galaxy-Super-Earth-Exotic-Chemistry-2.html
نظام شمسی میں اس طرح کی قسم کا کوئی سیارہ موجود نہیں ہیں، تاہم فلکیات دان دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے اس طرح کے سیاروں کو جانتے ہیں جو اس قدر بھاری تو نہیں ہوتے جتنے کہ گیسی دیو، تاہم زمین سے کافی بھاری ہوتے ہیں۔ ان کو فوق ارض (Super Earth)کہتے ہیں۔ ان سیاروں میں حالیہ دریافت ہونے والا گلیز 832c شامل ہے جو زمین سے پانچ گنا زیادہ بھاری ہے یا میگا زمین کیپلر -10c (جس کی تصویر کو شروع میں اوپر دکھایا گیا ہے)، جو زمین سے سترہ گنا زیادہ بھاری ہے۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/Daily-Galaxy-Super-Earth-Exotic-Chemistry-2.html
کمپیوٹر نمونوں کے نتائج بتاتے ہیں کہ ان سیاروں کے اندرون میں شاید "اجنبی" مرکبات MgSi3O12 اور MgSiO6 موجود ہو سکتے ہیں۔ زمین پر پائے جانے والے MgSiO3 کی بنسبت ان میں زیادہ آکسیجن کے جوہر ہو سکتے ہیں۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/Daily-Galaxy-Super-Earth-Exotic-Chemistry-2.html
اس کے علاوہ MgSi3O12 ایک دھاتی آکسائڈ اور حاجز ہیں جبکہ دوسرے مرکبات جس میں Mg-Si-O جوہر شامل ہوتے ہیں وہ غیر موصل یا نیم موصل ہوتے ہیں۔ "ان کی کیمیائی خصوصیات میگنیشیم، آکسیجن اور سلیکان کے عام پائے جانے والے مرکبات سے بہت ہی الگ ہوں گی - ان میں سے اکثریت دھاتی یا نیم موصل ہوں گے۔ ان سیاروں پر یہ مقناطیسی میدانوں کو پیدا کرنے کے لئے اہم ہے۔ ایک مقناطیسی میدان سیارے کے اندرون میں برقی رو پیدا کرتی ہے، بلند ایصالیت کا مطلب خاصی طاقت ور مقناطیسی میدان ہو سکتا ہے،" اگانوف بیان کرتے ہیں۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/Daily-Galaxy-Super-Earth-Exotic-Chemistry-2.html
زیادہ طاقت ور مقناطیسی میدان کا مطلب کائناتی اشعاع سے زیادہ طاقت ور حفاظت، اور یوں زندہ اجسام کے لئے زیادہ بہتر حالات۔ محققین یہ بھی اندازہ لگاتے ہیں کہ نئے میگنیشیم اور سلیکان آکسائڈ جو کلاسیکل کیمیا کے قوانین میں نہیں بیٹھتے - وہ MgO2 اورMg3O2 کے آکسائڈ کے علاوہ SiO, SiO3, اور MgO3 ہیں جن کا اندازہ اگانوف نے کم دباؤ پر لگایا تھا۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/Daily-Galaxy-Super-Earth-Exotic-Chemistry-2.html
کمپیوٹر نمونے محققین کو اس قابل کرتے ہیں کہ جب MgSiO3 فوق ارض پر زبردست اونچے دباؤ سے گزرتا ہے - مابعد - پروف اسکائٹ تو وہ بوسیدگی کے عمل کا تعین کر سکیں۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/Daily-Galaxy-Super-Earth-Exotic-Chemistry-2.html
" یہ غلاف میں موجود پرتوں کے کناروں کو اور ان کے محرک کو متاثر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک جاذب حرارت کا مرحلہ غلاف کی ایصال حرارت کی رفتار اور سیارے کے اندر حرارت کی منتقلی کو تبدیل کر سکتا ہے اور حرارت گیر مرحلے میں تبدیلی اس کو آہستہ کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیارے پر کرۂ حجری کی تختیاں(lithospheric plates) شاید اونچی ہوں،" اگانوف کہتے ہیں۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/Daily-Galaxy-Super-Earth-Exotic-Chemistry-2.html
ایصال حرارت جو ساختمائی تختیوں اور غلاف کی آمیزش کا تعین کرتی ہیں وہ تیز رفتار (غلاف کی ملاوٹ اور حرارتی منتقلی کے عمل کی رفتار بڑھا کر) یا آہستہ دونوں ہو سکتی ہے۔ حرارت گیر تبدیلی(endothermic change) میں ایک ممکنہ منظر نامے سیارے کی کئی خود مختار ایصالی پرتوں میں تقسیم ہے، وہ درج کرتے ہیں۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/Daily-Galaxy-Super-Earth-Exotic-Chemistry-2.html
یہ حقیقت کہ زمین کے براعظم مسلسل حرکت میں رہتے ہیں، غلاف کی سطح پر "تیرتے" رہتے ہیں جس کی وجہ سے آتش فشاں اور سانس لینے کے قابل ماحول بنتا ہے۔ اگر براعظموں کا تیرنا رک جائے تو اس اثر آب و ہوا پر انتہائی ہولناک ہوگا۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/Daily-Galaxy-Super-Earth-Exotic-Chemistry-2.html
ڈیلی گلیکسی بذریعہ ماسکو انسٹیٹیوٹ آف فزکس اینڈ ٹیکنالوجی

تصویر کریڈٹ: ناسا / چندرا ایکس رے رصدگاہ
 

زہیر عبّاس

محفلین
انسان بردار مریخی مہم


اوپر ناسا سے حاصل کردہ تصویر میں ایریز 3 کے اترنے کی جگہ نظر آ رہی ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں دھماکہ خیز فلم "مریخی"(The Martian) میں انسان بردار مریخی مہم کو اترتے ہوئے دکھایا ہے۔ ایم آئی ٹی کی ایک نئی تحقیق بتاتی ہے کہ وزن سے بچنے کے لئے مریخ تک جانے کے لئے سب سے بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ پہلے چاند کا پھیرا لگایا جائے۔ مریخی انسان بردار مہم کے لئے چاند پر ایندھن بھرنے سے بار برداری میں ٦٨ فیصد تک بہتری آسکتی ہے۔
http://www.jahanescience.com/2016/02/dailygalaxy-1.html
پرانی تحقیق بتاتی ہے کہ چاند کے مخصوص شہابی گڑھوں میں موجود چاند کی مٹی اور پانی کی برف کو حاصل کرکے ایندھن میں بدلا جا سکتا ہے۔ فرض کریں کہ اس طرح کی فنیات مریخ پر مہم بھیجتے ہوئے اگر دستیاب ہوتی ہیں تو ایم آئی ٹی کی جماعت کے مطابق ایندھن کو حاصل کرنے کے لئے چاند تک کا پھیرا لگانے سے مہم کی کمیت خلاء میں چھوڑے جانے کے وقت ٦٨ فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔

http://www.jahanescience.com/2016/02/dailygalaxy-1.html
http://www.jahanescience.com/2016/02/dailygalaxy-1.html

جماعت نے ایک ایسا نمونہ بنایا ہے جو مریخ تک جانے کے سب سے بہترین راستے کا تعین یہ فرض کرتے ہوئے کرتا ہے کہ چاند پر ایندھن کی فراہمی کے لئے بنیادی ڈھانچہ اور وسائل موجود ہوں گے۔ اپنے لگائے ہوئے حساب کے مطابق انہوں نے مریخ تک جانے کا سب سے بہتر راستے کا تعین کیا تاکہ زمین سے خلاء میں مہم کو چھوڑے جانے کے وقت وزن میں زیادہ سے زیادہ کمی کی جا سکے۔ اکثر خلائی مہمات میں سب سے زیادہ لاگت وزن کو خلاء میں پہنچانے پر آتی ہے۔

اس کام کے دوران انھیں یہ معلوم ہوا کہ زمین سے انسانی عملے کو خلاء میں بھیجنے کا سب سے بہتر طریقہ جس میں وزن کو زیادہ سے زیادہ کم کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ عملے کو کسی طرح زمین کے مدار میں بھیج دیا جائے۔ اس کے بعد چاند کی سطح پر موجود ایندھن کو پیدا کرنے والا پلانٹ ایندھن کے ٹینک خلاء میں پھینکے گا جہاں وہ ثقلی مدار میں داخل ہو جائیں گے۔ بعد میں یہ ٹینک بالآخر مریخ پر جانے والا عملہ حاصل کر لے گا اور قریبی موجود ایندھن بھرنے والے اسٹیشن پر ان کو لے جا کر ان سے ایندھن حاصل کرکے مریخ کی طرف روانہ ہو جائے گا۔


اولیور ڈی ویک جو ایم آئی ٹی میں علم جہاز سازی اور خلائیات اور انجینئرنگ نظام کے پروفیسر ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایسا کوئی منصوبہ ناسا کے براہ راست راستے سے ہٹ کر ہوگا۔


"یہ طریقہ مکمل طور پر مریخ پر جانے کے اس عام فہم معلومہ طریقے کے مخالف ہے جس میں مریخ میں اپنے ساتھ تمام سازو سامان کے کر براہ راست جایا جاتا ہے۔ چاند کے نظام کا پھیرا لگانے کا خیال ۔۔۔ یہ بہت ہی لغو ہے۔ تاہم بہترین جال اور وسیع منظر نامے کو مد نظر رکھتے ہوئے، طویل عرصے کی منصوبہ بندی میں یہ کافی قابل گنجائش ہو سکتا ہے، کیونکہ آپ کو زمین سے ہر چیز ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔


یہ نتائج اس مقالہ کی بنیاد پر جریدہ خلائی جہاز و راکٹ (جرنل آف اسپیس کرافٹ اینڈ راکٹس)میں شایع ہوئے ہیں جو تاکوتو ایشی ماٹسو نے لکھا تھا جو اب ایم آئی ٹی میں مابعد ڈاکٹر ہیں۔


ماضی میں خلائی کھوج کے پروگراموں میں عملے کو وسائل مہیا کرنے کے لئے دو اہم حربے استعمال کئے جاتے رہے ہیں: ایک طریقے میں اپنے ساتھ ہر چیز کو لے جانا ہے، جہاں پر تمام گاڑیاں اور وسائل عملے کے ساتھ تمام راستے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں – جیسا کہ چاند پر بھیجی جانی والا اپالو مہم تھی – اور ایک "نئی رسد مہیا کرنے کی ترکیب" ہے جس میں وسائل کو مسلسل بھرا جاتا رہتا ہے، جیسا کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) پر بھیجے جانے والے خلائی جہاز ہیں۔


تاہم جب انسان زمین کے مدار سے دور کھوج کرنے جائیں گے تو اس طرح کے حربے کارگر نہیں رہیں گے، جیسا کہ ڈی ویک اور ایشی ماٹسو لکھتے ہیں: " کیونکہ بجٹ محدود ہے اور منزل گھر سے کافی دور ہیں، ایک بہتر منصوبے کے حامل نقل و حمل کا حربہ ناگزیر ہے۔"


جماعت نے تجویز ڈی ہے کہ مریخ اور دوسرے دور دراز منازل کی مہمات میں اس رسدی حربے کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جو "برمحل وسائل کے استعمال" کو حاصل کرنے کے قابل ہوں—یعنی کہ خیال یہ ہے کہ وسائل جیسا کہ ایندھن، اور پانی اور آکسیجن جیسی ضروری چیزیں، خلائی کھوج کے دوران راستے میں سے حاصل کی جا سکیں۔ خلاء میں بنائی جانے والی چیزیں زمین سے بھیجی جانے والی چیزوں کا متبادل ہو سکتی ہیں۔


مثال کے طور پر پانی کی برف – جس کو ممکنہ طور پر حاصل کرکے راکٹ کے ایندھن میں ڈھالا جا سکتا ہے – مریخ اور چاند دونوں پر پائی جاتی ہے۔


"اس وسائل کی دستیابی کے لئے کافی اعتماد موجود ہے۔ فرض کریں کہ آپ اس طرح کے وسائل کو حاصل کر لیں گے، تو آپ اس کے ساتھ کیا کریں گے؟ کسی نے بھی یہ نہیں سوچا۔" ڈی ویک کہتے ہیں۔


اس بات کی جانچ کے لئے کہ آیا خلاء میں موجود ایندھن اور بنیادی ضرورت کی چیزیں انسانی بردار مریخی مہم کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے یا نہیں، ایشی ماٹسو نے مریخ جانے تک مختلف راستوں کے جالی بہاؤ والے نمونے کو بنایا – جس میں براہ راست سازو سامان کو ساتھ لے جانے سے لے کر راستے میں موجود مختلف ایندھن کے اسٹیشنوں پر رکتے ہوئے ایندھن بھروانے والے راستے شامل ہیں۔ اس کا اہم مقصد یہ ہے کہ زمین سے خلاء میں چھوڑے جانے کے وقت وزن میں زیادہ سے زیادہ کمی کی جائے۔ اس نمونے میں انہوں نے ایندھن بنانے والے پلانٹ اور اس کے پرزوں کو بھی شامل کیا ہے جن کو مہم سے پہلے خلاء میں چھوڑا جانا ہے۔


اس طریقے میں بار بردار جہاز اور اس میں موجود رسد جیسا کہ ایندھن ہے اس کی حرکت کو نمونے میں جانچا گیا ہے۔ ایشی ماٹسو نے ایک نیا ریاضیاتی نمونہ بنایا ہے جو گاڑیوں کو بھیجنے کے روایتی نمونے کو بہتر کرتا ہے۔ اس نے لمبے عرصے کی منصوبہ بندی والی خلائی مہمات کے پیچیدہ منظر ناموں کو اختیار کیا ہے – جس میں خلائی سفر کی مخصوص رکاوٹوں کا خیال رکھا گیا ہے۔


نمونے نے ایک مستقبل کا منظرنامہ فرض کیا ہے جس میں ایندھن کو بنایا جا سکے گا اور اس کو چاند سے خلاء میں کچھ مخصوص جگہوں پر منتقل کیا جائے گا۔ اسی طرح نمونے نے فرض کیا ہے کہ ایندھن کے ذخیرے خلاء میں کچھ مخصوص ثقلی قید والی جگہوں پر واقع ہوں گے جن کو لارج رینج پوائنٹس کہا جاتا ہے۔ مہم کے مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے جیسا کہ وزن کی قیود ہیں نمونے نے رسد کی فراہمی کے جال میں سب سے بہتر راستہ شناخت کیا ۔ ساتھ ساتھ اس نے تمام بنیادی طبیعیاتی حدود کا بھی خیال رکھا۔


ایشی ماٹسو کہتے ہیں کہ تحقیق نے خلاء میں وسائل مہیا کرنے والی بنیادی ضرورتوں کی اہمیت کو جتایا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس طرح کی بنیادی ضرورتیں مریخ کے پہلے دورے کے لئے ضروری نہیں ہیں۔ تاہم خلاء میں وسائل کا جال انسانوں کو اس قابل کر سکے گا کہ وہ بار بار بغیر کسی تعطل کے خلاء میں سفر کر سکیں۔


"ہماری اصل مقصد مریخ کو آباد کرنا ہے اور وہاں ایک مستقل بستی بسانا ہے، ایک ایسی بستی جو خود سے انسانی موجودگی کو وہاں پر قائم رکھ سکے۔ بہرحال میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ یہ بھی اتنی ہی اہم بات ہے کہ ہمیں خلاء میں "راستے کو ہموار" کرنا ہوگا تاکہ ہم سیاروی اجسام کے درمیان قابل برداشت خرچوں کے ساتھ سفر کر سکیں۔"


"بہتری کے اس طریقے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں بار بار بغیر کسی تعطل کے مریخ تک کا سفر کرنے کے لئے چاند ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ لوگوں نے اس کا اشارہ پہلے ہی سے دے دیا تھا تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وہ پہلا مقالہ ہے جو ریاضیاتی طور پر یہ بتاتا ہے کہ یہ بات کیوں درست ہے۔" ڈی ویک کہتے ہیں۔


ڈیلی گیلکسی بذریعہ MIT.edu
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیپلر کےدھند لاتے ستارے کا اسرار


'خلائی مخلوق کی بنائی ہوئی عظیم ساخت' کی گونج جلد ہی ختم ہو جائے گی






ہماری کہکشاں میں کہیں پر موجود ذی شعور مخلوق کے ہونے کے امکان پر اکتوبر ٢٠١٥ء کے آخری ہفتے میں انٹرنیٹ پر کافی چرچا رہا ہے۔ یہ شور و غوغا اس وقت برپا ہوا جب اٹلانٹک پر ایک مضمون چھپا۔ اس مضمون میں ان تفصیلات پر روشنی ڈالی گئی تھی کہ کس طرح سے ناسا کے سیارہ شناس کیپلر خلائی جہاز نے ہماری ملکی وے کہکشاں میں ایک انوکھا ستارہ دیکھا ہے جس کا نام KIC 8462852 ہے۔

فلکیاتی دنیا کے لوگ اس عجیب ستارے پر اپنی ناظرین جمائے ہوئے تھے ، جس کو گزشتہ برس ییل یونیورسٹی کی مابعد ڈاکٹریٹ رکن تبیتھا بویاجیان نے دریافت کیا تھا۔ یہ ستارے پچھلے چند برسوں کے دوران بہت ہی ڈرامائی انداز میں مدھم ہوتا چلا گیا اور اپنی تابانی کو اس نے ٢٢ فیصد تک کم کر دیا۔ ان واقعات کی وجہ سے عالمگیر سطح پر ایک ایسی بحث شروع ہو گئی جس میں یہ کہا گیا کہ اس ستارے کے گرد کوئی ایسی چیز ہے جس کو خلائی مخلوق نے بنایا ہے، کوئی ڈیسن کرہ جیسی کوئی چیز – پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے جیسن رائٹ کے مطابق یہ ایک ایسا قیاس ہے جس کو اس وقت جانچا جا سکتا ہے جب KIC 8462852 دوبارہ مدھم ہو۔

