افتخار عارف عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا۔

ناعمہ عزیز

لائبریرین
عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا

اس ایک خواب کی حسرت میں جل بجھی آنکھیں
وہ ایک خواب کہ اب تک نظر نہیں آیا

کریں تو کس سے کریں نارسائیوں کا گلہ
سفر تمام ہوا ہمسفر نہیں آیا

دلوں کی بات بدن کی زباں سے کہہ دیتے
یہ چاہتے تھے مگر دل ادھر نہیں آیا

عجیب ہی تھا میرے دورِگمرہی کا رفیق
بچھڑ گیا تو کبھی لوٹ کر نہیں آیا

حریمِ لفظ و معنی سے نسبتیں بھی رہیں
مگر سلیقہ عرضِ ہنر نہیں آیا
افتخار عارف
 
آخری تدوین:
Top