علم التعلیم

فہرست عنوانات

پہلا باب: تعلیم
تعلیم کے عناصر
تعلیم کا دائرہ عمل
تعلیم کے وظائف
تعلیم کے اسالیب

دوسرا باب: مقاصدِ‌ تعلیم
نظام تعلیم
مقاصدِ تعلیم
پاکستان کے نظامِ تعلیم میں مقاصدِ تعلیم
تعلیم کی اقسام

تیسرا باب: تعلیم کی بنیادیں
نظریاتی بنیادیں
اسلامی نظریہ حیات
اسلامی تعلیم کا تصور
تعلیم کی اسلامی بنیادیں
اسلام میں تعلیم کی اہمیت
ذرائع علم
تعلیم کی فسلفیانہ بنیادیں
فلسفہ اور تعلیم باہمی تعلق
تعلیم کی نفسیاتی بنیادیں
علم نفسیات اور تعلیم میں تعلق
تعلیم کی معاشرتی بنیادیں
معاشرہ اور تعلیمی ادارہ
تعلیم کی معاشی بنیادیں
تعلیم اور معاشیات کا باہمی تعلق
فوائد تعلیم

چوتھا باب: انسانی نشو و نما
بالیدگی اور نشو و نما
نشو و نما میں کارفرما عوامل
نشو و نما کے اصول
انفرادی اختلافات

پانچواں باب: تعلم
تعلم کی تعریف
تعلم کے طریقے
قوانین تعلم
تعلم کی شرائط
تعلم کے نظریات

چھٹا باب: معاشرہ ، کمیونٹی اور تعلیم
معاشرہ
کمیونٹی
معاشرہ اور تعلیمی کا باہمی ربط
فرد کی نشو و نما میں تعلیم کا کردار

ساتواں باب: رہنمائی اور مشاورت
رہنمائی کا مفہوم
رہنمائی کی قسمیں
مشاورت کا مفہوم
مدرسہ میں رہنمائی و مشاورت کی ضرورت و اہمیت
مشاورت کے طریق کار
مشاورت کی اقسام

آٹھواں باب: نصاب سلیبس اور درسی کتب
سلیبس
درسی کتب
نصاب
نصاب کے عناصر
اچھے نصاب کی خصوصیات
جائزہ
تعلیمی جائزے اور تخمین کی اہمیت

معروضی سوالات کے جوابات

فرہنگ
کتابیات
قومی جائزہ کمیٹی
 
تعلیم عربی زبان کا لفظ ہے جو ‘علم‘ سے ماخوذ ہے ۔ انگریزی میں اس کا متبادل لفظ ‘ایجوکیشن‘ ہے جو لاطینی زبان کے دو الفاظ ‘ّEducere اور “Educare“ سے ماخوذ ہے ۔ Educere کے معنی “To bring out “ اظہار کرنا، باہر نکالنا ، بروئے کار لانا جبکہ Educare کے معنی “To bring up “ پروان چڑھانا ، نشو و نما کرنا ، اجاگر کرنا۔ ‘ ایجوکیشن ‘ کی اصطلاح انہیں دو الفاظ سے مل کر بنی ہے۔

انسان کو اللہ تعالی نے بے شمار صلاحیتیوں سے نوازا ہے۔ ان صلاحیتیوں کے لحاظ سے ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہے۔ تعلیم کا عمل انسان کی ان صلاحیتیوں کو بروئے کار لانے اور پروان چڑھانے کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم ، انسان کی سیرت و کردار کی تعمیر و تشکیل کرتی ہے تاکہ وہ معاشرے میں ایک کامیاب اور اچھے شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے کے قابل ہوجائے۔
تعلیم ایک ایسا عمل ہے جو متعلم کی تمام صلاحیتیوں کے اظہار اور ہمہ پہلو نشو و نما کے نیتجے میں اس کی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے اور اس کی سیرت و کردار کی اس طرح تعمیر و تشکیل کرتا ہے کہ وہ معاشرے میں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی ایک کامیاب شہری کی حیثیت سے بسر کرنے کے قابل ہوجائے۔
تعلیم کی مندرجہ بالا تعریف میں چار پہلو نمایاں ہیں؛
١۔ متعلم کی تمام صلاحیتیوں کا اظہار اور نشو و نما
٢۔ متعلم کی شخصیت کی تکمیل
٣۔ سیرت و کردار کی تعمیر و تشکیل
٤۔ انفرادی و اجتماعی زندگی میں کامیاب شہری کی حیثیت سے تیاری

