عدیم ہاشمی عدیم میں نے تو زخموں کو اب شمار کِیا

عدیم میں نے تو زخموں کو اب شمار کِیا
میں یہ سمجھتا رہا، اُس نے ایک وار کِیا
عدیم دل کو ہر اِک پر نہیں نِثار کِیا
جو شخص پیار کے قابل تھا، اُس کو پیار کِیا
پھر اعتبار کِیا، پھر سے اعتبار کِیا
یہ کام اُس کے لیے ہم نے بار بار کِیا
کِسی سے کی ہے جو نفرت تو اِنتہا کر دی
کِسی سے پیار کِیا ہے تو بےشمار کِیا
نہ تھی وصال کو بھی کچھ مداخلت کی مجال
جب اِنتظار کِیا، صِرف اِنتظار کِیا
اُمیدِ وصل شبِ ہجر کے سمندر میں
یہی لگا ہے کہ تِنکے پہ اِنحصار کِیا
بہت حسین ہوئیں بےوفائیاں اُس کی
یہ اُس نے جان کے خُود کو وفا شعار کِیا
اُتر گیا کوئی دل سے تو قبر میں اُترا
اُسے سدا کے لیے شاملِ غُبار کِیا
وہ اب مرے کہ جئے دل پہ کوئی بوجھ نہیں
میں مطمئن ہوں کہ پہلے اُسی نے وار کِیا
قصُور اُس کا نہیں ہے، قصُور میرا ہے
عدیم مَیں نے اُسے پیار بےشمار کیا

عدیم ہاشمی
 
Top