علامہ اقبال کی شہرہء آفاق نظم شمع اور شاعر کے پہلے حصے شاعر کا منظوم ترجمہ

علامہ اقبال کی شہرہء آفاق نظم شمع اور شاعر کے پہلے حصے شاعر کا منظوم ترجمہ​
منظوم ترجمہ::محمد خلیل الرحمٰن
رات میں نے یوں کہا تھا شمعِ ویراں سے مری
تابداری سب تری منت کشِ پروانہ ہے
دور صحرا میں کھِلا ہو پھول کوئی تابدار
جس کی قسمت میں نہ محفل اور نہ ہی کاشانہ ہے
مدتوں تیری طرح میں بھی ہوں بس تنہا جلا
میری لو پر آنے والا بھی کوئی پروانہ ہے
میری آہیں اِس جہاں میں جلوے پیدا کرگئیں
لیکن اِس محفل میں تنہا بس دلِ دیوانہ ہے
ہے کہاں وہ آتشِ دِل سوز جو ایسے جلے
بے حقیقت ایک پروانے کو موسیٰ کرچلے
شاعر
دوش می گفتم بہ شمع منزل ويران خويش
گيسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ اے
درجہاں مثل چراغ لالہ صحراستم
نے نصيب محفلے نے قسمت کاشانہ اے
مدتے مانند تو من ہم نفس می سوختم
در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے
می تپد صد جلوہ در جان امل فرسودم ن
بر نمی خيزد ازيں محفل دل ديوانہ اے
از کجا ايں آتش عالم فروز اندوختی
کرمک بے مايہ را سوز کليم آموختی
 

الف عین

لائبریرین
اچھا ترجمہ ہے خلیل، لیکن اصلاح سخن میں ہے اس لئے یہ کہہ رہا ہوں کہ دوسرے شعر میں تابدار پھول کہاں سے آ گیا۔ اصل میں تو چراغ ہے!!
 
اچھا ترجمہ ہے خلیل، لیکن اصلاح سخن میں ہے اس لئے یہ کہہ رہا ہوں کہ دوسرے شعر میں تابدار پھول کہاں سے آ گیا۔ اصل میں تو چراغ ہے!!
استادِ محترم آپ نے توجہ کی ہماری عید ہوگئی۔ اصلاح کا شکریہ۔ ویسے ہم چراغِ لالہء صحرا کو پھول سمجھے۔
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن​
نوٹ: دراصل جب ہم خود اپنی تخلیق سے مطمئن نہیں ہوتے، اسے اصلاحِ سخن کی لڑی میں پروتے ہیں کہ اساتذہ اسے ہماری ہمت بڑھانے کے لیے صرف توصیفی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ تنقیدی نظر سے بھی دیکھ کر اپنی نہایت قیمتی آراء سے ہمیں نوازیں۔ جزاک اللہ الخیر​
 

انتہا

محفلین
استادِ محترم آپ نے توجہ کی ہماری عید ہوگئی۔ اصلاح کا شکریہ۔ ویسے ہم چراغِ لالہء صحرا کو پھول سمجھے۔
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن​
نوٹ: دراصل جب ہم خود اپنی تخلیق سے مطمئن نہیں ہوتے، اسے اصلاحِ سخن کی لڑی میں پروتے ہیں کہ اساتذہ اسے ہماری ہمت بڑھانے کے لیے صرف توصیفی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ تنقیدی نظر سے بھی دیکھ کر اپنی نہایت قیمتی آراء سے ہمیں نوازیں۔ جزاک اللہ الخیر​
جناب محترم معذرت کے ساتھ، اگر یہاں تخلیق کی جگہ کاوش یا کوئی دوسرا مناسب لفظ استعمال کیا جائے تو مناسب نہ ہو گا؟
 

