عاشق تو کسی کا نام نہیں!

میرے ذہن میں عرصے سے یہ خیال جاگزین رہا ہے کہ والہانہ اور مجنونانہ عشق کی صلاحیت بنی آدم کے علاوہ مخلوقات میں صرف کتوں کو ودیعت ہوئی ہے۔ آپ کے لیے شاید یہ بات اچنبھے کا باعث ہو کیونکہ عموماً کتوں کو ہم ان کی وفاداری کے حوالے ہی سے جانتے ہیں۔ یہ حقیقت کم لوگوں کو معلوم ہو گی کہ یہ وفادار جانور بھی کبھی کبھی مالک سے انتہائی بے اعتنائی برت سکتا ہے۔ خاص خاص حالات میں کتے اپنی ماداؤں کی خاطر گھر بار اور پیار کرنے والے مالکوں کو چھوڑ کر مجنونوں کی طرح اجنبی دیسوں کو نکل پڑتے ہیں۔ لڑائیاں لڑتے ہیں، ماریں کھاتے ہیں، چوٹیں سہتے ہیں، زخم برداشت کرتے ہیں، جان تک دے دیتے ہیں لیکن اپنے عشق سے دست بردار نہیں ہوتے۔ دیہات میں رہنے والے یا کتے پالنے کا شوق کرنے والے افراد میری اس بات کی ضرور تائید کریں گے خواہ اس نکتے کی جانب ان کی اپنی توجہ کبھی نہ گئی ہو۔
کتوں کا لڑنا اور کتوں کی طرح لڑنا معلوماتِ عامہ کی باتیں ہیں۔ میں کچھ عرصہ قبل تک اس بات کی توقع نہیں کر سکتا تھا کہ کتے عام طور پر مل بیٹھ کر کھا پی سکتے ہیں اور دوستانہ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ سدھائے ہوئے کتوں کی بات الگ ہے مگر آوارہ، جنگلی کتوں میں تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن پھر ایک واقعہ ایسا ہوا جس نے نہ صرف اس چوپائے بلکہ زندگی کے بارے میں میرے خیالات کو ایک نیا رخ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔
ہمارے کرائے کے گھر کا صدر دروازہ کچھ اس طرح نصب کیا گیا تھا کہ اس کے نیچے ایک خلا رہ گیا تھا۔ ہمیں اس مکان میں آئے ہوئے چند ہی ہفتے ہوئے ہوں گے کہ بھورے رنگ کا ایک پلا ٹہلتا ٹہلتا اندر چلا آیا۔ بیگم کو پالتو جانوروں کا شوق رہتا ہے۔ انھوں نے زبانِ حال سے اسے خوش آمدید کہا اور روٹی کے چند ٹکڑے اسے ڈال دیے۔ اس کے تیور مستقل قیام کے معلوم ہوتے تھے۔ ایسا ہی ہوا۔ بیگم نے اپنی مغربیت سے مجبور ہو کر اس کا نام میکس تجویز کیا۔ ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ بلکہ اہلِ محلہ کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوا۔ وہ سب بھی اسے اس نام سے پکارتے پچکارتے پھرتے تھے۔
تین چار ماہ کے بعد ایک سفید رنگ کا پلا اور وارد ہو گیا۔ ہم میاں بیوی خوش ہو گئے۔ میکس کو البتہ کچھ تحفظات تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مفاہمت پیدا ہوتی گئی اور دونوں نے لڑتے بھڑتے اکٹھے جینا سیکھ لیا۔ نووارد کا نام رونی رکھا گیا۔ میکس اور رونی سے اور تو ہمیں کوئی شکوہ نہیں تھا مگر رات کو دونوں بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے۔ گرمیوں کے دنوں میں لوگ صحنوں میں نکل کر سوتے ہیں۔ ایسے حالات میں ان کم بختوں کا غوغا نیندیں حرام کر دیتا تھا۔
محلے والوں نے چند مرتبہ شکایت کی تو ہم نے دونوں کو گھر سے نکال باہر کیا۔ دروازے کا خلا بھرنے کی کوشش بھی کی لیکن سستی آڑے آئی۔ وہ پھر آگئے لیکن ہماری سختی کی وجہ سے حالات بہرحال کچھ بہتر ہو گئے۔
ایک دن ہم میاں بیوی بازار میں گھوم رہے تھے کہ ہمیں ایک ننھا سا، پیارا سا پلا سڑک پر کھیلتا نظر آیا۔ ہم دونوں للچا سے گئے۔ بیگم نے بڑی چالاکی سے رائے دی کہ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم میکس اور رونی دونوں سے قطعِ تعلق کر کے صرف اسے پال لیں۔ شروع دن سے تربیت پر توجہ دیں گے تو تحفظ بھی رہے گا اور شوق بھی پورا ہو جائے گا۔ میں اس قسم کی باتوں پر عموماً بحث نہیں کرتا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ موصوف کو بازار سے گھر تک کیونکر لایا جائے۔ تھوڑی تکرار کے بعد بیگم خاموش ہو گئیں اور ہم دونوں گھر لوٹ آئے۔
