سعود عثمانی عجب فراق تھا کیفیت ِ وصال میں بھی ۔سعود عثمانی

عجب فراق تھا کیفیت ِ وصال میں بھی
سلگ رہا تھا کوئی زخم اندمال میں بھی

ابھی تو آنکھ کھلی بھی نہ تھی کہ در آئے
ترے ہی خواب کے منظر ترے خیال میں بھی

وہ ایک غم بڑی تابانیوں سے روشن ہے
غبار ِ درد میں بھی' گردِ ماہ و سال میں بھی

خیال رکھ کہ یہاں بے گماں نکلتا ہے
ترے عروج کا رستہ ترے زوال میں بھی

مری کمند ہی نے قید کرلیا تھا مجھے
عجیب طرح کی شوخی تھی اس غزال میں بھی

وہ دکھ ہے چاند کے مانند ساتھ ساتھ سعود
طرب کے شہرمیں بھی ' قریہ ء ملال میں بھی
 
Top