مجاز طفلی کے خواب

حسان خان

لائبریرین
طفلی میں آرزو تھی کسی دل میں ہم بھی ہوں
اک روز سوز و ساز کی محفل میں ہم بھی ہوں
دل ہو اسیر گیسوئے عنبر سرشت میں
الجھے انہیں حسین سلاسل میں ہم بھی ہوں
چھیڑا ہے ساز حضرتِ سعدی نے جس جگہ
اُس بوستاں کے شوخ عنادل میں ہم بھی ہوں
گائیں ترانے دوشِ ثریا پہ رکھ کے سر
تاروں سے چھیڑ ہو مہِ کامل میں ہم بھی ہوں
آزاد ہو کے کشمکشِ علم سے کبھی
آشفتگانِ عشق کی منزل میں ہم بھی ہوں
دیوانہ وار ہم بھی پھریں کوہ و دشت میں
دلدادگانِ شعلۂ محمل میں ہم بھی ہوں!
دل کو ہو شاہزادئ مقصد کی دھن لگی
حیراں سراغِ جادۂ منزل میں ہم بھی ہوں
صحرا ہو، خارزار ہو، وادی ہو، آگ ہو
اک دن انہیں مہیب منازل میں ہم بھی ہوں
دریائے حشر خیز کی موجوں کو چیر کر
کشتی سمیت دامنِ ساحل میں ہم بھی ہوں
اک لشکرِ عظیم ہو مصروفِ کارزار
لشکر کے پیش پیش مقابل میں ہم بھی ہوں
چمکے ہمارے ہاتھ میں بھی تیغِ آب دار
ہنگامِ جنگ نرغۂ باطل میں ہم بھی ہوں
قدموں پہ جن کے تاج ہیں اقلیمِ دہر کے
اُن چند کشتگانِ غمِ دل میں ہم بھی ہوں
(اسرار الحق مجاز)
 

طارق شاہ

محفلین
سبحان اللہ
کیا کہنے مجاز صاحب کے !

اور کیا ہی خوب انتخاب ہے صاحب آپ کا
بار بار پڑھا اِسے ، اور ہربار لطف دوبالا رہا،
ساتھ ہی اک افسوس کا احساس بھی دامن گیر رہا،
بلکہ کافی دیر تک محیط یا طاری رہا، کہ اُسکا یہ خواب
شرمندہٴ تعبیر ہوتا تو کیا ہو جاتا !

جو لوگ مجاز کی مختصرزندگی سے بذریعہ کتب یا بوجہ مطالع واقف ہیں
انھیں مجاز کی یہ حسرتیں صحیح طور سے سمجھ آئینگی

اس انتخاب پر ، بہت سی داد ایک بار پھر سے !
تشکّر
بہت شاداں و فرحاں رہیں
 
Top