شام کو بیگم کی ایک طربناک چیخ سنائی دی۔ معلوم ہوا کہ بازار والا من موہنا پلا از خود ہمارے ہاں تشریف لے آیا ہے۔ اب تک آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کتے کو کتا سمجھنا اور پکارنا ہماری روایات کے خلاف ہے۔ لہٰذا نئے مہمان کو وقت ضائع کیے بغیر اس کی دلربائی کے باوصف کینڈی کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔
اب صاحب جو کینڈی کی مداراتیں شروع ہوئی ہیں تو ان کی نہ کوئی حد نہ حساب۔ بازار سے تازہ تازہ، نرم نرم ڈبل روٹی خاص طور پر منگا کر دی جا رہی ہے۔ روٹی کو دودھ میں بھگو کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اپنی چائے قربان کر کے دودھ نذر کیا جا رہا ہے۔ مرغی پکا کر اس کی بون لیس بوٹیاں نچھاور کی جا رہی ہیں۔ ہمارے ہاں کتوں کی خاص خوراکیں دستیاب نہیں ورنہ ہمیں یقین ہے کہ گھر کے بجٹ میں موصوف کا حصہ حیطۂِ تحریر میں بھی آ جاتا۔ غرض میکس اور رونی کو در بدر کرنے کے باعث جو قلق اور احساسِ جرم ہمارے دل میں پیدا ہو گیا تھا وہ ہاتھ جوڑ کر رخصت ہو گیا۔
لیکن اس دوران میں رونی اور میکس کے چکر بھی گھر میں لگتے رہے۔ انھیں نکالا جاتا تو موقع پا کر پھر گھس آتے۔ کینڈی سے انھیں ایک تعلقِ خاطر پیدا ہو گیا تھا۔اس کے ساتھ کھیلتے کودتے۔ اسے بھاگنا دوڑنا سکھاتے۔ غرا کر اس پر جھپٹتے۔ ہمارا دل اچھل کر حلق میں آ جاتا۔ ادھر یہ معصوم اپنی بساط کے مطابق جوابی کارروائیاں کرتا۔ ہم انھیں مار بھگاتے۔ یہ ان کے پیچھے دوڑتا۔ ہم ان کو گھر نہ آنے دیتے۔ یہ ان کے ساتھ باہر نکل جاتا۔
پھر ایک دن ہم نے دیکھا کہ دونوں کینڈی کو چھت سے اتار کر لا رہے ہیں۔ میکس اور رونی اکثر سیڑھیاں چڑھ کر گھر کی چھت پر جا بیٹھتے تھے۔ خدا جانے کینڈی کیسے ان کے ساتھ چلا گیا ہو گا۔ مگر اب وہ اسے ایسی احتیاط سے نیچے لا رہے تھے کہ ہم حیرت زدہ رہ گئے۔ رونی الٹے قدموں سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ اس کے پیچھے کینڈی تھا اور سب سے اوپر میکس۔ میکس ٹہوکے دے دے کر سہمے ہوئے کینڈی کو نیچے کی جانب دھیرے دھیرے دھکیل رہا تھا۔ ادھر رونی چوکنا تھا کہ بالک کہیں لڑھک کے سیدھا ہی نیچے نہ جا رہے۔ سو وہ منہ سے اور اگلی ٹانگوں سے اسے سنبھالتا اور گرنے سے بچاتا آ رہا تھا۔ ہم کھڑے دیکھتے رہے اور کوئی دو چار منٹوں میں کینڈی بخیر و عافیت نیچے پہنچ کر معمول کی مصروفیات میں مشغول ہو گیا۔
ہمیں گمان ہوا کہ اگر ہم نے مناسب اقدامات نہ کیے تو جلد یہ دونوں بدمعاش کینڈی کو اپنی عاداتِ بد میں شریک کر لیں گے۔ آج پاؤ بھر کے پلے کو چھت پہ چڑھنا سکھا رہے ہیں، کل کلاں اس کے عنفوانِ شباب میں کیسے کیسے سبق نہ دیں گے؟ ہم کینڈی جیسے من بھاونے کتے کو کسی طور پر محلے والوں سے گالیاں پڑتی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ لہٰذا فیصلہ ہوا کہ رونی اور میکس کا گھر میں داخلہ سختی سے بند کر دیا جائے اور کینڈی کا نام بھی گھر کی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا جائے۔ نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری!
اب ایک نیا اعجازِ محبت سامنے آیا۔ ہم کینڈی کو روٹی ڈالتے ہیں تو موصوف منہ میں تھام کر خراماں خراماں دروازے کی جانب چل دیتے ہیں۔ لاکھ بلاتے ہیں، پچکارتے ہیں، دھمکاتے ہیں، نہیں رکتے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ گھر سے بے دخل کیے گئے دونوں پردہ نشینان باہر گھونگٹ نکال کر بیٹھتے ہیں۔ اور ہمارے لاڈلے کینڈی میاں ان کے ساتھ مل بیٹھ کر انسانوں کی طرح کھانے کے قائل ہیں۔ اب کیا کریں؟ ہمارا کتا ہمی کو بھاؤ؟ یعنی ہم جسے کھلانا چاہیں وہ نہ کھائے اور جس مردود کو لات کھلانی بھی گوارا نہ کریں وہ روٹیاں اور بوٹیاں کھائے؟