"جب تک اس قسم کے واقعات دوبارہ وقوع پذیر ہوتے رہیں گے، تو ہم اس دوران اس کو پکڑنے کے قابل ہوں گے، اور تب ہم یقینی طور پر اس قابل ہو سکیں گے کہ ہم آخر دیکھ کیا رہے ہیں،" رائٹ نے اسپیس ڈاٹ کوم سے بات کرتے ہوئے کہا۔ پچھلے برس، رائٹ بویاجیان سے اس وقت ملا جب وہ سینٹر فار ایکزو پلانٹ اینڈ ہیبی ٹیبل ورلڈز (مرکز برائے ماورائے شمس اور قابل سکونت جہانوں) میں تقریر کے لئے گئی تھیں۔ سیمینار کے بعد انہوں نے رائٹ سے بات کی اور ان کو وہ ستارہ دکھایا جو انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر کیپلر دوربین سے ڈھونڈا تھا۔ "ماورائے ارض ذی شعور حیات کی تلاش کے لئے ہمارے پاس کچھ زیادہ اچھی جگہیں موجود نہیں ہیں، لہٰذا یہ سب سے بہتر لگتا ہے،" رائٹ کہتے ہیں۔

ایم آئی ٹی کی فلکیات دان اور سیاروی سائنس دان سارا سیگر کے مطابق شہ سرخیاں تو مکمل طور پر مضحکہ خیز اور گمراہ کن تھیں۔ "یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ صحافت ہے۔ کیونکہ اگر آپ اس مضمون کو دیکھیں – وہ سائنسی مقالہ جو مصنف نے لکھا ہے – [یہ خیال] حقیقت میں تو وہاں پر موجود ہی نہیں ہے،" سیگر نے ورج سے بات کرتے ہوئے بتایا۔

"میں تو اس بات سے ہی مسحور ہو گیا کہ وہ دیکھنے میں کیسا لگے گا،" رائٹ نے اٹلانٹک سے بات کرتے ہوئے کہا۔ "خلائی مخلوق تو وہ آخری چیز ہو گئی جس کا آپ قیاس کر سکتے ہیں، تاہم اس کو دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ آپ امید کرنے لگتے ہیں کہ کسی خلائی تہذیب نے اسے بنایا ہوگا۔"

گزموڈو میں چھپنے والی ایک حیران کن رپورٹ کے مطابق کچھ فلکیات دان کہتے ہیں کہ ایسا ایک تیز رفتار گھومتے ہوئے اور بے شکل ستارے کے ثقلی اندھیرے اور مدار میں گماؤ کے سیدھ میں نہ آنے کی وجہ سے ہوا ہوگا۔

برطانوی خبر رساں ادارے انڈیپنڈنٹ نے خبر دی ہے کہ ستارہ ملکی وے سے اوپر ہے اور یہ مجمع النجموم دجاجہ اور بربط کے درمیان کہیں واقع ہے۔ یہ ستارہ اس لئے مختلف ہے کیونکہ اس ستارے کے آس پاس دھول جمع ہے جس کی وجہ سے روشنی کے عجیب و غریب خطوط حاصل ہو رہے ہیں، رائٹ کہتے ہیں۔ " میرے بہترین اندازے کے مطابق ستارے کے گرد کوئی مادّے کی قرص موجود ہے۔ تاہم سب سے بہتر نظریہ کہتا ہے کہ یہ دم دار ستاروں کا شاندار جھنڈ ہے۔"

نوجوان ستاروں میں عام طور پر سیاروں کو بنانے والی سیاروی قرص ہوتی ہے۔ جب ستارہ عمر گزارنے لگتا ہے تو یہ قرص ٹوٹ کر سیاروں کو بناتی ہے۔ تاہم اس طرح کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ یہ کوئی نوجوان ستارہ ہے، رائٹ کہتے ہیں۔

نوجوان ستاروں کی قرص ستارے سے بہت نزدیک ہوتی ہے، لہٰذا اس سے کافی حرارت نکلتی ہے۔ وہ کہکشاں میں سے تیز رفتاری سے نہیں گزر سکتی، اور عموماً اس کے ساتھ دوسرے ستارے بھی موجود ہوتے ہیں جو اس نظام میں ہی بنے ہوتے ہیں اور وہ بھی اسی سمت میں حرکت کرتے ہیں، رائٹ نے کہا۔ KIC8462852 میں ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے۔ رائٹ مزید کہتے ہیں کہ طبیعی علم کے حوالے سے کوئی ایسی وجہ نہیں ہے جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دے کہ ایسا صرف خلائی مخلوق ہی کر سکتی ہے۔

پچاس برس پہلے پرنسٹن انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کے طبیعیات دان، فری مین ڈیسن نے از روئے قیاس تخیلات کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے اندازہ لگایا تھا کہ وسیع ساخت مکمل طور سے اپنے مورث ستارے کے گرد حلقہ بنا لے گی۔ یہ ڈیسن کے کرہ - جو کاردیشوف کی جماعت دوم کی تہذیب نے بنائے ہوں گے – اپنے مورث ستارے سے پیدا ہوئی تمام کی تمام توانائی کو جذب کرنے کے قابل ہوں گے۔

فلکیات دان کیپلر نظام کا مطالعہ اس لئے کر رہے ہیں تاکہ وہ اس طرح کی ساخت کی غماز کرنے والے شواہد کو ڈھونڈ سکیں۔ ان شواہد کو نا صرف مرکزی ستارے سے آنے والی روشنی کی سطح کا تجزیہ کرکے ڈھونڈا جا سکتا ہے بلکہ ماورائے ارض تہذیبوں کے درمیان ہونے والے ممکنہ لیزر کے اشاروں سے بھی ان کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ "فرمی بلبلے،" جو مرغولہ نما کہکشاؤں میں بصری روشنی میں خالی نظر آتی ہیں، یہ اصطلاح فرمی لیب کے ایک سبکدوش سائنس دان رچرڈ کیریگن نے اپنے تحقیقاتی کام میں استعمال کی ہے۔ انہوں نے زیریں سرخ شعاعی فلکیاتی سیارچے (انفراریڈ ایسٹرونومیکل سیٹلائٹ )کے اعداد و شمار کی مدد سے اپنی اس تحقیق میں کائناتی پیمانے کی مصنوعی ساختوں جیسا کہ ڈیسن کے کرے یا کاردیشوف تہذیبوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ کیریگن کے مطابق فرمی بلبلہ اس وقت بڑھے گا جب کوئی تہذیب خلاء کو آباد کرے گی۔

کیریگن کے مطابق وہ تہذیب اپنی کہکشاں کو کہکشانی چکر کے وقت کے مطابق یا ٢٢ کروڑ ٥٠ لاکھ برس سے لے کر ٢٥ کروڑ برس کے درمیان اس کو ڈھانپ سکے گی، اور ہو سکتا ہے کہ اس سے کم وقت میں بھی وہ ایسا کر سکے۔

کائناتی پیمانے کی مصنوعی ساختوں کے نقش پاؤں کو تلاش کرنا روایتی سیٹی کے بجائے ڈیسن کرہ یا کاردیشوف کی تہذیبوں کو ڈھونڈھنے کی صورت نسبتاً ایک دلچسپ متبادل ہے۔ اس طرح کی مصنوعات کی کھوج میں اصل تہذیب کی طرف سے اشاروں کی منتقلی کی کھوج کی ضرورت نہیں پڑتی۔


ڈیلی گلیکسی بذریعہ پین اسٹیٹ یونیورسٹی، اسپیس ڈاٹ کوم، اور ورج ۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
کرۂ ارض کی تاریخ کی پانچ اجتماعی معدومیت (Mass Extinctions) یا ناپیدگی میں سب سے بڑی تباہی کا ذمہ دار کون؟




ایم آئی ٹی:"پانچ اجتماعی معدومیت (Mass Extinctions)میں سب سے بڑی معدومیت کا ذمہ دار خرد بینی جراثیم (Microbes)تھے "

تصویر کا ٹائٹل:وقوعہ پر موجود ثبوت فراواں اور عالمگیری ہیں: ركاز بتاتے ہیں کہ کچھ ٢٥ کروڑ ٢٠ لاکھ برس پہلے زمین پر موجود ٩٥ فیصد انواع(Species) یکایک غائب ہو گئیں - اب تک کی اس سیارے کی پانچ معلوم معدومیت میں سے یہ سب سے بڑی اجتماعی معدومیت ہے۔ تاہم اس معدومیت کے مجرم کو ڈھونڈنا مشکل اور متنازع رہا ہے۔

سال رواں کے مارچ کے مہینے میں ایم آئی ٹی کے محققین کی ایک ٹیم نے شاید وہ ثبوت حاصل کرلیا ہے جس سے مجرم کی شناخت کی جا سکے – تاہم آپ کو قاتل کو دیکھنے کے لئے خردبین کی ضرورت ہوگی۔

محققین نے اپنی تحقیق کی بنیاد تین آزاد ذرائع سے حاصل ہونے والے ثبوتوں پر رکھی ہے۔ سب سے پہلا ارضی کیمیائی ثبوت بتاتا ہے کہ شارحانہ ([Exponential] یا اس سے بھی تیز شرح سے) سمندروں میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی سطح خود ساختہ پرمین کے دور کی معدومیت کے اختتام پر بڑھنا شروع ہو گئی تھی۔ دوسرا جنیاتی ثبوت یہ بتاتا ہے کہ اس وقت میتھانوسارچینا (Methanosarcina) میں ہونے والی تبدیلی نے پانی میں جمع شدہ نامیاتی کاربن سے میتھین بنانے میں مدد دی۔ تیسرا اور آخری ثبوت رسوب ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ اسی وقت اچانک سے نکل (Nickel)کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوا تھا۔


یہ نئی تحقیق بتاتی ہے کہ جرم کا ارتکاب کرنے والے سیارچے، آتش فشاں یا کوئلے کی برستی آگ نہیں تھی جیسا کہ پہلے سمجھا جاتا رہا ہے۔ وہ اصل میں خرد بینی جرثومے تھے – بالخصوص میتھین بنانے والے آرکیائی جن کو میتھانوسارچینا کہتے ہیں - جو یکایک سمندر میں عود آئے تھے، اور کرۂ فضائی میں غیر معمولی مقدار میں میتھین کو اگل دیا تھا اور ڈرامائی طور پر انھوں نے ماحول اور سمندر کے کیمیائی خواص کو بدل دیا تھا۔

آتش فشاں بھی مکمل طور پر اس ذمہ داری سے جان نہیں چھڑا سکتے ؛ نئے منظر نامے کے تحت وہ جرم میں معاونت کی حد تک شریک تھے۔ یکایک ٹڈی دل کی طرح پھیلنے والے ان خرد بینی جرثومے کی نشوونما کی وجہ نئی تحقیق کے مطابق شاید ان کی نامیاتی کاربن سے لبریز وسائل کو استعمال کرنے کی نئی صلاحیت تھی۔ جس میں ان کو اچانک سے ان اجزاء میں اضافے سے مدد مل گئی تھی جو ان کی نشوونما کے لئے درکار تھے ، یعنی نکل کا عنصر اسی وقت بھاری تعداد میں آتش فشانوں نے اگل دیا تھا۔

اس پہیلی کا حل نیشنل اکیڈمی آف سائنس کی کاروائی میں شایع ہوا۔ یہ تحقیق ایم آئی ٹی کے ارضیاتی طبیعیات کے پروفیسر ڈینیل رتھ مین ، مابعد ڈاکٹر گریگوری فورنیر، اور پانچ دوسرے ایم آئی ٹی اور چین کے محققین نے مل کر کی تھی۔

کاربن کے ذخائر بتاتے ہیں کہ کوئی ایسی چیز ہوئی تھی جس نے کاربنی گیسوں - کاربن ڈائی آکسائڈ یا میتھین – کی مقدار میں غیر معمولی اضافہ کر دیا تھا جو اجتماعی معدومیت کے درمیان پیدا ہوئی تھیں۔ کچھ محققین خیال ظاہر کرتے ہیں کہ یہ گیسیں شاید ان آتش فشانوں نے اگلی ہوں گی جنہوں نے سائبیریا کے پھندے - ایک وسیع آتش فشانی چٹانیں جو زمین کے ارضیاتی نامچے کے مطابق سب سے زیادہ بڑے پیمانے پر پھٹی تھیں - بنائے تھے ۔ تاہم ایم آئی ٹی کی ٹیم کے اعداد و شمار نے یہ بتایا کہ یہ آتش فشانی پھٹاؤ رسوبی چٹانوں میں ملنے والی کاربن ڈائی آکسائڈ کے لئے کافی نہیں تھے۔ بلکہ اہم بات تو یہ تھی کہ گزرتے وقت کے ساتھ کاربن میں ہونے والی مشاہداتی تبدیلی آتش فشانی نمونے پر پوری نہیں اترتی تھی۔

"آتش فشانوں سے نکلنے والے کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج شروع میں بہت سرعت کے ساتھ تھا تاہم یہ بتدریج سست پڑتا گیا، اور ہم اس کے برعکس تیز رفتاری سے اخراج میں کمی مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس سے خرد بینی پھیلاؤ کا عندیہ ہی ملتا ہے،" فورنیر کہتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کی پیداوار میں تیز رفتاری سے اضافہ بلکہ رفتار میں اسراع پیدا کرنے والے چند مظاہر میں سے ایک خرد بینی جراثیم کی آبادی میں اضافہ ہے۔

تاہم اگر ان جاندار اجسام نے یہ تمام میتھین اگلی تھی تو وہ کون سے اجسام تھے، اور انھوں نے اسی وقت ایسا کیوں کرنا پسند کیا؟

یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں لونیت کا تجزیہ کام آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میتھانوسارچینا نے میتھین بنانے کے لئے کسی تیز رفتار صلاحیت کو ایک دوسرے خرد بینی اجسام سے جنین تبدیل کرکے حاصل کرلیا تھا - اور وہ ٹیم جو اس جاندار کی تاریخ تفصیلات کا نقشہ بنا رہی ہے اب ہمیں بتاتی ہے کہ یہ جنیاتی انتقال پرمین معدومیت کے آخر (end-Permian extinction) میں وقوع پذیر ہوا تھا۔ ( اس سے پہلے ہونے والی تحقیق میں اس واقعہ کو پچھلے ٤٠ کروڑ برسوں کے درمیان رکھا گیا تھا۔) موزوں ماحول کے ملتے ہی، اس جنیاتی انتقال نے خرد بینی جراثیم کے لئے وہ سیج تیار کی جس میں ان کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا اور انھوں نے سمندروں کی تلچھٹ میں موجود نامیاتی کاربن کے وسیع ذخائر کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔

تاہم اس معمے کا ایک آخری ٹکڑا بچا تھا۔ وہ اجسام اس تیز رفتاری سے پھیل نہیں سکتے تھے تاوقتیکہ ان کی آبادی کو بڑھانے کے لئے موزوں مقدار میں معدنی اجزاء موجود ہوں۔ اس خاص قسم کے خرد بینی جسم کے لئے وہ معدنی اجزاء نکل تھا –چین میں ہونے والی تلچھٹ (sediment) کے نئے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ڈرامائی اضافہ سائبیریا کے آتش فشانوں پھٹاؤ کے بعد ہوا تھا (یہ آتش فشانی پھٹاؤ پہلے ہی نکل کے سب سے بڑے ذخیرہ بنانے کے لئے جانے جاتے ہیں)۔ اسی چیز نے میتھانوسارچینا کی تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی آبادی کو اسراع دیا۔

میتھین کی بوچھاڑ نے سمندروں میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی سطح میں اضافہ کیا ہوگا جس سے وہ تیزابی ہو گئے ہوں گے - جس طرح سے سمندروں کو انسانوں کے ماحولیاتی عمل سے تیزابی ہونے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے – اور انہوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں کو جنم دیا ہوگا۔ آزادانہ ثبوت بتاتے ہیں کہ آبی جاندار جن کے بھاری کیلشیم سے بنے ہوئے خول تھے وہ اس پرمین معدومیت کے اختتام پر ختم ہو چکے تھے ، اور یہ بات تیزابی سمندر سے میل کھاتی ہے۔

"اس کام کے نتائج کافی حد تک کاربن ہم جاؤں کے تجزیہ پر انحصار کرتے ہیں،" رتھ مین کہتے ہیں، جو اس دور کے ارضیاتی نامچے میں کافی مضبوط اور واضح ہوں گے۔ " اگر یہ کوئی غیر معمولی اشارہ نہیں ہوتا، تو دوسرے امکانات کو الگ کرنا کافی مشکل کام ہوتا۔"

جان ہیز جو ووڈز ہول اوشین گرافک انسٹیٹیوٹ کے ایک محقق اور اس تحقیق میں شامل نہیں تھے ، کہتے ہیں کہ "یہ کام طبیعیات، خرد حیاتیات اور ارضی کیمیا کا ایک غیر معمولی امتزاج ہے۔ برسوں کی محنت اور عرق ریزی کے بعد اس کام نے ہمیں بہتر وقت کا پیمانہ اس واقعہ کے لئے مہیا کیا جو زمین کی سب سے بڑی اجتماعی معدومیت کے سنگ تھا۔"

ہیز مزید اضافہ کرتے ہیں کہ ٹیم کی اس ایک جرثومے کی شناخت جو زیادہ تر تبدیلیوں کے لئے ذمہ دار تھا وہ "پہلی مرتبہ جانے جانا والا واقعہ ہے جب کسی عمل کے لئے واحد دھماکے دار حملے کو اس طرح سے شناخت کیا گیا ہے، اور اس نے معدومیت سے متعلق ہمارے علم میں کافی اہم باتوں کا اضافہ کیا ہے۔"

