علماء اہلحدیث اور تصوف

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ابن محمد جی

محفلین
مولف ابنِ محمد جی
تصوف وسلوک کی مخالفت برصغیر میں جن نا عاقبت اندیشوں کے حصے میں آئی ان میں سر فہرست مسلک اہحدیث ہے،جس کو عرف عام میں وھابی کہاں جاتا ہے،عام عوام ااناس کا یہی خیال ہے کہ مسلک اہلحدیث تصوف کا سخت ترین مخالف ہے،ایک حد تک یہ بات درست بھی ہے ،مگر تصوف ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی سلیم اطبع شخص انکار نہں کر سکتاکسی نے کہا تھا کہ حقیقت اپنا منوا لیتی ہے،یہئ معاملہ تصوف کے معاملہ میں میں نے مسلک اہحدیث میں دیکھا ہے ،جو حضرات اہلحدیث تصوف کے مخالف ہیں ان میں زیادہ تر نو خیز سلفی شامل ہیں،جو کیلانی صاحب کتاب شریعت وطریقت کو مقدس صیفہ سمجھ بیٹھے ہیں یا پھر چند ایک اور کتب اسی فرقہ کی طرف سے شائع ہوئی ہیں جن میں نہایت خیانت سے تصوف کی مخلفت میں جاہلانہ رد کیا گیا ہے،یہ نوخیز سلفی اس طرح کی کتابیں پڑھ کر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اہلحدیث وہ ہوتاہے جو تصوف کا مخالف ہو ،لیکن یہ بے چارے تحقیق سے محروم ہیں،ورنہ اہل حدیث کے اکابرین تو نہ صرف صوفی تھے بلکہ تصوف کے داعی تھے۔
پروفیسر پرو فیسر محی الدین روزنامہ اوصاف میں اسی موضعوں کو زیر بحث لاتے ہوئے لکھتے ہیں
عام طورپر اہل حدیث جن کو غیر مقلد کہا جاتا ہے اور جو وہابی کے نام سے بھی پکارے جاتے ہیں ان کو تصوف اور روحانیت سے نابلد کہہ کر روحانیت اور تصوف کے مخالف بتائے جاتے ہیں مگر یہ بات ان پر تہمت ہے عملاً حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ غزنوی علماء کرام تصوف اور روحانیات سے گہرا شعف رکھتے تھے۔ روحانی سلسلہ غزنویہ کے آخری روحانی مدارج طے کرنے والے پر وفیسر ابوبکر غزنوی تھے جو داتا دربار کے بالکل ساتھ ہی اہل حدیث مدرسے کے منتظم بھی تھے اور شیش محل روڈ پر واقع مدرسے کے ہال میں خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے۔ ان کے خطبہ جمعہ میں اکثر اہل علم ، دانشور اور وکلاء آتے تھے۔ پینٹ کوٹ پہننے والا یہ پروفیسر بہت بڑا صوفی اور روحانیت کی دنیا کا واضح کردار تھا
۔
پر وفیسر ابوبکر غزنوی نہ خود صرف صوفی تھے بلکہ تصوف کے بہت بڑے داعی تھے ،آپ نے ایک موقع پر جماعت اہلحدیث کو تصوف کی دعوت فکر دیتے ہوئے اس انداز میں فرمایا۔
ارواح ثلاثہ’’ ہی میں لکھا ہے کہ سید احمد شہید رحمہ اللہ کی موجودگی میں شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ تقریر نہ کرتے تھے، خاموش بیٹھے رہتے کہ میرے شیخ رحمہ اللہ بیٹھے ہیں، ان کی موجودگی میں کیا کہوں؟ بعض لوگوں نے حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی کتاب ‘‘تقویۃ الایمان’’ ہی پڑھی ہے، کبھی صراط مستقیم بھی دیکھو، کبھی عبقات بھی پڑھو، وہ تو بہت لطیف آدمی تھے، وہ تجلیات سے آگاہ، وہ انوار سے آگاہ، وہ سلوک کے مقامات سے آگاہ، اللہ کی محبت اور معرفت کے تمام رموز سے واقف، ان کی شخصیت میں توحید وادب یکجا ہوگئے تھے۔
( مکمل خطاب کا لنک جماعت اہل حدیث سے خطاب ، سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ - URDU MAJLIS FORUM)
