شہزاد احمد عصر حاضر کے ممتاز شاعر ”شہزاد احمد“ کی ایک خوبصورت غزل - جسے بار بار ملے تھے تم ، وہ میرے سوا کوئی ا

بنتِ آدم

محفلین
جسے بار بار ملے تھے تم ، وہ میرے سوا کوئی اور تھا​
مرے دل کو تاب نظر کہاں ، تمہیں دیکھتا کوئی اور تھا​
میں فریب خوردہ راہ غم ، چلا سکے ساتھ قدم قدم​
مرے ہمسفر نہیں جانتے ، مرا راستہ کوئی اور تھا​
گل تازہ یہ ترا رنگ و بو ، ہوا سب سے بڑھ کے ترا عدو​
کسی اور نے تجھے چن لیا ، تجھے چاہتا کوئی اور تھا​
سبھی ربط بے سر و پا ہوئے ، نہ ملے نہ تجھ سے جدا ہوئے​
نہ الگ تھا تیرا جہاں کبھی ، نہ مرا خدا کوئی اور تھا​
کھلا ہمدموں پہ راز کب کہ میں ایک عمر سے جاں بلب​
مجھے روز ملتے تھے لوگ سب مگر آشنا کوئی اور تھا​
کبھی روشنی مجھے کی عطا ، کبھی سائے ساتھ لگا دیے​
کبھی سب چراغ بجھا دیے ، وہ تمہی تھے یا کوئی اور تھا​
شہزاد احمد​
شہزاد احمد آج لاہور میں حرکتِ قلب بند ہوجانے سے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ دعا ہے خدائے کریم انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں۔​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
انا للہ وانا الیہ راجعون​
اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے آمین​
ان کی وفات سے اردو شاعری میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔​
 
Top