ہرچند کہ کوئی ایک ثبوت یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ قدیمی معدومیت کے وقت کیا ہوا تھا، ان چیزوں کا اجتماعی اثر کسی انفرادی چیز سے کہیں زیادہ ہے ،" رتھ مین جو ایم آئی ٹی لورینز سینٹر کے شریک ڈائریکٹر بھی ہیں کہتے ہیں۔ ہرچند کہ حتمی طور پر تو یہ بات ثابت نہیں کرتی کہ جرثوموں نے ایسا کیا ہوگا، تاہم یہ کچھ متبادل نظریات کو رد کر دیتی ہے اور ایک مضبوط اور پائیدار صورت ان کے لئے بناتی ہے، وہ کہتے ہیں ۔


یہ تحقیق ناسا، نیشنل سائنس فاؤنڈیشن ، نیچرل سائنس فاؤنڈیشن آف چائنا اور نیشنل بیسک ریسرچ پروگرام آف چائنا کے تعاون سے انجام پائی۔


 

زہیر عبّاس

محفلین
خلائی مخلوق پانے کی سب سے امید افزا جگہ


ماورائے شمس گیسی دیو سیاروں کے چاند - -" خلائی مخلوق پانے کا سب سے امید افزا جگہ ہیں"




"ہم کائنات میں کہیں پر موجود حیات کو ثابت کرنے سے صرف چند دہائیوں پیچھے ہیں،" یہ بات فلکی طبیعیات دان رینی ہیلر نے کہی، جو مک ماسٹر یونیورسٹی کے اوریجنز انسٹیٹیوٹ میں مابعد ڈاکٹورل فیلو ہیں اور جنہوں نے اوریجنز انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور طبیعیات اور فلکیات کے پروفیسر پڈریٹز کے ساتھ کام کیا ہے۔ "ہم پورے وقت دوسرے سیاروں پر کھوج کرتے رہے ہیں جبکہ جواب کسی بھی چاند پر مل سکتا ہے۔"

وہ محققین جنہوں نے ہمارے نظام شمسی سے دور کے سیاروی نمونے بنائے ہیں ان کے مطابق مریخ سے بڑے اور ضخیم چاند اس طرح کی کھوج کے لئے سب سے بہتر جگہ ہوں گے۔ ہمارے نظام شمسی کے اعداد و شمار اور کسی بھی دوربین کی بصری پہنچ سے دور دیو ہیکل سیاروں کے مشاہدے کا استعمال کرتے ہوئے، ہیلر اور فلکی طبیعیات دان رالف پڈریٹز نے دکھایا کہ ایسے سیاروں کے کچھ چاند قابل سکونت جگہ ہو سکتے ہیں۔


ان کی تحقیق کے نتائج جون ٢٠١٥ء میں شایع ہوئے ، جس میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نظام شمسی سے دور کچھ ماورائے شمس سیاروں کے چاند مناسب حجم کے ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف موزوں مقام پر موجود ہیں بلکہ حیات کو پالنے کے لئے ان میں پانی کی بھی کافی مقدار موجود ہے۔

ماورائے شمس دریافت شدہ سیاروں کی تعداد اس وقت سے ہزاروں میں ہو چکی جب سے ان کی دریافت کے لئے نئے غیر بصری طریقوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان طریقوں کی مدد سے سائنس دان سورج جیسے ستاروں سے آتی ہوئی روشنی کو ناپتے ہیں اور ان کے سیاروں کی دریافت کی تصدیق اس وقت کرتے ہیں جب وہ سیارے اپنے مدار میں چکر لگاتے ہوئے اس ستارے کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس کو گہنا دیتے ہیں جس سے ستارے سے آنے والی روشنی ہلکی سے مدھم ہو جاتی ہے۔

ہمارے نظام شمسی سے باہر زیادہ تر دریافت ہونے والے سیارے تو مشتری سے بھی زیادہ ضخیم ہیں، اور وہ اپنے سورج جیسے ستارے کے گرد زمین کے سورج کے فاصلے جتنا دور مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں، تاہم یہ دور یہ فوق مشتری اصل میں گیسی دیو ہیکل گیندیں ہیں جو خود سے حیات کو نہیں پال سکتیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی سطح ٹھوس نہیں ہے۔ تاہم ان کے چاندوں کی سطح پر مائع پانی کے موجود ہونے کی موزوں صورتحال پائی جاتی ہے لہٰذا ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ وہاں حیات کا ظہور ہونے کے بعد اس کا ارتقاء ہو سکتا ہے۔

ہرچند کہ تحقیق کا اصل دائرہ اثر ماورائے شمس سیارے تھے، مک ماسٹر کے مصنفین ان دیو ہیکل مشتری جیسے سیاروں کے چاندوں پر تحقیق کرنے کے زیادہ مشتاق ہیں، جو ان کے مطابق ہجرت کرکے دور دراز تاروں کے معتدل حصّے میں اپنی چاندوں کو اپنے گرد مدار میں لئے ان سمیت پہنچ چکے ہیں۔

گھر سے قریب، ہیلر اور پڈریٹز نے مشتری کی شروعاتی زندگی کا نمونہ بھی بنایا، جس سے انھیں مشتری کے چاندوں میں برف کی تقسیم کے متعلق علم ہوا۔ اس سے فائدہ اٹھا کر وہ دوسرے نظام ہائے شمسی میں موجود فوق مشتری کے گرد بننے والے چاندوں کی تخلیق کے بارے میں رائے قائم کر سکتے ہیں۔ یہ چند مریخ سے دو گنا تک زیادہ ضخیم ہو سکتے ہیں۔

اب تک 4,000 کے لگ بھگ ماورائے شمس سیاروں کو دریافت کیا جا چکا ہے، اور فنیات میں ہوتی بہتری کے ساتھ بس کسی بھی وقت کسی ماورائے شمس چاند کی دریافت ہوئی چاہتی ہے۔ اگر اس طرح کے دیو ہیکل چاند دوسرے دیوہیکل سیاروں کے گرد اپنا وجود رکھتے ہیں، تو وہ ناسا کی کیپلر خلائی دوربین سے حاصل کردہ اعداد و شمار میں پہلے ہی سے موجود ہوں گے، یا پھر یورپین اسپیس ایجنسی کی آنے والی پلاٹو خلائی مہم اور یورپی جنوبی رصدگاہ کی زمینی بہت ہی بڑی دوربین سے ان کا سراغ لگایا جا سکے گا۔

درج بالا تصویر میں مشتری کا چاند آئی او دکھائی دے رہے ہے ۔ یہ تصویر جنوری ٢٠٠١ء کی کیسینی مدار گرد سے کیسینی ہائی گنز کی مہم کے دوران لی گئی ہے۔ سطح سے اوپر ١٨٦ میل تک مادّے کی دھاروں کے ساتھ، آئی او کو شدید ماورائے ارض حیات کو سہارا دینے والے اہم امیدوار کے طور پر گردانا جاتا ہے۔

"ہر کوئی مطلقاً آئی او پر حیات کے ممکن ہونے کے امکان کو رد کر دیتا ہے،" واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے فلکی طبیعیات دان ڈرک شولز مکوخ کہتے ہیں۔ آئی او پر موجود حالت اس کو ماضی بعید میں حیات دوست بنا چکے ہیں۔ اگر آئی او پر حیات کبھی پیدا ہوئی ہوگی تو امکان ہے کہ وہ دور حاضر میں بھی اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب ہو گئی ہوگی، شولز مکوخ کہتے ہیں۔

"سطح پر تو حیات کا ہونا ممکن نہیں ہے، تاہم اگر آپ چٹانوں میں مزید نیچے اتریں، تو وہ جگہ مسحور کن ہو سکتی ہے،" وہ کہتے ہیں۔ "ہم اس کو ایسے ہی مردہ نہیں گردان سکتے کہ وہاں کا ماحول انتہائی شدید ہے۔" کمپیوٹر سے بنائے گئے نمونے بتاتے ہیں کہ آئی او مشتری کا گرد اس جگہ بنا ہوگا جہاں پانی کی برف کافی مقدار میں موجود تھی۔ آئی او کی حرارت مائع پانی کے وہاں پر موجود ہونے کے امکان کے ساتھ حیات کی موجودگی کے قیاس کو بظاہر کافی معقول بناتی ہے۔ " آئی او کے بننے کے فوراً بعد وہاں پر کافی مائع پانی کے ہونے کا امکان موجود ہے، یہ بات یوروپا اور گینی میڈ پر پانی کی برف کی مقدار کو دیکھتے ہوئے کہی جاتی ہے،" شولز مکوخ کہتے ہیں۔

بشکریہ ڈیلی گلیکسی بذریعہ مک ماسٹر یونیورسٹی
 

زہیر عبّاس

محفلین
فرمی کے تناقض کا جواب؟

http://www.dailygalaxy.com/my_weblo...al-life-likely-to-become-extinct-quickly.html
ماورائے ارض حیات تیزی سے معدوم ہوتی ہوئی لگتی ہے



دوسرے سیاروں پر زندگی کا امکان مختصر ہو اور بہت جلد ختم ہو نے والا لگتا ہے، آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی (اے این یو) سے تعلق رکھنے والے فلکی حیات دانوں کا کہنا ہے۔ ایک تحقیق جس کا مقصد حیات کی نمو میں پیش رفت کو جاننا ہے اس میں سائنس دانوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ نئی حیات عام طور پر اپنے پالنے والے سیاروں کی بے قابو گرمی یا سردی سے جلد ہی ختم ہو جائے گی۔

"امکان ہے کہ کائنات قابل رہائش سیاروں سے بھری ہوئی ہوگی، لہٰذا کئی سائنس دان خیال کرتے ہیں کہ وہ لازمی طور پر خلائی مخلوق سے بھری ہوئی ہوگی،" یہ بات اے این یو کے مدرسہ تحقیق برائے زمینی سائنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے اور اس مقالے کے مرکزی مصنف ڈاکٹر آدتیہ چوپڑا نے کہی جو ایسٹروبائیولوجی میں شایع ہوا ہے۔ "ابتدائی حیات نازک ہوتی ہے، لہٰذا ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ شاذونادر ہی تیزی سے اتنے ارتقائی منازل کو طے کر سکے گی کہ زندہ باقی رہ سکے۔ زیادہ تر ابتدائی سیاروی ماحول غیر مستحکم ہوتے ہیں۔ ایک قابل رہائش سیارے کو پیدا کرنے کے لئے حیات کی اشکال کو سبز خانے کے نباتاتی اثر والی گیسوں کو قابو میں کرنا ہوگا جیسا کہ پانی اور کاربن ڈائی آکسائڈ تاکہ سطح کے درجہ حرارت کو پائیدار رکھ سکے۔"

چار ارب برس پہلے زمین، زہرہ اور مریخ سب کے سب قابل رہائش ہو سکتے تھے۔ تاہم ان کے بننے کے ایک ارب یا اتنے ہی کچھ عرصے کے بعد زہرہ ایک گرم بھٹی بن گیا جبکہ مریخ برف بن کر جم گیا۔

زہرہ اور مریخ پر ابتدائی خرد حیات کی زندگی اگر وہاں پر کبھی تھی بھی تو وہ تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول میں پائیداری حاصل کرنے میں ناکام ہو جائے گی، اے این یو کے شعبے سیاروی سائنس انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے اور شریک مصنف چارلی لائنویور کہتے ہیں۔ "غالباً زمین پر حیات نے سیارے کی آب و ہوا کو مستحکم کرنے کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے،" انہوں نے کہا۔ اوپر دیئے ہوئے ای ایس او کی تصویر آج سے کچھ 4 ارب پہلے اپنے شمالی سمندر کے ساتھ ایک مصور کا خیال ہے۔

" یہ معمہ کہ ہم نے ابھی تک خلائی مخلوق کے نشان کیوں نہیں پائے اس کا حیات کے ماخذ یا ذہین مخلوق سے بہت ہی کم لینا دینا ہے جبکہ اس کا زیادہ تعلق سیاروی سطحوں پر تیز رفتاری سے حیاتیاتی باز گیر چکروں کو قابو کرنے کے عمل کے عنقا ہونے سے ہے،" چوپڑا نے کہا۔

ایسا لگتا ہے کہ حیات کے لئے درکار توانائی اور اجزاء کے ساتھ گیلے اور چٹانی سیارے ہر جگہ پائے جاتے ہیں، بہرحال جیسا کہ طبیعیات دان اینریکو فرمی نے 1950ء میں نشاندہی کی تھی ، زندہ باقی رہنے والی کسی بھی ماورائے ارض حیات کا کوئی نشان نہیں پایا گیا۔

محققین کہتے ہیں کہ فرمی کے تناقض کا ایک معقول حل ایک قریبی آفاقی معدومیت ہے جس کو انہوں نے گیان بوٹل نیک (غیر ثابت خلائی مخلوق) کا نام دیا ہے۔

"گیان بوٹل نیک نمونے کی ایک حیرت انگیز پیش گوئی یہ ہے کہ کائنات میں رکازات کی وسیع تعداد کثیر خلیہ نوع جیسا کہ ڈائنوسارس یا انسان نما مخلوق نہیں ہوگی جس کو ارتقاء پذیر ہونے میں ارب ہا برس لگتے ہیں بلکہ معدوم ہوئی خرد حیات کی صورت میں ہوگی،" ایسوسی ایٹ پروفیسر لائنویور نے کہا۔


مقالے کی نقل یہاں سے اتاری جا سکتی ہے۔

ڈیلی گیلکسی بذریعہ آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی
 

زہیر عبّاس

محفلین
یوروپا (مشتری کا چاند) - چھوٹی دنیا کا سمندر

"یوروپا پر وہیل کی ہڈیاں؟" کیا یہ چھوٹی دنیا کا سمندر ہے کالٹک کے فلکیات دان مائک براؤن سوال کرتے ہیں


"میں جانتا ہوں، مجھے معلوم ہے۔ ہم سب کو آرتھر سی کلارک نے مشورہ دیا تھا کہ یوروپا پر اترنے کی کوشش مت کرنا۔ تاہم اگر آپ یوروپا پر اتریں تو کیا آپ یہ بات جاننا نہیں چاہیں گے کہ جانا کہاں ہے؟ اگر آپ ایسا کرنا چاہتے ہیں تو میرے ایک سند یافتہ طالبعلم پیٹرک فسچر کا ایک مقالہ آ رہا ہے امید ہے کہ اس کو آپ ضرور پڑھنا چاہیں گے۔" کالٹک سے تعلق رکھنے والے، رچرڈ اینڈ باربرا روزنبرگ کے سیاروی فلکیات کے پروفیسر اور mikebrownsplanets.com بلاگ کے مصنف مائک براؤن لکھتے ہیں۔

براؤن اپنی ایرس کی دریافت کی وجہ سے زیادہ بہتر طور پر جانے جاتے ہیں، 150 برسوں میں دریافت ہونے والا نظام شمسی میں سب سے زیادہ ضخیم جسم، اور وہ جسم جس نے وہ بحث شروع کی جس کی وجہ سے بالآخر پلوٹو کی تنزلی بطور اصل سیارے سے بونے سیارے تک کی ہوئی۔ براؤن اور ان کے کام کے نمایاں مضامین نیو یارکر، نیویارک ٹائمز، اور ڈسکوری میں چھپ چکے ہیں، اور ان کی دریافتیں دنیا بھر کے اخبارات میں صفحہ اوّل پر جگہ بنا چکی ہیں۔ 2006ء میں ٹائم میگزین نے انھیں دنیا کی سب سے زیادہ 100 اثر دار شخصیتوں میں نامزد کیا تھا۔

یہاں نیچے ان کی یوروپا کے بارے میں باقی کی مسحور کن پوسٹ موجود ہے:

شاید سب سے پہلے تو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ کوئی بھی آخر یوروپا پر کیوں اترنا چاہئے گا۔ یوروپا - مشتری کے چار بڑے سیارچوں میں سے دوسرا بڑا سیارچہ – واضح طور پر ایک خاص جگہ ہے۔ جب دو دہائیوں پہلے گلیلیو خلائی جہاز وہاں گیا ہے، تب سے ہم نے جان لیا ہے کہ یوروپا کی تازہ برفیلی سطح جو شگافوں اور ناہموار ڈھلانوں اور بدلتی ریخوں سے ڈھکی ہوئی ہے وہ وسیع اندرونی نمکین سمندر کی موجودگی کا بیرونی اشارہ ہے۔ اگر آپ اپنی دھن میں یوروپا کی سطح کے کسی شگاف پر اتر گئے ( دلچسپی کی بات یہ ہے کہ امکان ہے کہ مستقبل میں کوئی اس طرح کی مہم جوئی کر سکتا ہے؛ اگرچہ غالب گمان ہے کہ وہ اس طرح کی مہم جوئی کرتے ہوئے پھنس کر پس کر مر سکتا ہے ؛ یہ بات بتانا کوئی مشکل نہیں ہے) تو پھر آپ کو کسی طرح سے تیر کر چٹانی فرش تک جانا ہوگا جو برف کی سطح سے کچھ 100 کلومیٹر نیچے (ویسے یہ گہرائی مریناس کھائی سے کچھ دس گنا زیادہ بڑی) ہے۔ اس کے بعد آپ فوری طور پر اس کا جواب دینے کے قابل ہوں گے جو میرے لئے یوروپا سے متعلق سب سے دلچسپ اسرار کو جاننا ہے۔ چٹانی قلب اور سمندر کی آخری حد پر آخر کیا چل رہا ہے؟ اس جواب کا گہرا اثر اس بات پر ہوگا کہ یوروپا بالآخر کس قسم کی دنیا ہے۔


وہاں پر نیچے کیا چل رہا ہوگا؟ سب سے کم دلچسپ ترین امکان یہ ہے کہ سمندر کی تہ ساکن ہوگی، بے حرکت جگہ: اوپر پانی نیچے چٹان؛ اور درمیان میں پانی میں چٹان کی تھوڑی سی تحلیل ہوئی مقدار، تاہم وہاں کچھ زیادہ نہیں چل رہا ہوگا۔ اس طرح کے جہاں میں سمندر کے اندر کیمیائی توانائی کا کوئی خاص منبع نہیں ہوگا، اور اس بات کا تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ یہ کسی بنیادی حیات کی قسم کو سہارا بھی دے سکے۔ اگر آپ اپنی تمام تر کوشش کرکے اس ٹھنڈے تاریک مردہ سمندر کی تہ میں تیر کر جائیں، تو شاید آپ اپنے آپ سے یہ سوال کرنا شروع کر دیں گے کہ آیا یہ جگہ آنے کے قابل بھی تھی یا نہیں؟