الف عین

لائبریرین
اوہو، ایک غلطی میں بھی کر ہی گیا، بات تو واقعی پھول کی ہی ہے، اصل نظم میں میں اس کا اگلے شعر کا مصرع پڑھ گیا تھا تو غلط فہمی ہوئی۔ یعنی اس طرح
درجہاں مثل چراغ لالہ صحراستم
در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے
تو غلط فہمی ہوئی کہ اصل میں لالٗ صحرا کے چراغ کے بارے میں کہا گیا ہے۔ لیکن محفل اور کاشانے کی مناسبت سے تو یہ پھول ہی ہونا چاہئے۔ خلیل میاں کا شعر درست ہی ہے، میں رجوع کرتا ہوں۔
 

سید زبیر

محفلین
اوہو، ایک غلطی میں بھی کر ہی گیا، بات تو واقعی پھول کی ہی ہے، اصل نظم میں میں اس کا اگلے شعر کا مصرع پڑھ گیا تھا تو غلط فہمی ہوئی۔ یعنی اس طرح
درجہاں مثل چراغ لالہ صحراستم
در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے
تو غلط فہمی ہوئی کہ اصل میں لالٗ صحرا کے چراغ کے بارے میں کہا گیا ہے۔ لیکن محفل اور کاشانے کی مناسبت سے تو یہ پھول ہی ہونا چاہئے۔ خلیل میاں کا شعر درست ہی ہے، میں رجوع کرتا ہوں۔
استاد محترم جسارت کا طلبگار ہوں ۔مجھ نا چیز کے خیال میں اّپ رجوع مکرر کر لیں۔یہاں چراغ ہی بمثل شمع اّے گا محفل اور کاشانہ کی تابداری چراغ ھی سے ھوگی۔پروانہ شمع یا چراغ پر ہی اّے گا ۔ چراغ کولالہ سے تشبیہہ دی ہے نہ کہ لالہ کو چراغ سے ۔اس لیے اّپ کا پہلا ءیال بالکل درست تہا ۔
 

محمد امین

لائبریرین
استاد محترم جسارت کا طلبگار ہوں ۔مجھ نا چیز کے خیال میں اّپ رجوع مکرر کر لیں۔یہاں چراغ ہی بمثل شمع اّے گا محفل اور کاشانہ کی تابداری چراغ ھی سے ھوگی۔پروانہ شمع یا چراغ پر ہی اّے گا ۔ چراغ کولالہ سے تشبیہہ دی ہے نہ کہ لالہ کو چراغ سے ۔اس لیے اّپ کا پہلا ءیال بالکل درست تہا ۔

آپ کی بات سر آنکھوں پر مگر میں ناچیز ترین بھی کوئی جسارت کرلوں تو۔۔۔ یہ مثلِ چراغ لالہ کو کہا جا رہا ہے۔ یعنی اگر میری ناقص عقل نے ٹھیک سمجھا ہے تو یہ لالہ کو چراغ سے تشبیہہ دی جا رہی ہے۔ یعنی چراغ جیسا ہونا لالے کی صفت ہوئی اور "پھول کوئی تابدار" میں تابداری پھول کی صفت ہوئی۔ اگر میں غلط ہوں تو اصلاح فرما دیں ۔۔
 

سید زبیر

محفلین
آپ کی بات سر آنکھوں پر مگر میں ناچیز ترین بھی کوئی جسارت کرلوں تو۔۔۔ یہ مثلِ چراغ لالہ کو کہا جا رہا ہے۔ یعنی اگر میری ناقص عقل نے ٹھیک سمجھا ہے تو یہ لالہ کو چراغ سے تشبیہہ دی جا رہی ہے۔ یعنی چراغ جیسا ہونا لالے کی صفت ہوئی اور "پھول کوئی تابدار" میں تابداری پھول کی صفت ہوئی۔ اگر میں غلط ہوں تو اصلاح فرما دیں ۔۔
سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں اّئے
 

محمد وارث

لائبریرین
خوب ترجمہ کیا آپ نے خلیل صاحب۔

کچھ بہتری کی صورتیں اس میں نکل سکتی ہیں۔

دوش می گفتم بہ شمعِ منزلِ ويران خويش
گيسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ اے