کیونکہ آپ یہ دیکھ رہے تھے کہ اس جماعت میں ایسے لوگ شامل ہو چکے ہیں جو معتزلہ وغیرہ سے متاثر ہیں اور مسلک اہلحدیث کو دین کے ایک اہم شعبے سے دور کر دے گے۔اگر اس خطاب کا مکمل مطالعہ کیا جائے تو آپ نے توحیدو رسالت اور دیگر امور جو بھی بات کی وہاں مثال صوفیاء کی دی ہے۔ گو یہ باتیں میرے یہ نوخیز سلفی بھائی نہیں جانتے، کیونکہ جان بوجھ کر مسلک اہحدیث کو تصوف سے دور کیا جارہا ہے، مگر یہ حقیقتں ہیں جن سے انکار جاہل اور ضدی ہی کر سکتا ہے،افسوس یہ ہے کہ
زاغوں کےتصرف میں ہیں عقابوں کے نیشمن
ولنا داود غزنوی رحمہ اللہ کا فرمانا کہ
صراط مستقیم بھی دیکھو، کبھی عبقات بھی پڑھو، وہ تو بہت لطیف آدمی تھے، وہ تجلیات سے آگاہ، وہ انوار سے آگاہ، وہ سلوک کے مقامات سے آگاہ، اللہ کی محبت اور معرفت کے تمام رموز سے واقف یہ تجلیات سے آگاہی
یہ مقامات سلوک ،معرفت کے رموز آخر کیا چیزیں ہیں۔کہ جو مولنا صاحب اس کی دعوت دے رہے ہیں ۔سلفی احباب کو چاہیے کہ اپنے اساتذہ سے اس کے متعلق پوچھے ،صراط مستقیم اور عبقات کا مطالعہ فرمائیں ،
مولنا عبد المجید سوہدری رخمہ اللہ تعالی علیہ اہلحدیث کے اکابر علماء میں شمار ہوتے ہیں۔آپ کا شمار امام العصرمولنا ابرھیم سیالکوٹی کے شاگروں میں ہوتا ہے، (مولنا ابرھیم سیالکوٹی رحمہ اللہ تصوف کے رموز سے نہ صرف واقف تھے بلکہ خود ایک صاحب حال صوفی تھے جسکا تذکرہ آگے چل کر آئےگا) آپ مشور صوفی قطب الارشاد مولنا احمد علی لاھوری رحمہ اللہ کے داماد بھی تھے ،آپ نے علماء اہلحدیث کے خلاف اتھنے والے اس پروگنڈے کا رد کرامات اہلحدیث لکھ کر دیا جو کہ علما ء اہلحدیث سے تصوف کیساتھ گہرے تعلق کا ایک کھلا ثبوت ہے،اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ علماء اہلحدیث کے خلاف یہ پراپگنڈا کرنے والے کوئی غیر نہیں بلکہ خود اہحدیث کے معروف حضرات ہیں،تصوف کے نام پر بدعت وجہالت کا رد تو ضروری ہے لیکن مطلق تصوف سے انکار کرنا سمجھ سے بالا تر ہے،کرامات اہلحدیث نامی کتاب اہلحدیث کی لائبریری کتاب وسنتمحدث لائبریری [Mohaddis Library] میں موجود تھی ،جسکا لنک حقیقت چھپانے کیلئےغائب کر دیا گیا ہے اس میں موجود کرامات اہلحدیث ان لفاظ میں کرا یاگیا تھا جو کہ قابل غور ہیں۔
اہلحدیث مکتبہ فکر پر برسوں سے یہ اعتراض چلا آ رہا ہے کہ یہ اولیاء کے منکر ہیں بلکہ گستاخ بھی ہیں۔اس اعتراض میں کتنی سچائی ہے اور اگر اہلحدیث منکر ہیں تو ان کا انکار کس نوعیت کا ہے ،اس کتاب کا بنیادی موضوع اور وجہ تالیف ہے ۔ اس کتاب کے مولف مولانا عبدالمجید خادم سوہدروی ہیں جو بجائے خود نابغہ روزگار ہستی ہیں ۔ موصوف رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ تالیف میں کرامات کی حقیقت ، کراما ت کی شرعی حیثیت ،کرامت ،معجزہ اور استدراج میں فرق کا ذکر کیا ہے ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر خرق عادت امور کا صدورکسی نبی سے ہو تو وہ معجزہ ہے ، کسی عام مسلمان سے ہو تو کرامت ہے او راگر کسی غیر مسلم سے ہو تو استدراج ہے ۔ اسی طرح مولف موصوف نے اہلحدیث مکتبہ فکر کے حامل اولیاء کی کراما ت کا ذکر کیا ہے ۔ ان اولیاء میں درج ذیل بزرگ شامل ہیں ۔مولانا عبد الرحمن لکھوی ،مولانا غلام رسول قلعوی،قاضی محمد سلیمان منصور پوری ،مولانا عبداللہ غزنوی او رمولوی محمد سلیمان رڈروی رحمۃاللہ علیہم۔ موصوف نے اس کتاب میں یہ حقیقت بھی بھر پور طریقہ سے واضح کی ہے کہ کسی بھی ولی کے لیے حدیث و سنت کا متبع ہونا ضروری ہے اس کے بغیر ولایت کا دل میں خیال تک رکھنا جہالت ہے ۔ (ناصف)

