جگر طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے

طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
میرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے

قیامت کیا یہ، اے حُسنِ دو عالم! ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دلکشی کم ہوتی جاتی ہے

وہی میخانہ و صہبا، وہی ساغر، وہی شیشہ
مگر آوازِ نوشا نوش مدھم ہوتی جاتی ہے۔

وہی ہے شاہد و ساقی مگر دل بُجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے

وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ! یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے

جگرؔ مراد آبادی
 
Top