تعلیم کی یہ تعریف انتہائی جامع اور مکمل ہے جو دنیا کے ہر معاشرے اور تمام افراد پر صادق آتی ہے۔ تعلیمی عمل کے نیتجے میں کوئی فرد، معاشرے کے کسی بھی شعبہ میں ایک کارکن ، ماہر یا قائد کی حیثیت سے اپنا کردار کامیابی سے ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے گویا معاشرے کے مطلوب افراد تعلیم کے اسی عمل سے تیار ہو کر معاشرے کی تعمیر و تشکیل کرتے ہیں۔
ماہرین تعلیم نے تعلیم کے مفہوم کے بارے میں مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔ کسی نے اسے انسانی ذہن کی نشو و نما قرار دیا ہے۔ کسی نے اسے معاشرتی مطابقت ( Social Adjustment ) کا نام دیا ہے۔ سقراط نے اسے سچائی کی تلاش ، ارسطو نے جسمانی و اخلاقی نشو و نما کا عمل اور افلاطون نے صحت مند معاشرے کی تنظیم کا عمل قرار دیا ہے۔ جان ڈیوی اسے تجربے کی مسلسل تعمیر نو اور تنظیم نو کا نام دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم انسانی زندگی کے ان تمام پہلوؤں کی مسلسل نشو و نما اور بالیدگی کا عمل ہے جو انسان کی شخصیت کے نکھار اور اعلی کمال کے حصول کا باعث بنتا ہے۔

انسان کی یہ صلاحیتیں مندرجہ بالا ہیں۔
١۔ جسمانی صلاحیتیں ( Physical Abilities )
٢۔ ذہنی اور فکری صلاحیتیں ( Mental & Intellectual Abilities )
٣۔ معاشرتی صلاحیتیں ( Social Abilities )
٤۔ جذباتی صلاحیتیں ( Emotional Abilities )
٥۔ اخلاقی صلاحیتیں ( Moral Abilities )
٦۔ روحانی صلاحیتیں ( Spiritual Abilities )
 
تعلیم ، انسان کی مذکورہ بالا صلاحیتیوں کی بتدریج ، مسلسل اور ہمہ گیر نشو و نما کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ یہ انسان کی ہمہ پہلو تربیت کا عمل ہے اور تعلیم کی مختلف سرگرمیاں انسانی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی کسی نہ کسی لحاظ سے نشو و نما اور فروغ کا باعث بنتی ہیں۔ نشو و نما کا یہ عمل مربوط بھی ہوتا ہے اور بتدریج بھی تاکہ انسانی زندگی کے ہر پہلو کی نشو و نما ہو سکے اور حتی الامکان اس کی شخصیت کی تکمیل کے ذریعے معاشرتی زندگی متوازن طور پر پروان چڑھ سکے۔

دیگر مخلوقات کی نسبت انسان اپنی عملی زندگی میں قدم قدم پر تعلیم و تربیت کا محتاج ہے۔ اللہ تعالی نے معلم اول پہلے انسان حجرت آدم علیہ السلام کو خود تعلیم سے بہرہ وع فرمایا اور بنی نوع انسان کی ہدایت ، رہنمائی اور تعلیم و تربیت کے لیے انبیاء علیہم کی صورت میں معلمین مبعوث فرمائے۔ جس کی آخری کڑی خاتم المرسلین جناب محمد صلی اللی علیہ وسلم ہیں۔ آپ صلی اللی علیہ وسلم نے فرمایا

انما بعثت معلما
ترجمہ؛ “ بشک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ “

اسلامی نقطہ نظر سے تعلیم کا مقصد معاشرے کی نوخیز نسلوں کی تکمیل ذات ، آدابِ معاشرت ، اخلاق حسنہ اور صحیح تصور کائنات کی تربیت دینا ہے تاکہ انسان اپنے خالق ، مالک اور رازق یعنی ربِ کائنات کو پہچان سکے۔ تعلیم ہی انسان کو خدا شناس ، خود شناس اور کائنات شناس بناتی ہے تاکہ انسان خلیفتہ اللہ کا کردار ادا کرسکے۔

