عربی زبان کی خصوصیات اورہمارے لئے اس کو سیکھنے کی ضرورت و اہمیت

10403526_620648154735721_8465394092914045308_n.jpg

عربی زبان کی خصوصیات اورہمارے لئے اس کو سیکھنے کی ضرورت و اہمیت
(محمد طارق انصاری اِٹاوی)
زبان کی ضرورت:
زندگی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا عطیہ ہے۔ زندگی کی صلاحیات اچھے اور برے دونوں طرح کے اعمال میں صرف ہو سکتی ہیں۔ برائیوں سے بچنے اور اچھائیوں کو اختیار کرنے کے لئے ہمیں یہ پتا لگانا بہت ضروری ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے؟ اسی کو ہدایت کہتے ہیں اور یہ صرف ہمارا بنانے والا ہی ہمیں بتا سکتا ہے۔
اِسی ہدایت کو پہنچانے کے لئے اللہ تعالٰی نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ۔ یہاں تک کہ پہلے ہی انسان کو نبی بنایا اور ایک دن کے لئے بھی انسانیت کو اندھیرے میں نہ چھوڑا۔ اللہ تعالٰی نے انبیاء پر پیغامِ ہدایت نازل کرنے کے لئے انسان کی ضرورت کا لحاظ فرمایا۔ پیغام کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے چونکہ انسان کو زبان کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اللہ تعالٰی نے انسان کو پیغام پہنچانے کے لئے زبان اختیار فرمائی۔ اِس طرح انسان کو زبان کے ذریعے اچھے اور برے کا جاننا آسان ہو گیا۔
اب جو شخص زندگی کی صلاحیات کو برائیاں کرنے سے بچائےگا اور اچھائیوں میں استعمال کرے گا، اُسی کو اِس دنیا میں رہنے کا سلیقہ آئےگا اور وہی آخرت میں بھی کامیاب ہوگا۔ زندگی تو پگھلتی ہوئی برف کی طرح گزرتی جا رہی ہے۔ لِہٰذا ہم سمجھ سکتے ہیں کہ زندگی کو صحیح راہ پر لگانے کے لئے اللہ کے پیغام کو سمجھنا اور اس کے لئے پیغام کی زبان کو سیکھنا کیسی ہنگامی ضرورت ہے۔
عربی زبان کی خصوصیات
اُمُّ الْاَ لْسِنَہ(اپنی مختصر تاریخ کے ساتھ):
اللہ تعالٰی نے آدم کو بنایا اور اُن سے کلام فرمایا۔ انسان زبان کے ذریعہ بات سمجھتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو بغیر زبان کے بھی بات پہنچا سکتا ہے ۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ نے آدم ؑسے بات کرنے کے لئے زبان اختیار فرمائی ، تو وہ کون سی زبان تھی؟
اللہ تعالٰی نے آدم ؑ اور ان کی زوجہ کو جنّت میں رکھا ۔ یہ دو انسانوں کا پہلا جوڑا جنّت میں ایک دوسرے سے باتیں کرتا ہوگا تو وہ کون سی زبان تھی؟
اللہ تعالٰی نے آدم ؑ کو زمین کے تمام اَسْمَاء سکھائے۔ اَسْمَاء اِسم کی جمع ہے اور اِسم زبان ہی کا حصّہ ہوتا ہے۔ تو یہ اسماء جس زبان کا حصّہ تھے وہ کون سی زبان تھی؟
دنیا میں آنے کے بعد مکہ مکرّمہ میں ان دونوں کی ملاقات کروا دی گئی۔ دنیا کی زندگی کے تقاضے کے تحت ، وہ دونوں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہوں گے تو وہ کون سی زبان تھی؟
اِس جوڑے کو اللہ نے اولاد عطا کی اور اِس طرح توالُداور تناسُل کا سلسلہ شروع ہؤا اور نتیجے کے طور پر یہیں پہلا انسانی معاشرہ وجود میں آیا ۔ اسی لئے مکہ مکرّمہ کو امّ القراء (بستیوں کی ماں یا بستیوں کی جڑ) کہا گیا۔ یہ پہلے والدین اور اُن کےبچّے آپس میں ایک دوسرے سے کلام کرتے ہوں گے۔تو وہ کون سی زبان تھی؟
یہی وہ زبان تھی جو تمام زبانوں کی ماں (اُمُّ الْالْسِنَہ) کہی جا سکتی ہے۔
مکہ مکرّمہ اور اس کے قریب کا علاقہ رہائش کے لئے دشوار بھی تھا اور سیلاب وغیرہ کی وجہ سے آبادی اور وسائل کو نقصان بھی پہنچ جاتا تھا۔ لِہٰذا یہ علاقے متعدد بار آباد بھی ہوئے اور یہ آبادیاں یہاں سے منتقل بھی ہوتی رہیں یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے تو خانہ بدوشی ہی کو اپنا طرزِ زندگی بنا لیا۔ اولادِ آدمؑ آس پاس کے علاقوں میں پھیل گئی جہاں آج شام ،یمن، فلسطین اور عراق وغیرہ واقع ہیں۔ ان علاقوں میں بس جانے والے لوگ اپنے ساتھ وہی زبان ، اُمُّ الْالْسِنَہ لائے تھے۔ وقت کے ساتھ اِس زبان میں کچھ تَنَوُّع بھی پیدا ہؤا۔ پھر ایک طرف یہ ہؤا کہ اللہ تعالٰی نے اِبراہیم ؑ کے بیٹے اِسماعیل ؑ سے اور یمن سے آنےوالے قبیلے جُرْھُم سے اِس خطّے کو پھر سے آباد فرما دیا اور جو زبان ان کے پاس تھی، وہ اُمُّ الْالْسِنَہ ہی کی ایک شکل تھی، وہی زبان پھر سے اِس علاقے کی زبان ہو گئی اور عربی زبان کے نام سےجانی جانے لگی ۔
