عافیت کی تلاش

عبقری ریڈر

محفلین
صبح ہوتی ہے انسان عافیت کی تلاش میں نکلتا ہے کہتا ہے اللہ رزق دے عافیت ولا کھانا دے عافیت والا پینا دے عافیت والا،عافیت ایک نعمت ہے جو اللہ رب العزت کی کسی کو ملتی ہے،ورنہ نعمت مل جاتی ہے عافیت نہیں ملتی چیز مل جاتی ہے اس میں عافیت نہیں ہوتی۔
جس چیز کی دعا کی مانگی لیکن عافیت نہیں تھی ،سواری مانگی اللہ نے سواری دے دی،سواری میں عافیت نہیں تھی اور وہ سواری مشکلات پریشانیاں حادثوں اور مسائل اور الجھنوں کا ذریعہ بن گئی،میرے پاس ایک نہیں ہزاروں لوگ آئے ہیں کہ جب سے اس گھر میں آئے ہیں حادثات ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں طوفان ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں بڑی کوششوں سے بڑی مرادوں سےنیا گھر بنایا تھاہمارا تو یہ حادثہ ہوا ہمارا تو یہ نقصان ہوایہ نفرتیں پھیل گئیں گھر میں یہ الجھنیں پھیل گئیں یہ ہوا یہ ہوا،ہمارا تو جینا ہی دو بھر ہو گیا اس سے بہتر تھا ہم پرانے گھر میں چلے جاتے ساری عمر گھر مانگا عافیت نہیں مانگی،اچھا گھر مانگنا کوئی گناہ نہیں ہے اچھی چیز مانگنا کوئی جرم نہیں ہے لیکن اُس میں عافیت کا مانگنا بہت لازم ہے۔
نعمت مانگیں اور ساتھ عافیت بھی مانگیں،کپڑا مانگیں عافیت والا گھر مانگیں عافیت والا۔ہمیں ہر پل عافیت کی ضرورت ہےاسباب عافیت،اسباب خیریت،اسباب راحت تو تلاش کرتے ہیں لیکن اسباب عافیت کی طرف ہماری نظر نہیں جاتی۔ضروری نہیں راحت میں عافیت بھی ہو اس میں عافیت اللہ دے گا۔
ڈاکڑی مانگی عافیت نہیں مانگی نوکری مانگی عافیت نہیں مانگی،عافیت ایک رحمت ہے عافیت ایک نعمت ہے،عافیت ایک عطا ہےجو عرشوں سے آتی ہےاور فرشوں پہ بکھرتی ہےاور فرش والے اس کو چنتے ہیں مختلف انداز سےعافیت چننی پڑتی ہے،آتی عرش سے ہے،کبھی بیوی کے ذریعے کبھی اولاد کے ذریعےکبھی ساس کے ذریعےکبھی بہن کے ذریعےیہ عافیت چننی پڑتی ہے،آتی عرش سے ہے بکھرتی فرش پہ ہےاور کبھی بیوی کو شوہر کے ذریعے اور کبھی شوہر کو بیوی کے ذریعےیہ چننی پڑتی ہےہم کیا سمجھتے ہیں یہ ایسے ہی مل جاتی ہے،نہ رب بڑی قیمتی چیز ہے رب کی عطائیں بھی بڑی قیمتی ہیں،،،،،لیکن ہیں بے بہا، اللہ کہتا ہے تھوڑی سی محنت کر لے تھوڑی سی کوشش کر لے۔
عافیت کو تلاش کیا کریں آج پوری دنیا کے پاس مال ہے عافیت نہیں ہےسکون نہیں ہے اولادہے عافیت نہیں ہےگھر پکے ہیں عافیت نہیں،پہلے گھر کچے ہوتے تھے لیکن گھر میں سکون ہوتا تھاگھر کے دروازے کمزور ہوتے تھےلیکن دل کے دروازے مضبوط ہوتے تھےآج گھروں کے دروازے ہاتھی نہ توڑ سکیں اتنے مضبوط لوہے کے بنے ہوئے،پہلے گھروں کے آگے ٹاٹ لگا ہوا ہوتا تھایا لکڑی کے ایسے دروازے ایک ٹھوکر سے ٹوٹ جائیں لیکن گھروں میں چین ،برکتیں رحمتیں اور عافیتیں ہوتی تھیں،ایک چھوٹے گھر میں چھ چھ خاندان پل جاتے تھےاور زندگی سنور جاتی تھی اور نسلیں پل کے جوان ہو جاتی تھیں اور گھر کے اندر جوان بوڑھے ہوتےاور وہیں پیدا ہو کے جنازے نکل جاتے تھے۔
آج وہی گھر ہےبڑا گھر ہےگھر کے اندر چار پانچ افراد ہیں ان میں زندگی کا چین لٹ گیاان میں زندگی کا سکون لٹ گیاکیوں کیا ہوا آگ کہاں سے لگی اور دھوں کہاں سے اٹھاایسا کیوں ہوا؟دراصل عافیت کا نظام ہم سے چھنا۔برکت کا نظام ہم سے چھناجس معاشرے میں مائیں روئیں گی وہاں عافیت کا نظام کہاں سے آسکتا ہےاپنے دوست کے لیے وقت ہےنیٹ موبائل کے لیے وقت ہےماں کے لیے وقت نہیں ہے۔
ایک اللہ والے مجھے فرمانے لگے ایک مالدار زمیندار کا بیٹا میرے پاس آیا کہنے لگے میرے پاس اسم اعظم ہےکہا مجھے بھی بتادے کہا ایسا اسم اعظم ہے جب بھی مشکل آتی ہےپریشانی آتی ہےبس میں عمل کرتا ہوں اورمیرا مسئلہ حل ہو جاتا ہےکہنے لگے مجھے بھی بتا دے وہ کیا اسم اعظم ہےکہا جب بھی مجھے مشکل آتی ہے میں ماں کی خدمت کرتا ہوں اور ماں کے پائوں دباتا ہوں اور ماں کی خدمت کرتے ہوئےماں کے پائوں دباتے ہوئےاللہ سے دل ہی دل میں اپنی مشکل مانگتا ہوں کہ اللہ اس مشکل کا حل تیرے پاس ہےاللہ ان قدموں کی برکت سےاللہ میری مشکل حل فرمادےاور کہا میری مشکل حل ہو جاتی ہے۔
میں ہفتے والے پوری دنیا سے فون سنتا ہوں ایک ملک سے مجھےفون آیا اس شخص نے مجھے عجیب بات بتائی کہا میری زندگی کا نظام اللہ نے یہیں لکھ دیامیں اسی ملک میں ہوںمیں تقریباً اٹھارہ سال اس ملک میں رہاسال کے بعد جاتا تھا سیدھا ماں کے پاس جاتا تھااور پھرروزانہ بیٹھ کے اماں سے باتیں کرتاتھاکہایہاں سے فون پہ بات کرنا بہت مہنگا ہوتا تھا۔
میں نے طے کیا ہوا تھااپنے خرچے میں سےآدھا خرچہ صرف ماں پہ لگانا ہےچاہے وہ موبائل کی شکل میں چاہے وہ ان کی خدمت کی شکل میں کہا مجھے اٹھارہ سال کچھ نہیں بچا،بعض اوقات بیوی بعض اوقات لوگ کہتے کیا کررہاکہا میں ہر وقت اس بات پہ ہوتا تھااماں راضی ہے یا نہیں ہےاٹھارہ سال میری زندگی کے دن گزرتے گئےاور اللہ کا نظام یہ ہے کہ میں پاکستان آیا ہوا تھاتو اماں میرے ہاتھوں فوت ہو گئی۔
میرے اور بہن بھائی بھی ہیں بیرون ملک میں وہ ماں کے جنازے میں نہ پہنچ سکےمیں نے ماں کے جنازے کو کندھا دیااور ماں کے لیے دعائے مغفرت کی کہنے لگے یوں اماں فوت ہوئی اور پھر میں اپنے کام پہ کچھ دن بعد واپس چلا گیا۔
کہنے لگے پھر رب نے جو میرے لیے اپنے برکتوں کے دروازے کھولےاور عزتوں کے دروازے کھولےاور عافیتوں کے دروازے کھولے،،،،،کہنے لگے کہ بس وہ دروازے کھلے وہ دروازے کھلےکہ اب عالم یہ ہےکہ سارے میرے بہن بھائی مجھ سے نیچے ہیں جومجھ سے اوپر تھےمیں نے کہا اصل میں توں نے عافیت والی دعائیں اپنے ساتھ کروالی ہیں عافیت اور برکت کا نظام تیرے ساتھ ہو گیا ہے جب عافیت اور برکت کا نظام تیرے ساتھ ہو گیا ہےاب تجھے کوئی چیز نقصان نہیں دے سکتی۔
مائیں ایک ایسی حقیقت ہیں جن کے دلوں کے اندرسےدعائیں نکلتی ہیں دل سے دعائیں سوائے خدمت کے نکل نہیں سکتیں۔دعائیں اندر سے نکلتی ہیں وہ دعائیں عرش کےدروازے کو ہلاتی ہیں آسمانوں کے سینوں کو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہیں۔ (اقتباس درس ہدایت حضرت حکیم محمد طارق محموددامت برکاتہم)
 

