علامہ اقبال اور محبت رسولؐ

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی فکر کا مدار، تمدن کا معیار اور سوچ کا مرکزی موضوع ہمیشہ اسوہ حسنہ، سیرۃ البنیؐ رہا ہے۔ ان کے نزدیک دنیوی زندگی کی کامیابی ہو یا آخرت کی فوز و فلاح سب محبت رسولؐ سے وابستہ کرتے تھے، ان کے بقول محبت رسولؐ کے بغیر کامیابیاں و کامرانیاں ممکن نہیں ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے دنیا میں اگر بلند مقام حاصل کرنے کی خواہش ہے تو بس اللہ تعالیٰ سے لو لگا اور حضرت محمدﷺ کی بتائی ہوئی راہ صراط مستقیم پر چلتا جا کیونکہ یہی راستہ حق و ہدایت کامیابی اور فلاح کا راستہ ہے جو ہر دور میں روشن ہے۔ علامہ اقبالؒ کا اپنا دل محبت مصطفی سے روشن اور زباں مدحت محمدﷺ سے سرشار رہتی تھی۔ حضور اکرمﷺ سے محبت و عقیدت اور قلبی لگن کے سبب اللہ رب العالمین کو رب محمدؐ کہہ کر پکارتے تھے۔ ان کے لئے تصور بڑا ہی راحت بخش اور باعث سکون تھا کہ حبیب کبریا محمدرسول اللہ ﷺان کے مربی، رہنما اور ہادی تھے۔
کسی نے ان سے اللہ تعالیٰ کے وجود کے متعلق سوال کیا تو فرمانے لگے: اللہ تعالیٰ کے وجود کے متعلق حضرت محمدﷺ نے خبر دی ہے میں اسی لئے اللہ تعالیٰ کے وجود کا قائل ہوں کہ اللہ رب العزت موجود ہے۔
احباب و اقربائ، اہل علم اور اہل قلم کی مجلسوں میں جب بھی حضرت محمدﷺ کا نام نامی اسم گرامی آتا تو ڈاکٹر اقبالؒ کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی، سیرت رسول کریمﷺ پر جب قلم اٹھاتے تو قلم سے سیاہی کم اور آنکھوں سے آنسو زیادہ نکلتے، انہوں نے شعر و نثر، علم و ادب کے ذریعے انسانیت کے دل میں محسن انسانیت حضرت محمدﷺ کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، جو کامیابیوں کی بلندیوں کو چھو گئی ہے، رسول کریمﷺ سے محبت ایک مقناطیسی کشش کا نام ہے جو قوت قلب، غذائے روح، قرۃ العین اور حیات الابدان ہے۔ علامہ اقبالؒ کی زندگی کا سب سے نمایاں، ممتاز، محبوب اورقابل قدر وصف جذبہ حب رسول کریمﷺ تھا، جن لوگوں نے ان کے پاس بیٹھ کر محبت رسولﷺ کے مناظر دیکھے ہیں ان کاکہنا ہے کہ وہ کیفیات محسوس کرنے کی تھیں، اظہار کرنے کی نہیں۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے محبت رسولؐ کا جو طریقہ اپنی تعلیمات کے ذریعے پیش کیا ہے، وہ چار چیزوں پر مشتمل ہے۔ (1) درود شریف (2) نبی کریمﷺ کا تذکرہ خیر (3) سیرۃ النبی کا مطالعہ (4) رسول اکرمﷺ کی اطاعت و اتباع کرنا۔
اقبال علامہ اور ڈاکٹر کے القابات سے معروف تو تھے ہی آپ کی ایک شناخت حکیم الامت بھی ہے۔ علامہ! علم سے بنے اور ڈاکٹر پی ایچ ڈی کرنے سے تو حکیم الامت کیسے بنے؟ ایک مرتبہ ڈاکٹرعبدالحمید جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پروفیسر تھے، ملاقات کے لئے تشریف لائے، دوران گفتگو سوال کیا، علامہ صاحب! آپ حکیم الامت کیسے بنے؟ علامہ صاحب نے فرمایا حکیم الامت آپ بھی بن سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کیسے؟ جواب دیا کہ میں نے گن کر ایک کروڑ مرتبہ درود شریف پڑھا ہے، آپ بھی اس نسخہ پر عمل کریں آپ بھی حکیم الامت بن جائیں گے۔ علامہ اقبال کی تعریف آج دنیا بھر میں ہو رہی ہے تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ علامہ اقبال کی زبان پر اللہ کی تعریف اور رسول کریمﷺ کیلئے درود شریف کا ورد ہوتا تھا۔