دوسری طرف اِرْتِقَاء کے مراحل طے کرتے ہوئےفونیقی قوم (PHOENICIANS) نے جو حجاز کے شمال میں واقع تھی زبان کو لکھنا شروع کیا جس طرح وہ آج لکھی جاتی ہے اور آس پاس کی اقوام نے ان سے لکھنا پڑھنا سیکھا۔ اس طرح اُمُّ الْالْسِنَہ اب لکھی اور پڑھی جانے لگی۔
وقت گزرنے سے اُمُّ الْالْسِنَہ کی مختلف شکلیں حجاز کے قرب و جوار میں وجود میں آئیں مگر دینِ محمّدﷺ کے فروغ کے ساتھ ان علاقوں میں بھی حجاز کی زبان ہی کو قبولِ عام حاصل ہو گیا ۔ آج اُمُّ الْالْسِنَہ کی اُن تمام قدیم شکلوں میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے سوائے عربی زبان کے۔ اس طرح اُمُّ الْالْسِنَہ کی جو شکل آج موجود ہے وہ صرف عربی زبان ہی ہے اور کوئی نہیں۔ لہٰذا آج ہم عربی ہی کو اُمُّ الْالْسِنَہ کہہ سکتے ہیں۔
اب ہم عربی زبان کی چند اور خصوصیات کا بہت ہی اختصار سے ذکر کریں گے:
قدیم: یہ بہت قدیم ہے کہ اس سے زیادہ قدیم زبان آج کہیں موجود نہیں ہے۔
قوی: یہ بہت قوی ہے کہ ہزارہا سال سے قائم ہے۔
خوبصورت: یہ بہت خوبصورت ہے کہ اس کو نہ جاننے والے گونگے شمار ہوتے رہے۔
آسان: یہ بہت آسان ہے کہ اس کے قواعد کی تعداد بہت کم ہے۔
منظم: یہ بہت منظم ہے کہ اس میں لغت و بیان کے مستقل نظام موجود ہیں۔
محفوظ: یہ بہت محفوظ ہے کہ اللہ کی محفوظ کتاب اسی زبان میں ہے۔
عربی زبان سیکھنے کی اہمیت:
بنیادی طور پر ایک زبان ہر کسی کو ضرور ہی اچھی طرح آنی چاہیئے۔اور وہ ہے اس کی مادری زبان۔ مادری زبان ہی کے ذریعے مختلف علوم سیکھنے چاہیئے۔ یہاں تک کہ دوسری زبانیں بھی مادری زبان کے سہارے سیکھنی چاہیئے۔ مادری زبان کے علاوہ کسی بھی دوسری زبان کو سیکھنا صرف ضرورت پورا کرنے کے لئے ہوتا ہے؛ اور ضرورت اہمیت سے پیدا ہوتی ہے۔
اگر ہم دنیا کی آسانی کو اہمیت دیتے ہیں اور اگر اس کے حصول کے لئے کسی زبان کا سیکھنا ضروری ہو جائے تو ہم جی توڑ کوشش کر کے اس زبان کو سیکھتے ہیں۔ ہم کسی فن یا ہنر کے ماہر کی بات سمجھنے کے لئے اس کی زبان سیکھ لیتے ہیں۔ اس لئے کہ اس فن یا ہنر کے ذریعے ہم اپنے معاش کا انتظام کرتے ہیں اور اپنی دنیا کو آسان بناتے ہیں جو ہمارے لئے بہت اہم ہوتی ہے۔
عربی زبان کے ذریعے ہم انبیاءِ کرام کے پہنچائے ہوئے وہ حقائق و اصول سیکھ سکتے ہیں جس سے ہماری زندگی بھی صحیح راہ پر گامزن رہے اور آخرت میں بھی کامیابی مل جائے۔ پھر کیا ہمیں زندگی گزارنے کے صحیح طریقے کی کوئی ضرورت نہیں؟ کیا آخرت کی کامیابی ہمارے لئے اہم نہیں رہی؟ یا ہمیں ان باتوں پر یقین نہیں رہا ؟ اور کیا اس طرح واقعی ہم اپنی دنیا بھی آسان بنا رہے ہیں؟
نہیں بلکہ اس طرح ہم نہ صرف اپنی آخرت میں بلکہ اپنی دنیا میں بھی ناکامی کا انتظام کر رہے ہیں۔
اس ہنگامی ضرورت اور اس کی اہمیت کا ادراک کیجئے! اپنے رب کی طرف لوٹ آئیے!اس کے پیغام کو سمجھنے کے لئے اس کے کلام کی زبان سیکھنے کی کوشش کیجئے!اس کو اہمیت دیجئے اور اس کے لئے وقت نکالیئے!یاد رکھیئے،، شیطان آپ کا دشمن ہے! وہ ضرور اس عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرے گا ؛ سستی پیدا کرےگا ۔ بندے کو اس کے رب کا کلام سمجھنے کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ دشمن کی سازش ہے۔
دشمن کے خلاف کمر بستہ ہو جایئے! اپنے آپ کو بھی آگ سے بچائیئے اور اپنے اہل و عیال کو بھی آگ سے بچائیئے! ڈر جایئے! خدارا، ڈر جایئے!

