عشق ہی پھیلا ہوا ہے رنگ سے تصویر تک - شمیم روش

کاشفی

محفلین
غزل
(شمیم روش - کراچی پاکستان)

عشق ہی پھیلا ہوا ہے رنگ سے تصویر تک
حسن کیا ہے بس یہی نا، زلف سے زنجیر تک

کون جانے کب سیاہی پھیل جائے آنکھ میں
اور ہوا لے جائے کاغذ سے مری تحریر تک

زندگی جب ختم ہونے جارہی تھی تب کھلا
میں ہی میں پھیلا ہوا تھا خواب سے تعبیر تک

یہ نہ ہو ترتیب دے لوں زندگی کو پھر سے میں
نوچ کر لے جاؤ دل سے خواہشِ تعبیر تک

دل لہو، چہرہ دھواں، آنکھیں سپردِ رہ گزر
ایک جیسا سلسلہ ہے مجھ سے لے کر میر تک
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ کاشفی صاحب ، میری شمیم روش سے ملاقاتیں ہیں ، ان کے چا ر شعری مجموعے ہیں،
آپ نے کلام پیش کرکے مجھے حافظے کو مات دے دی ، دو شعر آپ کی نذر

کل رات اڑ رہے تھے ستارے ہوا کے ساتھ
اور میں اداس بیٹھا ہوا تھا خدا کے ساتھ

یا تو قبولیت کا طریقہ بتا مجھے
یا کہہ تو ہاتھ کاٹ کے رکھ دوں دعا کے ساتھ

شمیم روش
 

کاشفی

محفلین
سخنور صاحب۔۔۔
شاہ صاحب۔۔۔
محمد امین صاحب۔۔
م۔م۔مغل صاحب۔۔۔

بیحد شکریہ تمام حضرات کا ۔۔۔خوش رہیں سب۔۔ہنستے مسکراتے
 

ایم اے راجا

محفلین
عشق ہی پھیلا ہوا ہے رنگ سے تصویر تک
حسن کیا ہے بس یہی نا، زلف سے زنجیر تک

کون جانے کب سیاہی پھیل جائے آنکھ میں
اور ہوا لے جائے کاغذ سے مری تحریر تک


واہ واہ کافی صاحب بہت شکریہ اس خوبصورت غزل کا۔
 
Top