ایک دن ملاقاتی گھر پر حاضری کیلئے گئے آپ آبدیدہ اور بہت زیادہ پریشان تھے۔ انہوں نے پریشانی کی وجہ پوچھی، کہنے لگے، ایک نوجوان ملاقات کے لئے آیا تھا، دوران گفتگو جناب محمدﷺ، جناب محمدﷺ کہتا رہا، میں اس بات پر پریشان ہوں جس قوم کے جوانوں کی یہ حالت ہے اس قوم کا مستقبل کیا ہو گا؟ جبکہ ہمارا مستقبل آج ہمارے سامنے ہے۔
علامہ اقبال خود فلسفہ و منطق کے ماہر تھے، قرآن و سنت کا مطالعہ بڑی گہرائی سے کرتے۔ انہوں نے دعوے اور خود اعتمادی سے یہ بات کہی ہے۔ اے منطق و کلام کے متوالو! اس کلام (قرآن مجید) کو پڑھو جو امی نبیؐ پر نازل ہوا۔ شاید تمہارا کام بن جائے، اے افلاطون و ارسطو کے شیدائیو! ان کی بارگاہ میں پہنچ کر کچھ سیکھو جن کے ہاتھوں نے تختی کو چھوا اور نہ ہی ان کی انگلیوں نے کبھی قلم پکڑا، لیکن لوح و قلم کے سارے راز ان پر منکشف ہو گئے، اسی وجہ سے اہل علم و عمل سے محبت تھی، ان کا کہنا ہے جن لوگوں کے عقائد و عمل کا ماخذ کتاب و سنت ہے اقبال ان کے قدموں پر ٹوپی تو کیا سر رکھنے کو تیار ہے اور ان کی محبت کے ایک لحظہ کو دنیا کی تمام عزت و آبرو پر ترجیح دیتا ہے۔ حضرت اقبالؒ رسول اللہﷺ کے ساتھ ساتھ محبان رسول سے بھی بے حد پیار اور عقیدت سے پیش آتے، ان کا تذکرہ ہوتا تو ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی موجیں رواں ہو جاتی، ایک دن محب رسول غازی علم الدین شہید کا ذکر چلا تو علامہ اقبال فرط عقیدت سے اٹھ کر بیٹھ گئے آنکھوں سے آنسو ابھر آئے اور کہنے لگے ’’اسی گلاں کر دے رہ گئے تے ترکھان دا منڈا بازی لے گیا‘‘ یعنی ہم محض باتیں کرتے رہ گئے اور بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا۔
غازی علم الدین کی طرح غازی عبدالقیوم نے کراچی میں گستاخ رسول نتھورام کو واصل جہنم کر دیا۔ مقدمہ چلا اس نے قتل کا اعتراف کر لیا تو عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا۔ فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی گئی۔ عدالت عالیہ نے فیصلہ برقرار رکھا، مسلمان ان کی رہائی کیلئے پرجوش تھے۔ علامہ اقبالؒ کے پاس آئے کہ وہ وائسرائے کو سفارش کریں، کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پوچھا کیا عبدالقیوم کمزور پڑ گیا ہے؟ نہیں ، نہیں وہ تو اعلانیہ کہتا ہے ’’میں نے جنت خرید لی ہے‘‘ جواب میں علامہ صاحب نے کہا پھر میں اس کے اجر و ثواب میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں؟ وہ زندہ رہا تو غازی ، مر گیا تو شہید۔
؎ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر وقیمت میں ہے خون جن کا حرم سے بڑھ کر
