طوفان میں جزیرہ ملا ہے ، زمیں ملی

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
طوفان میں جزیرہ ملا ہے ، زمیں ملی
پانی کی قید سے تو رہائی نہیں ملی

ابر ِ رواں کے پیچھے چلے آئے ہم کہاں
بارش ہوئی تو مٹی کی خوشبو نہیں ملی

دوزخ سمجھ کے چھوڑی جو تپتی ہوئی زمین
چھالے پڑے تو پاؤں کو ٹھنڈک وہیں ملی

جھوٹی انا کا تخت ، زر ِ مصلحت کا تاج
جب کھو دیئے تو دولتِ صدق و یقیں ملی

تھکتی نہیں ہے سجدۂ فرعون ِ وقت سے
موسیٰ کے حامیوں کو یہ کیسی جبیں ملی

پردیس آکے مر گئی دریا دلی ظہیر
پانی کہیں کا تھا جسے مٹی کہیں ملی

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۰

ٹیگ: فاتح محمد تابش صدیقی کاشف اختر سید عاطف علی
 
بہت خوبصورت انداز سے درد بیان کیا ہے۔
ابر ِ رواں کے پیچھے چلے آئے ہم کہاں
بارش ہوئی تو مٹی کی خوشبو نہیں ملی


پردیس آکے مر گئی دریا دلی ظہیر
پانی کہیں کا تھا جسے مٹی کہیں ملی

دوزخ سمجھ کے چھوڑی جو تپتی ہوئی زمین
چھالے پڑے تو پاؤں کو ٹھنڈک وہیں ملی

لاجواب
تھکتی نہیں ہے سجدۂ فرعون ِ وقت سے
موسیٰ کے حامیوں کو یہ کیسی جبیں ملی
 
Top