امیر مینائی ظاہر میں ہم فریفتہ حُسنِ بُتاں کے ہیں - امیر مینائی

کاشفی

محفلین
غزل
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
ظاہر میں ہم فریفتہ حُسنِ بُتاں کے ہیں
پر کیا کہیں نگاہ میں جلوے کہاں کے ہیں؟

یارانِ رفتہ سے کبھی جاہی ملیں گے ہم
آخر تو پیچھے پیچھے اسی کارواں کے ہیں

ٹھکرا کے میرے سر کو وہ کہتے ہیں ناز سے
لو ایسے مفت سجدے مرے آستاں کے ہیں

شکوہ شبِ وصال میں تاچند؟ چُپ بھی ہو
اے دل، نکالے تو نے یہ جھگڑے کہاں کے ہیں؟

دنیا میں بھی سفر، ہمیں عقبیٰ میں بھی سفر،
ہم لوگ رہنے والے الہٰی ، کہاں کے ہیں؟

خنجر کو چُوس چُوس کے کہتے ہیں میرے زخم
ظالم مزے بھرے ہوئے تجھ میں کہاں کے ہیں؟

وہ، اور وعدہ وصل کا، قاصد، نہیں ، نہیں،
سچ سچ بتا، یہ لفظ انہی کی زباں کے ہیں؟

بلبل کو شوقِ گل تھا، نہ قمری کو عشق سرو
سارے یہ گل کھِلائے ہوئے باغباں کے ہیں

اُن ابروؤں سے، حضرتِ دل، روز سامنا
کہیے تو ایسے آپ بہادر کہا ں کے ہیں؟

اُس طفلِ تند خو سے جو ملتا ہوں میں امیر
کہتے ہیں لوگ ڈھنگ بُرے اِس جواں کے ہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ! امیر مینائی کی کیا خوبصورت غزل ہے۔ بہت شکریہ کاشفی صاحب۔ ایک شعر میں انہی کی بجائے انہیں لکھا گیا ہے اسے درست کر دیجیے گا۔
وہ، اور وعدہ وصل کا، قاصد، نہیں ، نہیں،
سچ سچ بتا، یہ لفظ اُنہیں کی زباں کے ہیں؟
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
وہ، اور وعدہ وصل کا قاصد نہیں نہیں
سچ،شچ بتا یہ لفظ انہی کی زبان کے ہیں؟

یہ شعر غالب کے اس شعر کی گو کہ تشریح ہیں____

تیرے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جاناں
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
 
Top