طوسی کا طوطا

یوسف سلطان

محفلین
طوسی کا طوطا
تحرير کرنل محمد خان

مسٹر ایف اے طوسی ہمارے محلے کے سب سے سینئر مکین ہیں۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے بہت بڑے افسر تھے۔ اب ریٹائر ہو چکے ہیں مگر وہی دیرینہ اکڑ باقی ہے۔ دراصل آپ کا تعلق ایک ایسے محکمے سے تھا جس ميں اکڑ اور پھکّڑ کا ملکہ اہلیت کے خانے ميں درج کیا جاتا ہے۔ آج کل محلے کے دوسرے لوگوں سے نہ صرف جسمانی بلکہ زبانی فاصلے پر بھی رہتے ہیں۔ اگر کبھی زبان کا استعمال کرنا ہی پڑے تو بڑے سرپرستانہ لہجے میں بات کرتے ہیں جیسے کسی فرعون کو غریب پروری کا دورہ پڑا ہو، اور اگر سچ مچ جلال میں آجائیں تو پھر دو مذکورہ بالا خدا داد اہلیتوں کا کچھ اس انداز سے مظاہرہ کرتے ہیں جیسے سارے محلے کو "اندر" کر دیں گے شنید ہے کہ اپنے گھر میں نوکروں کے علاوہ بےچاری بیگم کو بھی مستقل طور پر اندر کیا ہوا ہے۔
میں ایک سکول میں ٹیچر ہوں۔ تعلیم کے لحاظ سے تو طوسی صاحب مجھ سے خاصے پیچھے ہیں لیکن عہدے میں میلوں آگے ہیں یا تھے۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میں بہت حلیم اور میٹھی طبعیت کا مالک ہوں لیکن میں فرعون بھی نہیں ہوں ہاں فرعونوں سے ٹکر لینے ميں مزا آتا ہے اور حتیٰ المقدور لے لیتا ہوں۔
محلے داری کی وجہ سے طوسی صاحب اور میں ایک دوسرے کو جانتے ضرور ہیں لیکن کبھی ان کے ساتھ خندہ پیشانی بلکہ سادہ پیشانی کے ساتھ بھی ہمکلامی کا اتفاق نہیں ہوا۔ مگر پچھلے دنوں کرنا خدا کا کیا ہوا کہ طوسی صاحب سے سچ مچ ٹکر ہو گئی۔ جسمانی نہیں قلمی! اور ٹکر کا باعث تھا ایک طوطا! یا یوں کہہ لیں طوسی کا طوطا۔
ایک پیلے رنگ کا باتونی سا طوطا جو خدا جانے کن حالات میں، ایک دن اپنے مالک کے گھر سے نکلا اور اُڑتا اُڑتا میرے ہاں مہمان آٹھرا۔ اس پر میں نے طوسی صاحب کو ایک خط لکھا۔

محترم طوسی صاحب اسلام وعلیکم

اس خط کا مدعا آپ سے ایک سوال پوچھنا ہے۔ کیا آپ کا کوئی طوطا گم ہوگیا ہے؟ سوال پوچھنے کی وجہ یہ ہے کہ آج دوپہر کو طوطے کی نسل کا ایک پرندہ میری خواب گاہ کی کھلی کھڑکی سے اچانک میرے گھرميں داخل ہوگیا، بلکل برضاورغبت۔ کیونکہ ہم لوگوں نے اسے کوئی دعوت دی تھی نہ ترغیب۔ اور اب وہ کمرے کی انگھيٹي پر اس بےتکلفی سے بیٹھا ہےجیسے یہ اسی کا گھر ہو، مسلسل باتیں کئے جا رہا ہے جو ابھی پورے طور پر ہمارے پلے نہیں پڑتیں۔
مجھے شک سا ہے کہ طوطا آپ کا ہے لیکن ظاہر ہےمحض شک کی بنا پر میں اسے آپ کے حوالے نہیں کر سکتا۔ سو اگر آپ نے واقعی کوئی طوطا کھویا ہےتو براہِ کرم اس کے حلیے سے آگاہ کریں میں ان شاءاللہ پوری احتیاط سے حلیے کاطوطے سے مقابلہ کروں گا، اگرحلیہ سو فیصد درست نکلا تو اپنی پہلی فرصت میں طوطا آپ کو لوٹا دوں گا۔ ہاں اگر طوطے نے اخلاقی وجوہ کی بنا پر واپس جانے میں مزاحمت کی تو اس صورت میں آپ کو طوطے کے جذبات اور اعتراضات سے آگاہ کر دوں گا۔

