عشق از فرحان محمد خان

عشق محبت کی انتہا کا نام ہے عربی زبان میں محبت کو حب کہا جاتا ہے اور جس سے محبت ہو اسے محبوب کہا جاتا ہے عشق اایسی حالت کا نام ہے جس میں عاشق اپنے محبوب کے عیب دیکھنے سے محروم ہو جاتا ہے عشق ایک دیوانگی ہے جو عاشق کے عقل و شعور کو ختم کر کے اسے پاگل پن میں مبتلا کردیتا ہے جس کے بعد اسے کسی قسم کے نفع ونقصان کی تمیز نہیں رہتی، بس اپنے محبوب کی خواہش کو پورا کرنے اور اسے حاصل کرنا زندگی کا مقصد بن جاتا ہے عشق کے بارے میں مختلف دانا لوگوں نے اپنی اپنی رائے دی ہے مولانا روم عشق کے بارے میں فرماتے ہیں
هر که را جامه ز عشقے چاک شد
او ز حرص و عیب کُلی پاک شد​
ترجمہ :جس کا جامہ عشق کی وجہ سے چاک ہوا وہ حرض اور عیب سے بالکل پاک ہوا​
ایک دوسرے شعر میں رومی نے کچھ یوں بیان کیا ہے
آتش عشقست کاندرِ نے فتاد
جوشش عشق است کاندر می فتاد​
ترجمہ :عشق کی آگ ہے جو بانسری میں لگی ہے عشق کا جوش ہے جو شراب میں آیا ہے​


اتنے خوبصورت انداز میں عشق کو بیان کرنے کے بعد بھی مولانا رومی کے نزدیک عشق کی تشریح میں عقل ناکام رہتی ہے اور عشق و عاشقی کی شرح بھی خود عشق کرتا ہے ۔گویا اس مقام پر مولانا عقل کو عشق کے مقابلے میں محدود اور کم تر قرار دیتے ہیں ۔ان کے نزدیک عشق عقل سے برتر ہے:
عقل در شرحش چو خر در گِل بخُفت
شرحِ عشق و عاشقی ہم عشق گفت​
اس بات کو رومی کے مریدِ ہندی نے بھی بیان کیا ہے اقبال کے مطابق عشق کا مقام عقل سے بڑھ کر ہے
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ​
اور ان سے کچھ مزید بڑھ کر سلطان باہو نے عشق کو ایمان سے بھی افضل قرار دے دیا
ایمان سلامت ہر کوئی منگے،عشقَ سلامت کوئی ھو
منگن ایمان شرماون عشقوں،دل نوں غیرت ہوئی ھو
جس منزل نوں عشق پچاوے ،ایمان نوں خبر نہ کوئی ھو
میراعشق سلامت رکھیں باہو، ایمانوں دیاں دھروئی ھو​

ان تمام مثالوں سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے عشق کوئی عام جذبہ نہیں بلکہ یہ کچھ اور چیز ہے عشق کی اقسام بھی ہوتی ہیں جو عام طور پر عشقِ مجازی و عشقِ حقیقی کے نام سے مشہور ہیں لیکن ہمارے مضمون کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں مقصد صرف اتنا ہے کے ایسے دلائل پیش کیے جائیں جن سے عشق کی اہمیت واضح ہو جائے اور پوری کوشش بھی اس طرف ہے کے عشق کی اہمیت کو بیان کیا جائے اس کے مقام کو بیان کیا جائے ایک عام فہم کہاوت ہے "عشق مجازی عشقِ حقیقی کی پہلی سیڑھی ہے " یہ بات اپنے آپ میں حقیقت ہے بیشک عشقِ مجازی عشقِ حقیقی کی پہلی سیڑھی ہے یہ انسان کبھی نہ کبھی حق کی طرف رجوع کرنے پہ مجبور کر دیتا ہے