رات میں نے یوں کہا تھا شمعِ ویراں سے مری
تابداری سب تری منت کشِ پروانہ ہے

شاعر کا خطاب اپنی ویران منزل کی جلتی ہوئی شمع سے ہے، لیکن آپ کے شعر میں شاعر کا خطاب اپنی ویران شمع سے ہے، یقیناً بہتری چاہتا ہے۔
-----------
درجہاں مثلِ چراغِ لالہٴ صحراستم
نے نصيب محفلے نے قسمت کاشانہ اے

دور صحرا میں کھِلا ہو پھول کوئی تابدار
جس کی قسمت میں نہ محفل اور نہ ہی کاشانہ ہے

پہلے مصرعے میں شاعر کا مطلب ہے کہ میں اس دنیا میں ایسے ہی ہوں جیسے کہ صحرا میں کھلے ہوئے لالہ کے پھول کا چراغ، لیکن آپ کے مصرعے سے یہ اخذ نہیں ہوتا کہ شاعر اپنی بات کر رہا ہے، یعنی وہ تشبیہ جو شاعر نے اپنی اور صحرائی لالہ کی بیان کی ہے وہ آپ کے مصرعے میں نہیں ہے۔
-------

مدتے مانندِ تو من ہم نفس می سوختم
در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے

مدتوں تیری طرح میں بھی ہوں بس تنہا جلا
میری لو پر آنے والا بھی کوئی پروانہ ہے

آپ کے پہلے مصرعے میں تیری طرح کے ساتھ بس تنہا کا ٹکڑا بالکل اضافی ہے اور شاعر کے مفہوم کو خبط کر رہا ہے۔ شمع تنہا ہی تو نہیں جلتی اور شاعر دوسرے مصرعے میں واضح بھی یہی کر رہا ہے کہ تیری مانند میں بھی جلتا ہی رہتا ہوں لیکن میرے شعلے کے طواف میں کسی پروانے نے اپنے آپ کو نہیں جلایا اور یہ مفہوم بھی آپ کے دوسرے مصرعے میں واضح نہیں ہو رہا۔ یا تو بدلا جانا ضروری ہے یا اس کے آخر میں سوالیہ نشان لگانا لازمی ہے، کیونکہ اس طرح تو لگ رہا ہے کہ مستقبل میں میری لو پر بھی کوئی پروانہ آنے والا ہے۔
--------

می تپد صد جلوہ در جاں امل فرسود من
بر نمی خيزد ازيں محفل دل ديوانہ اے

میری آہیں اِس جہاں میں جلوے پیدا کرگئیں
لیکن اِس محفل میں تنہا بس دلِ دیوانہ ہے

خوب ہے۔
-------

از کجا ايں آتش ِعالم فروز اندوختی
کرمک بے مايہ را سوز کليم آموختی

ہے کہاں وہ آتشِ دِل سوز جو ایسے جلے
بے حقیقت ایک پروانے کو موسیٰ کرچلے

پہلے مصرعے میں پھر شاعر کا خطاب شمع سے ہے اور پوچھ رہا ہے کہ اے شمع تو نے پوری دنیا کو روشن کرنے والی یہ آگ کہاں سے حاصل کی ہے لیکن آپ کے مصرعے میں یہ بات پیدا نہیں ہو رہی کہ شاعر شمع سے پوچھ رہا ہے۔ دوسرا مصرعے کا ترجمہ آپ نے انتہائی خوبصورت کیا ہے۔

والسلام
 
شکریہ جناب محمد وارث صاحب آپ کی انتہائی قیمتی اصلاح کا۔جزاک اللہ الخیر۔​
ہم نے آپ کی آرا، کی روشنی میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے اور بتلایئے کہ ہم کس حد تک کامیاب یا ناکام رہے۔ کیا اِن تبدیلیوں کے بعد اب آخری شعر کے پہلے مصرع کو بھی تبدیل کرنے کی حاجت رہتی ہے یا مطلب واضح ہورہا ہے؟​
اپنے ویراں گھر کی شمع سے جو میں نے یوں کہا
تابداری سب تری منت کشِ پروانہ ہے
میں، کہ صحرا میں کھِلا ہو پھول کوئی تابدار
جس کی قسمت میں نہ محفل اور نہ ہی کاشانہ ہے
مدتوں تیری طرح میں بھی جلا، پر یہ بتا!
میری لو پر آنے والا بھی کوئی پروانہ ہے؟
میری آہیں اِس جہاں میں جلوے پیدا کرگئیں
لیکن اِس محفل میں تنہا بس دلِ دیوانہ ہے
ہے کہاں وہ آتشِ دِل سوز جو ایسے جلے
بے حقیقت ایک پروانے کو موسیٰ کرچلے
 