سب سے زیادہ دلچسپ امکان - کم از کم میں جس سب سے زیادہ دلچسپ امکان کے بارے میں سوچ سکتا ہوں - وہ یہ ہے کہ یوروپا سمندر کی ایک چھوٹی سے دنیا کی طرح ہوگی جہاں پر سختائے ہوئی تختیاں، براعظم، گہرائی کھائیاں اور سرگرم پھیلتے ہوئے مراکز بھی ہوں گے۔ زمین پر درمیانی سمندری پہاڑیوں کا تصور کریں جہاں پر کالے دھوئیں کے شعلے غذائیت سے لبریز پانی کو سمندر کی تہ میں کھولا کر اس حیات کی مدد کر رہے ہوں جو ان کیمیائی چیزوں پر انحصار کرتی ہے۔ یوروپا کے سمندر میں اسی قسم کا کیمیائی آمیزے کی اس تصویر کو حاصل کرنے کے لئے زیادہ قیاس کی ضرورت نہیں ہے جو کسی قسم کی حیات کا ارتقاء کر سکتی ہو، اور یوروپا کے قلب میں پیدا ہونے والی توانائی کو چھوڑ رہی ہو۔ اگر آپ یوروپا کی وہیل کو تلاش کر رہے ہیں - جس کے بارے میں میرے کئی دوست اور میں خود از رائے تفنن کہتا ہوں کہ ہم ایسے ہی کر رہے ہوں گے - تو یہی وہ جہاں ہے جس میں آپ ان کو دیکھنا چاہیں گے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی شگاف سے نیچے جا کر اور پھر یوروپا کے سمندر کی تہ تک بہت عرصے تک تیر کر نہیں جا سکتا، لہٰذا یہی وجہ ہے جو یوروپا پر اترنے کی جگہ کے تعین کو اہم بناتی ہے۔ اگر وہ کیمیائی اجزاء جو سمندر کے اندر حل ہو گئے ہیں کسی طرح سے سطح پر آ جائیں تو ہم اس بارے میں سطح کے تھوڑے سے نمونے کی جانچ کرکے کافی کچھ جان سکتے ہیں کہ یوروپا کی اندر کی گہرائی میں کیا چل رہا ہے۔

ٹھیک ہے، چلیں آب اتریں! لیکن کہاں؟ غالباً آپ کو صرف اترنے کا ایک ہی موقع ملے گا، اور ایک مرتبہ جب آپ اتر گئے تو پھر آپ وہاں سے ہل نہیں سکتے، لہٰذا بہتر ہے کہ آپ صحیح جگہ چنیں۔ لگتا ہے کہ کئی برسوں پہلے کے اس اعلان کہ ہبل خلائی دوربین نے پانی کی دھاروں کی پھواروں کو یوروپا کے جنوبی حصّے میں دریافت کرلیا ہے، سے جواب مل گیا ہے: قطب پر اتریں، اور انتظار کریں کہ پھواریں آپ پر برسیں (اور شاید زیادہ آسان یہ ہو کہ ان پھواروں سے گزرتے ہوئے اترے بغیر ہی نمونے جمع کریں!)۔ بری خبر یہ ہے کہ اب ایسا لگتا ہے کہ اگر ہم بہت خوش قسمت رہے تو پھواریں دھوکے باز ہوں گی اور اگر بد قسمتی کا سایہ ہم پر فگن ہوا تو ان کا تو وجود ہی نہیں ہوگا۔ کیونکہ ان کے ابتدائی سراغ کے بعد سے کسی نہیں بھی انھیں دوبارہ نہیں دیکھا۔ وہ (بہت) شاذونادر ہوتی ہیں؟ کیا ابتدائی سراغ بدقسمت دھوکے باز اشارے کا تھا جس کو غلط سمجھ لیا گیا تھا؟ ابھی تک کوئی نہیں جانتا، تاہم آج کوئی بھی سمندر کے کیمیائی اجزاء کی جانچ کے لئے پھواروں پر انحصار نہیں کرے گا۔

خوش قسمتی سے ہمارا نیا مقالہ بتاتا ہے کہ ہمیں اندرون کے نمونے کے لئے پھواروں کی ضرورت نہیں ہے، اور اس کے باوجود ہم آسانی کے ساتھ اترنے کی جگہ بتا سکتے ہیں جو اتنی بڑی ہے کہ آپ آسانی کے ساتھ اپنی پسندیدہ خلائی گاڑی کو وہاں اتار سکتے ہیں۔

سب سے پہلے کہ آپ کس طرح سے اترنے کی جگہ کو تلاش کریں گے؟ ہم اصل میں جو کام کر رہے ہیں وہ یوروپا کی پوری برفیلی سطح کی برف کی بناوٹ کی نقشہ سازی کر رہے ہیں۔ اس طرح کی نقشہ سازی اس وقت سے ہو رہی ہے جب سے گلیلیو مہم وہاں گئی ہے، تاہم اب جدید دوربینی آلات اور زمین پر بڑی دوربینوں میں لگے بلند مکانی ریزولوشن مطابقتی بصری نظام کے ساتھ ہم سیاروی پیمانے کے نقشے کو بنانے کے لئے گلیلیو خلائی جہاز سے بہت بہتر کام کر سکتے ہیں۔ گلیلیو کی نقشے سازی کی ابتدائی کوششوں اور ہمارے اپنے اعداد شمار کے ابتدائی تجزیات میں ہم نے زیادہ زور خاص طور پر یوروپا کی سطح کو برف کے جز اور غیر برف کے جز میں توڑنے میں رکھا ہے اور اس کے بعد کوشش کی ہے کہ معلوم کریں کہ غیر برفیلے اجزاء کون سے ہیں۔

گلیلیو کے پہلے تجزیے کی طرح ہم نے دیکھا کہ غیر برفیلے اجزاء پر گندھک کے تیزاب کا غلبہ ہے جو اس وقت بنتا ہے جب گندھک (جو آئی او پر بالآخر آتش فشانوں سے بنتی ہے!) یوروپا کی سطح پر پانی کی برف پر گرتی ہے۔ ہم نے یہ بھی پایا کہ غیر برفیلے اجزاء میں سے کچھ میگنیشیم سلفیٹ - حقیقت میں جو آبیدہ نمک (رنگ ریز) ہے - جس کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ میگنیشیم کا ماخذ یوروپا کے سمندر کے اندر سے نکل رہا ہے اور پھر وہ آنے والی گندھک سے مل جاتا ہے۔

پیٹرک فشر نے اپنے نئے تجزیہ میں ان خیالات کو ایک قدم اور آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ وہ صرف اتنا جاننا چاہتے تھے کہ یوروپا کی سطح پر صرف پانی کی برف اور گندھک کے مرکبات کے علاوہ بھی اور کچھ ہے۔ یہ کرنے کے لئے انہوں نے یوروپا کی سطح پر تقریباً 1600 مختلف جگہوں کے طیف لئے اور کسی غیر معمولی چیز کی تلاش شروع کردی۔ جواب تھا شاید۔۔۔۔۔ کچھ ملا ہے۔ اتنے سارے طیف کے ساتھ شروع کرنے سے آپ کی آنکھوں کو کچھ تو ملنا ہی تھا۔ اس کو مزید کٹھن بھرے طریقے کی ضرورت تھی تاکہ طیف کی آپس میں گروہ بندی کی جا سکے، اور بالآخر اس نے بہت ہی واضح بہت ہی تیز نیا ریاضیاتی آلہ بنا لیا جس کی مدد سے آپ اپنی مرضی سے طیف کے مجموعے کو لے کر خود مختارانہ طور پر بغیر انسانی داخل اندازی و تعصب سے ان کو طیف کے مختلف نمبروں میں اپنی مرضی سے درجہ بند کر دیتا ہے، اور وہ نقشہ پیش کرتا ہے جہاں پر یہ مادّے سطح پر موجود ہوتے ہیں۔

جب اس نے اس آلے سے کہا کہ یوروپا کی سطح پر پائے جانے والے دو مختلف طیف ڈھونڈے، تو اس نے برف اور گندھک کے مرکبات کی تقسیم کو نکال کر دے دیا جن کو دہائیوں سے جانا جاتا رہا ہے۔ جب اس سے ایک تیسرے مختلف طیف کے لئے کہا گیا تو یوروپا کی سطح کا ایک بڑا حصّہ اچانک سے نکل کر ایسے مرکبات پر مشتمل نظر آیا جو پہلے سے نقشہ کئے ہوئے برف یا گندھک کے مرکبات کی طرح نہیں تھے۔ کبھی وہ یوروپا کے ارضیاتی نقشے اور کبھی اس نقشے کو دیکھتا کہ جس کو اس نے ابھی ہی بنایا تھا، وہ اس بات کا احساس کرکے چونک اٹھا اس نے تقریباً صحت کے ساتھ سب سے بڑے علاقے کا نقشہ بنا لیا جو یوروپا پر "انتشاری علاقہ" کہلایا۔ (ذیل میں ناسا کی تصویرہے)


یوروپا کی سطح کی ترکیب کے نقشے سے یہ دیکھا گیا کہ کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پر بڑی تعداد میں اس چیز کا ارتکاز ہے جس کو نمک سمجھا جا رہا ہے۔ یہ نمکیات منظم طریقے سے ایسی حال ہی میں ابھرنے والی جگہ "انتشاری علاقوں" میں واقع ہے جن کو کالی رنگ سے زیر خط کیا گیا ہے۔ اس طرح کے علاقے جن کو مغربی خطے کے نام سے موسوم کیا ہے یہاں پر اس طرح کے مادّوں کی سب سے زیادہ ارتکاز ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ اندرونی سمندر سے آئے ہوں گے اور یوروپا کی سطح پر کھوجی کے اترنے کے لئے سب سے مثالی جگہ ہوگی۔

یوروپا پر "انتشاری علاقے" ایسے علاقے ہیں جہاں پر برف کی سطح ٹکڑوں میں ٹوٹ کر ادھر ادھر ہوئی اور واپس ایک دوسرے سے جڑ گئی۔ کالٹک کے سند یافتہ طالبعلم پیٹرک فسچر اور ان کے رفقائے کاروں کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان علاقوں کی ترکیب باقی کی سطح سے الگ ہے جس سے یوروپا کے قرش کے نیچے وسیع سمندر کی بناوٹ ظاہر ہوتی ہے۔

انتشاری علاقوں کو پہلے گلیلیو مہم کے دوران بھی بطور علاقوں کے دیکھا گیا تھا جو یوروپا کی سطح کو ایسا دکھا رہے تھے جیسے کہ وہ ٹوٹ کر الجھ کر - حیرت انگیز طور پر - شاید ماضی قریب میں پگھلی بھی ہے۔ اگر آپ کو یوروپا کے اترنے کی ایسی جگہ پر رائے شماری میں حصّہ ڈالنا ہو جہاں سمندری پانی نے حال میں میں پگھل کر اپنے کیمیائی عناصر کو سطح پر ڈالا ہو تو آپ انتشاری علاقہ کو ہی ووٹ دیں گے. اور اب پیٹرک نے پایا کہ بڑے علاقائی پیمانے پر انتشاری علاقے کی ترکیب اس سے مختلف ہے جو یوروپا کی باقی سطح پر ہے!

اور ہمیں طیف اس انتشاری علاقے کی منفرد ہئیت کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟ افسوس کہ ہم ابھی نہیں بتا سکتے۔ ابھی تک ہم نے اس علاقے کے طیف میں وہ منفرد ہئیتی اشارے نہیں پائے اگرچہ ہماری تحقیق جاری ہے۔ ہمارا سب سے بہتر امکان وہ ہے کہ ہم ان باقی بچے ہوئے نمکیات کو دیکھیں جو سطح پر بہنے والے بڑی مقدار کے پانی کے بعد میں بخارات بننے کے بعد بچے ہوں گے۔ بہترین تشبیہ دنیا کے ریگستانی علاقوں میں بہت بچا ہوا نمک ہوگا۔ اس طرح کے ریگستانی نمک کی طرح نمک کی کیمیائی ترکیب ان تمام مادوں کا بتا دیتی ہے جو پانی کے بخارات کے بننے سے پہلے اس میں تحلیل ہوئے تھے۔ زمین پر، ریگستانی نمک میں کئی اجنبی نمکیات شامل ہوتے ہیں جس کا انحصار ارد گرد کی چٹانوں کی کیمیا پر ہوتا ہے۔ یوروپا پر نمک چٹانی کیمیا کے بارے میں بھی بتائے گا اگرچہ کہ چٹان وہ مادّہ ہے جو سمندر کی تہ سے کہیں زیادہ نیچے ہوگی۔

تب ہم نے سوچا کہ ہم نے یوروپا کی سطح پر ایک دیوہیکل نمک کا پیوند دیکھ لیا تھا، اور یہ علاقہ اس طرح کا تھا جیسا کہ حال ہی میں دوبارہ ابھرا اور اس نے کیمیا کو نہیں چھیڑا۔ میں نے کافی کوشش کی کہ پیٹرک سے اس نمکین پیوند کو سکنجبیستان کہلوا دوں، لیکن وہ نہیں سمجھتا کہ سند یافتہ طالبعلم کو اس طرح کی اجازت ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کا مذاق کر سکے۔ اگرچہ یہ کام میں اس کے لئے کر سکتا تھا۔ اور میں آپ کو بتاؤں گا: وہاں اترنے کی کوشش کریں! سنکجیبستان میں نا صرف نمک ہوگا جو آپ کو چٹان اور سمندر کے تعاملات کے بارے میں بتائے گا بلکہ اس میں دوسری ان تمام چیزوں کے نمونے بھی موجود ہوں گے جو سمندر نے پیش کرنی ہیں۔ کیا وہاں سمندر میں نامیاتی کیمیائی سرگرمی جاری ہے؟ سکنجیبستان میں دیکھیں۔ کاربونیٹ؟ سنکجیبستان۔ جرثومے؟ قطعی سنکجیبستان۔ ان تمام چیزوں کی بہتر تلاش اس قسم کے آلات سے کی جا سکتی ہے جو فی الوقت مریخ کے گرد چکر لگا رہے ہیں، جہاں سے آپ ان کا نمونہ لے کر ایک مشین میں ڈالیں اور ان کی کیمیائی بناوٹ کو پڑھ لیں۔ تاہم کیمرے کو لے جانا نہ بھولئے گا تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ وہاں کی زیر سطح میں اور کیا چیزیں موجود ہیں۔ بے ترتیب اور اجنبی برفیلی زیر سطح قریب سے لازمی طور پر ایک شاندار دیکھنے لائق جگہ ہوگی۔ اگر آپ خوش قسمت ہوئے تو آپ فاصلے سے آسمان میں پھوار کو جاتے ہوئے دیکھ سکیں گے۔ اور ہو سکتا ہے کہ شاید آپ وہاں پر کچھ وہیل کی ہڈیوں کو بھی پڑا ہوا دیکھ لیں۔

ڈیلی گلیکسی بذریعہ
mikebrownsplanets.com

صفحے کے سب سے اوپر کی تصویر، انٹارکٹک پیننسولا کے گوڈئر جزیرے کے پورٹ لاکروئے میں پڑی ہوئی وہیل کی ہڈیاں ہیں۔

rickredaphotos.com کے شکریہ کے ساتھ
 

زہیر عبّاس

محفلین
آکسیجن سے لبریز سیارہ ارض" - سب سے پہلے جاندار سے 80 کروڑ برس قبل



آکسیجن زمین پر جانوروں کے وجود کے لئے بہت اہم ہے۔ تاہم آکسیجن میں اضافے نے بظاہر جانداروں کے عروج کی رہنمائی نہیں کی۔ نئی تحقیق بتاتی ہے کہ 1.4 ارب برس پہلے جانداروں کے لئے کافی آکسیجن موجود نہیں تھی - تاہم اس کے باوجود 80 کروڑ برس کے بعد ہی پہلا جاندار زمین پر نمودار ہوا۔

جانداروں کاارتقاء 60 کروڑ برس قبل ہوا جو زمین کی تاریخ میں کافی دیر سے ہے۔ جانداروں کے دیر سے ارتقاء پذیر ہونا اور یہ حقیقت کہ آکسیجن جانداروں کے نظام تنفس کا مرکز ہے ان دونوں چیزوں نے مل کر اس تصور کو کافی عام کیا کہ جانداروں کا ارتقاء بعد میں ماحول میں ہونے والی آکسیجن کے ارتکاز کے مطابق ہے۔

"تاہم آکسیجن کی خاصی مقدار بھی خود سے اس قابل نہیں لگتی کہ جاندار صرف اس کے بل بوتے پر ظاہر ہوں۔ ہماری تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے"، یہ بات یونیورسٹی آف ساؤدرن ڈنمارک کے شعبے ناروی مرکز برائے زمینی ارتقاء سے تعلق رکھنے والی مابعد ڈاکٹرایما ہمارلنڈ اور پروفیسر ڈان کینفیلڈ کہتے ہیں۔

چائنا نیشنل پٹرولیم کارپوریشن اور کوپن ہیگن یونیورسٹی کے رفقائے کاروں کے ساتھ مل کر، ہمارلنڈ اور کینفیلڈ نے چین میں واقع زیاملنگ ساخت سے رسوبی نمونوں کو لے کر ان کا تجزیہ کیا۔ ان کا تجزیہ بتاتا ہے کہ 1.4 ارب برس پہلے ایک گہرے سمندر میں جدید آکسیجن کے اجتماع کی کم از کم 4 فیصد مقدار موجود تھی۔