مخلص خادم حسین

طوسی صاحب نے فوراً جواب دیا۔

!ماسٹر خادم حسین
تمہارے احمقانہ خط کے جواب میں میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرا طوطا في الواقہ گم ہو گیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ خط لکھتے وقت تمھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ طوطا میرا ہی ہے۔ یہ بچہ تھا کہ میرے گھر میں آیا اور تین سال سے میرا ساتھی ہے۔ ان حالات میں شرافت کا تقاضا یہ تھا کہ تم اسے غیر مشروط طور پرمیرے حوالے کر دیتے اور معاملہ ختم ہو جاتا مگر معلوم ہوتا ہے تم ماسٹر لوگ اپنی اہمیت جتانے کا موقع ڈھونڈتے رہتے ہو۔ یہ گھٹیا حرکت ہے۔
اب تمہارے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ حامل ہزا کو فی الفور طوطا دے دو اور آئندہ مجھے خط لکھنے کی کوشیش نہ کرو۔
نوٹ۔ تم نے طوطے کا حلیہ پوچھا ہے۔ طوطے کا حلیہ کیا ہوتا ہے؟ بس طوطا ہے اور پیلے رنگ کا ہے

ایف۔اے۔طوسی

قارئین ملاحظہ فرمایا آپ نے مسٹر طوسی کا طرزِتخاطب اور ان کی جھنجھلاہٹ؟ اب میں ہزارخاکسار سہی لیکن عرض کیا ہے نا کہ فرعونوں سے ٹکر لینے میں مجھے مزا آتا ہے مگر کسی جھنجھلاہٹ کے بغیر سو عرض کیا۔

جناب طوسی صاحب اسلام وعلیکم

آپ کا نامہ ملا، جس کے ابتدائی الفاظ نے تو مجھے آپ کی شرافت اور شائستگی کا گرویدہ کر لیا ہے۔ اللہ آپ کو لمبی زندگی دے۔۔۔۔ لیکن اگر مجھے تبصرے کی اجازت دیں تو عرض کروں گا کہ ہرچند کہ آپ کی تیکنیک بے عیب ہے اور آپ کے سابقہ محکمے کی روایات کی آئینہ دار ہے تاہم میرے خط کے جواب کے طور پر آپ کا گرامی نامہ ذرا بے کار ہے۔ موضوع زیرِ بحث کے پیشِ نظر ضرورت اس بات کی تھی کہ شرافت پر لیکچر دینے کے بجائے (یا علاوہ) اپنے طوطے کا مفصل حلیہ بیان فرماتے۔ طوطے کا محض بیرونی رنگ بتا دینا کافی نہیں۔ فطرت نے یہ رنگ آپ کے طوطے کے علاوہ بے شمار دوسرے طوطوں کو بھی عطا کیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ اپنے طوطے کی عادات پر روشنی ڈالتے۔ اس کے کمالات کا ذکر کرتے اور اسکے پروں کے رنگ کے بجائے اس کی گفتار کا ڈھنگ بیان فرماتے۔

مخلص خادم حسین

اس خط سے طوسی صاحب ذرا زیادہ سیخ پا ہو گئے۔ جواب آیا۔

ماسٹر خادم حسین۔
خدا تمھیں غارت کرے تم جانتے ہو کہ طوطا بلا شبہ میرا ہے مگر تم نے خواہ مخواہ حلئيے کی رٹ لگا رکھی ہے۔ بتا تو دیا ہے کہ اس کا رنگ پیلا ہے ۔ کم گو ہے اور جیسا کہ اس نسل کے طوطوں کا دستور ہے، اپنے سر کو ایک طرف لٹکا کر رکھتا ہے۔ میں نہیں سمجھ سکتا اس سےزیادہ حلیہ کیا ہوتا ہے۔ بہر حال اب حلیہ بھول جاؤ اور طوطا فی الفور واپس کر دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں قانونی کاروائی پر مجبور ہو جاؤں گا۔ شاید تمھیں علم نہیں کہ کسی دوسرے کے مال پر قبضہ کرنے کتنا بڑا جرم ہے۔ یہ علم تو تمہیں جلد ہی ہوجائے گا۔۔۔۔ تم شاید بھول رہے ہو میرا نام طوسی ہے۔۔۔ نوابزادہ عالم طوسی