مولنا عبد المجید سوہدری رخمہ اللہ تعالی علیہ تصوف کے متعلق فرماتے ہیں
ائمہ حدیث نے جس حدیث کو ام الحادیث یا ام الجوامع کے نام سے تعبیر کرتے ہیں،اس میں مذکور ہے کہ جبرائیل امین آنحضرتﷺ نے احسان کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے جوابا فرمایا الا احسان ان تعبد اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ں ہیں کہ اعلی درجہ توہی ہے کہ عبادت میں ایسی حضوری اور دل لگی ہو کہ گویا اللہ کو دیکھتا ہے اسے مشاہدہ کہتے ہیں اقر ادنی درجہ یہ ہے کہ تصور اور یقین کرے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اسے مراقبہ کہتے ہیں
آج جسے تصوف اور دروشی کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے زبان نبوی میں اس کو احسان کہا گیا ہے،عوام اور بعض صوفیاء قسم کے لوگ ظاہری حکام کو شریعت اورتزکیہ باطن کو طریقت اور مشاہدہ و مراقبہ کو حقیقت کہتے ہیں،مگر اس حدیث میں حضورﷺ نے تینوں مقامات کا تفصیلی ذکر فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام میں کامل وہی شخص ہے جو ان تینوں کا جامع اور عامل ہو ۔اگر کوئی شحص پہلی پانچ باتوں پر جما رئے اور آگے قدم نہ اٹھائے اور احسان کی عملی تعبر کر نہ دکھائے تو بھی ناقص الایمان ہے
مولنا عبد المجید سوہدری رخمہ اللہ تعالی علیہ کے اس اقتباس سے یہ بات واضح ہوتی کہ تصوف کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوسکتا ۔
( تصوف اور علماء اہلحدیث پر آخری حصہ پیش خدمت ہے)
کیلانی صاحب نے اپنی کتاب شریعت و طریقت میں سخت افراط وتفریط سے کام لیا ہےانکی اس کتاب سے معلوم ہوتا کہ موصوف علم تصوف سے نہ صرف بے بہرہ بلکہ صوفیاءؒ سے بعض وعناد انکے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔انشاءا للہ عنوان کیساتھ انکی کتاب پر تفصیلی بحث کی جائے گی۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ تصوف مخالف میں لکھی ہوئی کتابیں تو منظر عام تو لائی جاتی ہیں مگر صوفیاء اہلحدیث جو معتدل مزاج اور انتہائی متقی لوگ تھے انکے حالات زندگی لوگوں سے چھپائے جاتے ہیں اور جان بوجھ کر اکابرین کا جو تصوف کیساتھ تعلق تھا اسے نظر انداز کیا گیا ہے
یہ ایک حقیقت ہے کہ تصوف اسلامی کے اصل دشمن غیر مسلم قوتیں ہیں جو اس بات کو اچھی طرح جانتی ہیں کہ اگر تصوف اسلامی( وہ تصوف جو شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور علماءِ اہلحدیث اہلسنت ولجماعت کا ہے بر صغیر پاک وہند میں تمام جہاد کرنے والے یہی صوفی لوگ اور انکے متعلقین تھے،اور آج بھی آپ کو یہی لوگ نظر آئے گے) سے عالم اسلام کو آشنائی ہو جائے تو پھر "یہ سویا ہوا شیر بیدار ہو جائے گا" اس لیے با قاعدہ جس طرح نقل مولوی وغیرہ بنائے گئے ہیں جو صرف امت میں انتشار پھیلانے کا کام کر رہے ہیں، بلکل اسی طرح نقلی صوفیاء بھی تیار کیے جاتے ہیں ، جو شرک وبدعت کی دعوت دیتے ہیں اور جہاد سے روکتے ہیں اور