عام طور پر ماضی کی آکسیجن کے اجتماع کا درستگی کے ساتھ تعین کافی مشکل ہوتا ہے۔ بہرحال نئی تحقیق نے دوسرے طریقوں کے ساتھ مل کر بہرحال 1.4 ارب پہلے آکسیجن کے ارتکاز کے بارے میں اہم پیش رفت حاصل کر لی ہے۔

تحقیق میں دھات کی تقسیم کے نشانوں کا استعمال کیا گیا ہے جو یہ دیکھاتی ہے کہ نچلا پانی جہاں زیاملنگ ساخت کے ذخائر تھے وہاں آکسیجن موجود تھی۔ حیاتیاتی نشان کی تقسیم، قدیم جانداروں سے حاصل کردہ سالمات بتاتے ہیں کہ درمیانی گہرائی میں موجود پانی میں آکسیجن شامل نہیں تھی۔ لہٰذا ایک قدیمی آکسیجن - قلیل علاقے میں زیالملنگ ساخت - کے ذخائر اسی طرح (لیکن اس سے مختلف بھی) ہیں جیسے کہ چلی اور پیرو کے ساحلوں پر پائے گئے ہیں۔

اس چور دروازے کے ساتھ محققین ایک سمندر کا سادہ نمونے کا استعمال کرکے کم سے کم آب و ہوائی آکسیجن کے ارتکاز کا اندازہ لگاتے ہیں جو زیاملنگ ساخت میں پانی کی کالمی آکسیجن کی تقسیم کو بنانے کے لئے درکار ہے۔

"پانی کے کالم میں آکسیجن کا ارتکاز کم از کم حالیہ کرۂ فضائی کی سطح (پی اے ایل) پر 4 فیصد ہونا چاہئے۔ یہ جانداروں کے وجود و ارتقاء کے لئے لازمی ہے"، کینفیلڈ کہتے ہیں۔ "لگ بھگ ڈیڑھ ارب برسوں پہلے ہوا میں آکسیجن کا کم از کم تعین کرنا کافی انوکھا ہے"، ہمارلنڈ اضافہ کرتے ہوئے کہتی ہیں:

"محققین سادہ جانوروں کے بارے میں جانتے ہیں جیسا کہ اسفنج اور کیڑے جو کرۂ فضائی کے سطح کے 4 فیصد آکسیجن سے بھی کم بلکہ اس سے بھی کم میں زندہ رہ سکتے ہیں۔ اسفنج شاید زمین کے پہلے پہل جانداروں کے مشابہ ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ آج 4 فیصد سے کم آکسیجن کی سطح پر زندہ رہ سکتے ہیں تو اوّلین جاندار بھی اس ارتکاز یا اس سے کم میں ایسے کر سکتے تھے"، کینفیلڈ کہتے ہیں۔

یہ نتائج دوسری کی جانے والی تحقیق سے مختلف ہیں اور کئی سوال اٹھاتے ہیں، جیسا کہ: تو پھر زمین کی تاریخ میں جانداروں کا ظہور اتنا بعد میں کیوں ہوا؟ "جانوروں کے اچانک تنوع شاید کئی عوامل کا نتیجہ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ آکسیجن میں اضافے کا جانداروں کے انقلاب سے اس سے کم لینا دینا ہو جتنا ہم نے پہلے فرض کیا تھا"، ہمارلنڈ کہتی ہیں۔

نئی تحقیق پروسیڈنگ آف نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے جریدے میں شایع ہوئی ہے۔

ڈیلی گلیکسی بذریعہ ساؤدرن ڈنمارک یونیورسٹی
 

زہیر عبّاس

محفلین
انسانی تہذیب کی کائنات میں ابتداء کب ہوئی؟





زمین ارتقاء پذیر کائنات کی ابتداء میں ہی ظہور ہو گئی ہے۔ نئی نظریاتی تحقیق کے مطابق آج سے 4.6 ارب برسوں پہلے جب ہمارا نظام شمسی پیدا ہوا تھا تو اس وقت موجود صرف آٹھ فیصد قابل سکونت سیارے کائنات میں اپنا وجود رکھ سکتے تھے۔ اور یہ سلسلہ اس وقت بھی ختم نہیں ہوگا جب سورج اگلے 6 ارب برسوں میں جل کر اپنا ایندھن پھونک چکا ہوگا۔ قابل سکونت سیاروں کے 92 فیصدی تعداد کو ابھی پیدا ہونا ہے۔ ان نتائج کو ناسا کی ہبل خلائی دوربین اور بارآور سیارہ شناس کیپلر خلائی رصدگاہ سے حاصل ہونے والی اطلاعات کی بنیاد پر جانچا گیا ہے۔

ناسا کی تحقیق کہتی ہے کہ مستقبل کی دنیاؤں کی پیدائش دیوہیکل کہکشانی جھرمٹوں اور بونی کہکشاؤں کے اندر ہونے کا امکان زیادہ ہے، جنہوں نے اپنی تمام گیس کو ابھی ستاروں کو نظام ہائے سیارگان سمیت بنانے کے لئے استعمال کرنا ہے۔ اس کے برعکس ہماری ملکی وے کہکشاں مستقبل میں بننے والے ستاروں کے لئے دستیاب گیس میں سے زیادہ تر کو استعمال کر چکی ہے۔

ہماری تہذیب کا ارتقاء پذیر کائنات کی ابتداء میں ظہور ہونے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم اپنی طاقتور دوربینوں جیسا کہ ہبل کا استعمال کرکے بگ بینگ سے ابتدائی کہکشاؤں کے ارتقاء کو دیکھ کر اپنے اصل کا سراغ لگا سکتے ہیں۔ بگ بینگ کے مشاہداتی ثبوت اور کائناتی ارتقاء، روشنی اور دوسری برقی مقناطیسی اشعاع میں بند ہے، جو آج سے ایک کھرب برس بعد بے قابو کائنات کے پھیلاؤ کی وجہ سے مٹ جائے گا۔ مستقبل بعید میں کوئی بھی ظہور پذیر ہونے والی تہذیب اس بات سے بالکل بے خبر رہے گی کہ کس طرح سے کائنات کی شروعات اور ارتقاء ہوا تھا۔

"ہماری بنیادی دلچسپی بقیہ کائنات کے پس منظر میں زمین کے مقام کی تفہیم ہے،" میری لینڈ میں واقع بالٹی مور کے اسپیس ٹیلیسکوپ سائنس انسٹیٹیوٹ (ایس ٹی ایس سی آئی) سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے مصنف پیٹر بہروزی کہتے ہیں،" کائنات میں بننے والے سیاروں کے مقابلے میں دیکھا جائے تو زمین کافی ابتداء میں بنی ہے۔"

دور تک اور ماضی میں جھانکتے ہوئے، ہبل نے فلکیات دانوں کوکہکشانی مشاہدات کی ایک ایسی "خاندانی بیاض" دی ہے جو کہکشاؤں کی نشو و نما کے ساتھ کائنات کے ستاروں کی تشکیل کی سرگزشت بتاتی ہے۔ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات 10 ارب برسوں پہلے ستاروں کو تیز رفتار شرح سے پیدا کر رہی تھی، تاہم اس میں استعمال ہونے والی کائنات کی ہائیڈروجن اور ہیلیئم کا حصّہ انتہائی معمولی تھا۔ آج ستاروں کی پیدائش کی شرح پہلے کی نسبت بہت ہی کم ہے، تاہم باقی بچی ہوئی گیس اس قدر ہے کہ کائنات آنے والے لمبے عرصے تک ستاروں کو بناتی رہے گی۔

"[بگ بینگ کے بعد] باقی بچ جانے والا مادّہ اس قدر ہے کہ مستقبل میں وہ ملکی وے اور دوسری کہکشاؤں میں مزید سیاروں کو بنا سکتا ہے، ایس ٹی ایس سی آئی سے تعلق رکھنے والی اور شریک مصنف مولی پیپلز اضافہ کرتی ہیں۔

کیپلر کے سیاروں کا سروے زمین کے حجم کے سیاروں کو ستاروں کے قابل سکونت علاقے میں ہونے کا عندیہ دیتا ہے، وہ درست فاصلہ جو سطح پر پانی کے جمع ہونے کے لئے ضروری ہے، وہ ہماری کہکشاں میں جگہ جگہ موجود ہے۔ سروے کی بنیاد پر، سائنس دان اندازہ لگاتے ہیں کہ کم از کم ایک ارب زمین کے حجم کی دنیائیں ہی صرف ملکی وے میں موجود ہوں گی، اندازہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر چٹانی دنیائیں ہی ہوں گی۔ تخمینہ جات اس وقت آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں جب آپ قابل مشاہدہ کائنات میں دوسری 100 ارب کہکشاؤں کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔

یہ مستقبل میں قابل سکونت علاقوں میں بننے والے زمین جیسے حجم کے سیاروں کو چھوڑ کر ہیں۔ آخری ستارہ اپنا ایندھن پھونک کر آج سے 100 کھرب برسوں سے پہلے ختم نہیں ہوگا۔ یہ اس قدر طویل وقت ہے کہ سیاروں کی دنیا میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

زمین اور نظام شمسی میں موجود دوسرے سیارے سورج کے گرد اگرچہ لگ بھگ گولائی میں ہی چکر کاٹتے ہیں، دوسرے نظام ہائے سیارگان میں سیاروں کے دم دار تاروں کی طرح کے مدار ہو سکتے ہیں جس میں ستارے سے سیارے کا فاصلہ تبدیل ہوتا ہو گا۔ اس طرح کے مداروں کو منحرف المرکز کہا جاتا ہے اور اس وجہ سے سیارہ قابل سکونت علاقے میں آتا جاتا رہے گا۔ ایک قابل سکونت علاقہ جس کو یہاں سبز رنگ میں دکھایا گیا ہے، اس کو ایک ایسا علاقہ بیان کیا جاتا ہے جو ستارے کے گرد موجود ہوتا ہے جہاں مائع پانی، جو حیات کے لئے لازمی جز ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ممکنہ طور پر موجود ہو سکتا ہے۔ زمین ہمیشہ سے اس قابل سکونت علاقے میں رہی ہے۔

نتائج اکتوبر 20 کے رائل ایسٹرونامیکل سوسائٹی کے ماہانہ نوٹسز میں شایع ہوئے ہیں۔

ڈیلی گلیکسی بذریعہ ناسا / گوڈارڈ خلائی پرواز سینٹر



تصویر کریڈٹ: lolimy.com کے شکریہ کے ساتھ
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
حیات کے ماخذ کی تلاش



سائنس دان حیات کے ماخذ کی تلاش سالماتی سطح پر کر رہے ہیں



زندگی کس طرح سے بے روح کیمیائی آمیزے سے ابتداء کر سکتی ہے؟ اس سوال نے سائنس دانوں کو ڈارون کی 'انواع کے آغاز' سے ہی پریشان کیا ہوا ہے۔ گروننجن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے کیمیا کے پروفیسر سجبرن اوٹو کی تحقیق ' کیمیائی ارتقاء' یہ دیکھتی ہے کہ آیا خود سے منظم اور خود کار عمل انگیز اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔ ان کی تحقیقاتی جماعت نے پہلے خود کی نقل کرنے والے سالمات بنائے ہیں - یعنی وہ سالمات جو اپنی نقل خود سے کر سکیں - اور اب نقلچی تغیر پذیریوں میں ہونے والے تنوع کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ اگر آپ کسی ایک جدی نقلچی تغیر پذیر کی جماعت سے شروع کریں تو دوسری شاخ جبلی طور پر نکل آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماحولیاتی تنوع جس کا سامنا حیاتیات میں ہوتا ہے ہو سکتا ہے کہ ان سب کی جڑیں سالماتی سطح پر موجود ہوں۔

حیات کسی نقطے پر لازمی شروع ہوئی تاہم اس کی شروعات ابھی تک ایک معمہ ہی بنی ہوئی ہے۔ چارلس ڈارون نے خود سے 1871ء میں جوزف ہوکر کو لکھنے والے ایک خط میں پیش گوئی کی تھی: 'تاہم اگر (اور اوہ یہ کتنا بڑا اگر ہے) ہم کسی گرم چھوٹے تالاب میں امونیا اورفاسفورس کے نمکیات کی ہر قسم، روشنی، حرارت، برق کو ملا کر بنا سکیں تو دیکھیں گے کہ کیمیائی طور پر ایک پروٹین مرکب بن گیا ہے جو مزید پیچیدہ تبدیلیوں سے گزرنے کو تیار ہے، دور حاضر میں اس طرح کا مادّہ فوری طور پر ہڑپ یا جذب ہو جائے گا یہ وہ صورتحال نہیں ہوگی جس میں اس سے پہلے جاندار مخلوق بنے۔ '

یہ بات جاننا ناممکن ہے کہ زمین پر حیات کیسے حقیقت میں شروع ہوئی، تاہم یہ بات سائنس دانوں کو اس کوشش سے نہیں روک سکتی کہ وہ تلاش کریں کہ آیا اس کا آغاز کیسے ہوا تھا۔ یہ صرف تجسس کا معاملہ نہیں ہے۔ اس عمل میں ملوث چیزوں میں شامل ہیں خود کار عمل انگیز (جہاں پر سالمات اپنی نقول کو بنانے کے لئے اعانت کرتے ہیں) اور خود تنظیمی (جہاں سالمات جبلی طور پر اپنے آپ کو بلند ترتیب ساخت میں منظم کرتے ہیں) جو مادی سائنس جیسے میدان کے لئے اہم تصورات ہیں۔

اوٹو کیمیائی ارتقائی پر کئی برسوں سے کام کر رہے ہیں۔ اس کی شروعات اتفاق کی دریافت سے ہوتی ہے، وہ بیان کرتے ہیں۔ 'ہم نے کچھ چھوٹے امینو تیزاب کے مرکبات دیکھے جو خود سے اپنے آپ کو حلقوں میں ترتیب دے لیتے ہیں، جو بعد میں گٹھا بنا لیتے ہیں۔' ایک مرتبہ جب گٹھا بننا شروع ہو جاتا ہے تو وہ نشوونما پانا جاری رکھتا ہے اور پھر چھوٹے گٹھوں میں ٹوٹ کر تعداد بڑھاتا ہے۔ یہ بھی بڑھ کر دوبارہ ٹوٹ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ گٹھے ان حلقوں میں بھی تحریک پیدا کرتے ہیں جن پر وہ مشتمل ہوتے ہیں۔ گٹھے اور حلقوں کو 'نقلچی' کہتے ہیں کیونکہ یہ اپنی نقول بنانے کے قابل ہوتے ہیں۔

جان سیڈونک جو اوٹو جماعت میں ایک مابعد ڈاکٹر ہیں انہوں نے دریافت کیا کہ اگر آپ نقلچیوں کو دو مختلف اقسام (اے اور بی) کی بنیادی اینٹیں ('خوراک') فراہم کریں تو وہ اپنی نقل بنا لیں گے۔ انہوں نے نقلچی تغیر پذیر جماعت کے ظہور کا مشاہدہ ہوتے دیکھا جو خوراک اے میں خاص مہارت رکھتے ہیں، تاہم کچھ نے بی خوراک کا بھی استعمال کیا ہے۔ حلقے زیادہ تر اے کی بنیادی اینٹوں سے بنے ہیں جبکہ بی کی چند ایک ہی اینٹیں ان میں شامل ہیں۔

کچھ دنوں بعد سیڈونک نے ایک دوسرے تغیر پذیریوں کی جماعت کو دیکھا جو خوراک بی میں مہارت رکھتے ہیں تاہم کچھ اے کا بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ یہ دوسری جماعت پہلی جماعت کی نسل لگ رہی تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان ایک نسلی رشتہ موجود تھا۔ یہ اس عمل سے کافی ملتا ہے جس میں نئی انواع پہلے سے موجود نوع سے حیاتیاتی ارتقاء کے دوران بنتی ہیں سوائے اس انواع کی تشکیل کے اس عمل میں پوری طرح تیار حیاتیاتی جاندار نہیں بنتے تاہم یہ سالماتی پیمانے پر ہوتا ہے۔

سالماتی 'آغاز نوع' کے عمل کو مزید تفصیل میں دیکھ کر محققین پہلی نقلچی جماعت کے اندر تغیر پذیریوں کی شناخت کرسکتے ہیں جو دوسری جماعت کی پیداوار کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے ایک ایسا نظام بنا لیا ہے جس میں نقلچی 'نوع' سالماتی پیمانے پر بے مثال طور پر بنتی ہیں۔ منفرد جماعت میں نقلچی سالموں کی جبلی تنوع اس لمبے عمل کا وہ پہلا قدم ہو سکتا ہے جو ہماری رہنمائی حیرت انگیز ماحولیاتی تنوع تک کرتا ہے جو ہم سب اپنے ارد آج دیکھتے ہیں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح نئی 'انواع' کیمیائی ارتقاء سے ابھرتی ہیں۔ اوٹو 'وضاحت کرتے ہیں، ' بلاشبہ، انواع کے آغاز کی اصطلاح صرف اس وقت استعمال ہونی چاہئے جب جنسی طور پر پیدا ہونے والے جانداروں کے بارے میں بات کی جائے، تاہم ہمارا کام بھی اسی طرح کا نمونہ دکھاتا ہے۔' اوٹو کہتے ہیں کہ ' دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم نے شروعات بغیر کسی نقلچی کے کی ہے، تاہم ہم نے پہلی قسم کو نمودار ہوتے دیکھا اور اس کے بعد دوسری قسم کو۔ یہ بات یقینی طور پر سب سے اہم ہے!'