ایف۔اے۔طوسی

میرا جواب تھا

جناب طوسی صاحب اسلام وعلیکم
جنابِ والا کا الٹی میٹم ملا۔ وہ اپنی جگہ درست مگر مجھے مکرر عرض کرنے کی اجازت دیں کہ آپ کا بیان کردہ حلیہ ناکافی ہے۔ ناکافی ہی نہیں نا درست بھی ہے۔ کیونکہ یہ طوطا کسی عنوان سے کم گو نہیں کہلا سکتا ۔ بے حد بیسار گو ہے۔ اور جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں۔ فحش گو بھی ہے۔ جیسا کہ میں بار بار عرض کر چکا ہوں اگر آپ اپنے طوطے کے چند پسندیدہ الفاظ یا جملے بتا دیتے تو اس کی ملکیت کا تعین کرنے میں بے حد ممدثابت ہوتے۔ مجھے اس سے ہرگز انکار نہیں کہ یہ رنگ کا پیلا ہے وار سر لٹکا کر رکھتا ہے۔ لیکن اکثر پیلے طوطوں کا سر تھامنے کا یہی انداز ہے۔ شناخت کے لئےفیصلہ کن چیز طوطے کا نمونہ کلام ہی ہے اور کچھ نہیں۔
باقی رہی آپ کی عدالت میں جانے کی دھمکی تو میری کیا مجال کہ آپ کو اس دربار میں جانے سے روکوں۔ صرف ایک بات کا خیال رکھئیے گا کہ اگرعدالت نے طوطے کو بھی شہادت کے لئے طلب کر لیا تواس کی شہادت بند کمرے میں دلوایے گا ورنہ مجھے خوف ہے کہ اس کی فصاحتِ دشنام اس کے سکھانے والے کو فحاشی پھیلانے کے جرم میں پکڑوا سکتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ طوطے کے آموزگار آپ ہی ہیں اور شاید یہ عرض کردینا بھی مناسب ہوگا کہ آج کل فحاشی پھیلانے کی سزامیں کوڑے وغیرہ بھی شامل ہیں۔وَمَا عَلَینَا اِلّا البَلَاغ آپ نے اپنے نامہ گرامی کی ابتدا ایک دعائیہ جملے سے کی ہے اور خدا تعالیٰ کو مجھے غارت کرنے کی زحمت دی ہے۔ خدا کا شکر ہے آپ نے معاملہ اللہ تعالٰی پر چھوڑ دیا ہے جو عادل وقادرہے اورمحض کسی کی لگائی بجھائی پرغریبوں کوغارت نہیں کردیتا ورنہ زیادہ ممکن تو یہ تھا کہ یہ ڈیوٹی آپ کسی قابلِ اعتماد غنڈے کے ذمے لگا دیتے۔ اس صورت میں آپ خاصے مثبت نتائج کی توقع رکھ سکتے تھے۔
آخرمیں مجھے یہ علم تو تھا کہ آپ کا اسمِ گرامی طوسی ہےاور میں اسے بلکل نہیں بھولا تھا، البتہ یہ کہ حضورنوابزادہ بھی ہیں، میرے علم میں ایک ہیبت ناک اضافہ ہے۔ اللہ تعالٰی ناگہانہ بلاؤں سے محفوظ رکھے، آپ کو بھی اورمجھے بھی۔

مخلص خادم حسین

طوسی صاحب نے جواب میں لکھا

ماسٹر خادم حسین
تم میرے اندازے سے بھی زیادہ پاجی نکلے ہو۔ ایک معمولی سکول ماسٹر ہوتے ہوئے یہ گستاخی کہ میرے طوطے کو بدزبانی کا مجرم ٹھہرا رہے ہو۔ اگریہ ٹھیک ہے تو اس کی وجہ ظاہرہے کہ میرا طوطا کئی روز سے تمہاری صحبت میں رہ رہا ہے ورنہ جب تک یہ میرے گھر میں تھا، شیریں گفتاری کا نمونہ تھا جیسے اس کی زبان کوثروتسنیم میں دھلی ہو۔ آخر اس کی تمام ترتربیت یا خود میں نے کی ہے یا میری بیگم مے۔ دریں حالات یہ اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ میرا طوطا موجودہ صحبت سے بعجلت تمام الگ کر دیا جائے۔ چناچہ کل صبح تک تم نے طوطا واپس نہ کیا تو اگلی دفعہ تمہیں خط کے بجائے عدالت کے سمن ملیں گے۔
ایف۔اے۔طوسی