الف عین

لائبریرین
اب واقعی بہتر ہے، لیکن یہ مصرع
اپنے ویراں گھر کی شمع سے جو میں نے یوں کہا
میں ’شمع‘ کا تلفظ غلط ہو گیا ہے، یہ فعلن نہیں، محض فعل ہے۔ بر وزن درد، میم پر سکون۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ جناب محمد وارث صاحب آپ کی انتہائی قیمتی اصلاح کا۔جزاک اللہ الخیر۔​
ہم نے آپ کی آرا، کی روشنی میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے اور بتلایئے کہ ہم کس حد تک کامیاب یا ناکام رہے۔ کیا اِن تبدیلیوں کے بعد اب آخری شعر کے پہلے مصرع کو بھی تبدیل کرنے کی حاجت رہتی ہے یا مطلب واضح ہورہا ہے؟​
اپنے ویراں گھر کی شمع سے جو میں نے یوں کہا
تابداری سب تری منت کشِ پروانہ ہے
میں، کہ صحرا میں کھِلا ہو پھول کوئی تابدار
جس کی قسمت میں نہ محفل اور نہ ہی کاشانہ ہے
مدتوں تیری طرح میں بھی جلا، پر یہ بتا!
میری لو پر آنے والا بھی کوئی پروانہ ہے؟
میری آہیں اِس جہاں میں جلوے پیدا کرگئیں
لیکن اِس محفل میں تنہا بس دلِ دیوانہ ہے
ہے کہاں وہ آتشِ دِل سوز جو ایسے جلے
بے حقیقت ایک پروانے کو موسیٰ کرچلے

بہت خوب خلیل صاحب اب مفہوم واضح ہو گئے ہیں، فقط یہ کہ اب پہلے مصرعے میں شمع کو میم کی تشدید سے پڑھنا پڑھے گا یعنی شم مع، میرے خیال میں شاید یہ درست وزن نہیں ہے۔

آخری شعر کے پہلے مصرعے کو مثال کے طور پر یوں بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ شعر سوال ہے اور اس کے بعد شمع کا جواب ہے۔

لی کہاں سے آتشِ دل سوز جو ایسے جلے؟

والسلام
 
جناب الف عین صاحب استاد محترم اور جناب محمد وارث صاحب
اب ملاحظہ کیجیے اور اپنی قیمتی آراء سے مطلع فرمائیے۔ وارث صاحب کے مصرع نے چار چاند لگا دییے ہیں۔
اپنے ویراں گھر کی جلتی شمع سے میں نے کہا
تابداری سب تری منت کشِ پروانہ ہے
میں، کہ صحرا میں کھِلا ہو پھول کوئی تابدار
جس کی قسمت میں نہ محفل اور نہ ہی کاشانہ ہے
مدتوں تیری طرح میں بھی جلا، پر یہ بتا!
میری لو پر آنے والا بھی کوئی پروانہ ہے؟
میری آہیں اِس جہاں میں جلوے پیدا کرگئیں
لیکن اِس محفل میں تنہا بس دلِ دیوانہ ہے
لی کہاں سے آتشِ دِل سوز جو ایسے جلے
بے حقیقت ایک پروانے کو موسیٰ کرچلے
 
ماشاء اللہ آپ تمام حضرات کی گفتگو سے نظم کے پہلے حصے کو سمجھنے میں آسانی ہوئی
اور کس طرح تنقید برائے اصلاح کو خندہ پیشانی سے قبول کرکے اپنے کلام کو بہتر کیا گیا ہے دیکھ کر خوشی ہوئی
جزاک اللہ
 
Top