حزیں صدیقی عجب خود آگہی کے مرحلے ہیں

مہ جبین

محفلین
عجب خود آگہی کے مرحلے ہیں
ہم اپنے سائے میں حیراں کھڑے ہیں

مِری آنکھیں تو پیاسی ہیں سحر کی
ستارے کیوں اترتے آرہے ہیں

نہیں یہ خواب کا عالم نہیں ہے
یہ سب منظر تو جیتے جاگتے ہیں

دیارِ شب کے سنّاٹے میں ہم نے
نگارِ صبح کے نغمے سنے ہیں

ابھی کچھ رنگ ہیں دل بستگی کے
ابھی کچھ خواب آنکھوں میں سجے ہیں

اُلجھتی جارہی ہے ذہن کی رَو
کہانی میں کئی موڑ آچکے ہیں

یہ سورج کس لئے جلتا ہے دن بھر
ستارے رات بھر کیوں جاگتے ہیں

یہ چھوٹا سا جزیرہ رہ گیا ہے
اِسے بھی ہم ڈبونے پر تُلے ہیں

حزیں صدیقی
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہہہ
بہت خوب شراکت

اُلجھتی جارہی ہے ذہن کی رَو
کہانی میں کئی موڑ آچکے ہیں

یہ سورج کس لئے جلتا ہے دن بھر
ستارے رات بھر کیوں جاگتے ہیں
 

برگ حنا

محفلین
دیارِ شب کے سنّاٹے میں ہم نے
نگارِ صبح کے نغمے سنے ہیں

اُلجھتی جارہی ہے ذہن کی رَو
کہانی میں کئی موڑ آچکے ہیں

بہت پیاری غزل ہے بہنا
شریکِ محفل کرنے کے لیے بہت شکریہ
 
Top