اگلے قدم پر موت کو متعارف کروانا ہے۔ یہ نظام میں مسلسل بنیادی اینٹوں کی فراہمی کرکے اور رد عمل رگوں کے اجزاء کو نکال کر لیا جا سکتا ہے۔ نقلچی صرف اس نظام میں اسی وقت تک باقی بچے رہ سکتے ہیں جب ان کی پیدائش کی شرح ان کو شرح اموات سے زیادہ ہو۔ 'اس کے بعد ہم اس طرح کے نظام میں ایک نقلچی تغیر پذیریوں کی جماعت کا بیج لگاتے ہیں اور ماحول کو بدلتے ہیں، مثال کے طور پر ایک دوسرا محلول ڈال کر۔ یہ مختلف تغیر پذیریوں کی صحت میں تبدیلی لائے گا اور تغیر پذیریوں کی آبادی کو اس طرف منتقل کر دے گا جو نئے ماحول میں بہتر طریقے سے نقل بنا سکیں۔' اس کا نتیجہ قدرتی چناؤ کی صورت میں نکلے گا جس کو ڈارون نے شناخت کیا تھا۔ 'صرف ہم ہی اکیلے نہیں ہیں جو ان تجربات سے خوش ہیں - ارتقائی حیاتیات دان جن سے میں نے بات کی ہے وہ بھی خوش ہیں۔'

نتائج جنوری 4، 2016ء میں نیچر کیمسٹری میں شائع ہوئے ہیں۔

کیمیائی ارتقاء پر اوٹو جماعت کی طرف سے کی جانے والی تحقیق کی وضاحت کرتی ویڈیو یو ٹیوب پر اس ربط دستیاب ہے :
ڈیلی گلیکسی بذریعہ گروننجن یونیورسٹی​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ہگز کے بعد


ایک مستحکم کائنات ایسی پست توانائی کی حالت میں ہوتی ہے جہاں ذرّات ، قوتیں اور تعاملات نظری پیش گوئیوں کے مطابق ہمیشہ عمل کر سکیں۔ یہ صورتحال نازک یا غیر پائیدار حالت کے برعکس ہے، یعنی بلند توانائی کی حالت جس میں چیزیں بالآخر تبدیل ہو جاتی ہیں، یا پھر اچانک یا غیر متوقع طور پر بدل جاتی ہیں، اور اس کا نتیجہ کائنات کے منہدم ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ ہگز اورفرازی کوارک اس سوال کے جواب کو جاننے کے لئے انتہائی اہم وتر خاص ہیں۔ ہگز اور فرازی کوارک بیان کرتے ہیں کہ کائنات لازمی طور پر مکمل توانائی کی سطح پر پائیدار نہیں ہے۔

بگ بینگ کے بعد کے دور میں قدرتی فرازی کوارک - مادّے کا ایک اہم جز- ایک انتہائی حساس کھوج ہے جس کا استعمال طبیعیات دان کوانٹم تعاملات کے متبادل نظریات کی جانچ کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ڈیلس میں واقع سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے طبیعیات دانوں نے ایک نئی صحت کے ساتھ اہم ذیلی جوہری ذرّات کی پیمائش کی ہے، جس سے وہ دروازہ وا ہو گیا ہے جس میں ہماری کائنات کے گہرے ترین رازوں سے بہتر طور پر پردہ اٹھ سکے گا۔

محققین نے فرازی کوارک - کمیت - کی اہم خاصیت کی نئی پیمائش کی ہے۔ کوارک پروٹون اور نیوٹران کو بناتے ہیں جنہوں نے لگ بھگ نظر آنے والے تمام مادّے کو بنایا ہے۔ طبیعیات دان جانتے ہیں کہ فرازی کوارک کی کمیت بڑی تھی، تاہم وہ اسے صاف وضاحت کے ساتھ بیان کرنے میں مشکلات کا شکار تھے۔

فرازی کوارک کی نئی پیمائش کا حساب طبیعیات دانوں کو نئے نظریات بنانے کے لئے رہنمائی میں مدد کرے گا، ایس ایم یو کے شعبہ طبیعیات سے تعلق رکھنے والے پروفیسر رابرٹ' کوئی' کہتے ہیں۔' کوئی' نے ایس ایم یو کی اس جماعت کی سربراہی کی ہے جس نے پیمائش کی تھی۔

فرازی کوارک حتمی طور پر اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ عمل انتہائی درجے کی حساس کھوج ہے اور مادّے کی ماہیت اور کائنات کے مقدر کے بارے میں متبادل نظریات کو جانچنے کا اہم آلہ بھی ہے۔ دو دہائیوں سے طبیعیات دان فرازی کوارک کی کمیت کی پیمائش کو بہتر کرنے اور اس کی قدر کو درست ناپنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔

"فرازی " ایک نیا بنیادی ذرّہ، ہگز بوسون ہے۔ ایس ایم یو کی حاصل کردہ نئی قدر حالیہ دور میں دوسرے طبیعیات دانوں کی پیمائش کی تصدیق کرتی ہے، 'کوئی 'کہتے ہیں۔ تاہم یہ طبیعیات کے معیاری نمونے کے بارے میں کافی غیر یقینی کی صورت حال کو بڑھا دیتی ہے۔

معیاری نمونہ ان نظریات کا مجموعہ ہے جو طبیعیات دانوں نے اس لئے اخذ کئے ہیں - اور اس میں مسلسل نظر ثانی جاری ہے - کہ کائنات کے بارے میں اور کس طرح سے کائنات کی صغیر ترین بنیادی اینٹیں ایک دوسرے سے متعامل ہوتی ہیں، بیان کر سکیں۔ معیاری نمونہ کے ساتھ جڑے مسائل کو ابھی حل ہونا باقی ہے۔ مثال کے طور پر قوّت ثقل کو ابھی تک کامیابی کے ساتھ اس فریم ورک میں جوڑا نہیں جا سکا۔

معیاری نمونہ بتاتا ہے کہ فرازی کوارک - جو 'بلند" کے نام سے زیادہ جانا پہچانا جاتا ہے - ہماری کائنات کی چار میں سے دو قوّتوں میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے - برقی کمزور طاقت جس کی وجہ سے ذرّات کمیت حاصل کرتے ہیں اور مضبوط قوّت جو کوارک کے تعاملات کو انضباط کرتی ہے۔ کمزور برقی قوّت عمومی مظاہر جیسا کہ روشنی، برق اور مقناطیسیت کو انضباط کرتی ہے۔ مضبوط قوّت جوہری مرکزے اور اس کی ساخت یعنی ان ذرّات کے علاوہ جس سے کوارک بنتے ہیں جیسا کہ مرکزے میں موجود پروٹون اور نیوٹران کو دیکھتی ہے۔

فرازی کوارک طبیعیات میں ایک نئے بنیادی ذرّے - ہگز بوسون - کے ساتھ یہ دیکھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے کہ آیا برقی کمزور قوت پانی کو تھام کر رکھتی ہے یا نہیں۔

کچھ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ شاید فرازی کوارک خاص ہیں کیونکہ اس کی کمیت کی تصدیق ہو سکتی ہے یا یہ برقی کمزور نظریئے کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ اگر انھوں نے اس کو مشکل میں ڈالا تو وہ دروازہ کھل جائے گا جس کو طبیعیات دان "نئی طبیعیات" سے پکارتے ہیں۔

دوسرے سائنس دان کہتے ہیں کہ فرازی کوارک برقی مقناطیسی اور پروٹون، نیوٹران اور کوارک کے کمزور تعاملات کو ایک وحدت میں پرونے کی کڑی ہیں۔ مزید براں بحیثیت ایسے کوارک کے جس کا براہ راست مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، فرازی کوارک معیاری نمونے کی مضبوط قوّت کے نظریئے کی جانچ کرتا ہے۔

"لہٰذا فرازی کوارک اصل میں دونوں ہی نظریات کو للکار رہا ہے،" 'کوہی 'کہتے ہیں۔ "فرازی کوارک کی کمیت خصوصی طور پر دلچسپ ہے کیونکہ اس کی پیمائش اس نقطہ کی طرف جا رہی ہے جہاں ہم اس سطح سے بھی آگے پہنچ گئے ہیں جہاں نظریئے کو سمجھا جاتا ہے۔ ہماری تجرباتی غلطیاں یا غیر یقینی اس قدر چھوٹے ہیں کہ یہ درحقیقت نظریوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ سخت جدوجہد کرکے کوارک کی کمیت کے اثر کو جان لیں۔ ہگز کے فرازی کوارک کے ساتھ براہ راست تعاملات کے مشاہدے کی ہمیں ضرورت ہے اور ہمیں دونوں ذرّات کی پیمائش کو صحت کے ساتھ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔"

نئی پیمائش کے نتائج سینٹ پیٹرزبرگ، روس میں اگست اور ستمبر میں لارج ہیڈرون کولائیڈر پر منعقد ہونے والی تیسری سالانہ کانفرنس اور اسچیا، اٹلی میں فرازی کوارک طبیعیات پر منعقد ہونے والی آٹھویں بین الاقوامی ورک شاپ میں پیش کئے گئے ہیں۔

" ہگز کی دریافت کے ساتھ رائے عامہ 'ٹھیک ہے کام ہو گیا ہے" جیسی ہے"' کوہی' کہتے ہیں۔ "تاہم کام ابھی ہوا نہیں ہے۔ حقیقت میں یہ تو آغاز ہے اور فرازی کوارک معمے کے گمشدہ حصّے کو حاصل کرنے کا ایک آلہ ہے۔"

نتائج کو عوام الناس کے لئے ڈی زیرو نے شایع کیا، جو پوری دنیا کے 500 سے زائد طبیعیات دانوں کا اشتراکی تجربہ ہے۔ پیمائش کو " بہتر نیوٹرینو کے وزن کے ساتھ ڈائلپٹن انحطاط میں فرازی کوارک کی صحت کے ساتھ پیمائش" سے بیان کیا گیا ہے اور یہ آن لائن arxiv.org/abs/1508.03322. پر دستیاب ہے۔

فرازی کوارک کی پیمائش کو اور زیادہ صحت کے ساتھ کرنے کے لئے ایس ایم یو کے ڈاکٹرل محقق ہوانزاہو لیو فرازی کوارک کی پیمائش کے لئے ایک معیاری طریقے کا استعمال اور کچھ وتر خاص کی صحت کو بہتر بنا کر کرتے ہیں۔ انہوں نے فرازی کوارک کے اعداد و شمار کی پیمانہ بندی کو بھی بہتر بنایا ہے۔

"لیو نے درستگی کا حیرت انگیز معیار حاصل کرلیا،"' کوہی' کہتے ہیں۔ "اور بہتر تجزیے کا اس کا نیا طریقہ فرازی کوارک کے ساتھ ساتھ دوسرے ذرّات کے اعداد و شمار کی جانچ کرنے کے لئے بھی قابل عمل ہے، اس طرح سے اس طریقہ کار کو پورے ذرّاتی طبیعیاتی میدان کے لئے کارآمد بنا دیا۔"

ایس ایم یو بہتری ہگز بوسون کی مزید بہتر تفہیم کے لئے بھی استعمال ہو سکتی ہے، جو بیان کرتا ہے کہ مادّے کی کمیت ہوتی ہی کیوں ہے، لیو کہتے ہیں۔

ہگز کا مشاہدہ پہلی مرتبہ 2012ء میں ہوا اور طبیعیات دان اس کی ماہیت جاننے کے لئے انتہائی مشتاق ہیں۔

"اس طریقہ کار کے اپنے فائدے ہیں - بشمول دوسرے ذرّات کے ہگز کے ساتھ تعاملات کے - اور ہم امید کرتے ہیں کہ دوسرے اسے استعمال کریں گے،" لیو کہتے ہیں۔ "اس کے ساتھ ہم نے پیمائش کرنے میں 20 فیصد بہتری حاصل کر لی ہے۔ یہاں پر میں اس کے بارے میں کیسا سوچتا ہوں - ہر کوئی 199 ڈالر والا آئی فون کا معاہدہ پسند کرتا ہے۔ اگر کسی دن ایپل ہمیں بتائے کہ وہ اپنی قیمت کو 20 فیصد کم کر دیں گے، تو ہم اس کم قیمت کو حاصل کرنے کے لئے کیسا محسوس کریں گے؟"

لیو نے ایک اور بہتری کا استعمال کیا ہے جس نے پیمائش کی صحت کو چار گنا زیادہ بہتر کر دیا ہے،' کوہی' کہتے ہیں۔

فرازی کوارک، جو شاذونادر ہی اب وقوع پذیر ہوتے ہیں، آج سے 13.8 ارب برس پہلے بگ بینگ کے فوراً بعد بہت ہی زیادہ عام تھے۔ بہرحال فرازی کوارک ہی ان چھ مختلف اقسام میں سے وہ ایک کوارک ہے جس کا براہ راست مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے تجرباتی طبیعیات دان فرازی کوارک کے خصائص پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں تاکہ روز مرہ کے مادّے میں موجود کوارک کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔

فرازی کوارک کی تحقیق کے لئے طبیعیات دان ان کو ذرّاتی اسراع گر میں بناتے ہیں، جیسا کہ ٹیواٹرون جو یو ایس شعبہ توانائی کا ایک طاقتور ذرّاتی اسراع گر ہے جس کو ایلی نوائے میں واقع فرمی نیشنل لیبارٹری چلاتی ہے، یا پھر سوئٹزر لینڈ میں واقع لارج ہیڈرون کولائیڈر جو یورپی تنظیم برائے نیوکلیائی تحقیق، سرن کا ایک منصوبہ ہے۔

ایس ایم یو کی پیمائش جو فرازی کوارک کے اعداد و شمار پر کئے گئی ہے جس کو ڈی زیرو نے جمع کیا تھا اور جو پروٹون اور ضد پروٹون کے تصادم سے ٹیواٹران میں بنے تھے جس کو فرمی لیب نے 2011ء میں بند کر دیا تھا۔

نئی پیمائش ٹیواٹران سے کی جانے والی اپنی قسم کی سب سے درست ہے اور اس کا مقابلہ لارج ہیڈرون کولائیڈر کی مماثل پیمائش سے کیا جا سکتا ہے۔ فرازی کوارک کمیت کو صحت کے ساتھ حال ہی میں ناپا گیا ہے تاہم پیمائش میں کچھ انحراف موجود ہے۔ ایس ایم یو کے نتیجے دنیا کے حالیہ اوسط کی قدر کی جانب اس سے زیادہ ہیں جو فی الوقت فرمی لیب سے بہترین پیمائش حاصل کی گئی ہے۔ ظاہری تضادات کو لازمی طور پر دیکھا جانا چاہئے، 'کوہی' کہتے ہیں۔

"فرازی کوارک کی کمیت کو صحت کے ساتھ ناپنا خوش نصیبی ہے کیونکہ یہ ہگز بوسون کی کمیت کے ساتھ مل کر ہمیں بتاتا ہے کہ آیا کائنات پائیدار ہے یا نہیں،" 'کوہی' کہتے ہیں۔ "یہ آج کے سب سے زیادہ اہم سوال کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔"

"ہم ایک نظریہ چاہتے ہیں - معیاری نمونہ یا کوئی اور - جو طبیعی عمل کا اندازہ تمام توانائی کی سطح پر لگا سکے،" 'کوہی' کہتے ہیں۔ "تاہم پیمائش اب ایسی ہے کہ لگتا ہے کہ ہم ایک مستحکم کائنات کے کنارے پر کھڑے ہیں۔ ہم بہت ہی نازک ہیں، یعنی کہ کچھ ایسی باتیں ہیں جس میں یہ کچھ توانائی پر مستحکم ہو سکتی ہے تاہم دوسری سطح پر نہیں۔"

ایک سر پر کھڑی مصیبت ہے جس کا ہم سامنا کر رہے ہیں؟ کیا کائنات منہدم ہو جائے گی؟ نظریئے اور مشاہدے کے درمیان یہ تضاد بتاتا ہے کہ معیاری نمونے کا نظریہ ہگز اور فرازی کوارک کی نئی پیمائشوں کی وجہ سے پیچھے رہ گیا ہے۔

"نظریوں کو اس کو بیان کرنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا،"' کوہی' کہتے ہیں، وہ مزید اضافہ کرتے ہیں کہ یہ ایک ایسی للکار ہے جو طبیعیات دانوں کو لذت دیتی ہے، جیسا کہ "نئی طبیعیات" کے ساتھ ان کی مصروفیت اور ہگز اور فرازی کوارک کو بنانے کے امکان سے ظاہر ہے۔

"میں نے دو کانفرنسوں میں حال ہی میں حاضری دی ہے، "'کوہی 'کہتے ہیں، "اور وہاں دلیل دی گئی ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے، لہذا یہ دلچسپ بات ہو سکتی ہے۔"

تو کیا ہم مصیبت میں ہیں؟ "فوری طور پر نہیں،" 'کوہی' کہتے ہیں۔ "وہ توانائی جو نازکی کو دعوت دے سکتی ہے اس قدر زیادہ ہے کہ ہماری کائنات میں ہونے والے یہ ذرّاتی تعاملات لگ بھگ اس سطح پر پہنچ ہی نہیں سکتے۔ کسی بھی صورت میں ایک نازک کائنات کئی ارب برسوں تک تو تبدیل نہیں ہوگی۔"

جیسا کہ صرف وہ کوارک جس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، فرازی کوارک عدم وجود سے نکل کر تیزی سے پروٹون کی صورت میں وجود میں آتے ہیں جس سے طبیعیات دانوں کے لئے ممکن ہو گیا ہے کہ وہ اس کے براہ راست خصائص کو بیان کرکے اس کی جانچ کر سکیں۔

"میرے لئے تو یہ آتش بازی جیسا ہے، " لیو کہتے ہیں۔ "وہ آسمان میں جاتے ہیں اور چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں اور پھر یہ چھوٹے ٹکڑے مزید پھٹنا جاری رکھتے ہیں۔ اس طرح سے یہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح سے فرازی کوارک دوسرے ذرّات میں انحطاط پذیر ہوتے ہیں۔"

ان ذرّات کی پیمائش کرکے جس میں فرازی کوارک انحطاط پذیر ہوتے ہیں، سائنس دان فرازی کوارک کی پیمائش کر لیتے ہیں، لیو بیان کرتے ہیں۔