جناب طوسی صاحب اسلام و علیکم

بےشک ایک سکول ماسٹر کے مقابلے میں آپ ایک بہت بڑے (سابق) افسر ہیں لہذا آپ کا فرمودہ سرآنکھوں پر، لیکن ایک اختلاف کی اجازت چاہتا ہوں اس طوطے کی زبان اگر کسی پانی میں دھلی ہے تو یقیناً کوثروتسنیم نہیں ہوسکتے زیادہ ممکن یہ ہے اس نے آپ سے آنکھ بچا کر کسی گٹر میں چونچ تر کرلی ہو۔ رہا میری صحبت کا اثرتو قبلہ آپ اپنے ساٹھ سالہ تجربے سے یقیناً جانتے ہوں گے کہ بوڑھے طوطے(بلکہ انسان بھی) سیکھا نہیں کرتے۔ اگر یہ آپ ہی کا طوطا ہے تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اس نے اپنی تمام تر طالبِ علمی کا زمانہ آپ اور آپ کی بیگم محترمہ کے زیرِسایہ گزاراہے اورگھر سے مکمل فارغ التحصیل ہوکرنکلا ہے۔
رہی صحبت کی بات تو یقین جانیے اگرمیں چند دن اور اس طوطے کی صحبت میں رہا تو میں محکمہ پولیس کےعلاوہ کسی دوسری جگہ ملازمت کے قابل نہ رہوں گا۔ دوسرے لفظوں میں میرا موجودہ روزگار مجھ سے چھن جائے گا۔ ان حالات ميں اگر کل تک آپ اس طوطے کی ملکیت کا کوئی حتمی ثبوت بہم نہیں پہنچاتے تو میں اسے دارلامان کے حوالے کر دوں گا۔ وسلام

مخلص خادم حسین

جواب آیا۔

ماسٹر خادم حسین
مجھے ضرورت نہ تھی کہ تمہارے آخری بہودہ خط کا جواب دیتا کیونکہ میں یہ معاملہ اپنے وکیل کے سپرد کرچکا ہوں۔ میں تمہیں صرف ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔ تم ایک نہایت بدتمیز، بے ادب اورگستاخ آدمی ہو،آدمی کہاں ماسٹرہوچند ٹکے کے۔

ایف۔اے۔طوسی


قارئین، آپ شاید حیران ہونگے لیکن اگلی صبح میں نے طوطا طوسی صاحب کو واپس کردیا۔ کیا میں نے طوسی صاحب کے خوف سے ایسا کیا؟یا عدالت کے ڈر سے؟ آپ ذرا ذیل کا رقعہ پڑھیں جومیں نے طوطے کے ہاتھ طوسی صاحب کو بھیجا۔