پنجابی کی ایک مثل ہے۔ گاں دا دل وچھے تے تے وچھے دا دل جھاڑی تے۔ یعنی گائے بچھڑے پر فریفتہ ہے اور بچھڑا جھاڑی پر۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہو گئی اور ہم کینڈی کی قوم پرستی سے عاجز آ گئے تو ناچار کچھ چھوٹ دے دی کہ تینوں کتے مل بیٹھ کر کھا لیا کریں۔ مگر حالات پھر سے بگڑنے لگے۔ دھماچوکڑی اور شوروغل عروج کو پہنچ گیا۔
ہم نے میکس اور رونی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ فرمایا اور کینڈی کے گلے میں ایک رسی ڈال کر اس کے باہر نکلنے کا ٹنٹا ہی نکال دیا۔ بیگم بھی تنگ آ چکی تھیں۔ انھوں نے بھی صحن میں ایک ڈنڈا رکھ دیا تاکہ دونوں کتوں پر بوقتِ ضرورت ضرب ہائے عضب وارد کی جا سکیں اور عام طور پر بھی رعب قائم رہے۔
اس انتظام و انصرام کا نتیجہ یہ ہوا کہ کینڈی نے کھانا پینا ترک کر دیا۔ ہم کسی غلط فہمی کا شکار تھے۔ یہ خیال کرتے رہے کہ شاید بیمار ہو گیا ہے۔ ایک دو دفعہ تو میکس اور رونی کو بھی کوسا کہ ضرور انھوں نے کوئی موذی جراثیم منتقل کیے ہوں گے۔ مگر یہ مرض کچھ اور تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم معاملہ سمجھتے، دو تین دنوں میں کینڈی مر گیا۔
دیکھا اس بیمارئَ دل نے آخر کام تمام کیا​
شام کا وقت تھا۔ کینڈی کی ننھی سی لاش سیڑھیوں کے نیچے پڑی ہوئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ صبح کے وقت جمعدار سے کہہ کر اسے اٹھوا دوں گا۔ بیگم ہانپتی کانپتی ہوئی آئیں اور بتایا کہ رونی گھر میں گھس آیا ہے۔ میں غضب ناک ہو کر اٹھا۔ رونی سیڑھیوں کے نیچے موجود تھا۔ میں نے جاتے ہی بے دریغ اسے چار پانچ ڈنڈے رسید کیے۔ وہ عموماً مجھے دیکھتے ہی پتلی گلی سے نکل لیا کرتا تھا مگر اس دن وہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ الٹا اس نے دانت نکوس کر میری طرف دیکھا اور غرایا۔ میں لرز کر رہ گیا۔ وہ میرے گھر میں پلا تھا۔ میں اس کا مالک تھا۔ اس نے کبھی مجھ پر غرانے کی جرات نہیں کی تھی۔ اسے کیا ہو گیا تھا؟ میرا دماغ سن ہو گیا اور ہاتھ کمزور پڑ گئے۔ میں نے ڈنڈا پھینک دیا اور اپنے کمرے میں چلا آیا۔
کچھ ہی دیر میں بیگم نے بتایا کہ رونی رو رہا ہے۔ مجھے یقین نہیں آیا۔ میں دوڑ کر سیڑھیوں کے پاس پہنچا۔ رونی کا سر کینڈی کی لاش پر ایسے دھرا ہوا تھا جیسے ہم کسی ہم جلیس کے زانو پر سر رکھ کر لیٹتے ہیں۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے چھلکی پڑتی تھیں۔ حلق سے ایسی آوازیں نکل رہی تھیں جن کے لیے رونے سے زیادہ مناسب لفظ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ ہم دونوں میاں بیوی وہیں بیٹھ رہے اور رونی کو دیکھتے رہے۔ وہ روتا رہا۔ کچھ دیر کی تعزیت کے بعد میرے لیے مزید اسے دیکھنا ممکن نہ رہا تو میں نے بیگم کا ہاتھ تھاما اور ہم دونوں وہاں سے اٹھ آئے۔
اگلی صبح کینڈی کی لاش جمعدار اٹھا لے گیا۔ رونی کو ہم نے پھر نہیں دیکھا۔
تین چار روز کے بعد محلے کے بچوں نے آ کر بتایا کہ ان کے گھروں میں بدبو آ رہی ہے۔ انھیں شبہ تھا کہ ہماری چھت پر کتوں نے کوئی شکار چھپا رکھا ہے۔ ہم نے بچوں کو بتایا کہ اب اس گھر میں کتے نہیں رہتے۔ ان کا اصرار دیکھ کر ہم نے اجازت دے دی کہ وہ چھت پر جا کر تسلی کر سکتے ہیں۔
بچے برے برے منہ بناتے ہوئے واپس آئے۔ بتایا کہ وہاں ایک کتا مرا پڑا ہے۔
وہ رونی تھا!
---
ماخذ: دل دریا
 

