نظر لکھنوی ضیائے بزمِ شہود ساری تمام بزمِ عدم کے جلوے

دادا مرحوم کی ایک اورنعت بحضور سرورِ کونینؐ
ضیائے بزمِ شہود ساری تمام بزمِ عدم کے جلوے
نگاہِ عرفاں سے دیکھئے تو ہیں میرے آقا کے دم کے جلوے

مرے تصور میں آ گئے ہیں عرب کے جلوے عجم کے جلوے
تو مجھ کو لگتا ہے سب کے سب ہیں انھیں کے حسنِ شیم کے جلوے

نگاہ و دل میں سما گئے ہیں انھیں کے جاہ و حشم کے جلوے
جچیں نگاہوں میں میری کیسے سریر کے بزمِ جم کے جلوے

انھیں کی آمد کے بعد نکھرے خدا کے جلوے قسم خدا کی
حدودِ کعبہ میں ورنہ پہلے بکھر رہے تھے صنم کے جلوے

بفرشِ خاکی بعرشِ اعظم، بہ صحنِ اقصیٰ، بہ شاخِ سدرہ
کہاں نہیں ہیں بفضلِ ربی ہمارے شاہِ امم کے جلوے

تمھارے روضے کی جالیوں پر ہجومِ انوار اﷲ اﷲ
سمٹ کے جیسے کہ مرتکز ہیں یہیں پہ لوح و قلم کے جلوے

جمالِ پیکر، وہ خُلقِ اطہر ہے دینِ کامل کتابِ آخر
اس ایک ہستی میں جمع ہیں سب خدا کے فضل و کرم کے جلوے

کہاں ملیں دیکھنے کو ایسے اگر چہ دنیا یہ چھان ماریں
بخاکِ طیبہ، بخاکِ ام القریٰ ہیں جس کیف و کم کے جلوے

کسی کی یاری، کسی کی سطوت، حیا کسی کی، کسی کا تقویٰ
اسی کی شانِ عطا کے مظہر اسی کے حسنِ کرم کے جلوے

سوئے مدینہ رواں دواں ہیں ہجومِ حجاج دیکھ ہمدم
دلوں میں صد اشتیاق لے کر نظرؔ میں لے کر حرم کے جلوے

محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی​
 
آخری تدوین:
Top