تاہم فرازی کوارک پر تحقیق اب بھی ایک اجنبی میدان ہے، 'کوہی 'کہتے ہیں۔ "چار برسوں سے فرازی کوارک کو حقیقی چیز کے بجائے تصوراتی لیا جا رہا تھا۔ اب وہ حقیقی ہیں اور ابھی تک نئے ہیں - اور یہ واقعی بہت اہم بات ہے کہ ہم ان کے خصائص مکمل طور پر جانیں۔"

صفحے کے سب سے اوپر دکھائی جانے والی تصویر ضخیم کہکشانی جھرمٹ ایم اے سی ایس J0717 ہے جس کو ہبل کے ذریعہ لیا گیا ہے، یہ جھرمٹ میں اور اس کے ارد گرد کمیت میں تاریک مادّے کا محل وقوع بتا رہی ہے۔

کریڈٹ: ناسا، ای ایس اے،ہرالڈ ایبلنگ (مانوا میں واقع ہوائی یونیورسٹی) اور جین پال کنیب (ایل اے ایم)



ڈیلی گلیکسی بذریعہ سدرن میتھڈسٹ یونیورسٹی​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نئی خلائی دوڑ




چین نے دنیا کے پہلے کوانٹم سیارچے کے ساتھ نئی خلائی دوڑ شروع کر دی -- "پوری نئی کائنات کو دیکھنے کی ایک کھڑکی کھل جائے گی"

اگست 16، 2016


آج صبح 1:40 پر، چین دنیا کے پہلے کوانٹم سیارچے کے ساتھ ایک نئی خلائی دوڑ کا آغاز کر رہا ہے، جس کا نام حال ہی میں قدیمی چینی فلسفی اور انجنیئر 'می کس' کے اعزاز میں رکھا گیا ہے،۔ میکس نے 2,400 برس پہلے نظریہ پیش کیا تھا کہ روشنی ہمیشہ خط مستقیم میں سفر کرتی ہے اور طبیعیاتی دنیا ذرّات سے مل کر بنی ہے۔ کوانٹم دور دراز منتقلی کی ٹیکنالوجی زمین اور مریخ کے درمیان 20 منٹ کے مواصلاتی تعطل کو بھی ختم کرنے کے قابل ہو گی اور چھوٹے خلائی سیارچے کو بڑے انٹینا کو لادے بغیر ہی کئی نوری برس دور موجود سیاروں کی تصاویر اور ویڈیوز کو واپس زمین پر بھیجنے کے قابل بنائے گی۔ یہ ہمیں اس بات کی بھی جھلک دکھا سکتی ہے کہ ایک بلیک ہول کے اندر کیا موجود ہے۔

چھوٹے سے جسم نے اپنا خلاء میں سفر لانگ مارچ 2 ڈی راکٹ کے اوپر منگولیا کے صحرائے گوبی میں واقع جوقان سیٹلائٹ لاؤنچ سینٹر سے شروع کیا۔کامیابی کے ساتھ 500 کلومیٹر اونچے خلائی مدار میں داخل ہونے والے کوانٹم ایکسپیریمنٹ ایٹ اسپیس اسکیل (کیو یو ای ایس ایس) سیارچے کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ کوانٹمی طاقت کے بیڑے کا پہلا سیارچہ ہے ، جو دوسرے سیارچوں کے ساتھ مل کر ایک بہترین محفوظ مواصلاتی جال بنائے گا، یہ مواصلاتی نظام ممکنہ طور پر دنیا میں کہیں پر بھی موجود لوگوں کو آپس میں جوڑے گا۔

سیارچے جس کا وزن ایک اسمارٹ کار سے بھی کم ہے، کائنات کو آئن سٹائن کی نگاہ سے ہٹ کر دیکھے گا۔ ایک ایسی جگہ جہاں بلی زندہ اور مردہ ایک ساتھ ہو سکتی ہے، جہاں اطلاعات کو ایک کہکشاں سے دوسری کہکشاں روشنی کی رفتار سے بھی تیز "دور دراز منتقل" کیا جا سکتا ہے، جہاں انٹرنیٹ کو ہیک نہیں کیا جا سکتا، اور جہاں ایک کیلکولیٹر مقابلے میں دنیا کے تمام سپر کمپیوٹرز کو مل کر چلنے میں بھی ہرا سکتا ہے ۔

"کیو ایس ایس مہمات ایک ایسی چیز ہیں جس کو اقوام نے کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی، " وانگ کہتے ہیں۔ "چین ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے دوسروں کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ کیو ایس ایس ہمارا وہ پہلا قدم ہو گا جو دوسروں سے آگے ہو گا۔ یہ ایک چھوٹا قدم ہے، تاہم یہ نسل انسانی کے لئے ہے۔ "

بالآخر، خلاء میں کوانٹم دور دراز منتقلی محققین کو یہاں تک اجازت دے گی کہ سیارچوں سے حاصل کردہ فوٹون کو ملا کر ایک پھیلی ہوئی زبردست ریزولوشن کی دوربین بنائیں جس سے زمین کے حجم جتنا آلہ بن سکے گا۔ "آپ صرف سیارے نہیں دیکھ سکتے، " کوئٹ کہتے ہیں، "بلکہ اصولی طور پر مشتری کے مہتابوں پر موجود ؛ لائسنس پلیٹس تک پڑھ سکتے ہیں۔ "

کوانٹم خصائص - ذرّات کی حالت - کی پیمائش یا نقل اس وقت تک نہیں کی جا سکتی جب تک ذرّے کی اصل کوانٹم حالت کو تباہ نہ کر دیا جائے، لہٰذا نظری طور پر رمزی کنجی کو چرایا نہیں جا سکتا۔ ایک پیغام ایک منفرد رمزی کنجی سے بیجنگ میں رمز بند کیا جائے گا اور روایتی مواصلاتی جال کے ذریعہ ویانا بھیجا جائے گا۔ اسی وقت کنجی کو کوانٹم سیارچے میں بیجنگ سے فوٹون کی کرن کی صورت میں مختلف حالتوں والے خصائص جیسا کہ گھڑی وار اور ضد گھڑی وار گھماؤ میں پھینکا جائے گا، اور پھر سیارچہ رمزی کنجی کو ویانا میں موجود وصول کنندہ کو نشر کرے گا تاکہ پیغام کی رمز کشائی کی جائے۔

"کوانٹم سیارچہ پہلی مرتبہ ثابت کرے گا کہ آفاقی پیمانے پر کوانٹم مواصلات کا ہونا ممکن ہے، " وانگ نے کہا۔ "یہ مستقبل کے کوانٹم انٹرنیٹ کے لئے بہت اہم قدم ہے۔ "

آٹھ برس پہلے، کوانٹم طبیعیات دان پین جیانوی، منصوبے کے چیف سائنٹسٹ اور خلائی انجنیئر وانگ جیانیو نے دنیا کے پہلے کوانٹم سیارچے کو بنانے کے لئے اس امید پر ٹیم بنائی کہ وہ ایک پوری نئی کائنات کی تلاش کے لئے کھڑکی ڈھونڈ نکالیں گے۔ "پان کے پاس کچھ بڑے خیالات موجود تھے، میرا کام ان کے نچوڑ کو سیارچے میں ڈالنا تھا، " یہ بات پروفیسر وانگ، چین کے کوانٹم سائنس سیٹلائٹ کے کمانڈر ان چیف، نے ساؤتھ چین مارننگ پوسٹ کا ایک خصوصی انٹرویو میں بتائی۔

"قطعی، میں سمجھتا ہوں کہ ایک دوڑ ہو گی، چاؤیانگ لو، ہیفی میں واقع یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آف چین کے ایک طبیعیات دان نے کہا، جنہوں نے چینی سیارچے کے اوپر کام کرنے والی جماعت کے ساتھ کام کیا ہے۔

"اصل میں، فوج [کوانٹم ٹیکنالوجی کو خلاء میں لے جانے کی ] ذمہ داری لینا چاہتی تھی، "پان نے نیچر جریدے کو جنوری میں بتایا۔ "سی اے ایس میں موجود ہم لوگوں نے اپنی حکومت کو قائل کرنے کے لئے شدید محنت کی کہ ہمارے پاس سائنسی سیارچوں کو چھوڑنے کے طریقے کا ہونا بہت اہم ہے۔ ۔ ۔ آخر میں طے ہوا کہ سی ایے ایس اس کام کے لئے موزوں ادارہ ہے۔ "

مواصلات کو ہیکنگ سے محفوظ بنانے کے لئے بھی، یہ سیارچوں کے نظام 'کوانٹم انٹرنیٹ' کی طرف ایک اہم قدم ہوں گے، جو پوری دنیا میں کوانٹم کمپیوٹرز یا کوانٹم کمپیوٹنگ کلاؤڈ سے مل کر بنے ہوں گے، پال کوئٹ نے کہا، جواربنا- چمپئن میں واقع یونیورسٹی آف ایلی نوائے کے ایک طبیعیات دان، جو ناسا کے ساتھ آئی ایس ایس منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔

اب تک سائنس دانوں نے 300 کلومیٹر تک کوانٹم مواصلات کا مظاہرہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ فوٹون جو آپٹیکل فائبر کے اندر اور ہوا میں سفر کرتے ہیں وہ منتشر یا جذب ہو سکتے ہیں، اور اشارے کو ایک فوٹون کی نازک کوانٹم حالت کو برقرار رکھتے ہوئے افزودہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔

'می کس' کے قلب میں ایک قلم ہے جو الجھے ہوئے فوٹون کے جوڑے بنائے گی، جن کی خصوصیات ایک دوسرے سے مربوط رہیں گی بہرحال دور جا کر وہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گی۔ چینی محققین امید کرتے ہیں کہ خلاء کے ذریعہ فوٹون کی ترسیل، جہاں وہ زیادہ ہموار طریقے سے سفر کرتے ہیں، ان کو اس قابل بنائے گی کہ وہ طویل فاصلوں تک ربط پیدا کر سکیں گے۔ خلائی جہاز کا پہلا کام شراکت داروں کو ان جوڑوں کی صورت میں بیجنگ اور ویانا میں زمینی اسٹیشن پر پھینکنا ہو گا، اور اس کو استعمال کر کے ایک مخفی کنجی بنانا ہو گی۔

دو سالہ مشن کے دوران، جماعت نے ایک بیل جانچ ادا کرنے کا بھی منصوبہ بنایا ہے تاکہ ثابت کر سکیں کہ الجھاؤ ان ذرّات کے درمیان موجود ہو سکتا ہے جو ایک دوسرے سے 1,200 کلومیٹر دور ہیں۔ چینی محققین امید کرتے ہیں کہ خلاء کے ذریعہ فوٹون کی ترسیل، جہاں وہ زیادہ ہموار طریقے سے سفر کرتے ہیں، ان کو اس قابل بنائے گی کہ وہ طویل فاصلوں تک ربط پیدا کر سکیں گے، اور کوشش کریں گے کہ فوٹون کے ایک الجھے ہوئے جوڑے کو استعمال کر کے کوانٹم حالت کو 'دور دراز منتقل' کر سکیں اور ساتھ ساتھ اطلاعات کو زیادہ روایتی طریقوں سے منتقل کر کے نئے مقام پر فوٹون کی کوانٹم حالت کو دوبارہ سے پیدا کر سکیں۔

اگرچہ تمام ٹیکنالوجی اور آلات کو زمین پر جانچ لیا گیا ہے، اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ یہ خلاء میں کام کرے گی۔ زمینی تجربے میں، آلات کو ٹھیک یا صحیح کیا جا سکتا ہے ؛ ایک مرتبہ جب خلاء میں پہنچ گئے، تو سیارچے پر لگے آلات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

وانگ کہتے ہیں کہ سب سے بڑا چیلنج دوری تھی۔ ایک واحد فوٹون کو سیارچے سے زمین پر موجود ایک میٹر چوڑی دوربین سے پھینکنا، یا زمین کے ایک واحد فوٹون کو اس سیارچے سے پکڑنا جو 7,000 کلومیٹر فی گھنٹہ سے لے کر 8,000 کلومیٹر فی گھنٹہ تک سفر کر رہی ہو اور ساتھ میں بارش، بادل، اور ہوائی شورش درمیان میں موجود ہو، "سب سے مشکل ہدف پر نشانہ لگانے جیسا" ہو گا، اس نے کہا۔

کوانٹم سیارچے میں ہونے والی پیش رفت چین کی خلائی ٹیکنالوجی کو کئی شعبوں میں ایک نئی جہت عطا کرے گا، اس نے کہا، جس میں زبردست ٹھیک طرح سے ٹریکنگ، وقت اور خلائی جہاز کو قابو کرنا شامل ہو گا۔

تاہم اس وقت کیا ہو گا اگر تجربات میں وہ نہ ملا جس کی وہ تلاش کر رہے ہیں، مثال کے طور پر ذرّات ایک مخصوص فاصلے کے بعد الجھنے میں ناکام ہو گئے۔ وانگ کہتے ہیں کہ یہ ایسی چیز ہے جس کے بارے میں انہوں نے پان سے تبادلہ خیال کیا ہے۔ "اگر کیو ایس ایس نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ کچھ بنیادی کوانٹم طبیعیات کے قوانین کائنات میں کام نہیں کرتے، تب بھی ہم اتنے ہی خوش ہوں گے، " انہوں نے کہا۔ "یہ نامعلوم کے لئے ایک اور دروازہ کھول دے گا۔ "



ڈیلی گیلکسی بذریعہ نیچرڈاٹ کوم اور ساؤتھ چین مارننگ پوسٹ​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کائنات کی 'پانچویں قوت'



"اگر یہ بات سچ ہوئی، تو یہ انقلاب پربا کر دے گی ، "یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، ارون کے طبیعیات و فلکیات کے پروفیسر جوناتھن فینگ نے کہا۔ "عشروں سے، ہم چار بنیادی قوتوں کو جانتے ہیں :ثقل، برقی مقناطیسیت، اور مضبوط اور کمزور نیوکلیائی قوتیں۔ اگر اس کی تصدیق مزید تجربات میں ہوتی ہے تو اس ممکنہ پانچویں قوت کی دریافت مکمل طور پر ہماری کائنات کی تفہیم کو بدل دے گی، جس کا نتیجہ قوتوں اور تاریک مادّے کی وحدت کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ "

کیلی فورنیا، ارون یونیورسٹی میں نظریاتی طبیعیات کی طرف سے جریدے فزیکل ریویو لیٹرز میں شائع ایک مقالے کے مطابق، حالیہ تلاش پہلے نامعلوم ذیلی جوہری ذرّات کی ممکنہ دریافت کا عندیہ بطور قدرت کی پانچویں بنیادی قوت کے دیتی ہے۔

یو سی آئی کے محققین نے 2015ء کے وسط میں ہنگیرین اکیڈمی آف سائنسز کے تجرباتی نیوکلیائی طبیعیات دانوں کی تحقیق کو دیکھا جو "تاریک فوٹون"، کی تلاش کر رہے تھے، ایک ذرّہ جو نا دیکھے گئے تاریک مادّے کی نشاندہی کر سکتا ہے، جس کے بارے میں طبیعیات دان کہتے ہیں کہ اس نے کائنات کی کمیت کے 85 فیصد حصّے کو بنایا ہے۔ ہنگیرین کام نے ایک تابکار انحطاطی بد نظمی کو آشکار کیا۔ یہ ایک ایسے ہلکے ذرّے کی طرف اشارہ کرتی ہے جو ایک الیکٹران سے صرف 30 گنا زیادہ بھاری ہو سکتا ہے۔

"تجرباتی اس قابل نہیں تھے کہ دعویٰ کر سکیں کہ یہ کوئی نئی طاقت ہے، " فینگ نے کہا۔ "انہوں نے سادہ طور پر ایک اضافی واقعہ دیکھا جو ایک نئے ذرّے کی طرف اشارہ کرتا ہے، تاہم یہ بات ان پر واضح نہیں تھی کہ آیا یہ کوئی مادّی ذرّہ ہے یا ذرّے کو اٹھانی والی کوئی طاقت۔

یو سی آئی گروپ نے نہ صرف ہنگیرین کے ڈیٹا بلکہ اس شعبے میں ہونے والے پچھلے تمام تجربات کا بھی کا مطالعہ کیا اور بتایا کہ ثبوت سختی کے ساتھ مادّے کے ذرّات اور تاریک فوٹون کے ثبوت کی نشاندہی نہیں کرتے۔ بہرحال، انہوں نے ایک نیا نظریہ تجویز کیا جو تمام موجود مواد کی تالیف کرتا ہے اور اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ دریافت پانچویں بنیادی قوت کی طرف اشارہ کر رہی ہو۔ ابتدائی تجزیہ اپریل کے اواخر میں عوامی طور پر آرکائیو آن لائن سرور پر شائع ہوا، اور پھر ایک بعد میں آنے والے مقالے نے پہلے کام کے نتائج کی توثیق کی جو جمعے کو اسی ویب سائٹ پر شائع ہوا ہے۔

یو سی آئی کے کام نے ظاہر کیا کہ بجائے تاریک فوٹون کے، ہو سکتا ہے کہ ذرّہ "پروٹو فوبک ایکس بوسون" ہو۔ عام برقی قوت الیکٹران اور پروٹون پر عمل کرتی ہے، یہ نیا پایا جانے والا بوسون صرف الیکٹران اور نیوٹران سے متعامل ہوتا ہے - اور حد درجے محدود جگہ پر۔ تجزیہ نگار شریک مصنف اور طبیعیات و فلکیات کے پروفیسر ٹموتھی ٹیٹ نے کہا، " کوئی دوسرا بوسون نے ہے جس کا ہم نے مشاہدہ کیا ہو جس کے پاس ایسے خصائص ہوں۔ کبھی کبھی ہم اس کو 'ایکس بوسون' بھی کہتے ہیں، جہاں 'ایکس' کا مطلب نامعلوم ہے۔ "