یاز

محفلین
زبردست جناب۔
شاندار تحریر ہے۔
کسی ناول یا افسانے میں ایک ڈائلاگ کچھ یوں تھا کہ جب اس دنیا سے وفا نام کی جنس تقریباً ختم ہو جائے گی، تو کتا وہ واحد مخلوق ہو گا جس میں ابھی بھی وفا باقی ہو گی۔
 
کسی ناول یا افسانے میں ایک ڈائلاگ کچھ یوں تھا کہ جب اس دنیا سے وفا نام کی جنس تقریباً ختم ہو جائے گی، تو کتا وہ واحد مخلوق ہو گا جس میں ابھی بھی وفا باقی ہو گی۔
یہ بات قرینِ قیاس ہے۔ یہ البتہ نہیں معلوم کہ وفا کس سے کرے گا۔ انسانوں سے یا اپنے ہم جنسوں سے؟
سر، کتوں کی کہانی آپ بیتی کیسے ہو سکتی ہے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب۔۔۔!

آپ کی تحریر اس قدر رواں اور پر لطف ہوتی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب ختم ہوگئی۔

ماشاءاللہ۔
 
تمام پیاروں کی جانب سے پزیرائی کا بے نہایت شکریہ!
آپ کی تحریر اس قدر رواں اور پر لطف ہوتی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب ختم ہوگئی۔
ختم ہونے کے بعد پتا چل جائے تو بھی مضائقہ نہیں! :bighug:
ماننا پڑے گا راحیل بھائی سخن ہی نہیں' نثر بھی کمال لکھتے ہیں
سعید بھائی، اس 'ماننا پڑے گا' سے آپ نے ہمارے دل میں احساسِ جرم پیدا کر دیا ہے۔ :battingeyelashes:
راحیل بھائی ہمیشہ کی طرح شاندار اور جاندار تحریر.
شکریہ، تابش بھائی۔ لیکن ہمیشہ والی بات آپ کا حسنِ ظن ہے۔ ہم نے ایک زمانے تک ایسی تحریریں بھی انشا فرمائی ہیں کہ یاد کرتے ہیں تو شرمندگی ہوتی ہے۔ :noxxx:
 
شکریہ، تابش بھائی۔ لیکن ہمیشہ والی بات آپ کا حسنِ ظن ہے۔ ہم نے ایک زمانے تک ایسی تحریریں بھی انشا فرمائی ہیں کہ یاد کرتے ہیں تو شرمندگی ہوتی ہے۔
میری ہمیشہ ان تحریروں تک محدود ہے جو میں نے پڑھی ہیں۔ :)
 