پھر انکے مقابلے میں ایسے لوگ کھڑے کیے جاتے ہیں جو اصلی و نقلی تصوف میں فرق نہیں کر سکتے اور بلا د ھڑک تصوف اسلامی پر بھی لعن طعن کرتے ہیں اور یوں تصوف اسلامی کو عوام میں پنپنے سے روکنے کی لا حا صل سعی کرتے ہیں ،مسلک اہلحدیث متشدد رویے کی بناء پر اس پروپگنڈے کا سب زیا دہ شکار ہوا حتی علامہ احسان الہی ظہیرؒ شہید جیسے لوگ بھی اسی دھوکے کا شکار ہو گئے،اور ایک پوری نسل کے دل میں تصوف کے خلاف سخت کدورت ڈالی گئی ہے ، راہ سلوک کو چھوڑنے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ آج اعتدال کا رستہ گم ہوگیا ہے تزکیہ نفس نہ ہونے کی وجہ سے معمولی معمولی بات پرایک دوسرے کو کافر ٹھہرایا جاتا ہے
میں یہاں پر مشہور اہل حدیث عالم ،مفسر قران حضرت مولنا ابراھیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ علیہ کی کی تفسیر واضح البیان فی تفسیر ام القران ( ناشر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان) کے تصوف کے متعلق چند حوالے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں فیصلہ میرے سلفی بھائی خود کریں ایک طرف افراط وتفریط کا شکار خشک ملاں (کیلانی وغیرہ) جیسے لوگ ہیں، اور دوسری طرف علماء ِ ربانی میر سیالکوٹیؒ جیسے لوگ ہیں
ان ھدینا اسبیل اما شاکروا اما کافورا
مولنا ابراھیم میر سیالکوٹیؒ اور تصوف اسلامی:۔آپؒ مسلک اہلحدیث کے جید عالم ،عارف باللہ اور وسیع المطالعہ شخصیت کے مالک تھے،تصوف کیساتھ لگاؤ کی وجہ سے اللہ نے آپ کو فہم قران سے خصوصی طور پر نوازا تھا،آپ تصوف و طریقت سے قلبی لگاؤ کی وجہ سے اور اپنے شیخ سے محبت کی بناء پر فرماتے ہیں
"]سی طرح حضرت الاستاذ حامل لواالسنسن مولٰنا عبید اللہ غلام حسن سیالکوٹیؒ جن کی فیض صحبت سے اس گنہگار کے ظاہر و باطن پر تو ڈالا اور شریعت حقیقت کے حقائق ومعارف کا دروازہ کھولا اور انکی وفات کے بعض وہ لطف کہیں نہیں پایاا"( صفحہ 38 )
پھر آگے چل کر حجتہ البا لغہ سے علم اسرار دین پر شاہ ولی اللہ ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں
" اس کے بعد اپنا ایک مراقبہ کا ذکر کرتے ہیں جس میں ان روح القدس آنحضرتﷺ کا ظہور ہوا اور آپکو اس علم ( اسرارِ دین) کے بیان کا القاء ہوا"(صفحہ34 )
پھرمزید صفحہ 41 پر اپنے متعلق فرماتے ہیں
خاکسار گناہ گار بھی محض تحدیثاً بنعمتا اللہ (نہ فخراً کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کو کو بھی اس فن( اسرار دین ولطائف قران مجید) سے کہچھ حصہ عطا کیا ہے
پھرا سی صفحہ پر حسرت سے فرماتے ہیں
"مراقبہ کی حالت میں فیضان الیٰ کا نازل ہونا تو بہت اونچا مقام ہے او میں کہ چکا ہوں کہ واقعی گنہگار ہوں اس لیے وہ مقام مجھے کہاں حاصل ہو سکتا ہے ہا ں فیضان الہی کی دیگر صورتیں بھی ہیں ان میں ایک سچا خواب ہے
مراقبہ کی حالت میں فیضان الیٰ کیا ہوتا اور یہ مراقبہ کیسے کیا جاتا ہے کیا کوئی اہلحدیث اس بات کا جواب دے سکتا ہے؟ (مولف)