http://www.islamicmsg.org/index.php/22-slide-show/346-arbi-zuban
https://www.facebook.com/IslamicMes...41849.195530070580867/620648154735721/?type=1
 

زیک

مسافر
عربی کی قدامت کا کوئی ثبوت؟ چھٹی صدی عیسوی سے پہلے تو یہ ہمیں کہیں لکھی ہوئی نظر نہیں آتی۔

اور اگر ابراہیم اور اسماعیل کی زبان عربی تھی تو تورات عبرانی میں کیوں ہے؟
 

arifkarim

معطل
قدیم: یہ بہت قدیم ہے کہ اس سے زیادہ قدیم زبان آج کہیں موجود نہیں ہے۔
دنیا کی سب سے قدیم زبان بابل کی سمیری یا مصر کی قدیم مصری ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_languages_by_first_written_accounts

قوی: یہ بہت قوی ہے کہ ہزارہا سال سے قائم ہے۔
بے شک۔ اور اسکا کریڈٹ اسلام و قرآن کو جاتا ہے۔

خوبصورت: یہ بہت خوبصورت ہے کہ اس کو نہ جاننے والے گونگے شمار ہوتے رہے۔
اسپر ڈیبیٹ کی جاسکتی ہے کہ خوبصورتی سے کیا مراد ہے۔ میرے خیال میں اگر دھیمے اور ملائم لہجے کے حوالے سے بات کی جائے تو فارسی زیادہ خوبصورت زبان ہے۔

آسان: یہ بہت آسان ہے کہ اس کے قواعد کی تعداد بہت کم ہے۔
یہ بات کسی حد تک درست ہے۔