ایسی "محدود ہمیشہ" تو پہلی بار دیکھی ہے۔ :)
جی یہ ایسا ہی ہے، جیسے بچپن میں امی پڑوسی کے بچے کی شرافت کی تعریف کرتے نہیں تھکتی تھیں، کہ جب دیکھو شرافت سے بیٹھا ہوتا ہے، ماں کا کہنا مانتا ہے۔
اب اگر میں انہیں بتاتا کہ اس شریف کی شرافت صرف آپ کے سامنے ہے، تو انہوں نے تسلیم تھوڑی کرنا تھا۔ :)
 
جی یہ ایسا ہی ہے، جیسے بچپن میں امی پڑوسی کے بچے کی شرافت کی تعریف کرتے نہیں تھکتی تھیں، کہ جب دیکھو شرافت سے بیٹھا ہوتا ہے، ماں کا کہنا مانتا ہے۔
اب اگر میں انہیں بتاتا کہ اس شریف کی شرافت صرف آپ کے سامنے ہے، تو انہوں نے تسلیم تھوڑی کرنا تھا۔ :)
امیوں کو یہ یقین کبھی نہیں آتا کہ دوسروں کی امیاں بھی ان کے بچوں کی تعریفیں اسی طرح کرتی ہیں۔ :idontknow:
 

رانا

محفلین
بہت ہی عمدہ تحریر راحیل بھائی۔ آپ کی اکثر تحریریں ہی لاجواب ہوتی ہیں۔ اٹھان اتنی شگفتہ اور انجام ایسا افسردہ۔:(
 
امیوں کو یہ یقین کبھی نہیں آتا کہ دوسروں کی امیاں بھی ان کے بچوں کی تعریفیں اسی طرح کرتی ہیں۔ :idontknow:
اس سے یاد آیا کہ میرے ایک دوست کی امی مجھ سے کافی متأثر تھیں کیونکہ میں ان کے بیٹے کو صبح فجر کے لئے اٹھاتا تھا.
اب ان کو کیا معلوم تھا کہ میں صبح امی کی کتنی "تگ و دو" کے بعد اٹھتا تھا. ان کا بیٹا تو پھر متقی تھا کہ دوست کی کال پر اٹھ جاتا تھا.
 

جاسمن

لائبریرین
پسندیدہ۔ زبردست۔غم ناک۔
تحریر تو واقعی بہت جاندار ہے۔ بہت ہی پُر اثر۔بہت محسوس ہونے والی۔۔۔اور بہت ہی غمناک۔
غم چاہے جانور کا ہو،محسوس ہوتا ہے،دُکھی کرتا ہے۔
یہ تحریر بھی ہمیں افسردہ کرتی ہے۔تحریر میں کچھ کچھ منٹو والی لکھاری بے نیازی بھی ہے۔ جیسی سڑک کنارے میں تھی۔ لکھاری ایک کہانی بیان کر کے اور قاری کے لئے پڑھنے،سوچنے،غور کرنے اور اُداس ہونے کا سارا سامان کرکے خود ایک طرف ہو کے بیٹھ جاتا ہے۔
 
بہت خوب بھئی راحیل صاحب:thumbsup: اعلیٰ اور شاندار
تحریر پڑھتے ہوئے ہمیں پطرس بخاری بہت یاد آئے کہ وہ بھی کتوں کے بارے میں کچھ کہہ گئے ہیں۔
سر، کتوں کی کہانی آپ بیتی کیسے ہو سکتی ہے؟
کتا بیتی تو کہا جا سکتا ہے ویسے۔ :battingeyelashes:
 
بھئی راحیل بھائی کیا کہنے ،،، کیا کہنے ، ہم بار دیگر آپ کے گرویدہ ہوگئے۔
اگر رونی زدہ ہونے کا احساس نہ ہوتا تو اس تحریر پر آپ کے ہاتھ چوم لئے جاتے ۔۔
کمال کردیا صاحب ۔
محفل کے ادیبوں کی خفیہ فہرست میں آپ کا نام جلی حروف سے لکھا تھا ۔۔
اب اس تحریر کے بعد از سر نو پالش کرنا پڑے گا۔۔
بہت بہت داد قبول فرمائیں راحیل بھائی۔۔ مزہ آگیا
 
Top