علامہ اقبالؒ ختم نبوت کے عقیدہ کی قدر و قیمت اور واقعہ معراج النبی کی عظمت و منزلت سے مکمل طور پر آشنا اور واقف تھے۔ ختم نبوت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا! آئندہ کسی انسان کے ذہن پر کسی انسان کی حکومت نہیں ہو گی۔ رسول کریمﷺ کے بعد کوئی شخص دوسروں سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری بات کو بلاچوں و چراں تسلیم کر لو۔ ختم نبوت کا معنی یہ ہے کہ کوئی شخص اسلام لانے کے بعد اگر یہ دعویٰ کرے کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے اور میری جماعت میں شامل و داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کذاب ہے، واجب القتل ہے، مسیلمہ کذاب کو اسی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔
علامہ اقبالؒ آج زندہ ہوتے تو سلمان رشدی کذاب تسلیمہ نسرین معلونہ اور دیگر حرمت رسولؐ پر حملہ آوروں کے خلاف ان کا نقطہ نظر اور شدید ہوتا۔ معراج النبیؐ کے واقعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں، یہ ایک نبیؐ کی جسمانی معراج ہی نہیں بلکہ اس میں انسان کی عظمت و بلندی کا پیغام پوشیدہ ہے، جن و ملائکہ، زمین و آسمان، شجر وحجر، چاند اور ستارے سب اس کے سامنے ہیچ ہیں۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
حضرت اقبالؒ انسان کی عظمت و بلندی اسوہ رسول میں تلاش کرتے اور عصر حاضر کے تمام تر مسائل و مشکلات کا حل اتباع رسولؐ اور محبت مصطفیﷺ میں مضمر جانتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک مسلمانوں نے حضور اکرمﷺ کے شعار کو عزیز رکھا اقوام عالم پر چھائے رہے اور جب رابطہ قلبی منقطع ہوا تعلق سرد پڑا اسلامی سلطنت کی فلک بوس عمارت دھڑام سے ذلت کی پستیوں میں گر کر ریزہ ریز ہو گئی، یعنی ریاست و سلطنت کی بقاء کا راز اور دوام نظام مصطفی میں مضمر ہے۔ رسول اللہﷺ کی ذات سے والہانہ محبت کی طرح آپ کے دور انور سے بھی آپ کو بے پناہ محبت تھی، اس دور کے متعلق سوچتے، اس سے اخذ کرتے۔
نیاز الدین خان کے نام خط میں کچھ یوں تحریر کرتے ہیں، میں لاہور کے ہجوم میں رہتا ہوں مگر تنہائی کی زندگی بسر کرتا ہوں، ضروری امور سے فارغ ہو کر تلاوت قرآن مجید کرتا ہوں اور قرون اولیٰ (دور نبویؐ) کی حسین یادوں میں چلا جاتا ہوں، جس زمانے کا تصور و تخیل اس قدر حسین و جمیل اور روح افزاء ہے وہ زمانہ خود کیسا ہو گا؟ علامہ اقبال حالات اور صحت کے سبب مدینہ منورہ کا سفر تو نہ کر پائے مگر اس سفر کیلئے بے قرار رہتے تھے، سفری ہیبت، صعوبت، نزاکت و خطرات کے باوجود (مدینہ) جانا پسند کرتے تھے، یقینا ان دنوں سفر خطرناک بھی تھا اور بے حد مشکل بھی۔ اس خوف و شوق کی کشاکش کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
خوف کہتا ہے کہ یثرب کی طرف تنہا نہ چل
شوق کہتا ہے کہ تو مسلمان ہے بیباکانہ چل
آج امت مسلمہ اپنا سفر اسی سمت کر لے، حکمراں اسی جانب چل پڑیں، حکومت، ریاست، ادارے اور عدلیہ رسول کریمؐ کے نظام کے تابع ہو جائیں اور اس دور کی روشنیوں کو اختیار کر لیں تو ہر قسم کے اندھیروں سے باہر نکل سکتے ہیں اور تنہائی، پستی، ذلت و رسوائی سے محفوظ ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر اقبال دور نبویؐ کی عظمتوں سے آشنا اور اس کی بلندیوں سے مکمل طور پر واقف تھے، اسی پہلی اسلامی ریاست کے تخیل میں جا کر انہوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا، آج اس تصور کی تعبیر کی ضرورت ہے۔

بشکریہ ہفت،،،روزہ جرار
والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 
Top