جاسمن

لائبریرین
عبقری ریڈر بھائی! ماشاءاللہ بہت پیاری باتیں ہیں ۔ میں باِس نکتہ کو سوچتی رہتی ہوں کہ برکت کا تصور اب رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اب چیزوں میں زیادتی و اضافہ کا تصور ہے بس۔
عافیت کا تصور خوبصورت ہے۔ میں دعا مانگتے ہوئے یہ تو کہتی ہوں کہ دنیا وآخرت کی بہتریوں اور بھلائیوں کے ساتھ۔۔۔۔۔

بہرحال عافیت اور برکت۔۔۔اللہ سے دونوں مانگنی چاہییں۔
 

عبقری ریڈر

محفلین
عبقری ریڈر بھائی! ماشاءاللہ بہت پیاری باتیں ہیں ۔ میں باِس نکتہ کو سوچتی رہتی ہوں کہ برکت کا تصور اب رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اب چیزوں میں زیادتی و اضافہ کا تصور ہے بس۔
عافیت کا تصور خوبصورت ہے۔ میں دعا مانگتے ہوئے یہ تو کہتی ہوں کہ دنیا وآخرت کی بہتریوں اور بھلائیوں کے ساتھ۔۔۔ ۔۔

بہرحال عافیت اور برکت۔۔۔ اللہ سے دونوں مانگنی چاہییں۔
بالکل آپ نے ٹھیک کہا ہم کثرت کے متلاشی ہو گئے لیکن برکت کو نہ سوچا
 
Top