صفحہ 288 پر فرماتے ہیں
"پس استغراق تصور سے کشفی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور تجلیات ا لہیہ نا ز ل ہو کر حضور کا رتبہ حاصل کراتی ہیں اور اس حضور ی حالت میں صیغہ خطاب ہی منا سب ہے" ۔
صفحہ330پر فرما تے ہیں
"سورہ فاتحہ کی آیت زیر تفسیر میں جس انعام کا ذکر ہے ۔ اس سے با طنی اور دینی نعمت یعنی اللہ کی مرضی پر چلنے کی توفیق مراد ہے کیوں کہ جب قرآن مجید کی تصریح کے مطابق منعم علیہم سے انبیاء؛ صدیق؛ شہید اور صا لحین مراد ہیں ۔ تو جو خصوصی نعمت ان پر ہوئی ہے ۔یہاں پر وہی مراد ہو سکتی ہے اور صراط مستقیم سے اسی نعمت کو تعلق ہو سکتا ہے"۔
صفحہ331 پر فرماتے ہیں
"جن پر اللہ تعالٰی کی باطنی وروحانی نعمتیں ہوئیں اور وہی اس قابل ہیں کہ اللہ تک پہنچنے کے لیے ان کی راہ احتیار کی جائےاور وہی اس لائق ہیں کہ ان کی اقتداء کی جائے"۔
کیا معترضین تصوف ا(اہحدیث کہلانے والے) بتا سکتے ہیں کہ باطنی و روحانی نعمتیں کیا ہوتی ہیں؟(مولف)
صفحہ 372پر فرماتے ہیں
جسے پیغمبربر حق سے والہانہ عقیدت اور بے چون و چرا اطاعت کا تعلق ہوجاتا ہے۔ اس کے ایمان کی کیفیات پر فرشتے بھی رشک کھاتے ہیں ۔اسے نبی کریمﷺسے ایسی قلبی اور معنوی نسبت پیدا ہوجاتی ہے کہ اس کا دل انوار الہیہ کے اترنے کا محل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ شاہ غلام صاحب ؒ، حضرت مرزا مظہر جانجاناں ؒ کی زبانی ان کے شیخ حدیث حضرت حاجی محمد افضل صاحب سیا لکوٹی کے درس کی نسبت فرماتے ہیں :۔
حضرت ایشاں (مرزا مظہر صا حبؒ) می فرمودند ۔ اگرچہ از آنحضرت(حا جی صاحب ممدوح) اور ظاہر استفادہ کردہ ضمن سبق حدیث فیوض از با طن شریف ایشاں فا ئض مےمی شد ، و درعرض نسبت قوت بہم می رسید ، ایشاں رادر ذکر حد یث در نسبت رسول اللہ ﷺ استغراقے دست مے دادو انوار و بر کات بسیار ظاہر می شد ،کویا در معنی صحبت پیغمبر خدا ﷺ ،حاصل می شد ودریں اثناء توجہ و التفات نبویﷺ مشہودمی گشت و نسبت کما لات نبوت در غایت و سعت وکثرت انوار جلوہ گرمی شد معنی حدیث العلماء ورثۃ الا نبیا ءؑ وا ضح می شد ؛ ایشاں(حضرت حاجی صاحب موصوفؑؒ) شیخ الحد یث و از روئے صحبت پیرا فقیرا ند، فوائد بسیار درظاہر و با طن تا بست سال از خدمت ایشاں حاصل نمودہ ایم(مقامات مظہریہ،ص 22 ۔23)
پھر خود ہی فرماتے ہیں
یہ مقام بہت بلند ہے اورہم جن لوگو ں کی تفہم کے درپے ہیں ان کی سمجھ سے بہت با لا ہے کچھ عجب نہیں کہ وہ اپنی بدذوقی کی وجہ سے اس کا ان انکار کر دیں کیوں کہ جب تک سطح کو مصفاو مجلے نہ کیا جاے ۔ نقش ونگار کی زینت کاری صورت نہیں پڑ سکتی۔اسی طرح جب تک ایمان میں وہ کیفیت نہ ہو جس کا ہم ذکر کررہے ہیں ۔دل اس حقیقت کو نہیں پا سکتا ۔ ذائقہ کی لذت سے متمتع ہونے کے لیے قوت ذائقہ کی سلامتی شرط ہے ۔رنگ کی دلفریبی سے مسرت حال کرنے کے لیے نور بصارت ضرورت ہے۔
طوالت کے خوف سے میں مضمون کویہی ختم کرتا ہوں اگر تفصیل میں جاؤں تو ایک ضحیم کتاب بن سکتی ہے یہ چندباتیں میں نے بطور نمونہ لکھ دی ہیں جوکہ اصحابِ اولوالباب کیلئے مشعل راہ ہیں رہ گئے منکرین اور ضدی تو انکے لئے تو دفتر کے دفتر ناکافی ہیں
ہم نے دل جلاء کے سرِ راہ رکھ دیا آب جس کے جی میں آئے روشنی پائے
 