میر جی نے عشق کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے جنابِ نے عشق کی کیا ہی تعریف کی ہے
عشق گل ہے عشق بلبل عشق بو
عشق ہے سرو چمن عشق آبجو​
میرؔ جی نے تو کائنات کی ہر چیز کو عشق قرار دے دیا ہے یعنی ہر طرف عشق ہی عشق ہے ہر آن عشق ہی عشق ہے کوئی شے عشق سے محفوظ نہیں مچھلی کو پانی سے عشق ہے مچھلی کا محبوب پانی ہے آپ کبھی مچھلی کو پانی سے نکال کے دیکھیں کس طرح جان دیتی ہے اس سے ایک بات اور ثابت ہوتی ہے وہ یہ کے محبوب کو اس چیز سے فرق نہیں پڑھتا کے اس کا عاشق اس سے کتنا عشق کرتا ہے کبھی آپ نے سنا ہو ہم نے مچھلی کو پانی سے نکلا تو پانی ختم ہو گیا ارے یہ عشق ہی تھا جو موسیؑ کو طور لے جاتا ہے اور آقا مدنیؐ کو عرش تک لے جاتا ہے یہ عشق ہی تھا جو نمرود کی آگ میں کود پڑھا اور یہاں بھی عقل دیکھتی رہ گئی
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی​

جہان عشق آسانی سے گزر جاتا ہے وہاں عقل صدیوں تک سوچتی رہتی ہے میں کروں تو کیا کروں لیکن شرط ہے جس کو اقبال نے بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے جناب اقبال فرماتے ہیں
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی​
یعنی عقل کا کوئی قصور نہیں اس کا کام ہے مصلحت اندیش ہونا عقل انسان کو اللہ تعالٰی کی سب سے بڑھی نعمت ہے جو صحیح و غلط میں فرق کرتا ہے یہ عقل ہی ہے جو انسان کو حق کی طرف متوجہ کرتا ہے اسی لیے اقبال نے بھی کہا تھا "اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل" رومی فرماتے ہیں

شاد باش ای عشقِ خوش سودائے ما
ای طبیب جمله علتهائے ما​
ترجمہ: خوش رہ ہمارے اچھے جنون والے عشق اے ہماری تمام بیماریوں کے طبیب​
عشق کی کوئی انتہا نہیں اسی لیے اقبال نے فرمایا
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں​
قصہ مختصر
من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری​
میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں​
جب انسان محبوب کے رنگ میں رنگ جاتا ہے وہ عشق ہے جسے بلھے شاہ نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے
رانجھا رانجھا کر دی نی میں ، آپے رانجھا ہوئی
سدّو نی مینوں دھیدو رانجھا ، ہیر نہ آکھو کوئی​
 
آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین
شعراء حضرات تو یہ بھی فرماتے ہیں :)

کوچہء عشق میں نکل آیا
جس کو خانہ خراب ہونا تھا
( جگر مراد آبادی)


دنیا کا تماشا دیکھ لیا
غمگین سی ہے ، بے تاب سی ہے!
امید یہاں اک وہم سا ہے
تسکین یہاں اک خواب سی ہے!
دنیا میں خوشی کا نام نہیں
دنیا میں خوشی نایاب سی ہے!
دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
(اختر شیرانی)

توڑ دے ہر اک آس کی ڈوری، آسوں میں کیا رکھا ہے
عشق محبت باتیں ہیں اور باتوں میں کیا رکھا ہے
( نامعلوم)


میں جو ہٹ گیا تھا مدار سے
تو بھٹک گیا ہوں خلاؤں میں
رہِ عاشقی کے مسافرو
جو جہاں جہاں ہے وہیں رہے
( محمد احمد)

عشق نے غالبؔ نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
( مرزا غالب)

ویسے آج کل کے زمانے میں یہ عشق و عاشقی افسانوی باتیں لگتی ہیں، چیزوں کی طرح جذبات بھی خالص نہیں رہے.. آج کل کے رواج کے مطابق

ع- تُو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی

:):)
 
Top