اسلام میں تعلیم کی اہمیت ، مقام اور فضیلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وحی الہی کا آغاز “اقراء“ یعنی پڑھ سے ہوا اور پہلی وحی میں علم قلم اور پڑھنے کا ذکر فرما کر تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا اور انبیا علیہم السلام کی بعثت کا مقصد تعلیم و تزکیہ قرار دیا۔ تعلیم انسان میں نیکی اور بدی کی پہچان اور نیکی کو اپنانے اور گناہوں سے بچنے کا شعور پیدا کرتی ہے۔ آنحضور صلی اللی علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں “دارارقم“ اور مدینہ منورہ میں “صفہ“ کے مدارس قائم کرکے صحابہ رضہ کی تعلیم اور تربیت کا اہتمام فرمایا۔

شاہ ولی اللی نے تعلیم کو خیر و شر میں تمیز کرکے خیر کو اپنانے اور شر کو دبانے کا عمل قرار دیا ہے۔ علامہ اقبال نے تعلیم کو تعمیر خودی اور تکمیل خودی قرار دیا ہے جو انسانی شخصیت کی تشکیل ( Self - Actualization ) کا دوسرا نام ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
کیونکہ مصروف ہو گیا تھا اور لوگوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ۔
میرے محترم بھائی محب علوی
آپ پر سلامتی ہو سدا ۔
مصروفیت تو عذر معقول ہے ۔ لیکن عدم دلچسپی ؟؟؟؟؟÷
پھول کھل کر اپنی خوشبو بکھیرنا بند نہیں کر دیتا کہ کوئی اس کی خوشبو سے محظوظ نہیں ہو رہا ۔
چراغ جلتا رہتا ہے یہ دیکھے بنا کہ کوئی اس کی روشنی سے مستفید ہو رہا ہے یا نہیں ؟
حامل علم کا قلم بنا یہ دیکھے کہ کوئی اس کی تحریر پڑھ رہا ہے کہ نہیں ،
اپنے علم سے حاصل آگہی و تجربات کو لکھ محفوظ کر دیتا ہے ۔
اور اس کا یہ عمل پیاسوں کی پیاس بجھا دینے کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔
چاہے حامل علم کے قلم کو فنا ہوئے مدتیں ہی کیوں نہ گزر چکی ہوں ۔
اللہ تعالی آپ کو خیر کی مصروفیت میں مبتلا رکھے ۔ اور جب بھی وقت ملے ۔
ہم جیسے پیاسوں کو پیاس بجھانے کا سامان بہم پہنچا دیا کریں ۔
جزاک اللہ خیراء
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میرے محترم بھائی محب علوی
آپ پر سلامتی ہو سدا ۔
مصروفیت تو عذر معقول ہے ۔ لیکن عدم دلچسپی ؟؟؟؟؟÷
پھول کھل کر اپنی خوشبو بکھیرنا بند نہیں کر دیتا کہ کوئی اس کی خوشبو سے محظوظ نہیں ہو رہا ۔
چراغ جلتا رہتا ہے یہ دیکھے بنا کہ کوئی اس کی روشنی سے مستفید ہو رہا ہے یا نہیں ؟
حامل علم کا قلم بنا یہ دیکھے کہ کوئی اس کی تحریر پڑھ رہا ہے کہ نہیں ،
اپنے علم سے حاصل آگہی و تجربات کو لکھ محفوظ کر دیتا ہے ۔
اور اس کا یہ عمل پیاسوں کی پیاس بجھا دینے کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔
چاہے حامل علم کے قلم کو فنا ہوئے مدتیں ہی کیوں نہ گزر چکی ہوں ۔
اللہ تعالی آپ کو خیر کی مصروفیت میں مبتلا رکھے ۔ اور جب بھی وقت ملے ۔
ہم جیسے پیاسوں کو پیاس بجھانے کا سامان بہم پہنچا دیا کریں ۔
جزاک اللہ خیراء

نایاب لالہ میرے پاس یہ بک پڑی ہے ۔ اپنے فائنل ایگزامز سے فری ہوکر کوشش کروں گی کہ محب لالہ کا مضمون مکمل کروں :rolleyes:
 
Top