منظم: یہ بہت منظم ہے کہ اس میں لغت و بیان کے مستقل نظام موجود ہیں۔
بے شک۔

محفوظ: یہ بہت محفوظ ہے کہ اللہ کی محفوظ کتاب اسی زبان میں ہے۔
جی اور یہی ایک وجہ عربی کو ممتاز بناتی ہے کہ یہ عربوں کے علاوہ دین اسلام کی زبان بھی ہے۔

اور اگر ابراہیم اور اسماعیل کی زبان عربی تھی تو تورات عبرانی میں کیوں ہے؟
کیونکہ تورات، انجیل وغیرہ قرآن پاک سے قبل کی الہامی کتابیں ہیں۔ اسوقت تک یا تو عربی کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا اور اگر تھا تو اسلام کا وجود نہیں تھا جسکے ساتھ اس زبان کو اسلوب کیا جا سکتا۔
 

باباجی

محفلین
یہ اب تک دنیا میں بولی جانے والی قدیم زبان ہے
عبرانی کو تو زبردستی زندہ کیا گیا اور وہ محدود ہے
لیکن کوئی بھی زبان سیکھنا بے شک فائدہ مند ہے
 
The first speech taught to men was the one taught by God Himself, and that this speech was Arabic -- all other languages being the offsprings or offshoots of Arabic. A strong piece of evidence to support this claim is to be found, in the highly organised system of Mufradaat possessed by Arabic. These Mufradaat are the so-called 'root-words' -- the 'simples' or the elementary symbols of speech -- which are the divinely communicated basis of all human articulation, and which are so varied and of such a comprehensive character as to the serve the needs, not only of ordinary speech, but also the demands of all knowledge, religion, philosophy, culture and science.​
 

فاتح

لائبریرین
عربی کے سب سے قدیم زبان یا سب زبانوں کی ماں ہونے کا کوئی ثبوت نہیں، یہ محض مسلمانوں کی من گھڑت اخترا ہے۔
اسی طرح مکہ کے قدیم ترین بستی یا سب بستیوں کی ماں ہونے کا بھی کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں
 
آخری تدوین:

دوست

محفلین
عربی کو تمام زبانوں کی ماں قرار دینے کے پیچھے خالصتاً مذہبی تعصب کارفرما ہے۔ چونکہ اسلام 'دین' ہے والی سوچ تقاضا کرتی ہے کہ اس سے ہر بات کی توضیح و تشریح ممکن ہونی چاہیئے، اسی سوچ کے تحت اسلام کو لسانیات پر لاگو کر کے اسے اسلامائز کرنے کی کوششیں اب نہیں عرصے سے جاری ہیں۔ کچھ اسی قسم کا تعصب دوسری اقوام (یہودی بسلسلہ عبرانی، ہندو بسلسلہ سنسکرت وغیرہ وغیرہ) میں بھی پایا جاتا ہے۔ قرآن کہیں نہیں کہتا کہ عربی زبانوں کی ماں ہے۔ کیونکہ عربی کا وجود آدم علیہ السلام سے کم از کم ہزاروں اور زیادہ سے زیادہ لاکھوں سال بعد ہوا ہے۔ اس سلسلے میں یہ دعویٰ بھی کیا جاتا/سکتا ہے کہ آدم علیہ السلام کی زبان بھی عربی ہی تھی، جو کہ ظاہر ہے درج بالا مضمون جتنا ہی متنازع اور ثبوتوں سے عاری ہو گا۔ اس لیے ایسی سوچ کو اکیس توپوں کی سلامی ہی پیش کی جا سکتی ہے۔
 

arifkarim

معطل
اس سلسلے میں یہ دعویٰ بھی کیا جاتا/سکتا ہے کہ آدم علیہ السلام کی زبان بھی عربی ہی تھی، جو کہ ظاہر ہے درج بالا مضمون جتنا ہی متنازع اور ثبوتوں سے عاری ہو گا۔ اس لیے ایسی سوچ کو اکیس توپوں کی سلامی ہی پیش کی جا سکتی ہے۔
شاکر، میرے خیال میں یہ منطقی خلا اس دن وجود میں آیا تھا جب اسلامی تصورات میں آدم کو "پہلا" انسان گردانا گیا تھا۔ گو کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ تاریخ انسان کی پہلی تہذیب جس نے لکھنا پڑھنا سیکھا بابل(موجودہ عراق) کی سمیری تہذیب تھی اور بقول اسلامی تعلیمات کے حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق یعنی بابل کی تہذیب سے تھے۔ یوں دنیا کی قدیم ترین زبان یا ادب بابل کی سمیری زبان ہوئی نہ کہ عربی جسکا انباط(قدیم عربوں) سے پہلے کوئی وجود نہ تھا!
 

