عزاب زیست کی سامانیاں

ایازوسیر

محفلین
شفیق خلش

عذابِ زیست کی سامانیاں نہیں جاتیں
میری نظر سے وہ رعنائیاں نہیں جاتیں

بچھڑ کے تجھ سے بھی پرچھائیاں نہیں جاتیں
جو تیرے دم سے تھیں شنوائیاں، نہیں جاتیں

گو ایک عمر جُدائی میں ہو گئی ہے بسر
خیال وخواب سے انگڑائیاں نہیں جاتیں

مُراد دل کی بھی کوئی، کہاں سے بھرآئے
جب اِس حیات سے ناکامیاں نہیں جاتیں

اک آرزو تھی جو حسرت میں ڈھل چکی کب کی
مگرخیال سے شہنائیاں نہیں جاتیں

ہزارمحفلِ خُوباں میں جا کے دیکھ لیا
مِلی جو تُجھ سے ہیں تنہائیاں نہیں جاتیں

زمانے بھر کی دُکھوں کا ہُوا ہے دل مَسْکن
غموں کی مجھ پہ یہ آسانیاں نہیں جاتیں

حُصول یارکے زُمْرے میں کچھ نُمایاں سے
عمل نہ تھے، کی پشیمانیاں نہیں جاتیں

دیےجو چارہ گروں نے، ہم آزما بھی چکے
کسی بھی نسخے سے بیتابیاں نہیں جاتیں

خلش، جو ہوتے مقدّر کا تم سکندر تو
تمہاری زیست سے رعنائیاں نہیں جاتیں
 
Top