محمداحمد

لائبریرین
عجیب اتفاق کی بات ہے کہ یہی مضمون میں کل یہاں پر پڑھ رہا تھا۔

اس مضمون کا جواب تو مخاطب طبقے کے اکابرین ہی دے سکتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر "اہلِ حدیث حضرات" علماء کی اتنی ہی ماننے والے ہوتے کہ اُن کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہیں تو پھر ان کو "غیر مقلد" کیوں کہا جاتا۔

طبقہ مذکور اپنے عمل کے لئے قران اور احادیث کی طرف دیکھتے ہیں نہ کہ علماء کرام کے عمل کی طرف۔ اور جس کسی کی بات قران اور احادیث سے متصادم ہو اُسے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے میں اس قسم کے مضامین کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
محدث فورم پر اس سلسلے میں دیا جانے والا جواب بھی قابلِ توجہ ہے وہ بھی احباب کی آسانی کے لئے یہاں پیش کر رہا ہوں۔

معلوم ہوتا ہے کہ قریشی صاحب امین اوکاڑوی دیوبندی جو کہ فن مغالطہ کا امام تھا کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ قریشی صاحب کا یہ فضول مضمون مغالطات سے پر ہے جس میں جی بھر کے عوام الناس کو دھوکہ دینےکےساتھ ساتھ کذب بیانیوں کے ریکارڈ قائم کرنے کی بھی بھرپور سعی کی گئی ہے۔قریشی جسکامسلک و مذہب مشکوک ہے، نے ایک نیا اہل حدیث مذہب دریافت کیا ہےجوکہیں زمین میں دفن تھاجسےموصوف اہل سنت اہل حدیث کا نام دیتےہیں۔ جو علمائے اہل حدیث کے شاذ اور غیرمفتی بہا اقوال و فتاویٰ اور اہل حدیث علماء اور عوام کی طرف سے مردود دی گئی کتابوں پر مشتمل ہے۔ اسی لئے قریشی صاحب کو اس بات سے بہت تکلیف ہوئی کہ اہل حدیث حضرات نے کرامات اہل حدیث نامی کتابوں سے بے زاری کا اظہار کردیا اور محدث لائبریری سے اس کتاب کو حذف کردیا گیا۔ حالانکہ قریشی صاحب اس مردود کتاب کو زبردستی اہل حدیث کے سر تھوپنے کی کوشش فرما رہے تھے۔ قریشی صاحب کو اخلاقیات اور اصولوں کا بھی علم نہیں کہ جس کتاب اور جس عقیدے سے کوئی جماعت یا گروہ بے زاری کا اظہار کردے تو اس کتاب یا اس عقیدے کا اس جماعت کی جانب انتساب بددیانتی اور دھوکہ بازی کے زمرے میں آتا ہے۔ قریشی صاحب اہل حدیث مذہب کے بنیادی اصول سے بھی جاہل اور ناواقف ہیں۔ یہ کس قدر مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ ایک ایسا شخص اہل حدیث کو اس کے عقائد کے بارے میں بتا رہا ہے جو خود اہل حدیث مذہب کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا۔قریشی صاحب آپ سے درخواست ہے کہ آپ وہ کام کریں جس کا آپ کو علم ہو ضروری نہیں کہ علامہ بننے کی کوشش میں ہر مسئلہ میں ٹانگ اڑا کر اپنی جگ ہنسائی کرواؤ۔

