ظہیر کاشمیری عشق کی محفل میں یوں ہم کو پذیرائی ملی

یاز

محفلین
درد کو لذت ملی، زخموں کو گہرائی ملی
عشق کی محفل میں یوں ہم کو پذیرائی ملی

وحشتِ دل کا تو شاید سوچ لیتے کچھ علاج
آرزو تو دل سے بڑھ کر ہم کو سودائی ملی

بے مروت موسموں کا کرب نازل ہو گیا
جب بھی پھولوں سے ہمیں بوئے شناسائی ملی

رازِ دل اپنی زباں پر تو کبھی آیا نہ تھا
جب ملی تیرے حوالے سے ہی رُسوائی ملی

ہم کو ساری عمر کی اختر شماری کے عوض
کچھ ملا تو بس یہی راتوں کی تنہائی ملی

دشتِ وحشت سے گزر جانا کوئی آساں نہیں
ہر مسافر کو یہاں سے آبلہ پائی ملی

ربط باہم تم سے کم کم تھا پر اس کے باوجود
آرزوؤں کو سکوں، خوابوں کو رعنائی ملی

کس طرح اس شخص کو بے مہر یا قاتل کہیں
جاں بلب امید کو جس سے مسیحائی ملی
(ظہیر کاشمیری)
 
آخری تدوین:
Top