فینگ جانتے ہیں کہ مزید تجربات اہم ہیں۔ "ذرّہ بہت بھاری نہیں ہے، اور تجربہ گاہوں میں اس کو بنانے کے لئے درکار توانائیاں 50 اور 60 کے عشرے سے ہیں، اس نے کہا۔ "تاہم اس کو ڈھونڈھنے میں مشکل کی وجہ یہ ہے کہ اس کے تعاملات بہت ہی کمزور ہیں۔ ایسا اس لئے کہا گیا، کیونکہ نیا ذرّہ کافی ہلکا ہے، کافی تجرباتی گروہ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی چھوٹی تجربہ گاہوں میں کام کر رہے ہیں جو ابتدائی دعووں کی تصدیق کریں گے، اب وہ جانتے ہیں کہ کہاں دیکھنا ہے۔ "

کئی سائنسی پیش رفتوں کی طرح، یہ بھی تحقیقات کے بالکل نئے میدان کھول دے گی۔ ایک سمت جو فینگ کو متحیر کرتی ہے وہ یہ امکان ہے کہ یہ ممکنہ پانچویں قوت ہو سکتا ہے اور برقی مقناطیسی اور مضبوط اور کمزور نیوکلیائی قوت کے ساتھ بطور " ایک عظیم توضیح، زیادہ بنیادی قوت"، کے مل سکتا ہے۔

فینگ جو حوالہ دینے والے طبیعیات دان اور معیاری نمونہ کو سمجھ رہے ہیں، پیش گوئی کرتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی الگ تاریک شعبہ بھی ہو جس کا اپنا مادہ اور قوتیں ہوں۔ "یہ ممکن ہے کہ یہ دونوں شعبے ایک دوسرے سے بات چیت کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ کسی چھپے ہوئے تاہم بنیادی تعاملات کے ذریعہ متعامل ہوں، اس نے کہا۔ " ممکن ہے کہ اس تاریک شعبے کی قوت اپنے آپ کو بطور پروٹو فوبک قوت کے طور پر ظاہر کرے جس کو ہم ہنگیرین تجربات کے نتائج کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ ایک وسیع تر معنی میں، یہ تاریک مادہ کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے ہماری اصل تحقیق کے ساتھ میں ٹھیک بیٹھتا ہے۔ "


ڈیلی گلیکسی بذریعہ یوسی ارون​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ہزار برس تک جینے پر تحقیق


"زمین پرموجود وہ پہلا انسان جو 1,000 ہزار برس تکجی سکتا ہے آج ابھی زندہ ہے"

اگست 07، 2016

"وہ پہلا شخص جو 1,000 برس تک زندہ رہ سکتا ہے وہ قطعی طور پر آج زندہ ہے۔ ۔ ۔ چاہے اس کو یہ بات معلوم ہو یا نہ ہو، حادثات اور خود کشی کو چھوڑ کر، اب زیادہ تر لوگ جو 40 برس یا اس سے کم عمر ہیں صدیوں تک جینے کی توقع کر سکتے ہیں، " یہ دعویٰ کیمبرج یونیورسٹی کے ماہر جینیات ابرے ڈی گرے کا ہے۔ میرے اور پورے طبی پیشے کے کام میں جو فرق ہے وہ یہ کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم لوگوں کو کافی صحت مند رکھنے کے قابل ذکر فاصلے پر ہیں یعنی کہ 90 برس کی عمر میں وہ اسی طبیعی حالت میں سو کر اٹھیں گے جیسا کہ وہ 30 برس کی عمر میں سو کر اٹھتے تھے، اور کسی صبح سو کر نہ اٹھنے کا امکان اس سے زیادہ نہیں ہو گا جتنا کہ 30 برس کی عمر میں ہوتا ہے۔ "



اوپر والی تصویر ایک 100 انسانی حیات-حجم کی تصویر ہے جو برطانوی مجسمہ ساز انتھونی گورملے نے بنائی ہے جو فطرت میں انسان کے مقام کی تلاش میں ہیں۔ گورملے کی تخلیق کو آسٹریائی الپس میں اونچا کر کے ٹانگا گیا ہے۔ یہ ان سو ڈھلے ہوئے لوہے کے مجسمے میں سے ایک ہے جو آسٹریا کے 150 مربع کلومیٹر (58 مربع میل) پر پھیلے ہوئے ڈرامائی نظارے کو پیش کرتے ہیں۔

"میں نہیں سمجھتا کہ [ابدی] ہونا ممکن ہے، " مخالف، ییل اسکول آف میڈیسن کے سرجری کے پروفیسر شیرون نو لینڈ کہتے ہیں۔ "ابرے اور دوسرے جو حیات کو طویل عرصے تک پھیلانے کی بات کرتے ہیں وہ سائنس کو کچھ زیادہ ہی سادہ سمجھ رہے ہیں اور اپنے کام کی وسعت کو سمجھ نہیں پارہے۔ اس کی منصوبہ بندی کامیاب نہیں ہو گی۔ اگر ایسا ہو گیا، تو یہ انسان ہونے کی حیثیت کو کم تر کر دے گا۔ "


غالباً ڈی گرے کافی زیادہ رجائیت پسند ہیں، تاہم دوسرے ان کی تحقیق میں آب حیات کی تلاش کی وجہ سے شامل ہوئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے، کافی سائنس دانوں، ڈاکٹروں، جینیات و نینو ٹیک ماہرین کی تعداد - جن میں سے کئی معقول علمی ساکھ والے ہیں - اسرار کرتے ہیں کہ کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ عمر بڑھنے کی رفتار کو ڈرامائی طور پر آہستہ یا مکمل طور پر روکا نہ جا سکے۔ نہ صرف یہ نظریاتی طور پر ممکن ہے، بلکہ سائنسی طور پر قابل حاصل مقصد بھی ہے جس کو وقت میں حاصل کیا جا سکتا ہے تاکہ آج زندہ رہنے والوں کو اس کا فائدہ دیا جا سکے۔

"میں حیات ابدی پر کام کر رہا ہوں، " یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، ارون کے ارتقائی حیاتیات کے پروفیسر مائیکل روز کہتے ہیں، جنہوں نے پھل مکھی کی حیات کو بڑھانے کے نتائج میں کافی پیش رفت حاصل کی ہے۔ "بیس برس پہلے عمر بڑھنے کے عمل کو روکنے کا خیال، نوجوانی لوٹانے کی بات کو تو چھوڑ ہی دیں، عجیب و غریب ہوتا تھا۔ آج کافی اچھی وجوہات سوچنے کے لئے موجود ہیں کہ یہ بنیادی طور پر ممکن ہے۔ "

یہاں تک کہ امریکی حکومت نے اس میدان کو کافی امید افزا پایا ہے اور تحقیق کے لئے کچھ رقم بھی دی ہے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایجنگ کے مطابق، جو نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کا حصّہ ہے "عمر رسیدگی کی حیاتیات" کے لئے وفاقی سرمائے کی فراہمی، عمر سے متعلق مخصوص بیماریوں پر ہونے والے کام کو چھوڑ کر جیسے کہ دل کا دورہ اور سرطان - سالانہ 2.4 ارب ڈالر تک کی ہے۔

اب تک، سب سے زیادہ حیرت انگیز نتائج بڑی یونیورسٹیوں کی جینیاتی تجربہ گاہوں میں حاصل کئے گئے ہیں، جہاں بڑھتی عمر کو روکنے والے سائنس دانوں نے ممالیہ سمیت کافی جانداروں کی حیات کو بڑھانے کا طریقہ دریافت کیا۔ تاہم صرف جینیاتی تحقیق ہی وہ میدان نہیں ہے جو ابدیت کی کنجی رکھتی ہے۔

"عمر رسیدگی کے کافی سارے مختلف اجزاء ہیں اور ہم ان تمام کے تمام سے نمٹ رہے ہیں، " پالو الٹو، کیلی فورنیا میں واقع ایک غیر منافع بخش، نینو ٹیک گروپ کے انسٹیٹیوٹ فار مالیکیولر مینوفیکچرنگ سے تعلق رکھنے والے رابرٹ فریٹاس نے کہا۔ "یہ وقت لے گا اور، اگر آپ اس کو جدید ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں دیکھنا چاہیں ،تو یوں سمجھیں کہ اگر اس کی جگہ ٹیلی فون ہوتا تو ہم الیگزینڈر گراہم بیل کے اپنے پہلے آلے کے ذریعہ اپنے ماتحت سے بات کرنے سے 10 برس کی دوری پر ہیں۔ پھر بھی، مستقبل قریب میں، اگلی دو سے چار دہائیوں تک، عمر رسیدگی کی بیماری پر قابو پا لیا جائے گا۔ "

تاہم ہر کوئی نہیں سمجھتا کہ عمر رسیدگی کا علاج ہو سکتا ہے یا ہونا چاہئے۔ بعض کا کہنا ہے اس بات سے قطع نظر کہ اصل میں ہم ایسا کر سکتے ہیں یا نہیں انسان ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے ہیں۔

یہ دلچسپ بات ہے کہ نو لینڈ پہلے کہتا ہے کہ وہ نہیں سمجھتا کہ یہ ٹیکنالوجی کام کرے گی لیکن اس کے بعد اضافہ کرتا ہے کہ اگر اس نے کام کیا، تو یہ انسانیت کو تباہ کر دے گی۔ لہٰذا کون سی بات درست ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے، یا جیسا کہ متشکک صرف اس کے نہ ہونے کی امید کرتے ہیں؟

الغرض، ہمارا پہلے ہی بڑھتی ہوئی آبادی، گلوبل وارمنگ، محدود ذرائع اور دوسرے مسائل سے نمٹنے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لہٰذا اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ ابدیت کو اس میں شامل کر کے مسائل میں اضافہ کیا جائے۔

لیکن عمر رسیدگی کو روکنے کے حامی دلیل دیتے ہیں کہ ہمارے نقطہ نگاہ کے تبدیل ہونے اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں شَرحًا پیش رفت کے ساتھ نئے حل نکلیں گے۔ مثال کے طور پر خلائی آباد کاری ڈرامائی طور پر بہتر وسائل کی تنظیم کے ساتھ طویل عرصے کے ساتھ جڑے خدشات کو حل کر سکتی ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر کائنات ہمیشہ کے لئے چلتی رہی - جس میں سے زیادہ تر ناقابل استعمال ہے - تو اس کو آباد کیوں نہ کیا جائے ؟

بہرحال عمر رسیدگی کو روکنے والے مجاہد اس کی مخالفت میں تیزی سے اثر و رسوخ رکھنے والے بقائے حیات کے اتحادیوں سے آ رہے ہیں جو "غیر فطری" طویل حیات پر ہونے والی تحقیق کو محدود کرنے کے چکر میں ہیں۔ اس میں سے کچھ صدر بش پر 2001 میں اثر و رسوخ رکھنے والے افراد شامل تھے جس کی وجہ سے جنینی ساق خلیے پر ہونے والی تحقیق کو فراہم کئے جانے والے سرمایہ کو محدود کر دیا گیا تھا۔ وہ حیات میں اضافہ اور عمر رسیدگی کو روکنے پر ہونے والی تحقیق کے تصور کے اخلاقی، تہذیبی اور ماحولیاتی پہلوؤں اور وجوہات کی بنا پر مخالف تھے۔

سابقہ حیاتیاتی اخلاقیات کی بش کی کونسل کے سربراہ لیون کاس، زور دیتے ہیں کہ "انسانی حیات کی محدودیت ہر انفرادی انسان کے لئے ایک نعمت ہے۔ " نیو یارک میں واقع ہیسٹنگ سینٹر کی چھاونی کے ماہر حیاتیاتی اخلاقیات ڈینیل کلہان متفق ہیں: "موت کو فتح کرنے سے کوئی معلوم معاشرتی اچھائی نہیں ملے گی ۔ "

ہو سکتا ہے کہ وہ درست ہوں، تاہم ہم انسان کیوں پہلے قدم پر اپنی زندگی کو طوالت دینے کے لئے اتنی کوشش کرتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ بوڑھا ہونا، بیمار ہونا اور مرنا اتنا ہی قدرتی ہے، حیات کے چکر کا ناگزیر حصّہ، اور ہمیں اس بات کو قبول کرنا چاہئے۔

"تاہم یہ ناگزیر نہیں ہے، اصل بات یہ ہے، " ڈی گرے کہتے ہیں۔ "فی الوقت، ہم اس خوفناک انجام میں پھنس گئے ہیں کہ ہم سب بوڑھے اور بیمار ہوں گے اور تکلیف دہ موت سے ہمکنار ہوں گے۔ عمر رسیدگی کی بیماری کی وجہ سے روزانہ 100,000 لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔ ہم اس قتل عام کو روک نہیں سکتے۔ یہ صرف فیصلہ کرنے کا مسئلہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔"

ڈیلی گیلکسی بذریعہ worldhealth.net اور بی بی سی نیوز
 

زہیر عبّاس

محفلین
قریبی زہرہ جیسا ماورائے شمس سیارہ



گزشتہ برس جب یہ سیارہ دریافت ہوا تھا تو اس دور دراز سیارے GJ 1132b نے ماہرین فلکیات کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ زمین سے صرف 39 نوری برس کی دوری پر، باوجود پکا دینے والے لگ بھگ 450 ڈگری فارن ہائیٹ کے درجہ حرارت کے ساتھ شاید اس کا کرۂ ہوائی بھی ہے۔ لیکن کیا یہ کرۂ فضائی دبیز اور شوربے جیسا ہے یا مہین اور لچھے دار ہے ؟ نئی تحقیق بتاتی ہے کہ موخّرالذکر کے ہونے کا امکان زیادہ ہے۔

ہارورڈ کے فلکیات دان لارا شیفر (ہارورڈ اسمتھ سونین سینٹر فار ایسٹروفزکس، یا سی ایف اے ) اور ان کے رفقاء نے اس سوال کی جانچ کی کہ اگر GJ 1132b کی شروعات دھوئیں، پانی سے لبریز ماحول کے ساتھ ہوئی تھی تو گزرتے وقت کے ساتھ یہاں کیا ہوا ۔

اپنے ستارے کے اتنا نزدیک، صرف 14 لاکھ میل کے فاصلے پر، مدار میں چکر لگانے کی وجہ سے سیارے پر بالائے بنفشی اشعاع یا یو وی روشنی کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ یو وی روشنی پانی کے سالمات کو ہائیڈروجن اور آکسیجن میں توڑ ڈالتی ہے، جس کے بعد دونوں خلاء میں کھو جاتیں ہیں۔ تاہم کیونکہ ہائیڈروجن زیادہ ہلکی ہوتی ہے لہٰذا یہ تیزی سے فرار ہوتی ہے جبکہ آکسیجن تھوڑی تاخیر سے ایسا کرتی ہے۔

"ایک ٹھنڈے سیارے پر، آکسیجن خلائی حیات اور قابل رہائش ہونے کا اشارہ ہو سکتی ہے۔ تاہم ایک گرم سیارے جیسا کہ GJ 1132b ہے، یہ اس کا الٹ اشارہ ہے - ایک ایسا سیارہ جو پکا ہوا اور حیات سے پاک ہو، " شیفر کہتی ہیں۔

چونکہ پانی کے بخارات نباتاتی خانے کی گیس ہے، لہٰذا سیارے پر نباتاتی خانے کا زبردست اثر ہو گا، جو ستارے کی پہلے سے موجود حرارت کو اور افزودہ کر دے گا۔ نتیجتاً، اس کی سطح کئی لاکھوں برس تک پگھلی ہوئی رہ سکتی ہے۔

ایک "میگما کا سمندر" کرۂ فضائی کے ساتھ متعامل ہو گا، کچھ آکسیجن کو جذب کرے گا تاہم کتنی؟ شیفر اور ان کے رفقاء کے بنائے ہوئے نمونے کے مطابق صرف دسواں حصّہ۔ 90 فیصد باقی بچی ہوئی آکسیجن میں سے زیادہ تر خلاء میں بھاپ بن کر اڑ جائے گی، بہرحال ایسا کرنے میں اسے کچھ دیر کی تاخیر ضرور ہو گی۔

"یہ پہلی مرتبہ ہے جب ہم نے کسی چٹانی سیارے پر اپنے نظام شمسی کے باہر آکسیجن کو دریافت کیا ہے، " شریک مصنف رابن ورڈز ورتھ (ہارورڈ پال سن اسکول آف انجینئرنگ اینڈ اپلائڈ سائنسز) نے کہا۔

اگر اب بھی تھوڑی سے آکسیجن GJ 1132b میں باقی ہے تو اگلی نسل کی دوربینیں جیسا کہ عظیم میجیلان دوربین اور جیمز ویب خلائی دوربین شاید اس کا سراغ لگا کر تجزیہ کر سکیں۔

میگما سمندر- کرۂ فضائی کا نمونہ سائنس دانوں کو اس معمے کو حل کرنے میں مدد دے سکتا ہے کہ زہرہ کس طرح سے گزرے وقت میں ارتقاء پذیر ہوا۔ غالباً زہرہ کا آغاز زمین جتنے پانی کی مقدار سے ہی ہوا تھا، جو سورج کی روشنی سے ٹوٹ گیا تھا۔ اس کے باوجود یہ باقی بچی ہوئی آکسیجن کے چند ہی اشارے دیتا ہے۔ غائب ہوئی آکسیجن نے ماہرین فلکیات کو پریشان کرنا جاری رکھا ہے۔

شیفر پیش گوئی کرتی ہیں کہ ان کا نمونہ دوسرے اسی طرح کے ماورائے شمس سیاروں کی اندرونی جھلک بھی دکھائے گا۔ مثال کے طور پر نظام TRAPPIST-1 میں تین سیارے شامل ہیں جو ہو سکتا ہے کہ قابل سکونت علاقے میں موجود ہوں۔ کیونکہ وہ GJ 1132b سے ٹھنڈے ہیں لہٰذا ان کے پاس کرۂ فضائی کو برقرار رکھنے کا بہتر موقع ہے۔



ڈیلی گلیکسی بذریعہ ہارورڈ-اسمتھ سونین سی ایف اے​
 
Top