جماعت اہل حدیث کے نامور عالم اور محقق حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: ہمارا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ قرآن، حدیث اور اجماع کے خلاف ہر شخص کی بات مردود ہے۔ مزید فرماتے ہیں: دوبارہ عرض ہے کہ ہم کتاب و سنت اور اجماع کے خلاف ہر عالم کا قول مردود سمجھتے ہیں۔(تحقیق،اصلاحی اور علمی مقالات،جلد دوم، ص 485)

اہل حدیث کا یہ وہ سنہری اصول ہے جو مقلدوں اور قریشی جیسے لوگوں کے دل میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ کیونکہ اس اصول کی موجودگی میں وہ اہل حدیث علماء کی غلطیوں اور شاذ اقوال کو اہل حدیث پر بطور حجت پیش کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں اور یہی اصول اہل حدیث کا لبادہ اوڑھ کر اہل حدیث مذہب کو نقصان پہچانے والے عناصر کا ناطقہ بند کردیتا ہے۔

اسی مذکور ہ بالا اصول اور عقیدے کی روشنی میں جب ہم قریشی صاحب کے مضمون کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قریشی صاحب تصوف کے بارے میں کچھ علمائے اہل حدیث کے شاذ اقوال اور فتاویٰ کو اہل حدیث کے مذہب و مسلک یا متفقہ عقیدہ کے طور پر پیش کرنے میں مکمل طور پر ناکام اور نامراد رہے ہیں۔اور انکا یہ مضمون مردود ہے۔

قریشی صاحب سے مکرر عرض ہے کہ اپنی توانیاں اہل حدیثوں میں فتنہ پھیلانے کے بجائے کسی تعمیری کام میں خرچ کریں۔ اور اگر آپ تصوف کو اہل حدیث حضرات سے منوانا چاہتے ہیں تو ہمارے اصول کی روشنی میں اسے قرآن و حدیث سے ثابت کریں اور بتائیں کہ اہل حدیث کے اولین اکابرین یعنی صحابہ کرام، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ محدیثین میں سے کون کون صوفی کہلاتے اور اس غیر معقول مذہب کے حامی تھے؟؟؟ کیونکہ اہل حدیث قرآن وحدیث کو سلف صالحین کے فہم سے سمجھتے ہیں اسلئے قرآن کی کسی آیت اور کسی صحیح حدیث سے صوفیت پر استدلال کرنے کے ساتھ ساتھ آپ پر لازم ہوگا کہ اس استدلال کو سلف صالحین سے بھی ثابت کریں وگرنہ آپ کا استدلال اہل حدیث پر حجت نہیں ہوگا۔

اب آپ دوبارہ کوشش فرمائیں اور اہل حدیث کے اصول اور عقیدے کے مطابق صوفیت پر مضمون لکھیں۔
 

ساجد

محفلین
دیگر ویب سائٹس پر لکھے گئے اختلافی مضامین کے کاپی پیسٹ اور ان کا جواب دینے کے لئے اردو محفل کو بطور اکھاڑہ استعمال نہ کیا جائے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top