جناب طوسی صاحب
آپکا طوطا ارسالِ خدمت ہے۔ وہ ثبوت جو آپ بہم نہ پہنچا سکے، خود طوطے نے بہم پہنچا دیا ہے۔ اب مجھے کامل یقیں ہے کہ یہ طوطا آپ ہی کی ملکیت ہے اوراگرکسی اور کا ہے تو اس کا نام بھی طوسی ہوگا۔ لیکن جہاں تک مجھےعلم ہے اس محترم کے مالک پورے شہر میں آپ ہی ہیں۔
ہوا یہ کہ ہم ناشتہ کر رہے تھے کہ حسبِ معمول طوطے نے ابتدائےکلام کی۔ اس سے پہلے وہ لفظ "تم" سے بات شروع کرتا تھا اورپھرایک نہایت مرصّع تھانیدارانہ گالی سے آغازِ سخن کرتا تھا اورہم چاروناچارمزید کلام کی تاب نہ لاتے ہوئے ناشتہ اُٹھا کر باہر صحن میں نکل جاتےتھے لیکن آج خلافِ معمول اس کے منہ یا چونچ سے پہلا لفظ جو نکلا، وہ آپ کا اسمِ گرامی تھا اچانک بولا۔ "طوسی" اور پھر جملہ مکمل کیا
"طوسی جائے۔۔۔۔۔۔ میں"
یہ خالی جگہ طوطے نے نہیں میں نے چھوڑی ہے۔ میری مجال نہیں کہ خالی جگہ کو اسی لفظ سے پر کردوں جسے طوطے نے بالتوتراوربالاصرار پر کیا ہے۔ یہ گرامر کی رو سے ایک طرح کا دعائیہ جملہ تھا۔ جسے آپ کے نقطہ نگاہ سے بدعائیہ بھی کہا جاسکتا ہے۔۔۔ جس سے طوطے کا مدعا یہ تھا خدائے بزرگ وبرترآپ کو یہاں سے اُٹھا کر وہاں لے جائے۔ "یہاں سے وہاں تک" سے اس کی مراد یہ نہ تھی کہ اس محلے سے اس محلے میں۔ بلکہ اس دنیا سے اگلی قیام دنیا میں مستقل طور پر منتقل کر دےاور کم بخت نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اُس دنیا کی دوممکنہ قیام گاہوں میں سے آپ کے لئے اس مقامِ نزول اجلال کی سفارش کی جونسبتاً زیادہ گرم ہے، بہت زیادہ گرم! جیسا کہ میں عرض کر چُکا ہوں آپ کے طوطے نے اس مقام کا ٹیکنیکل نام بھی لیا جو ترنم کا ہم قافیہ ہے مگر اس کا دہرانا میری زبان کو زیب نہیں دیتا۔ آپ یقیناَ اپنے طوطے کا منشا سمجھ گئے ہوں گے۔ اور اس مقام کے صحیح نام اور اس کی آب و ہوا کا بھی آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا۔ یقین مانیں کہ میں نے طوطے کے منہ سے جب پہلی بار یہ دُعا سني تو اسے جھڑکا کہ اپنے مالک اور محسن کے لئے کوئی دُعامانگنا ہی ہے توکسی معتدل جگہ کی دُعا مانگو مگر وہ ضدی پرندہ اپنے موقف پر سختی سے قائم رہا اور اپنی دعا میں ترمیم کرنے سے یکسر انکار کرتا رہا۔
میں حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ یہ طوطے نے میرے گھر میں نہیں سیکھی مجھے آپ سے ہزار اختلاف سہی مگر مجھے آپ کے انتقال میں کوئی فوری دلچسپی نہیں ۔ بہرحال مرنے کے بعد بہشت ودوزخ کا فیصلہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن میری دُعا ہمیشہ یہی رہے گی کہ آپ جہاں رہیں خوش رہیں۔ اب رہا یہ کہ یہ دعا یابدعا اسے کس نے سکھائی تو آپ کے بیان کے مطابق طوطے نے بچپن سے اب تک صرف دو استادوں کے سامنے زانوئے تلمز تہ کیا ہے۔ آپ کے سامنے اور آپ کی بیگم صاحبہ کے سامنے، میں بی جمالو نہیں بننا چاہتا مگر ظاہر ہے یہ آپ کا گھریلو معاملہ ہے۔ کوئی تیسرا شخص اس میں ملوث نہیں۔ سو اسے بہ خوش اسلوبی سے گھر میں ہی طے کر لیں۔ بظاہر بیگم صاحبہ کا بھی اتنا قصور نہیں جتنا آپ کو پہلے لمحے میں نظر آئے گا۔
بہر حال میں خوش ہوں کہ مجھے جس شخص کی تلاش تھی، وہ مل گیا ہے یعنی طوطے کا مالک اور وہ بلا شبہ آپ ہی ہیں
یہ طوطا بدزبان ضرور ہے۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کا خانہ زاد ہے۔ سو، اس کی بازیابی پر میری طرف سے دلی مبارک باد قبول فرمائیں۔ وسّلام
میں طوسی صاحب سے آج تک شکریے کےدو الفاظ کا منتظر ہوں۔ خدا جانے وہ مجھ سے بولنا نہیں چاہتے یا شاید اس دوران طوطے کی دُعا قبول ہو چکی ہے۔ دوسری صورت میں اللہ تعالیٰ انہیں مغفرت کرے اگرچہ طوطے نے ہماری سن لی تو سخت برہم ہوگا۔
 
آخری تدوین:
ہاہاہاہاہاہا۔
مزا آ گیا۔
اس طرز تخاطب والے فرعون نما ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنے عہدوں اور کبهی کبهار ذات و نسل کا بہت گهمنڈ ہوتاہے۔

بہرحال طوطے نے کہا تها ' طوسی جائے جہنم میں' ۔۔ ہم کہتے ہیں بهاڑ میں جائے۔
 

یوسف سلطان

محفلین
اس طرز تخاطب والے فرعون نما ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنے عہدوں اور کبهی کبهار ذات و نسل کا بہت گهمنڈ ہوتاہے۔
متفق --
بہت زبردست تحریر ہے مزا آگیا :applause::applause:
ہاہاہاہاہاہا۔
مزا آ گیا۔
بہت عمدہ اور مزےدار تحریر۔۔ مزا آگیا۔۔۔:):)
بلاشبہ ،جب میں نے بھی یہ تحریر پڑھی تھی تو بہت لطف آیا ،گو کہ اس میں مشکل الفاظ بھی کثیرہیں مگراس کی روانی ایسی کمال ہے کہ قاری ایک دفعہ پڑھنا شروع کرے توحتم کر کے دم لیتا ہے-
اور شکریہ آپ احباب کا پسندیدگی کے لئے
 
Top