حسان خان

لائبریرین
میں فی زمانہ جو عربی جیسی ایک غنی، پیچیدہ، منظم اور بے حد خوبصورت زبان کو سیکھنے میں اپنا فارغ وقت اور توانائیاں صرف کر رہا ہوں تو مجھے عربی آموزی پر مائل کرنے کے لیے یہ چند دلائل کافی تھے:
۱) یہ زبان چودہ سو سالہ غیر منقطع ادبی روایت رکھتی ہے، یعنی سنسکرت، لاطینی، یونانی اور عبرانی کی طرح عربی بھی صحیح معنوں میں ایک کلاسیکی زبان ہے۔
۲)اس نے اسلامی دنیا کی تاریخ اور تمدنی تکامل میں بسیار عمیق کردار ادا کیا ہے۔ اور اس پر مستزاد، یہ اس خطے کی اُسی طرح ایک کلاسیکی زبان رہی ہے جس طرح لاطینی و یونانی یورپ کی کلاسیکی زبانیں ہیں۔ لہٰذا اس خطے کے تمدن اور اس کی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے فرد کے لیے عربی زبان کا علم وافر اہمیت کا حامل ہے۔
۳) فارسی اور فارسی زدہ زبانوں کی ادبی روایت کی تشکیل میں عربی زبان کا ہمہ جا حاضر اثر بخوبی مشہود ہے۔ فارسی اور ترکی کے کلاسیکی ادب کے مطالعے کے لیے عربی کا مکمل نہیں تو تھوڑا بہت علم ناگزیر ہے، لہٰذا جس شخص کا شعبۂ تحقیق تقابلی ادبیات ہو، اُس کے لیے بھی عربی زبان اہم ترین زبانوں کی فہرست میں آئے گی۔ اگر عربی زبان سے بالکل واقفیت نہ ہو تو ہم حافظ شیرازی اور شیخ سعدی کی تصنیفات بھی نہیں پڑھ سکتے، چہ جائیکہ ہم کلیلہ و دمنہ جیسی عربی نما فارسی تحریریں پڑھ سکیں۔
۴) مصری، لبنانی اور شامی گلوکاروں کے شیریں از عسل عربی نغموں کا مقابلہ مشکل ہی سے ہو سکتا ہے۔ ہم عربی زبان سیکھ کر نانسی عجرم، امِ کلثوم اور عمرو دیاب کے نغمے سمجھنے لگیں گے، نتیجتاً اُن نغموں سے کماحقہ محظوظ ہو سکیں گے۔:)
۵)موجودہ زمانے میں عربی زبان کے پاس نجیب محفوظ، غسان کنفانی، اور محمود درویش وغیرہ جیسے بہت عمدہ ادباء رہے ہیں، لہٰذا ادبیاتِ عالیہ سے لطف اندوز ہونے کے خواہشمند حضرات کے لیے بھی عربی مجوز ہے۔
اس کے علاوہ بھی چند مزید دلائل گنوائے جا سکتے ہیں، لیکن میرے خیال سے یہ کفایت کرتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

زبیر مرزا

محفلین
حسان خان کس طریقے سے سیکھ رہے ہیں عربی؟ مجھے ایک کتاب ملی تھی جو عربی بول چال اور روزمرہ کی گفتگو سیکھنے میں مدد دیتی ہے- ایک اور بات میں آپ کی مندرجہ بالا تحریر فیس بُک پہ لگالوں؟ :)
 

فاتح

لائبریرین
ہم عربی زبان سیکھ کر نانسی عجرم، امِ کلثوم اور عمرو دیاب کے نغمے سمجھنے لگیں گے، نتیجتاً اُن نغموں سے کماحقہ محظوظ ہو سکیں گے۔:)
اُف نانسی کا جو ذکر کیا تُو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے​
حالانکہ نانسی کے نغموں سے کما حقہ محظوظ ہونے کے لیے عربی کی نہیں بلکہ گندی نظر کی ضرورت ہے :laughing:
 
آخری تدوین:
Top